عید غدیر اور چہاردہ معصومین(ع)
مذہب تشیع کی صداقت پر جہاں دسیوں دیگر احادیث دالت کرتی ہیں وہاں یہ دو حدیثیں بنیادی حیثیت اور مرکزیت کی حامل ہیں: ایک حدیث ثقلین [1] کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوے دن کے اندر چہار مقام پر بیان فرمائی اور دوسری حدیث غدیر کہ جسے در حقیقت پہلی حدیث یعنی حدیث ثقلین کو مکمل کرنے والی کہا جا سکتا ہے جو پیغمبر اسلام نے غدیر خم کے میدان میں حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں ارشاد فرمائی۔
قرآن اور عترت کے سلسلے میں حد سے زیادہ پیغمبر اسلام (ص) کی تاکید اور امیر المومنین کی جانشینی اور خلافت پر آپ کا اصرار یہ بتا رہا ہے کہ اس مسئلہ پر پیغمبر اسلام (ص) کو بہت زیادہ تشویش تھی۔
غدیر خم کو اہمیت دینا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کو اہمیت دینا ہے اس لیے کہ رسول اسلام کی رسالت غدیر سے وابستہ ہے اگر اعلان غدیر نہ ہوتا تو رسالت باطل ہو جاتی۔
ہم اس تحریر میں غدیر کی اہمیت کو خود صاحبان غدیر یعنی آئمہ معصومین علیھم السلام کی نگاہ سے بیان کرتے ہیں:
رسول خدا (ص) اور غدیر
شیخ صدوق نے کتاب ” امالی” میں امام باقر علیہ السلام اور آپ نے اپنے جد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی خداوند عالم نے آیت “یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک” [2] کو تمہاری ولایت کے بارے میں نازل کیا ہے۔ اگر میں اس ولایت کو جسے لوگوں تک پنہچانے کا خدا نے مجھے حکم دیا نہ پہنچاتا تو میری رسالت باطل ہو جاتی۔ اور جو شخص تمہاری ولایت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے اس کا کردار باطل ہے۔ اے علی میں وحی خدا کے علاوہ بات نہیں کرتا۔[3]
امام علی[ع] اور حدیث غدیر
سلیم بن قیس ہلالی امیر المومنین [4] کی ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
«ثم اقبل عليهم على فقال: يا معشرالمسلمين و المهاجرين و الانصار انشد كم الله اسمعتم رسول الله يقول يوم غديرخم كذا و كذا فلم يدع شيئا قال عنه رسول الله الا ذكرهم اياه قالوا نعم»
(جب حضرت ابوبکر کی طرف سے اصرار بڑھا کہ علی علیہ السلام ابوبکر کی بیعت کریں ) تو علی علیہ السلام نے لوگوں سے کہا: اے مسلمانو اور مہاجرین و انصار! کیا تم لوگوں نے نہیں سنا کہ رسول خدا (ص) نے غدیر کے دن کیا فرمایا؟ اس کے بعد ان تمام باتوں کو جو رسول خدا (ص) نے غدیر کے دن فرمائیں تھیں یاد دہانی کروایا۔ سب نے اقرار کیا کہ ہاں یہ سب کہا تھا۔
اس سلسلے میں امیر المومنین کے بعض استدلالوں منجملہ اس استدلال کی طرف جو آپ نے ابوبکر کے لیے پیش کیا تھا کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے فرمایا: حدیث غدیر کی بنیاد پر کیا میں تمہارا اور مسلمانوں کا مولا ہوں یا تم؟ ابربکر نے کہا: آپ۔[5]
ابی الطفیل کا کہنا ہےکہ جس دن عمر نے شوریٰ کو دعوت دی میں گھر پر تھا میں نے سنا کہ علی علیہ السلام نے کہا: کیا میرے علاوہ کوئی اور تمہارے درمیان ہے جس کے بارے میں پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا ہو: من کنت مولاہ فھذا مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ” سب نے کہا : نہیں کوئی نہیں ہے۔[6]
حضرت زہرا [س] اور غدیر
ابن عقدہ نے اپنی کتاب “الولایۃ” میں محمد بن اسید سے یوں نقل کیا ہے: فاطمہ زہرا [س] سے پوچھا: کیا پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی رحلت سے پہلے علی [ع] کی امامت کے بارے میں کچھ فرمایا:
جناب زہرا[س] نے جواب دیا: «و اعجباانسيتم يوم غديرخم؛» [7] بہت تعجب ہے! کیا تم لوگوں نے غدیر خم کو فراموش کر دیا ہے؟
فاطمہ بنت الرضا نے فاطمہ بنت الکاظم[ع] انہوں نے فاطمہ بنت الصادق علیھن السلام سے یوں نقل کیا ہے کہ ام کلثوم دختر فاطمہ زہرا[ع] نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے غدیر کے دن فرمایا: ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ” [8]
امام حسن مجتبی [ع] اور غدیر
امام جعفر صادق [ع] سے روایت ہے کہ جب امام حسن [ع] نے معاویہ سے صلح کرنا چاہی تو اس سے فرمایا: مسلمانوں نے پیغمبر اسلام (ص) سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے میرے بابا کے بارے میں فرمایا: ” انہ منی بمنزلۃ ھارون من موسی” اسی طرح انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر (ص) نے بابا کو غدیر خم میں امام کے عنوان سے منصوب کیا ہے۔[9]
امام حسین [ع] اور غدیر
سلیم بن قیس لکھتے ہیں: امام حسین [ع] معاویہ کی موت سے پہلے خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے بنی ہاشم کو جمع کیا اور فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو غدیر خم کے دن خلافت پر منصوب کیا؟ سب نے کہا: ہاں ، [اے فرزند رسول]۔[10]
امام زین العابدین [ع] اور غدیر
ابن اسحاق، مشہور تاریخ نگار، کا کہنا ہے: علی بن حسین سے کہو: ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ” اخبر ھم انہ الامام بعدہ”۔ [پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو یہ خبر دی کہ ان کے بعد علی [ع] امت کے امام ہیں۔ [11]
امام باقر علیہ السلام اور غدیر
ابان بن تغلب کا کہنا ہے: امام باقر علیہ السلام سے پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول: ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: اے ابو سعید پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: امیر المومنین لوگوں کے درمیان میرے جانشین ہوں گے۔ [12]
امام صادق علیہ السلام اور غدیر
زید شحام کا کہنا ہے: میں امام صادق علیہ السلام کے پاس تھا، مکتب معتزلہ کے ایک آدمی نے آپ سے سنت کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے جواب دیا: ہر وہ چیز جس کی انسان کو ضرورت ہے اس کا حکم خدا اور اس کے پیغمبر کی سنت میں موجود ہے۔ اگر سنت نہ ہوتی خدا وند عالم کبھی بھی اپنے بندوں پر حجت تمام نہ کرتا۔
اس آدمی نے پوچھا: خداوند عالم نے کس چیز کے ذریعے ہمارے اوپر حجت تمام کی ہے؟
آپ نے فرمایا: «اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا»؛ اس نے اس طریقے سے ولایت کو مکمل کیا اس سنت کے ذریعے اس نے تمہارے اوپر حجت کو تمام کیا ہے۔ [13]
امام موسی کاظم [ع] اور غدیر
عبد الرحمن بن حجاج نے حضرت موسی بن جعفر [ع] سے غدیر خم کی مسجد میں نماز [14]کے بارے میں سوال کیا : آپ نے جواب میں فرمایا: «صل فيه فان فيه فضلا و قد كان ابى يامربذلك» [15] اس میں نماز پڑھو اس لیے کہ اس میں نماز پڑھنے کی بہت فضیلت ہے اور بتحقیق میرے بابا نے اس امر کے لیے حکم کیا ہے۔
امام رضا [ع] اور غدیر
محمد بن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں: امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ مجلس لوگوں سے بھری تھی۔ اور آپس میں غدیر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ بعض لوگ اس واقعہ کا انکار کر رہے تھے امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ روز غدیر، آسمان والوں کے یہاں زمین والوں سے زیادہ مشہور اور مقبول ہے۔ اس کے بعد فرمایا: اے ابی بصیر، ” این ما کنت فاحضر یوم الغدیر” جہاں بھی رہو غدیر کے دن امیر المومنین [ع] کے پاس جانا۔ یقینا اس دن خداوند عالم مسلمان مرد و زن کے ساٹھ سال کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کے دو برابر زیادہ لوگوں کو،جہنم کی آگ سے نجات دلاتا ہے۔ ۔۔۔۔ اس کے بعد فرمایا: «والله لوعرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقه لصافحتهم الملائكه كل يوم عشر مرات» [16] اگر لوگ اس دن کی قدر و قیمت کو جان لیتے تو بغیر شک کے ہر روز دس بار فرشتے ان سے مصافحہ کرتے۔
امام جواد[ع] اور غدیر
ابن ابی عمیر نے ابو جعفر ثانی [ع] سے اس آیت “یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود” [17] کے ذیل میں یوں نقل کیا: پیغمبر اسلام (ص) نے دس جگہوں پر اپنی خلافت کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد آیت “یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود” نازل ہوئی۔ [18]
اس روایت کی وضاحت میں یوں کہنا چاہیے۔ مذکورہ آیت سورہ مائدہ کے شروع میں ہے۔ یہ سورہ آخری سورہ ہے جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے۔ اس سورہ میں آیت اکمال اور آیت تبلیغ ہیں کہ جو واقعہ غدیر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔
امام ہادی [ع] اور غدیر
شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں امیر المومنین علی [ع] کی زیارت کو امام حسن عسکری اور آپ نے امام ہادی [ع] سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہےکہ امام جواد(ع) نے غدیر کے دن حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کی اور فرمایا: «اشهد انك المخصوص بمدحةالله المخلص لطاعةالله …»؛ گواہی دیتا ہوں کہ خدا کی مدح و ثنا آپ سے مخصوص ہے اور آپ اس کی اطاعت میں مخلص ہیں۔
اس کے بعد فرمایا: خداوند عالم نے حکم دیا: «يا ايهاالرسول بلغ ما انزل اليك من ربك و ان لم تفعل فمابلغت رسالته و الله يعصمك من الناس.»
اس کے بعد فرمایا: پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو خطاب کیا اور ان سے پوچھا: کیا میں نے جو کچھ میرے ذمہ تھا تم لوگوں تک نہیں پہنچایا؟
سب نے کہا: پہنچا دیا یا رسول اللہ(ص)۔
اس کے بعد فرمایا: خدا گواہ رہنا۔ اس کے بعد فرمایا: : «الست اولى بالمومنين من انفسهم؟ فقالوا بلى فاخذ بيدك و قال من كنت مولاه فهذا على مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله؛» کیا میں مومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ آپ حق رکھتےہیں۔ اس کے بعد علی[ع] کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔۔۔۔۔۔ [19]
امام حسن عسکری[ع] اور غدیر
حسن بن ظریف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھا اور پوچھا: پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا: «اراد بذلك ان جعله علما يعرف به حزب الله عند الفرقة»؛ خدا وند عالم نے ارادہ کیا کہ یہ جملہ علامت اور پرچم قرار پائے تاکہ اللہ کا گروہ اختلاف کے وقت اس کے ذریعے پہچانا جائے۔
اسحاق بن اسماعیل نیشابوری کہتے ہیں: حضرت حسن بن علی [ع] نے ابراہیم سے یوں کہا: خداوند عالم نے اپنی رحمت اور احسان کے طفیل واجبات کو تمہارے اوپر مقرر کیا یہ کام اس کی ضرورت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کی رحمت کا تقاضا تھا جو تمہارے شامل حال ہوئی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس نے ایسا کیا تا کہ ناپاک کو پاک لوگوں سے جدا کرے اور تمہارے باطن کو پرکھے تاکہ اس کی رحمت تمہارے شامل حال ہو اور بہشت میں تمہارا مقام معین ہو۔
اسی وجہ سے حج، عمرہ، نماز کی ادائیگی ، زکات، روزہ اور ولایت کو تمہارے اوپر چھوڑا اور تمہارے راستے میں ایک دروازہ رکھا تاکہ اس کے ذریعے دوسرے واجبات کے دورازے اپنے اوپر کھول سکو۔ اس دروازے کو کھولنے کے لیے ایک چابی رکھی ہے [اور وہ ہے محمد اور آل محمد] ۔ اگر محمد اور آل محمد(ص) نہ ہوتے تم لوگ حیوانوں کی طرح سرگرداں گھومتے رہتے۔ اور کسی بھی فریضہ کی ادائیگی نہ کر پاتے۔ مگر گھر میں دروازے کے علاوہ انسان داخل ہو سکتا ہے؟ جب خداوند عالم نے پیغمبر (ص) کے اپنے اولیاء کو معین کر کے اپنی حجت تمہارے اوپر تمام کر دی تو فرمایا: «اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا» [20] کہ آج میں نے دین کو تمہارے اوپر کامل کر دیا اور نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام سے راضی ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے اولیاء کے کچھ حقوق تمہاری گردنوں پر رکھے اور تمہیں حکم دیا کہ ان کے حقوق ادا کرو تاکہ تمہاری عورتیں، مال و دولت اور خوراک و پوشاک تمہارے اوپر حلال ہوں۔۔۔ ۔[21]
امام زمانہ [ع] اور غدیر
دعائے ندبہ میں جو بظاہر آپ سے منسوب ہے وارد ہوا ہے:” فلما انقضت ایامہ اقام ولیہ علی بن ابی طالب صلواتک علیھما و آلھما ھادیا اذ کان ھو المنذر و کل قوم ھاد فقال و الملاء امامہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔۔۔”
حوالہ جات
[1] ـ حديث ثقلين اہلسنت کے اکثر منابع میں ذکر ہوئی ہے ہم یہاں پر صرف چند ایک طرف اشارہ کرتے ہیں: السنه شيبانى، ص 337 و 629 ح 1551؛ صحيح ترمذى، ج 5، ص 663؛ سنن كبرى بيهقى، ج 10، ص 114؛ المستدرك، حاكم نيشابورى، ج 3، ص 110؛ فضائل الصحابه، احمد بن حنبل، ج 1، ص 171 و ج 2، ص 588؛ سنن ابىداود، ج 2، ص 185؛ طبقات كبرى، ابن سعد، ج 2، ص 194؛صحيح مسلم، ج 4، ص .1873
[2] ـ سوره مائده، آيه .71
[3] ۔ امالى شيخ صدوق، مجلس، 74، ص .400
[4] كتاب سليم بن قيس هلالى، نشر موسسه بعثت، ص .41
[5] امالى شيخ صدوق، ج 1، ص .342
[6] اثبات الهداة، حرعاملى، ج 2، ص 112، ح 473؛ مناقب ابن شهر آشوب، ج 3، ص 25 ـ .26
[7] اثبات الهداة، ج 2، ص 112؛ احقاق الحق، ج 16، ص .282
[8] امالى شيخ صدوق، ج 2، ص .171
[9] امالى شيخ صدوق، ج 2، ص .171
[10] سليم بن قيس، ص .168
[11] معانى الاخبار، ص 65؛ بحارالانوار، ج 37، ص .223
[12] معانى الاخبار، ص .66
[13] تفسير برهان، ج 1، ص .446
[14] اس مسجد کی اہمیت کو جاننے کے لیے مجله ميقات حج شماره 12 کی طرف رجوع کیا جائے
[15] اصول كافى، ج 4، ص .566
[16] تهذيب الاحكام، شيخ طوسى، ج 6، ص 24، ح 52؛ مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص .41
[17] سوره مائده، آيه .1
[18] تفسيرقمى، ج 1، ص .160
[19] بحارالانوار، ج 100، ص .363
[20] وہی، ج 37، ص .223
[21] علل الشرائع، ج 1، ص 249، باب 182، ح .66
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید