علاقہ کواردو کی ترقی و تربیت میں علامہ شیخ محمد جو کبیر کا کردار (۲)
ایسے لوگ آپ کی جرأت و استقامت کے سامنے جب ٹھر نہ سکے تو کسی سادہ لوح انسان کے ذریعے آپ پر حمید گڑھ میں مقدمہ درج کروایا، یوں ایک عالم باعمل، عالم متعہد، عالم مبارز، ابراہیم زماں اور موسٰی مزاج شخصیت کو وقت کے نمرودوں و فرعونوں کے سامنے پیش ہونا پڑا اور اس کیس کی وجہ سے حکومت وقت اور اس وقت کی عدلیہ نے آپکو آئندہ کسی قسم کی شرعی فیصلہ جات سے نہ صرف ہمیشہ کے لیے روکا بلکہ خلاف ورزی پر بھاری جرمانے کا فیصلہ سنا دیا، یوں ایک عظیم و بے باک مجاہدانہ کردار کے حامل شخصیت کو آئندہ کے لیے عملی میدان میں فقط مجلس، دعا اور تعویذات تک محدود کردیا۔
آج بھی معاشرے میں ببانگ دھل حق بات کرنے اور بے باک دینی تبلیغ کرنے والوں کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ آخر میں قانون اور پولیس گردی کا خوف دلایا جاتا ہے۔اس حوالے سے مظلوم ترین شخصیت قبلہ شیخ غلام حسین نجفی رح کی ذات گرامی ہے۔آپ کے خلاف مخالفین نے اس زمانے میں عراق میں آیت اللہ ابوالحسن کے پاس شکایتی خطوط لکھے جس پر مال امام کی اجازت نامہ منسوخ کیا اور اتنے پروپگنڈے ہوۓ کہ کوٸی بھی مالی تعاون پہ آمادہ نہ ہوۓ یوں آپ انتہاٸی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوۓ تو بعد میں مرحوم ژھرمہ بوا اور دیگر علماۓ کرام نے آیت اللہ اصفہانی کو حقیقت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے گریہ کرتے ہوۓ استغفار کیا اور دوبارہ اجازت نامہ ارسال کیا۔?
بعض لوگوں کی وجہ سے اپو بواشیخ کی بھی کچھ ایسی حالت ہوٸی کہ آپ کو معاشی طور پر کمزور تو نہیں کیا جاسکا مگر عدالت میں پیشی کے ذریعے آپ کی جرأت و بہادری و حق گوٸی کو محدود کرنے کی بھر پور کوشش کی گٸی۔
اس معاشرے میں جب سے میں نے ہوش و حواس سنھبالا تو یہی دیکھا کہ یہ عظیم شخصیت اپنے آخری وقت میں رونے والے بچوں کو چپ کرانے اور سرکش گائے کو رام ہونے کی تعویذ دیا کرتے تھے۔اس وقت کے حکومت کی اس جابرانہ، یک طرفہ اور ظالمانہ فیصلے کے باوجود آپ اپنی مجالس میں پھر بھی ہمیشہ حق کی وضاحت، سچائی کا پرچار، کمزوروں کی حمایت، اور ظلم و ظالم کی مخالفت کرتے رہے۔ آپ نے اپنے دونوں بیٹوں کو بھی زیور علم سے آراستہ کیا جنہیں زمانہ، شیخ علی فاضلی اور شیخ حسن فخرالدین کے نام سے جانتے ہیں{المعروف ژھرمہ بوے نونونگ}۔ اس زمانے میں جب ژھرمہ بوا اپنے دونوں فرزندوں کو لے کر قمراہ ، شیگر ، سرفہ رنگاہ اور دیگر علاقوں میں جاتے تھے تو لوگ والہانہ انداز میں زیارت کے لیے آتے تھے بعض والدین اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ جن کے دو بیٹے ہو وہ ان کے دونوں فرزندوں کی طرح عالم دین بنانے کی نیت کرتے ہوۓ آپ کے سپرد کیا کرتے تھے۔اس کی ایک واضح مثال آپ کے شاگرد خاص جو شہر لاہور میں تبلیغ دین میں مصروف عمل ہے حجت الاسلام والمسلیمن قبلہ شیخ فرمان علی نجفی اور انکے بھاٸی مرحوم شیخ غلام محمد کی ذات ہے۔{خدا غریق رحمت کرے}
شیخ محمد جو کبیر کے دونوں فرزندوں کا شمار علم و عمل کے انتہائی قد آور شخصیات میں ہوتے ہیں۔ شیخ علی فاضلی مرحوم بلند مرتبہ عالم دین و مدرس اور بے لوث مبلغ تھے۔ آپ نے آخری وقت میں اپنی تبلیغ کا مرکز سندھ کو قرار دیا جہاں لاڑکانہ میں عظیم دینی درسگاہ و مسجد وامام بارگاہ آپکی بے لوث و انتھک جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دوسرے فرزند قبلہ شیخ حسن فخرالدین صاحب عظیم مبلغ، محقق، مناظر، اور مصنّف ہیں۔خدا آپکی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ان شخصیات کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا ان شاء اللہ ۔
تبلیغ دین کے جس مشن کو حجت الاسلام والمسلمین قبلہ شیخ محمد جو کبیر نے شروع کیا تھا انہیں دیکھ کر سینکڑوں علما ٕ کرام سمیت آپکے پوتے جناب شیخ مرزا فاضلی اور شیخ ذاکر فخرالدین بھی اسی راہ حق کے راہی و مبلغ ہیں خدا انکو سلامتی کے ساتھ باپ و دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معاشرے میں دین کی بے لوث خدمت جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔
علاقہ کواردو میں حجت السلام قبلہ شیخ محمد جو مرحوم اور حجت السلام قبلہ شیخ غلام حسین نجفی اور دوسرے علماء کرام کے بکھرے ہوئے خوابوں کو مجسم ہونے میں تقریبا نصف صدی کا عرصہ لگا اس علاقے میں ان بزرگ علماء کرام کے بکھرے خواب جب مجسم ہو کر نکھر گیا تو ”جامعہ طوسی“ جیسا پاکستان کی سطح پر مشہور قومی ادارہ وجود میں آیا جو چند مخلص اور بے لوث کارکنوں کی جہد مسلسل کے نتیجے میں آج حجت الاسلام قبلہ شیخ اکبر علی مخلصی کی مخلصانہ سرپرستی اپوچو سید علی طوسی کی نظر کرم، شیخ محمد جو کبیر المعروف اپو بواشیخ اور شیخ غلام حسین نجفی ، بزرگ عالم دین شیخ اسماعیل نجفی اور دیگر علماء کرام کی تربیت یافتہ روسا ء و بزرگان اور دین دار عوام کی جذبہ دینی و ایمانی تعاون سے دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ اور قدیم تاریخ کو ایک بار پھر دھراتے ہوئے پورے بلتستان سے تشنگان علوم دینی و دنیوی آج پھر ارض کواردو کی طرف رواں دواں ہیں۔
آج جامعہ طوسی بلتستان دینی و دنیوی تعلیم اور تربیت کو ایک چھت کے نیچے ڈھونڈنے والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ اور موزوں ترین انتخاب اور عظیم شاہکار ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اپوچو سید علی طوسی سے شیخ غلام حسین نجفی تک ، مرحوم اپو بواشیخ سے لے مرحوم شیخ علی فاضلی تک قبلہ شیخ اسماعیل نجفی سے لے کر قبلہ شیخ اکبر مخلصی تک اور دیگر بزرگ علماء کرام و روسا ٕ کرام کا یہ خواب عمل کی سانچوں میں ڈھل کر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی تعلیمات اہلبیت سے مزین کرتی رہے اور یہاں سے روشن ہونے والے حسینی چراغ، دینی چراغ، مذہبی چراغ، فکری و نظریاتی چراغ، حق گوئی کے چراغ علاقہ کواردو کے گھر گھر سے ہوتا ہوا بلتستان کے گلی گلی، کوچہ کوچہ، قریہ قریہ تک پہنچ جائے اور ان حسینی و دینی چراغوں سے ان کے اپنے نفوس، افکار، کردار،گھر، خاندان ، محلہ اور گاؤں سب روشن ہوجائیں۔اگرچہ جن مشکلات کا سامنا قبلہ شیخ غلام حسین نجفی ، شیخ محمد جو کبیر و دیگر بزرگ علماۓ کرام نے کیا آج اس دور میں بھی جامعہ طوسی بلتستان اور قبلہ شیخ اکبر علی مخلصی کو بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہیں مگر کواردو کے غیّور ، باشعور متدین اور تربیت یافتہ لوگ اس قومی مرکز اور کواردو کے ماتھے کے جھومر کے ساتھ بھر پور تعاون جاری رکھینگے ۔ ان شاء اللہ
پس شیخ محمد جو کبیر ایک عظیم عالم با عمل، مبارز، مبلغ، مصلح، اور قاضی ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب کرامت شخصیت کے مالک تھے{ان کی کرامات پر پھر کبھی لکھونگا}۔
آپ کا آستانہ کواردو سید آباد زگنگ میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔
بقول کسی شاعر کے:
ستارے نور دے کر رات سے تو کچھ نہیں لیتے
شب تاریک کو کر کے منور ڈوب جاتے ہیں۔
دیدگاهتان را بنویسید