تازہ ترین

علامہ اقبال اور نوید انقلاب؛ تحریر: ایس ایم شاہ

…ایک بہت ہی سادہ زیست، متواضع، معرفت الٰہی سے سرشار، مقام شہود پر فائز اور اپنے درس و بحث میں منہمک رہنے والے کے بارے میں کون سوچ سکتا تھا کہ وہ اتنا بڑا عالمگیر انقلاب بپا کر پائے گا، پہلے تو سید المرسلین کی سیرت پر چلتے ہوئے اپنے کو صادق و امین کا مصداق بنانے میں مگن رہے، علمی منازل طے کرکے آسمان فقاہت تک رسائی حاصل کی، پھر آہستہ آہستہ اپنے درس و بحث میں استعماری طاقتوں کے خلاف آواز  اٹھانا شروع کیا، ساتھ ہی اقبال کے بقول لوگوں کے ذہنوں میں اس حقیقت کو ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ

 جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

شئیر
22 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1318

 

 ابھی لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ عالمی استکبار کے خلاف کھڑے ہوکر ان سے مبارزہ طلبی بھی کریں گے، آپ حاکم وقت کو ہر مرحلے پر اس کے مظالم پر اسے ٹوکتے رہے، جب وہ باز نہ آیا، تب آپ نے دھمکی دینا بھی شروع کر دی۔ وقت گزرتا گیا، ایک دفعہ ظالم حکمران نے آپ سے مضحکہ خیز انداز میں سوال کیا، آپ میرے مدمقابل آنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، آپ کی وہ فوج کہاں ہے، جو میری طاقتور فوج سے مقابلہ کرسکے۔ آپ نے دوٹوک الفاظ میں بلاتامل جواب دیا کہ میری فوج میں سے بعض اس وقت ماں کے پیٹ میں ہیں اور بعض ماں کے گود میں دودھ پی رہے ہیں، اس نے اہانت آمیز لہجہ میں ایک قہقہہ لگاکر اسے ٹھکرا دیا۔

 …نئی نسل ابھرنے لگی، بیداری کی لہر دوڑنے لگی، تب حاکم وقت نے کچھ لچک کا مظاہرہ کرنے کی ٹھان لی، بتایا گیا کہ آپ اپنا حوزہ چلاتے رہیئے، جتنا خرچہ ہو اسے ہم فراہم کریں گے، یوں دین کا ٹھیکہ آپ لیجئے، دنیا ہمارے حصے میں رہنے دیجئے، یوں آپ کا حوزہ بھی محفوظ اور ہماری حکومت بھی سالم رہے گی۔ وہ دین و سیاست میں جدائی ڈال کر صرف چنگیزی کو باقی رکھنا چاہتا تھا، جس کیلئے شاعر مشرق نے

“جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے جنگیزی”

کی تعبیر استعمال کی ہے، اس وقت اس ہستی نے بے خوف خطر نفی میں سر ہلایا، آپ نے دوبارہ حاکم وقت کو امریکہ اور مغربی دنیا کی غلامی سے ہاتھ کھینچ لینے کا حکم دیا، اس نے پھر لیت و لعل سے کام لیا، فحاشی میں دن بہ دن اضافہ ہونے لگا، اسلامی اقدار کی پامالی کا سلسلہ روز بہ روز بڑھتا گیا، وقت گزرنے کیساتھ ساتھ لوگ غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے چلے گئے، تیل اور گیس کو ملت کے مفاد میں استعمال کرنے کی بجائے اپنی ذاتی جاگیر بنا لیا گیا، شراب و کباب کی محفلوں میں مزید تیزی آتی چلی گئی، حکمران اپنی شہنشائیت کی 2500ویں سالگرہ بھی منا چکے، اب زہرا کے لال کو جلال آیا، وہ منجی ظاہر ہوگئے، جس کی خبر دسیوں سال پہلے علامہ اقبال دے گئے تھے:

مردی کہ آمد بہ زنجیر غلاماں بشکند

کے مصداق بارز نے میدان عمل میں اعلانیہ قدم رکھا، لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ دشمن کا مقابلہ  ظاہری اسلحے اور زرق و برق سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے اقبال کے بقول

یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

درکار ہیں۔

 …دن بہ دن آپ کے فدائیوں میں اضافہ ہوتا گیا، اب حاکم وقت نے آپ کو اپنے لئے حقیقی خطرہ محسوس اور آپ کو ملک بدر کر دیا گیا، اسے کہاں معلوم تھا کہ آپ کی حکومت لوگوں کے جسموں پر نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ہے۔ جب لوگوں کو اس خلوص کے پیکر کے فقدان کا احساس ہوا، تب وہ برابر سڑکوں پر آتے چلے گئے، آخر کار ایک مرحلہ ایسا آیا کہ دلوں کے حاکم نے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر سے حکم صادر کر دیا کہ”آج کے دن تمام ایرانیوں کیلئے گھروں سے باہر نکلنا واجب ہے۔” آپ کی اس بات میں ایسی تاثیر تھی کہ یکایک ہوا کی مانند پورے ملک میں یہ خبر پھیل گئی، فوجی کمانڈر اپنی وردیاں اتار پھینک کر لوگوں کے ساتھ ہولئے، مائیں اپنے بچوں کو گود میں لئے، بیٹے اپنے والدین کو سہارا دیئے میدان عمل میں اتر آئے، ایوان اقتدار پر قابض ظالم حکمران نے قتل و خون کا بازار گرم کرنے کا حکم دیا، بہت ساروں کو شہید بھی کیا گیا، اب وہ کتنوں کو مارتے، سارے در و دیوار سے شہنشاہیت کے خلاف صدائیں اٹھنے لگیں۔ “شاہ باید برود”، ادھر یکم فروری 1979ء کو  پیرس سے نڈر اور لوگوں کے دلوں کا حاکم جہاز میں سوار ہوا، جہاز کے اندر ڈاکٹروں نے ان کے دل کی دھڑکن کو چیک کیا تو اسے بالکل نارمل دیکھ کر ان کے تعجب کی انتہا نہ رہی، تہران ائیرپورٹ پر پہنچتے ہی انقلابیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجوں کی صورت میں ائیرپورٹ پر موجود تھا۔

 …آپ نے تہران پہنچتے ہی گلزار شہداء میں ایک ایسی جوشیلی تقریر کی، جس نے لوگوں کے دلوں میں ایک نئی روح  پھونکی، ادھر ظالم بادشاہ اپنے لئے پناہ گاہ ڈھونڈنے لگا، اتنے میں اخباروں کی سرخیاں سامنے آگئیں”خمینی آمد” پوری دنیا میں دھوم مچ گئی، ابھی دس دن سے زیادہ مدت نہیں گزرنے پائی تھی کہ اخباروں کی سرخیاں ایک بار پھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں، تمام اخباروں کے ہیڈ لائن پر یہی لکھا تھا “شاہ رفت” یوں 11 فروری 1979ء ایک عالمی انقلاب کی بنیاد پڑنے کا دن ثابت ہوا، امریکہ سمیت اس کے تمام اتحادیوں کے ایوانوں میں صف ماتم بچھ گئی، مسلمانان عالم خوشیوں سے جھومنے لگے، کیونکہ آپ ہی کا نعرہ تو تھا “لاشرقیہ ولا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ” ہم امریکہ کو پیروں کے نیچے روندھ ڈالیں گے، سب سے بڑا شیطان امریکہ ہے، اسرائیل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی نابودی تک جنگ جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا، ساتھ ہی اس ناسور کے خاتمے کے حوالے سے مسلمانوں کو اپنی احساس ذمہ داری دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر ہر مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی گرا دت تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا، آپ نے انقلاب کے آتے ہی ان تمام ظالموں کے خلاف برسرپیکار رہنے کا اعلان کیا، تمام مستضفین جہاں کی حمایت کا برملا اظہار کیا، فلسطینی مسلمانوں کے لئے باقاعدہ ملکی بجٹ میں حصہ معین کیا۔

 

…حزب اللہ کی تشکیل کے ذریعے بیت المقدس پر ناجائز قابض اسرائیل کی نیندیں حرام کر دیں، ولایت فقیہ کے زیر سایہ حکومت اسلامی کی مضبوط بنیاد رکھی، سرزمین ایران سے دسیوں ہزار امریکی مستشاروں اور جاسوسوں کو نکال باہر کیا، دشمنوں سے نمٹنے کے لئے سپاہ پاسداران اور بسیج تشکیل دی، جن کی کارکردگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس وقت سے اکثر جنگی اسلحے اور جہاز ملک کے اندر ہی بنتے ہیں، “سربازی” کے عنوان سے ہر نوجوان کے لئے ملکی اداروں میں ملازمت اختیار کرنے اور دوسری شہری سہولیات کے حصول کیلئے دو سال فوجی جنگی ٹریننگ لینے سے مشروط قرار دیا گیا، اسی وجہ سے آج ایران کا ہر باسی غیر مسلح فوجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انقلاب اسلامی کے ابتدائی دنوں میں ہی تمام سپر طاقتوں نے ایک ہوکر صدام کو نیابتی جنگ کے لئے معین کیا، یوں آٹھ سال تک ایران عراق کی جنگ جاری رہی، آخرکار شکست پھر دشمن کے حصے میں آئی، مغربی نصاب اور مغربی فکر کو ختم کرنے کے لئے آپ نے چند ماہ تک کے لئے تمام سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند رکھنے کا حکم دیکر ان کے لئے فوری نیا نصاب تعلیم بنانے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی اسی فکر کے نتیجے میں ایران کا لیٹریسی ریٹ 85٪ سے بھی زیادہ ہے، ایران دنیا میں انجینئرنگ کے شعبے میں تیسرے نمبر پر ہے، ان کے پاس تین لاکھ تئیس ہزار سے زائد انجینیئر موجود ہیں، جدید ترین میزائل یہاں بنائے جاتے ہیں، یہ ملک کسی کا مقروض نہیں، باقی شعبوں میں بھی کسی سے کم نہیں، انقلاب اسلامی پوری دنیا سے اپنا لوہا منوانے میں کامیاب قرار پایا۔

 …اب یہ انقلابی کاروان رہبر کبیر سید علی خامنہ ای کے زیر سایہ اپنے اہداف کی طرف تیزی سے گامزن ہے، چند دہائیوں میں استعماری طاقتوں کے لئے جتنی مشکلات انقلاب اسلامی نے کھڑی کی ہیں، دنیا کی کوئی اور طاقت آج تک ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ آج ہر نماز کے بعد امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد کی صدائیں ہر روز گھونجتی رہتی ہیں، نماز جمعے کے لئے سجنے والے ہر اسٹیج پر یہ تحریر ثبت ہوتی ہے “مرگ بر امریکہ، ہم امریکہ کو پیروں تلے روندھ ڈالیں گے۔” رہبر انقلاب نے مکمل یقین کے ساتھ پیشین گوئی کی ہے کہ اسرائیل مزید 25 تک باقی نہیں رہ سکتا، یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے، کیونکہ اسرائیل کے قلب پر اس وقت شام میں مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر سپاہ پاسداران کے جوان کھڑے اسرائیل کو نابود کرنے کے لئے اپنے آقا کے حکم کے ہمہ وقت منتظر ہیں۔ استعماری طاقتوں نے اس انقلابی شعار کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن ہر مرحلے میں انھیں شکست سے ہی دوچار ہونا پڑا۔

 …صدر بش کے دور میں ان کے بقول ہم نے حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ ایران پر جنگ مسلط کرنی ہے، لیکن جب ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ پر ہماری نظر پڑی تب ہم اس فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے، ان کے خلاف پابندیاں لگائی گئیں، ایرانیوں نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے داخلی پیداوار کو اتنا بڑھا دیا کہ آج جمہوری اسلامی ہر میدان میں خود کفالت کو چھو رہا ہے، ایٹمی اسلحے کا بہانہ بنا کر ان کو دبانے کی کوشش کی گئی، لیکن غیبی امداد، ان لوگوں کے بلند حوصلوں اور رہبر کبیر انقلاب کی دور اندیشی  نے پانچ سپر طاقتوں کو  ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ایران کو دبانے کی خاطر 2003ء میں عراق پر حملہ کیا گیا، تاکہ نزدیک سے ان کو نشانہ بنایا جاسکے، لیکن خوش قسمتی سے عراقی عوام نے مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یوں ایک بہترین اسلامی حکومت تشکیل پائی، پھر داعش کو ان پر مسلط کیا گیا، مرجعیت کے ایک فتویٰ نے دشمنوں کو حواس باختہ کر دیا، ساتھ ہی لوگوں میں ایسی بیداری کی لہر دوڑی کہ لاکھوں کی تعداد میں رضاکار فوج تیار ہوگئی۔

 …سپاہ پاسداران کے نڈر جوانوں نے ان کی بھرپور جنگی تربیت اور رہنمائی کی۔ اب داعش عراقی عوام  کے ہاتھوں آخری ہچکیاں لے رہی ہے، پھر پراکسی وار کے طور پر اسرائیل کے “نیل تا فرات” کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے 80 سے زائد ممالک نے متحد ہوکر شام پر داعش کے ذریعے چڑھائی کی، سپاہ پاسداران انقلاب کے دلیر فوجیوں اور حزب اللہ کے ایمان سے لبریز جوانوں نے بروقت اقدام کرکے “دولت الاسلامیہ فی العراق و الشام” کا خواب دیکھنے والوں کو جہنم واصل کرکے ان کے سرپرستوں کو  گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، اب حلب جیسے اہم شہر کے سقوط کے بعد مغربی دنیا میں صف ماتم بچھنے سے یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے واضح ہوگئی ہے کہ میڈیا میں اتنے پروپیگنڈے کے باوجود حقیقی جیت حق کی ہوئی ہے۔ اس وقت ایران کے پاس حکومتی استحکام کے لئے ضروری تینوں ارکان موجود ہیں “بہترین قیادت، بیدار عوام اور دفاعی صلاحیت،” اب اگر داعش ان پر ڈائرکٹ حملہ آور نہیں ہو رہی تو ان سے ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی طاقت سے مرعوب ہونے کی بناپر ہے۔

 …بعض ناداں افراد اپنے آپ کو بہت زیادہ بڑی شخصیت متعارف کرانے کی خاطر دشمن کے آلہ کار بن کر چند جہازوں کی خریداری کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر انقلاب اسلامی، خمینی بت شکن اور علماء کی اہمیت کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، ان کے لئے عرض یہ ہے کہ جس خمینی اور جس انقلاب کا پوری دنیا کی سپر طاقتیں ایک ہوکر بھی کچھ نہیں بگاڑ پائیں تو آپ جیسے نادانوں کو اپنی بینش میں اضافہ اور انقلاب اسلامی کی برکات کا مطالعہ کرکے ان کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ورنہ حسد کی آگ میں جل کر خود ہی راکھ ہو جاؤ گے۔ خمینی کا نام زندہ و جاوید رہے گا، انقلاب خمینی انقلاب مہدی برحقؑ سے متصل ہوکر پوری دنیا پر عدل کے نظام کو حاکم کرے گا۔ ان شاء اللہ یہ انقلاب اپنے سفر تکامل کو طے کرکے منجی عالم بشریت امام مہدیؑ کے عالمگیر انقلاب کا پیش خیمہ بن کر  اقبال کے خوابوں کی عملی تعبیر امید کی کرن بن کر نمودار ہوگا:

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

 اسلام ٹائمز ، خبر کا کوڈ: 594180

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *