تازہ ترین

علماء دہشتگردوں کے نظریات کے خاتمے میں مدد کریں، وزیراعظم

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ان لوگوں کا ملک ہے جنہوں نے 1947ءمیں ہر تعصب کو مسترد کر دیا تھا اور مسلم لیگ کے جھنڈے تلے وحدت کا نعرہ لگایا تھا آج بھی یہ عوام پختون ،سندھی،پنجابی یا مہاجر کو لڑانے کی سیاست کو اپنی صفوں سے نکال پھینکیں گے پی ایس […]

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1807

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ان لوگوں کا ملک ہے جنہوں نے 1947ءمیں ہر تعصب کو مسترد کر دیا تھا اور مسلم لیگ کے جھنڈے تلے وحدت کا نعرہ لگایا تھا آج بھی یہ عوام پختون ،سندھی،پنجابی یا مہاجر کو لڑانے کی سیاست کو اپنی صفوں سے نکال پھینکیں گے پی ایس ایل کے معرکہ نے بتادیا کہ لاہور،پشاور،کوئٹہ اور کراچی سب دہشت گردی کے خلاف ایک ہیں جس طرح دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں اس طرح اس کی نسل کا بھی کوئی مذہب نہیں مسلم لیگ علماءکے تعاون سے ان شکست خورہ عناصر کو شکست دے گی جو قومی وحدت کے درپے ہیں وہ معاشرہ مسلمان کہلوانے کا مستحق نہیں جس میں مسلکی اختلافات کی وجہ سے انسانوں کو قتل کر دیا جائے اور اقلتیں خود کو غیر محفوظ سمجھیں، وہ انتہاءپسندی جودین کے نام پر پھیلائی جاتی ہے آج مسلم معاشروں کی اولین ضرورت ہے کہ اس بیانیہ کی غلطی کو واضح کیا جائے اور عوام کو ایک جوابی بیانیہ دیا جائے یہ بیانیہ ممبر اور محراب سے ایک دفعہ پھر زوردار طریقہ سے جاری ہونا چاہیے ہم نے دور حاضر میں دہشت گردوں کے خلاف سب سے بڑا معرکہ لڑا اﷲ نے مدد کی اور دہشت گردوں کے مراکز برباد ہو گئے ان کے ہاتھ ٹوٹ گئے جیسے ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹے تھے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم نواز شریف نے جامعہ نعیمہ میں اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ جامعہ نعیمہ میں آمد میرے لیے ہمیشہ روحانی تجربہ رہی ہے۔اس ادارے کی فضاءمیں عشق مصطفی کی مہلک ہے یہاں قرآن کریم اور سنت رسول کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے یہ درس گاہ مفتی محمد حسین نعیمی اور مفتی محمد سرفراز نعیمی کی کئی یادوں سے آباد ہے یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے دین کو وحدت کے لیے استعمال کیا تفرقے کے لیے نہیں اگر ایسے ادارے میں کسی کو روحانی سکون نہ ملے تو پھر کہاں ملے یہاں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ملک کے ممتاز علمائے کرام اور مشائخ صاحبان سے ملاقات اور ان کی زیارت بھی ہو جاتی ہے ان کے سامنے درد دل کہنے کا موقع مل جاتا ہے آج ہمارا درد دل کیا ہے آج پاکستان اور دنیا بھر میں اسلام جیسے دین امن کے نام پر جس طرح ظلم کا بازار گرم ہے اور انسانوں کے درمیان نفرت کا زہر پھیلایا جا رہا ہے اس کا تریاق علمائے کے پاس ہی ہے علماءاور مشائخ نے ہی دین کو ان لوگوں سے آزاد کروانا ہے جنہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے اسے یرغمال بنا رکھا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جامع نعیمہ وہ ادارہ ہے جہاں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کی بات کی گئی جہاں ہر ملک کے لوگ بلا تکلف آتے ہیں جس کے دروازے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لیے بھی کھلے ہیں۔ کیا یہ معمولی واقعہ ہے کہ ایسے ادارے میں خون کی ہولی کھیلی گئی ؟مفتی سرفراز نعیمی کو شہید کیا گیا کیا ان لوگوں کا دین سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے جو ایسے بے ضرر اور قیمتی افراد کو اپنی وحشت کی بھینٹ چڑھا دیں کیا مفتی سرفراز نعیمی جیسی شخصیات کا خون رائیگاںچلا جانا چاہیے۔ کیا ان ہزاروں انسانوں کا لہو رزق خاک ہو جائے جو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیئے گئے ان کا کہنا تھا کہ 2013ءمیں جب پاکستان کے عوام نے ہمیں امور حکومت سونپے تو یہ سوال میرے سامنے تھا یہ بات ہمارے پیش نظر تھی کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے امن ہر پاکستانی کی اولین ضرورت ہے اﷲ کی توفیق و نصرت اور عوام کی تائید کے ساتھ ہم نے یہ ذمہ داری نبھانے کا فیصلہ کیا ۔سیاسی قیادت کو جمع کیا پاک فوج کے افسر اور جوان اپنے سر ہتھیلیوں پر رکھ کر نکلے پولیس کے جوان مردوں نے کمر کس لی ۔سلامتی کے ادارے یکسو ہو گئے سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام نے بے مثال عزم کا مظاہرہ کیا ہم نے دور حاضر میں دہشت گردی کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا معرکہ لڑا اﷲ نے مدد کی اور دہشتگردوں کے مراکز برباد ہو گئے ان کے ہاتھ ٹوٹ گئے جیسے ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹے تھے اس کامیابی کے باوجود اکا دکا واقعات جاری ہیں معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان افراد اور ایسے نظریات کے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں ریاست ان کا کھوج لگا رہی ہے وہ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے تاہم حتمی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک علماءاس میں ساتھ نہ دیں اس دہشتگردی کے لیے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں ہمیں ان کو رد کرنا ہے اس میں علماءنے ریاست کی مدد کرنی ہے دہشتگردی کی بنیادیں انتہاءپسندی میں ہیں وہ انتہاءپسندی جو دین کے نام پر پھیلائی جاتی ہے اس کا ایک مظہر فرقہ واریت ہے اور دوسرا مظہر وہ ہے جس میں جہاد کے پاکیزہ تصور کو مسخ کیا گیا ہے اور اﷲ کے نام پر بے گناہوں کے قتل کو روا رکھا گیا ہے یہ دو بیانیے ہیں جنہوں نے انتہاءپسند پیدا کیے پھر انہوں نے مسلمان معاشروں کو مقتل میں بدل دیا۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *