تازہ ترین

علی کی بادشاہی ہے

 ولادت باسعادت امیرالمومنین (ع) کا دن، اس شخص کی ولادت کا دن جسکی جائے ولادت خانہ کعبہ اور جائے شہادت مسجد ہے، جو نفس اللہ بھی ہے یداللہ بھی ہے، کائنات کے سب سے بڑے امیر کی ولادت کا دن جو فقراء کا ملجا تھا۔ جو یتیموں کا والی تھا،

شئیر
59 بازدید
مطالب کا کوڈ: 56

جو نماز میں زکوٰۃ ادا کرتا تھا، جو محافظ رسول (ص) اور شوہر بتول (س) ہے۔ جو حسنین علیہماالسلام کا بابا اور زینب و ام کلثوم (ع) جیسی شیر دل بیٹیوں کا باپ ہے۔
علی کی بادشاہی ہے
ترتیب و تزئین: سیدہ ایمن نقوی

کل کا دن عالم ہستی کے تمام مومنین اور ہر اس شخص کے لئے بہت بڑی عید کا دن تھا، جسکا دل میں مولائے متقیان کی محبت میں دھڑکتا ہے۔ ولادت باسعادت امیرالمومنین (ع) کا دن، اس شخص کی ولادت کا دن جسکی جائے ولادت خانہ کعبہ اور جائے شہادت مسجد ہے، جو نفس اللہ بھی ہے یداللہ بھی ہے، کائنات کے سب سے بڑے امیر کی ولادت کا دن جو فقراء کا ملجا تھا۔ جو یتیموں کا والی تھا، جو نماز میں زکوٰۃ ادا کرتا تھا، جو محافظ رسول (ص) اور شوہر بتول (س) ہے۔ جو حسنین علیہماالسلام کا بابا اور زینب و ام کلثوم (ع) جیسی شیر دل بیٹیوں کا باپ ہے۔ اس موقع پر اپنے تمام قارئین کی خدمت میں تبریک و تہنیت عرض کرتی ہوں، سید زوار قمر عابدی صاحب کے چند اشعار جو بہت پہلے کہیں پڑھے تھے، اچھے لگنے کی بنا پر عادت سے مجبور ہو کر اپنے پاس محفوظ کر لئے، آج اس پرمسرت موقع پر آپ سب کی نذر کرتی ہوں۔

علی ہی فخرِ قُدرت ہے علی ہی فخرِ انسان ہے
علی ہی لُطِف دُنیا ہے علی ہی وصفِ ایماں ہے
 
علی ہی در حقیقت مظہرِ نورِ حقیقت ہے
علی ہی علمِِ امکان کی رنگین صورت ہے
 
خُدا کی اِک عنایت خُدا کی اک سخاوت ہے
علی ہی در حقیقت دینِ احمد کی شرافت ہے
 
خُدا کی ذات نے اُسکو ہے کتنا مُعتبر جانا
علی کہ واسطے لوگو بنا کعبہ جنم خانہ
 
جو آنکھیں کھول کر دیکھو تو ہر نُدرت میں شامل ہے
یہی قُدرت کی قُدرت ہے کہ ہر قُدرت میں شامل ہے
 
علی ہر جنگ کے آغاز اور نُصرت میں شامل ہے
علی ہی در حقیقت دین کی فطرت میں شامل ہے
 
علی کو ڈُھونڈتے ہو تم کہاں تصویر خانوں میں
علی آزاد پھرتا ہے زمیں و آسمانوں میں
 
علی ہے رود باروں میں علی ہے کُہساروں میں
علی ہے صحنِ گُلشن میں علی ہے لالہ زاروں میں
 
علی ہر چاندنی شب میں علی صُبحِ بہاری میں
علی گُلشن کی جو دیکھو تو ہر گُلشن نگاری میں
 
کہیں شہروں میں ملتا ہے، کہیں سُنسان بستی میں
جو دیکھو ہر قلند کی یہی ہے کیف و مستی میں
 
علی کا ذکر ہوتا ہے زمین و آسمانوں میں
علی بوڑھوں کی باتوں میں، جواں کی داستانوں میں
 
علی کا ذکر کرتے ہیں بھنور بھی اور دھارے بھی
علی کا نام جپتے ہیں سمندر کے کنارے بھی
 
علی معراج پہ ملتا ہے بحر و بر میں ملتا ہے
یہی قُدرت کی قُدرت ہے زمانے بھر میں ملتا ہے
 
علی ہر خانہء دل میں حقیقت بن کے رہتا ہے
علی سب مُنکروں کے دل میں دہشت بن کے رہتا ہے
 
شُجاعت پہ پھی جسکی ناز ہے یہ وہ قبیلہ ہے
علی ہی درحقیقت مُشکلوں میں اک وسیلہ ہے
 
یہی سلماں کا آقا ہے یہی مولائے قمبر ہے
امامت کا ستارہ ہے یہ دامادِ پیمبر ہے
 
یہ قُدرت کا گُلستاں ہے یہاں ہر پُھول کھلتا ہے
کہیں مقداد ملتا ہے، کہیں بہلول ملتا ہے
 
ارے اس در کی چوکھٹ تو کبھی بوزر بناتی ہے
کبھی میثم کبھی براہ کبھی قمبر بناتی ہے
 
تونگر کو تونگری بھی اِسی چوکھٹ سے ملتی ہے
قلندر کو قلندری بھی اِسی چوکھٹ سے ملتی ہے
 
سیاہ راتوں کو گر چاہے تو وہ تابندگی دے دے
وہ چاہے زندگی لے لے وہ چاہے زندگی دے دے
 
بُلائے اک اشارے سے تو سُورج لوٹ آتا ہے
کہ خیبر ٹوٹ جاتا ہے مرحب کو کاٹ آتا ہے
 
جہاں دیکھو جدھر دیکھو اِسی کی شہنشاہی ہے
اسی کا نام چلتا ہے اسی کی بادشاہی ہے
 
یہ وہ گھر ہے کہ قُدرت کو بھی فخر و ناز ہوتا ہے
عیاں اس در سے ہم پہ زندگی کا راز ہوتا ہے
 
علی کی ذات کا رتبہ رسولِ پاک سے پوچھو
شبِ معراج کے وارث شاہِ لولاک سے پوچھو
 
نئی طاقت نیا جذبہ نئی پہچان ملتی ہے
علی کہ در سے لوگوں کو کہ گویا جان ملتی ہر
 
نیا امروز ملتا ہے نیا انداز ملتا ہے
اسی سے زندگانی کا ہمیں ہر راز ملتا ہے
 
علی کے عشق کا ساغر کُچھ ایسے بھر کہ رہتا ہے
علی ہے منبعِ جود و سخا ہر شخص کہتا ہے
 
علی سے بُغض رکھنے کو نبوت باز کرتی ہے
علی کہ بازوِ قُدرت پہ قُدرت ناز کرتی ہے
 
علی وہ ہے جو ہر یک چیز کا عرفان کھتا ہے
پرایا کون اپنا کون سب گُمان رکھتا ہے
 
اگر ساغر ہی پینا ہو علی کے نام کا پینا
بنا اس عشق کے یارو بھلا کس کام کا جینا
 
بڑا بدبخت وہ ہو گا جہنم میں بھی جائے گا
علی کے نام سے ماتھے پہ بل اپنے جو لائے گا
 
نہ جب تک وہ زباں دے گا زباں یہ ہل نہیں سکتی
علی کے نام لیوا کو جہنم مل نہیں سکتی
 
علی کا ذکر ایسا ہے ختم ہو گا نہ باتوں سے
علی اور میری اُلفت کو نہ ناپو دن اور راتوں سے
 
ہے لازم بو ترابی پر ہر ایک کام وہ کرنا
اُسی انداز میں جینا اُسی انداز میں مرنا
 
قلم روکوں ذرا سوچوں میں حد سے نہ گُزر جاوں
نصیری کی طرح میں بھی نہ اُلفت میں بھٹک جاوں
 
نہیں یہ ہو نہیں سکتا عقل کو تھام رکھا ہے
میرے ہاتھوں نے مولا کے قلم کو تھام رکھا ہے
 
علی کا نام لیوا ہوں قلم یہ رُک نہیں سکتا
میرا سر غیر کی چوکھٹ پہ جا کے جُھک نہیں سکتا
 
یہی ہے آرزو میری میں ایسے پاک ہو جاؤں
نجف کی خاک میں مِلکر میں خود بھی خاک ہو جاؤں
 
لگا نعرہ کہ اب جیسے موذن کی اذاں گونجے
علی کی یوں صدا آئے کہ یہ سارا جہاں گونجے

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *