تازہ ترین

غدیر اور سقیفہ اسلامی تاریخ کے دو اہم موڑ /غلام محمد ملکوتی

شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد سقیفہ اور غدیر   کے  دو واقعات  میں مضمر ہے  :

 امت  محمدی کے  دو گروہوں میں بٹنے  میں  دو  واقعات  کا بہت ہی نمایاں کردار ہے .ان جن میں  سے ایک حضور کی  حیات  میں ،  دوسرا  آپ کے  کفن دفن سے پہلے  پیش آیا .جہاں ایک طرف سے  سقیفہ  کا واقعہ خلافت  اور امامت   کے مسئلہ میں اکثر مسلمانوں کے عقائد  کی بنیاد ہے تو دوسری طرف  سے  غدیر خم  میں رسول پاک کا تاریخی خطبہ   اکثریت کے مقابلے میں اقلیت  کے عقیدے کی بنیاد ہے .  اسی  لئے

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5070

تاریخ اسلام میں رونما ہونے والے ان دو  اہم  واقعات کی صحیح چھان بین اور ان کا  صحیح تجزیہ، خلافت کے بارے میں    شیعہ سنی عقیدے  کی  تہ تک پہچنے کی راہ میں   اہم قدم شمار ہوتا   ہے   .  بظاہر  غدیر کا واقعہ سقیفہ سے تقریبا 70 دن پہلے واقع ہوا لیکن ہم یہاں پہلے سقیفہ کی داستان  کا ایک جائزہ لیتے ہیں اور     بعد میں غدیر کے  واقعہ کو بیان کر کے ان دو واقعات کا تقابلی جائزہ لیتے  ہوئے  یہ بتانے کی کوشش کرینگے کہ شیعہ  اور سنی کے درمیان   خلافت کے مسئلہ میں   جو بنیادی  اختلاف ہے  وہ  مفہومی ہے،   مصداقی اختلاف ، خلافت کےمفہومی اختلاف کا نتیجہ ہے .
سقیفہ بنی ساعدہ اور خلیفہ اول  کی خلافت : 
تاریخی حقائق کے مطابق  سقیفہ کی  داستان کا خلاصہ  کچھ اس طرح سے  ہے۔ 
رسول پاک  [ٍٍص] کی وفات کے بعد   جس وقت  ان کے پاکیزہ خاندان  کے افراد   آپ کی  فراق میں غمگین  اور  آپ کی    تجہیز و تکفین میں  مصروف تھے ، اسی دوران   یہ    خبر   منتشر  ہوئی   کہ  سقیفہ میں    لوگوں نے جناب ابوبکر کے  ہاتھوں بیعت کر لی ہے ،کیونکہ سب نے یہی نقل کیا ہے کہ انصار کے ایک گروہ کے سقیفہ میں جمع ہونے کی  خبر    مخفیانہ طور پر جناب خلیفہ اول، دوم اور ابو عبیده جراح  تک پہنچی  ، ان تینوں نے بھی کسی اور کو اس کی خبر دئے بغیر سقیفہ کا رخ کیا .
جب انصار کی جماعت میں،  مہاجرین میں سے  یہ تین  افراد   پہنچے   تو    قبيله خزرج کے  سرداروں  میں سے حباب بن المنذر نے اس پر  رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے   انصار سے خطاب کیا  : اے گروہ انصار، اپنا حق لے لو؛  اس لیے کہ یہ لوگ تم لوگوں کے مرہون منت ہیں کسی میں بھی تمہاری مخالفت کی جرات نہیں ہے.تم لوگ ہی با عزت ،باشرافت ، باقدرت  ہو[1] 
خلیفہ اول  نے    انصار کے مقابلہ میں  قریش کی برتری کو بیان کرتے ہوے کہا  :  یہ عہد خلافت  قریش کے علاوہ کسی اور کے لیے مناسب نہیں اس  لیےکہ وہ نسب اور شہر کے لحاظ سے سب پر  شرف رکھتے ہیں’’ ولم تعرف العرب هذا الامر الا لهذا الحى من قريش هم اوسط العرب نسبا ودارا [2]
خليفه دوم نے بھی  انصار  کے سوال  کا یوں جواب دیا:   خدا کی قسم؛ عرب ہرگز اس بات کو قبول نہیں کریں گے کہ حکومت تمہاے حوالہ کر دی جاے ،کیونکہ پیغمبر [ٍٍص]  کا تعلق تم میں سے نہیں ہے ، البتہ ان کے لیے اس بات میں کوئی قباحت  بھی تو نہیں کہ حکومت اور زمام اقتدار ان افراد  کے سپرد کردیا جاے کہ جن سے پیغمبر کا تعلق تھا، ہمارے پاس اس سلسلے میں مخالفین کے لیے واضح اور روشن دلیل موجود ہے، ہم  ان کے دوست اور خاندان والے ہیں [3]»   
انصار نے جواب میں کہا  :  ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک امیر ہم میں سے ۔۔ ہمیں اس بات  کا ڈر  ہے  کہیں ایسا نہ ہو کہ   ان کے بعد وہ  لوگ بر سر اقتدار آجائیں کہ جن  کے باپ اور بھائیوں کو ہم نے قتل کیا تھا[4]
  خلیفہ اول و  دوم نے جواب میں کہا:  امیر ہم میں سے ہوگا  جبکہ  وزیر  تم میں سے [5]  لیکن انہیں انصار کی طرف سے  اس طرح جواب ملا :     اگر  قریش ان کی باتوں کو نہ مانیں تو یا  طاقت  کا استعمال کیا جاے  گا  یاا نہیں مدینہ سے باہر نکال دیا جاے گا [6]
 بعض  تواریخ میں آیا  ہے کہ  انصار  کے تمام  افراد یا ان میں سے بعض سقیفہ میں اصرار کر رہے تھے کہ  ہم علی ؑکے علاوہ کسی اور کی بیعت 
نہیں کریں گے [7]
لیکن سقیفہ میں جس چیز نے ابوبکر کے  خلیفہ بننے میں اہم کردار  ادا کیا ،وہ  خود انصار کے درمیان  اختلاف کا  وجود میں آنا  تھا، دور جاہلیت میں موجود رنجشوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ سے  انصار عملی  طور پر  دو گروہوں میں بٹ گئے ،   حتی خود قبیلہ خزرج میں ایک دوسرے کے ساتھ اندرونی کشمکش کی وجہ سے بشير بن سعد نے جو  کہ قبيله خزرج کے بزرگوں میں سے تھا  ،  جلدی میں  جناب ابوبکر کی بیعت کی ،  بشير  کی یہ حرکت دیکھ کر حباب بن المنذر نے  اس سے مخاطب ہوکر کہا ؛ چچا زاد بھائی[سعد بن عبادہ]  کی حکومت کے حسد نے تمہیں اس کام پر ابھارا ہے اورجب  بزرگان اوس[انصار کا دوسرا  بڑا قبیلہ ] میں سے أسيد بن حضير نے یہ دیکھا کہ خزرج والوں نے بیعت میں پہل کی ہے تو  اپنے  قبيله والوں سے کہا :خدا کی قسم؛  اگر خزرجی ایک دفعہ بھی تم پر حاکم بنیں گے  تو وہ  ہمیشہ تم پر برتری جتایا کریں گے اور حکومت میں تمہیں کسی قسم کا حصہ نہیں دیں گے اٹھو اور ابوبکر کی بیعت کرو۔[8]
 خلیفہ دوم اس ماحول کی یوں  تصویر کشی کرتا ہے  : [فكثُرَ اللَّغطُ ، وارتفعتِ الأصواتُ ، حتى فَرِقْتُ من الاختلاف، فقلتُ: ابْسُط يَدَكَ يا أبا بكر ، فبسطَ يَدَهُ ، فَبَايَعْتُهُ [9]
یعنی  ایک شور و غل کا سا سماں تھا،  اسی حال   میں  خلیفہ دوم  نے خلیفہ اول کا ہاتھ تھام کر ان کی بیعت کی اور  یہ  صورت حال  اس قدر  پریشان کن تھی  کہ خلیفہ دوم  یوں  ہی اس  صورت حال  کو ترک کرنے  کو فتنہ اور فساد کا باعث سمجھتا تھا [10]
خود خلیفہ دوم کی  نظر اس  واقعہ  کے بارے میں یہ تھا   کہ سقیفہ میں ایک فلتہ [یعنی ایک ایسا عمل کہ جو  ناگہانی طور پر بغیر غور فکر  اور مشورے کے انجام پایا ہو] کے ذریعہ جناب ابوبکر خلیفہ بنا  اور اگر  اس کے بعد لوگوں سے صلح و مشورہ کے بغیر  کسی اور خلیفہ کی  بیعت  کی جاے تو  ایسی صورت میں اس کی  یہ بیعت نہ صرف  بیعت نہیں بلکہ  وہ مستحق قتل بھی  ہے [11]
لہذا سقیفہ میں    ایسا نہیں ہوا کہ جناب ابوبکر کے خلیفہ  انتخاب کرنے پر سب  نے پہلے اتفاق کیا ہو اور بعد میں اسی اتفاق کے نتیجہ میں ان کی بیعت کی ہو  ،بلکہ   خلیفہ  اول کی خلافت ، قبائلی کش مکش  اور چند سرداروں کے ناگہانی  فیصلہ کے نتیجہ میں عمل میں آیا . 
سقیفہ کے مخالفین کے ساتھ برتاؤ: 
سقیفہ  کے  بعد  لوگوں کو بیعت کرنے کی دعوت دی گئی ، جنہوں نے بیعت سے انکار کیا  ان کو  قتل کی  دہمکی بھی  دی گئی ، بعنوان مثال ؛   سقیفہ میں سب سے   زیادہ  سعد بن عبادہ نے سختی سے  اس بیعت کی مخالفت کی تو    خلیفہ دوم  نے  کہا    ؛  اس کو قتل کریں ، خدا اس کو قتل کرے؛  [اُقْتُلُوهُ ، قَتَلَهُ اللَّهُ[12] جناب عمر نے یہ اعلان کیا که جو بھی ان کی مخالفت کرے گا  اسے قتل کیا جاے گا[13] لیکن اس قدر سختی کے باوجود بھی انہیں  اپنی  ناکامی کا خوف تھا یہاں تک کی قبیلہ بنی اسلم  والے جو   ان دنوں اتفاق  سے   مدینہ میں کھانے ،پینے  کی چیزیں خریدنے آے ہوےتھے ان کی مدد سے  وہ لوگ  اس کام میں کامیاب ہوے   اور اس سے  جناب ابوبکر کی پارٹی مضبوط ہوئی [14] تاریخ نے اس مدد کی نوعیت بھی بیان کی ہے کہ  انہوں نے اس سلسلے میں لوگوں کے ساتھ  پولیس جیسا سلوک کیا  ،  لوگوں کو بیعت کے لیے  پکڑ پکڑ  کرلے آتے تھے   ، خواہ لوگ مانیں یا نہ مانیں  ان سے بیعت لیتے تھے   { لا يمرون بأحد إلا خطبوه..[15]
سقیفہ  کے مخالفین میں سے ایک تعداد   جناب فاطمہ کے گھر  پر جمع تھی  ، خلیفہ اول نے ان  لوگوں سے  بیعت  لینےکی خاطر، خلیفہ دوم  کو  چند دوسرے افراد  کے  ساتھ روانہ کیا    اور خلیفہ دوم  نے آکر  جناب فاطمہ کے گھر پر مخالفین کے اجتماع کو   بیعت نہ کرنے کی صورت میں گھر سمیت آگ لگانے کی دہمکی بھی  دی ، جناب  زبیر  مخالفت کرتے ہوے   باہر نکلے تو   ان کو گرفتار کر کے بیعت کے لیے مسجد لے گئے[16] جب مخالفین کو گھر سمیت آگ لگانے کی دہمکی دی گئی تو  باقی  لوگ   بھی مجبوری کی حالت میں  وہاں سے نکل کر مسجد میں بیعت کرنے گئے .[17] 
جناب فاطمہ کے گھر میں زور سے داخل ہونے کا مسئلہ خلیفہ کو بعد میں اتنا گراں گزرا  کہ  آخری عمر میں افسوس کرتا تھا ؛ اے کاش میں ایسا نہ کرتا ، فاطمہ کی گھر کا پاس رکھتا { وددت أني لم أكن كشفت بيت فاطمة وتركته وأن أغلق علي الحرب [18] 
سقیفہ  کے  واقعے کا تجزیہ  : 
خلافت کے مسئلہ میں پیش آنے والے  اس کشمکش  کا تجزیہ کیا  جاے تو  مندرجہ ذیل  نکات بطور   نتیجہ سامنے آتے ہیں .
الف :    سقیفہ کی بنیاد عرب کے جاہلی تعصبات اور قبائلی رنجشوں پر  استوار تھی  ؛اسی لئے  صرف  قبیلہ کی برتری جتانے اور ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرنے کی باتیں ایک دوسرے کے درمیان رد و بدل ہوئیں  ،انکا ہم و غم  یہی تھا کہ کسی  بھی صورت میں     حکومت   کی  باگ دوڑ  ہاتھ میں لیں  یا کم از کم    اقتدار   اپنے  حریف  تک نہ پہنچے  اور یہ وہ تاریخی حقیقت ہے، جس کی خبر خود ر  سول پاک  امت کو دے چکے تھے  آپ 
نے فرمایا تھا  ؛ تم لوگ عنقریب حکومت اور اقتدار کے حریص ہونگے اور یہ  حسرت اور ندامت کا باعث ہوگا [19]
ب:  سقیفہ میں  جناب ابو بکر  کی خلافت کو   آیات اور احادیث سے ثابت  نہیں کیا گیا  ،  یہاں سے معلوم ہوتا  ہے کہ قرآن اور سنت میں ان کی خلافت پر کوئی دلیل نہیں ہے ،  کیونکہ   اگر ایسی دلیل ہوتی تو  قرآن  و سنت   کو چھوڑ کر دوسری باتوں   کو بیان 
کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ،  جیساکہ بہت سے    اہل سنت کے علماء نے بھی  اس بات کا اعتراف کیا ہے [20]
ج:  سقیفہ اور سقیفہ کے بعد   خلیفہ  کے انتخاب   کے مسئلہ میں   اجماع نام کی کوئی چیز  واقع نہیں ہوئی  ،  نہ اصحاب  سے مشورہ  لیا گیا اور  نہ  ہی کسی کو آزادی سے بحث اور انتخاب کا موقع فراہم کیا گیا، خصوصا آنحضرت کے خاندان والوں کو سرے سے ہی  اس امر  سے  بے دخل رکھا گیا  اور نہ ہی اس سلسلے میں  کسی کے اعتراض پر کان دھرا،یہاں تک کہ اعتراض کرنے والوں کو قتل تک کی دہمکی  دی گئی .
د: سقیفہ کا واقعہ خلیفہ دوم کی نظر  میں   بغیر کسی سوچ و بچار  کے انجام پانے والا  ایسا  واقعہ تھا  کہ اگر کوئی بعد  میں  اس طریقے سے کسی کو خلیفہ انتخاب کرے تو  خلیفہ  اور  اس کو انتخاب کرنے والے  کا  قتل  واجب اور  ضروری تھا .
غدیر   خم  اور حضرت علی [ع] کی خلافت   :
رسول پاک [ٍٍص] نے آخری حج کے موقع  پرغدیر خم میں حاجیوں کو جمع کر کے ایک تفصیلی خطبہ دیا  اس خطبے    کے ضمن میں آپ نے   لوگوں کو   مختصر مدت میں اپنی رحلت کی خبر دیتے ہوئے فرمایا :  اے لوگو ؛ کیا میں تمھارے نفسوں پر تم لوگوں سے زیادہ با اختیار نہیں ہوں ؟  سب نے ہاں میں جواب دیا، اس کے بعد آپ نے  حضرت علی [ع] کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا ؛ جسکا میں مولا  [سرہرست] ہوں اسکا علی مولا  [سرپرست] ہے [21]
غدیر  خم کے  عظیم اجتماع    میں رسول پاک  کی طرف سے   حضرت  علی [ع] کے بارے میں  انجام دینے والے اس کام   میں  مندرجہ ذیل باتیں   توجہ طلب ہیں۔ 
الف : رسول پاک کا غدیر خم   میں دیا جانے والا  یہ  خطبہ    امت  کے لئے  وصیت  کی مانند  تھا جیساکہ  آپ نے خطبہ سے پہلے لوگوں کو اپنے رحلت  کی خبر  بھی دی ۔
ب : غدیر میں حضرت علی [ع] کی ولایت اوراور جانشینی کا اعلان ہوا ،  رسول پاک  نے پہلے  لوگوں سے اپنی سرپرستی کا اقرار لیا ،» ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم« اس کے بعد فرمایا «من کنت مولاه فهذا علی مولاه » لہذا حدیث کا معنی یہ ہے کہ   حضرت  علی [ع] رسول پاک[ٍٍص]   کے  جانشین  اور  آپ کے بعد لوگوں کا  امام ہیں ۔کیونکہ   » من کنت مولی۔۔« کا معنی کرتے وقت اس سے   پہلے کا  جملہ ،» ألست۔۔« کا ملاحظہ کرنا ضروری ہے   ،  جب رسول پاک اپنی   سرپرستی کا اقرار لے  کے بعد  بلافاصلہ یہ کہے کہ   جس کا میں مولی ہوں  اس کا علی مولی ہے  تو بعد والے جملے میں بھی مولی کا معنی سرپرست ہی لینا ہوگا  ورنہ  خطبہ کے اس حصہ کا   پہلے والے حصے  سے  ربط ٹوٹ جائے گا،  لہذا   اس میں مولی کا معنی دوستی کو قرار دینا پہلے والے جملے کو نظر انداز کرنے کے مترادف  ہے  . 
 جیساکہ رسول خدا  نے دوسری جگہوں پر بھی  اپنے بعد امام علی کی جانشینی کا اعلان فرمایا تھا ؛ مثلا آپ سے نقل ہوا ہے۔ 
 ’’إِنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي [22] فَإِنَّهُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّكُمْ بَعْدِي[23] 
یہاں بھی یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ    نہ کوئی اس حدیث کی سند کو رد کرسکتا ہے نہ   ولی  کے معنی   کو  دوستی  کرسکتا ہے   کیونکہ رسول پاک نے فرمایا ’’هُوَ وَلِيُّكُمْ بَعْدِي‘‘  علی میرے بعد تمہارے  ولی ہیں .
ج : غدیر  خم  اور  اہل بیت[ع]    کی جانشینی  اور رہبریت  دینی  کا اعلان :
 پیغمبر[ٍٍص]  کی مشہور حدیث ، حدیث ثقلین میں  آپ  نے واضح طور پر  اپنے بعد لوگوں کو اہل بیت کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے   فرمایا ؛  میں  تمہارے  درمیان دو گران قدر  چیزیں  {كتاب الله . وعترت  أهل بيت} چھوڑے جارها ہوں ان کی پیروی کرو تو گمراہ نہیں ہونگے[24] 
 اس  حدیث  میں ایک اور  اہم  قابل غور  نکتہ یہ ہے کہ  متعدد   معتبر  روایات   کے مطابق  آنحضرت   نے حدیث ثقلین کو   غدیر خم میں  بھی بیان فرمایا  [25] بعض روایات    کے مطابق  اس  حدیث  کو بیان کرنے کے فورا  بعد  حدیث غدیر کو  بیان فرمایا [26]   لہذا  اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت  نے غدیر  خم میں  اہل بیت میں سے  حضرت  علی ؑ کو  اپنا   پہلا  جانشین  قرار دیا اور حدیث ثقلین کے ذریعہ  سے ان کے بعد  کے جانشوں 
کے بارے میں بھی امت کی  راہنمائی  کی .
جیساکہ  بہت سے معتبر نقلوں کے مطابق آپ نے  غدیر خم سے پہلے امت کو یہ خبر بھی دی کہ آپ کے جانشینوں کی تعداد بارہ ہونگے [27] لہذا خلافت کے حقیقی معنی اور  تعداد   دونوں  اعتبار سے   ائمہ اہل بیت [ع]  کے علاوہ  کوئی  اس حدیث  کا مصداق نہیں بن سکتا ، یہی وجہ ہے کہ        آج تک مذہب اہل بیت  کے پیروکاروں   کے علاوہ  باقی  سب اس  حدیث میں موجود   بارہ جانشینوں کے مصداق  بتانے سے عاجز اور سرگرداں  ہیں 
د:   ان احادیث  میں رسول پاک [ٍٍص] کی جانشینی  کا معنی صرف   اپنے بعد کسی کو حاکم  قرار دینا نہیں ہے  ،یہاں تک کہ  آپ  کے جانشین   کا کام صرف لوگوں پر حکومت کرنا اور حکومت کی باگ ڈور ہاتھ میں لینا ہو ،   بلکہ  یہاں  تمام امور میں   آنحضرت    کی  جانشینی  مراد ہے  ،  کیونکہ  کسی بھی منصب  کے مالک کے چلے جانے کے بعد  کس   دوسرے  کا  اس  کے جانشین ہونے کا مطلب یہ  ہے کہ بعد والا پہلے والے کی   تمام ذمہ داریوں کو انجام دینے کی اہلیت رکھتا ہو. رسول پاک   لوگوں  کے   دینی پیشوا تھے اور  دین کی حفاظت  اور تفسیر آپ کے ذمہ تھا   اور لوگوں کی ذمہ داری  ان امور میں آپ کی طرف رجوع  کرنا  تھا،   لہذا  آپ   کے جانشین میں  بھی یہی معنی مراد  ہونا  چاہے  . جیساکہ  حدیث  ثقلین  میں    قرآن کو    اہل بیت کے ساتھ    ذکر نے کا  مطلب بھی یہی ہے   جس طرح  قرآن کی  پیروی کرنا  لوگوں پر  ضروری ہے  اسی طرح  اہل بیت کی پیروی بھی لوگوں پر ضروری ہے جس طرح قرآن کی  اطاعت باعث نجات ہے   ،   اہل بیت کی پیروی بھی باعث نجات ہے ۔
ہ:  اہل بیت کی  جانشینی  اور ان کی پیروی ضروری  ہونا  صرف  ان کا رسول  پاک  سے قرابتداری  کی  وجہ سے  نہیں  ہے  بلکہ اس وجہ سے ہے  کہ اہل بیت   آنحضرت کے بعد خصوصی طور پر  دین کے محافظ    اور   دین شناسی میں سب سے برتر  ہیں  ، جیساکہ  حدیث ثقلین کے بعض نقلوں میں  یہ جملہ بھی ہے   « ولاتعلّموهم فانّهم اعلم منکم»[28]  یعنی اہل بیت تم سب سے دین شناسی میں برتر ہیں،  انہیں دین سکھانے کے بجاے ان سے دین سیکھیں  ، جیساکہ  اس حدیث   میں   قرآن کے ساتھ اہل بیت  کی اطاعت اور پیروی کو ذکر کرنا اور ان کی پیروی کی صورت میں گمراہ نہ ہونے کہ ضمانت دینا خود اس بات کہ دلیل ہے کہ اہل بیت     سب سے زیادہ  دین شناس  ہیں . جیساکہ  رسول خدا کی ایک اور مشہور حدیث ،  حدیث  «مدینه العلم»   میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ   ہوا ہے  کہ  جس میں آپ نے فرمایا ؛ میں علم کا شہر ہوں اور علی  اس کا دروازہ  ہیں جو اس شہر میں  آنا چاہتا ہے تو  دروازہ سے آئے[29]  لہذا اس اعتبار  سے  رسول پاک کے بعد اہل بیت کی اطاعت اور ان کی جانشینی کا  حکم ان کی دین شناسی  اور دین کے محافظ ہونے کی وجہ سے ہے ،   « هَلْ يَسْتَوِي الَّذينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذينَ لا يَعْلَمُونَ ۔۔۔( الزمر-9)
 
 
امامت اور خلافت کا مفہوم  سقیفہ اور غدیر کے آئنے میں :
جیساکہ بیان  ہوا سقیفہ اور غدیر  حقیقت میں خلافت اور  جانشینی  کے مسئلہ میں  شیعہ اور  سنی   کے درمیان اختلاف کی بنیاد ہے  لہذا ہم اس  مرحلہ میں  شیعہ اور اہل سنت کے نزدیک  خلافت اور جانشینی کا معنی بیان کرتے ہیں . 
شیعوں کے نزدیک خلافت کا مفہوم  :
جیساکہ حدیث غدیر اور ثقلین کے  ضمن میں بیان ہوا کہ  رسول پاک کی جانشینی اور خلافت کا  مطلب صرف کسی کا  حکومت سنبھالنا نہیں ہےکیونکہ پیغمبر  اسلام[ٍٍص]   ہر چیز سے پہلے دین کے ہادی اور پیشوا تھے، دین کی حفاظت اور نشر و اشاعت ، سب سے زیادہ دین کی معرفت رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا آنحضرت کے بنیادی خصوصیات اور ذمہ داریوں میں سے تھا لہذا  آپ کے جانشین کو  بھی انہیں بنیادی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے کیونکہ ان خصوصیات کے بغیر جانشینی بے معنی ہے ۔ مثال کے طور پر جب کسی اہم منصب  پر فائز شخص مرتاجاتا ہے  تو  اس کا جانشین کہنے کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو اس کے وظائف کو انجام دینے کی صلاحیت  رکھتا ہو اور  یہ صرف  اس صورت میں ممکن ہے  کہ  جانشین  اور نائب  اپنے سے پہلے والے کی طرح  خصوصات کا  حامل ہو  ، لہذا  پیغمبر  کا  جانشین وہی ہوسکتا ہے جو   آنحضرت کے بعد اسلامی معاشرے کی ہدایت اور  رہبری،  معارف دین کی تفسیر اور تبیین کا ذمہ دار اور  اس عہدے کی اہلیت  رکھتا ہو ، خواہ  حکومت اس کے ہاتھ میں ہو یا نہ ہو   وہ رسول پاک کا حقیقی جانشین کہلاے گا  .
اہل سنت کے نزدیک خلافت کا مفہوم  :
اہل سنت  کے نزدیک جانشینی کا مطلب صرف کسی کا  حکومت سنبھالنا ہے لہذا  اس   معنی  کے  مطابق  خلیفہ   سے مراد  لوگوں کا  دینی پیشوا  اور ہادی ہونا   نہیں  ہوتا ہے، جیساکہ   تاریخ میں   جو لوگ خلیفہ  بنے ہیں  وہ اہل سنت کے نزدیک  خلافت کے بارے میں اسی تفسیر کی عکاسی ہے  اور  اہل سنت کے علماء  کی  اس سلسلے میں لکھی ہوئی عقائد کی کتابیں خود  اس بات پر بہترین گواہ  ہیں  کہ  ان کے نزدیک خلافت اور جانشینی سے مراد صرف  حاکم اور لوگوں پر حکومت کرنا ہے ،چاہے  طاقت   کا استعمال کر کے اس  حکومت پر   قابض ہوا   ہو  یا کسی اور  طریقے  سے  اس منصب پر آگیا  ہو ، و ہ  خلیفہ کہلاے گا  ،یہاں تک کہ وہ فاسق و فاجر  ہی کیوں نہ  ہو  اسکی اطاعت  کرنا ضروری ہوگا ‏[30]
  خلافت کے دو مفہوم میں موازنہ  :
اگر خلافت کا معنی  صرف کسی کا  حاکم بننا ہو   ، جیساکہ اہل سنت اسی معنی  کو ہی مراد لیتے ہیں ، تو مندرجہ ذیل چیزیں لازم آتی ہیں .
۱:  :جیساکہ بیان ہوا ؛   خلیفہ حقیقی  وہ ہے جو اس مقام کے مالک کی ذمہ داریوں کو  انجام دینے کا اہل اور اس سلسلے میں ضروری خصوصیات کا مالک ہو،لیکن شیعہ مخالفین   ان صفات  کو خلیفہ کے لئے  ضروری نہیں جانتے  لہذا  ایسے شخص کو خلیفہ کہنا ہی درست نہیں ہے.
۲ : جانشینی کا یہ معنی در  حقیقت    مقام نبوت کو ایک ظاہری دنیوی مقام  اور  پیغمبر اکرم[ٍٍص]  کو ایک عام حاکم کی حد تک محدود کرنے کے 
مترادف ہے .
۳: اس معنی کے مطابق ظالم اور جابر لوگ بھی آنحضرت  کے  جانشین قرار  پائے گا  ، لہذا  یزید جیسا  آدمی  بھی پیغمبر کا جانشین اور ایسے  کی خلافت  پر ایمان  سب کے لئے لازمی ہوگا   کیونکہ ان سب نے خلافت کے اسی  معنی کے مطابق لوگوں پر حکومت کی ہے  ، ان میں سے بعض کو  خلیفہ ماننا اور بعض کو نہ ماننا  خود خلافت کے اس مفہوم  کے  بطلان پر دلیل ہے .
۴: خلافت کا اس طرح معنی کرنے کی صورت میں  پیغمبر کی   جانشینی  کے مسئلہ میں بحث کا  محور  دین  نہ ہو  گا ، حکومت  اور  اقتدار کی بحث   کے بغیر  خلافت  ہی بے معنی ہوگا  لہذا  گذشتہ زمانہ میں کسی کی حکومت  سے بحث  اور  ان کے درمیان     اقتدار کی رسی کشی کی بحثیں ہی  خلافت کے مسئلہ میں سب سے نمایان بحث ہوگی ، ، خلافت کے مسئلہ  سے  بحث   کا     مقصد،  دین سے  دفاع  ،  دین کی حفاظت  اور  دین کو  حاصل کرنے کی  سرچشمہ    سے بحث  نہیں  ہوگی .
۵: : اس معنی کے مطابق  خلفاء کی سیرت اور  ان کی تعلیمات  پر  عمل کرنا   دوسروں  کے لئے  ضروری  نہیں  ہوگا ،حتی عملی میدان میں ان کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کرنا ممکن  ہی نہیں  ہوگا کیونکہ جب خلیفہ کے لئے دینی پیشوا   ہونا  اور  اس سلسلے کی ضروری خصوصیات کے  مالک ہونے کی شرط نہ ہو تو   ایسے خلفاء  کی سیرت اور  کردار دوسروں کے لئے نمونہ عمل ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا  بالخصوص  جب  ان  خلفاء میں سے بعض  نے ایک دوسرے کے خلاف   جنگیں لڑی ہو  اور  ان کی سیرت اور افکار  میں شدید اختلاف ہو . لہذا خلافت کا مسئلہ صرف ایک تاریخی مسئلہ بن کر رہ جاے  گا    یہ گذشتہ زمانے کے  شخصیات    کی داستانوں کی مانند ہے ۔ لوگوں کی   زندگی کے امور سے  بیگانہ بحث ہوگی .
6: اس معنی کے مطابق  ، گذشتہ  خلفاء کی خلافت پر ایمان اوراعتقاد  کا سب  پر لازم  ہونا  بالکل ایسا ہے کہ گویا  گذشتہ زمانے کے حکام  اور ملوک  کی حکومت پر ایمان اور اعتقاد کو ضروری قرار دیا جاے .
7: خلافت کے اس  معنی کے مطابق جانشینی کے متعلق  دور  جاہلیت میں موجود   تصور  کو  خلافت  اور جانشینی   کے  بارے میں اسلامی تصور پر    فوقیت  حاصل ہوگی کیونکہ  دور جاہلیت  میں  جانشینی کا تصور  حکومت اور اقتدار سنبھالنا  ہی تھا  جبکہ رسول پاک کی احادیث  اور   رسول پاک کی منزلت   اور ذمہ داری کی  روشنی میں  خلافت کو دینی پیشوائی اور دینی  ہدایت   سے جدا تصور کرنا  ممکن ہی  نہیں ہے  ۔
8: اس صورت میں  یہ کسی بھی منطق اور دلیل سے عاری بات  ہوگی کہ کسی ایسے  شخص کی خلافت پر ایمان رکھنے  کو  بعد والوں کے لئے بھی ضروری قرار دیا جاے   جس کو   گذشتہ زمانے میں دوسروں نے انتخاب کیا ہے   یا خود   طاقت  کے ذریعہ  سے   حکومت پر قابض ہوا ہو .
9: سقیفہ  کے مطابق  خلافت کا عقیدہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول پاک نے اپنی  جانشینی کے مسئلے  میں امت کی رہنمائی  کے  بغیر انہیں  سرگرداں حالت میں چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے  لہذا  اس عقیدے کے مطابق  خلیفہ اول کی خلافت ، خود خلیفہ دوم  کے بقول  ایک ناگہانی انجام پانے والا  عمل  تھا   یہاں  تک کہ خلیفہ دوم کی نظر میں   اس انداز  میں دوبارہ  خلیفہ انتخاب  کرنے  کی صورت میں اس کا  قتل  واجب تھا  ۔
لہذا خلافت کے اس مفہوم   کے قائلین  کو اس سوال کا جواب  دینا چاہے کہ  وہ کس بنا پر  ایسی  خلافت پر ایمان اور اعتقاد کو آئندہ آنے والوں کے لئے بھی ضروری قرار  دے سکتے ہیں   ؟ اور  کس طرح  ایسے خلفاء کی خلافت پر ایمان نہ  رکھنے کو ، گمراہی اور  اسلام سے خارج ہونے کا موجب  قرار دئے سکتے ہیں   ؟ 
 جبکہ خلافت کے بارے   میں  شیعوں کے  عقیدے  کو اگر مان لیا جاے تو مندرجہ ذیل امور لازم آتے ہیں .
1: ،  پیغمبر اکرم[ٍٍص]    کا جانشین   صرف  وہی  ہوگا   جو     آنحضرت کے بعد اسلامی معاشرے کی ہدایت اور  رہبری،  معارف دین کی تفسیر و  تبیین کا ذمہ دار اور  اس کام  کا  اہل  ہو .
2:   اس معنی کے مطابق   خلافت  سے بحث کا بنیادی مقصد  دین    اور لوگوں کی  ہدایت  کا مسئلہ ہوگا، کیونکہ  حقیقت میں اس میں    دین کے محافظ  اور دینی پیشوا  اور ہادی    کی تشخیص  سے  بحث  کی جاتی ہے،  نہ  کہ حکام  کےدرمیان اقتدار کی رسہ کشی سے   بحث  . 
3: . اس بنا  پر   خلافت   کو حکومت کے مساوی قرار دینا  آنحضرت کے واقعی مقام سے بے توجہی کی علامت ہے. آنحضرت کے جانشین کے لئے  حکومت نہ ملنے کا یہ مطلب نہیں ہے  کہ وہ آنحضرت کا حقیقی جانشین نہ ہو  کیونکہ آنحضرت   کی بنیادی ذمہ داری اور   سب سے  اہم خصوصیت  ، دین کا پیشوا ہونا ہے .  لہذا  آنحضرت   بغیر  حکومت  کے مکہ میں بھی نبی تھے ،  مدینہ میں حکومت قائم کرنے کے بعد بھی نبی تھے. لہذا بالکل یہی بات آپ کے جانشین  کے لئے  بھی صحیح  ہے . 
4:  اس معنی کے مطابق کسی کی خلافت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ   وہ لوگوں کا دینی پیشوا ہے ،  لوگوں  پر فرض ہے کہ  دینی  معاملات میں ان کی طرف رجوع کریں  اور دینی  تعلیمات کو ان ہی سے حاصل کریں،  لہذا چاہے  ایمان لانے والا   خودخلیفہ کے دور میں ہو یا نہ ہو  خلیفہ کی  خلافت پر  ایمان  کو  سب کے لئے  ضروری  قرار دینا  صحیح اور معقول    کام ہے ، کیونکہ  خلافت کے اس مفہوم کی بنا  پر   سب کے لئے ضروری ہے کہ خلیفہ کی پیروی کرے اس کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کرے  اس  میں فرق نہیں ہے کہ وہ خلیفہ کا ہمعصر ہو یا نہ ہو۔
5: اس معنی کے مطابق  خلافت  کا مسئلہ صرف ایک تاریخی مسئلہ نہیں ہے لہذا  خلافت کی  بحث، خلفاء کے عصر والوں سے مخصوص نہیں  بحث  نہیں ہے  بلکہ ان کے بعد  والوں  کی زندگی کے امور سے بھی  بالکل اسی طرح مرتبط ہے جس طرح  خود  خلفاء  کے ہمعصر  والوں کی زندگی  سے مرتبط  تھی .
6:  اس معنی کے مطابق  خدا اور رسول کے انتخاب  کے  علاوہ کسی اور کے انتخاب کئے ہوئے حاکم کی حکومت پر ایمان  ضروری نہیں ہے کیونکہ نہ  دینی پیشوا اور  ہادی کسی  عام بادشاہ اور حاکم کی طرح ہے  نہ ان  کا انتخاب    کسی عام حاکم اور بادشاہ  کے انتخاب کی طرح   ہے    لہذا خود مقام نبوت  کی طرح  ، نہ لوگ  خود اپنی طرف سے کسی کو  یہ مقام دئے سکتے ہیں   نہ  اس مقام کے لائق کسی شخص کو   اس مقام  سے  معزول کرسکتے ہیں .
7: خلافت  پر واقعہ غدیر کے مطابق عقیدہ رکھنے   کا مطلب یہ ہے کہ رسول خدا   اپنے بعد امت  کی  رہبری کے مسئلہ میں خاموشی   اور بے  تو جہی کے ساتھ دنیا سے نہیں چلے گئے  ، جیساکہ  معقول اور حق بھی یہی تھا کہ آپ  اپنے جانشینی کے مسئلہ میں امت کی رہنمائی کر کے  دنیا سے رخصت ہو . اسی لئے  غدیر خم میں آپ نے اپنی عنقریب رحلت  کی خبر دے کر لوگوں سے اپنی سرپرستی کا اقرار لینے کے بعد  حضرت علی [ع] کو لوگوں کا سرپرست  قرار دیا   اور  حدیث  ثقلین میں بھی   فرمایا کہ میں قرآن اور اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں   ان دونوں کی پیروی کے نتیجے میں تم لوگ کبھی گمراہ  نہیں ہونگے .  
لہذا خلافت  کے   اس معنی کے مطابق حضرت  علی [ع]  آنحضرت کے بعد   آپ کا   جانشین اور لوگوں کے  ہادی ہیں  اور یہ آنحضرت کے حکم کے عین مطابق  ہے، خلافت کے اس معنی کی روشنی میں   آپ کو حکومت نہ ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ آنحضرت کا جانشین بھی نہ تھے .
 یہاں سے یہ  حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ کیوں حضرت   علی [ع]  اور  باقی ائمہ دوسروں کی عہد  حکومت  میں بھی خود کو  ہی آنحضرت کے حقیقی جانشین سمجھتے  تھے، لیکن دوسروں کی مدد اور رہنمائی بھی کیا کرتے تھے [31]  اور تاریخ بھی  شاہد ہے کہ      اہل بیت [ع]  نے   اس فریضہ کی ادائیگی میں ہر ممکن کوشش کی،لہذا  اہل بیت   اپنے زمانہ کے لوگوں کا  دینی پیشوا اور  آنحضرت کے جانشین  ہونے کے ساتھ ساتھ بعد  میں آنے والوں کا بھی  دینی پیشوا اور ان کے لئے   آنحضرت کا  جانشین ہیں   اور یہ کوئی ایسا مقام نہیں ہے جسے کوئی چھین سکے ، اسی لئے   شیعہ ظاہری حکومت  نہ ملنے   کے باوجود بھی   اہل بیت کو ہی  آنحضرت  کے  حقیقی جانشین اور خلیفہ مانتے ہیں ، ان کی تعلیمات اور  سیرت کی حفاظت   کرتے ہیں ، شیعوں کی معتبر  کتابیں اس    بات پر گواہ ہیں کہ  شیعوں کے پاس ائمہ اہل بیت [ع]  سے منسوب تعلیمات     کا  بہت بڑا   ذخیرہ موجود ہے  جیساکہ نهج‌البلاغه  جو کہ امام علی [ع] کے کلمات کا مجموعہ ہے صرف اس  میں 239 خطبے، 79  خطوط  اور  480 مختصر کلمات موجود ہیں اسی طرح شیعوں کی چہار معتبر کتابوں میں سے صرف   اصول کافی میں  ۱۶۰۰۰ احادیث اہل بیت [ع]  سے  نقل ہوئی ہیں،  جبکہ  شیعہ مخالفین  کی معتبر کتابوں  میں  اپنے خلفاء کی تعلیمات اور  سیرت  بھی    موجود  نہیں ہے  اور   اہل بیت [ع] کی تعلیمات سے  بھی ان  کی اہم تریں کتابیں تقریبا  عاری ہیں ، مثال کے طور پر صحیح بخاری جو  شیعہ مخالفین  کی معتبر  تریں کتاب ہے اس میں  پیغمبر کے سب اہم شاگرد  اور تربیت یافتہ شخصیت یعنی حضرت علی [ع] سے رسول پاک[ٍٍص]  کی ٍصرف    ۲۹  احادیث  نقل ہوئی  ہیں [32] ، امام حسن مجتبی[ع]  سے کوئی   ایک روایت بھی نقل نہیں کی ہے، امام حسین [ٍٍع] سے صرف ایک روایت نقل كي ہے[33]   انہیں  چند  احادیث  کے علاوہ    بخاری نے خود   ان تینوں  اہم شخصیات  کی سیرت  اور تعلیمات  کا ایک نمونہ بھی نقل نہیں کیا ہے .لہذا یہ خلافت کے مسئلہ میں  شیعہ سنی   اختلاف  کا  ہی نتیجہ ہے کیونکہ   اہل سنت  کے نزدیک خلیفہ کی سیرت اور تعلیمات  پر عمل کرنا دوسروں کے لئے واجب نہیں ہے  جبکہ شیعوں کے نزدیک خلیفہ لوگوں کا  دینی پیشوا ہے  ، خلیفہ   کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کرنا  سب پر واجب ہے.
آخری  نکتہ  :
  اس بحث کا  نتیجہ یہ ہے کہ  شیعوں کا اہل سنت کے ساتھ اختلاف کی   بنیادی وجہ  خود خلافت اور جانشینی کے  معنی اور اس کی تفسیر  ہے ،  مصداقی اختلاف اس بنیادی اختلاف کا نتیجہ ہے   اور مفہومی  اختلاف   کی بنیاد  سقیفہ اور غدیر   کے واقعے میں ہی پوشیدہ ہے ، لہذا اس جہت سے دیکھا جاے تو  سقیفہ حقیقت میں غدیر کے مقابلے میں ایک قسم کی بغاوت ہے    جس میں امت کی  رہبری کے مسئلہ میں اسلامی اصولوں    پر ظاہری طور پر   عرب کے جاہلی اصولوں  کو فتح  حاصل ہوئی . خلافت  کو حکومت کے ساتھ مساوی قرار دے کر   دین کو سیاست سے جدا کردیا گیا،  رسول پاک[ٍٍص]   کی  اہم ترین  خصوصیت کو ان کے جانشین کے لئے  ضروری نہ جانتے ہوئے  مقام نبوت   کو بادشاہت کی طرح  ایک ظاہری  مقام کے طور پر    پیش کرنے کی کوشش کی گئی . زمانہ گزرنے اور  مذہبی  تعصبیات  میں شدت پیدا ہونے کے ساتھ  ساتھ  غدیر کے مطابق خلافت پر عقیدہ رکھنے  کو بدعت  اور سقیفہ کے مطابق عقیدہ رکھنا  عین شریعت بن گیا ،  غدیر  کے ماننے والوں  پر  انحراف  اور  کفر    کے فتوے لگائے گئے   اور  سقیفہ  کے حامی ہی سچے مسلمان کہے جانے   لگے  .
 لہذا یہ اسلامی تاریخ میں امت پر گزرنے  والی عجیب  داستانوں میں سے ایک  ہے  .کہ جس میں  رسول پاک   کے حکم  اور خلافت کے  بارے  میں آپ کی بیان کردہ   اصولوں    کے سامنے سر تسلیم خم ہونا  کفر اور بدعت    کی علامت بن جاتی ہے ،   عرب جاہلی اور قبائیلی  تصورات  اور اصولوں   کے مطابق  اعتقاد   رکھنا ، ایمان کی  نشانی بن جاتا ہے . 
 
 

[1][1][1]-    «یامعشر الانصار املکو علیکم امرکم… انتم اهل‌العز والثروه و اولو العدد» 
الامامة والسياسة – ج 1 ص 15-  تاريخ الطبري – ج 2 ص 243 – الكامل في التاريخ ،ج2 ص193 
 -[2] السيرة الحلبية [3 /480] السيرة لابن حبان [ص 419]السيرة النبوية لابن كثير [4 /488] تاريخ الطبري [2 /446]   
[3] – والله لا ترضى العرب أن تؤمركم ونبينا من غيركم ولا تمتنع العرب أن تولي أمرها من كانت النبوة فيهم ولنا بذلك الحجة الظاهرة على من ينازعنا سلطان محمد ونحن أولياؤه وعشيرته/  تاريخ الطبري ،ج2 ص243- الكامل في التاريخ ،ج2 ص 193 
[4]  – [منَّا أمير ومنكم أمير… ولكنّا نخاف أن يليه أقوام قتلنا آباءهم وإخوتهم أنساب الأشراف [1 /250]  الطبقات الكبرى لابن سعد [3 /182]  حياة الصحابة للكاندهلوى [1 /434] تاريخ دمشق [30 /275] 
[5] -وَلَكِنْ مِنَّا الأُمَرَاءُوَمِنْكُمُ الْوُزَرَاء / .مصنف عبد الرزاق [5 /439] الثقات لابن حبان [2 /155] تاريخ الطبري [2 /443] 
[6]  – { يا معشر الانصار ..فإن أبو اعليكم فأجلوهم من بلادكم  و إلا أجلبنا الحرب فيما بيننا وبينكم جذعا -مصنف عبد الرزاق [5 /439] البغدادي- الفصل للوصل المدرج [1 /493]  {وإلا أعدنا }  مسند البزار 10 [1 /301]- فكثر القول حتى كاد ان يكون بينهم حرب فوثب عمر فأخذ بيد أبي بكر -فتح الباري [7 /31] والله وإن شئتم لنقيمها جذعة ۔ السيرة الحلبية [3 /481] 
 – [7] تاريخ الطبري [2 /233] الكامل في التاريخ [2 /189] شرح نهج البلاغة [ ج ،۱ ص 348] فقالت الأنصار أو بعض الأنصار لا نبايع إلا عليا    
-[8] والله لئن وليتها الخزرج عليكم مرة ۔ .. الكامل في التاريخ [1 /360] تاريخ الطبري [2 /458] الامامة والسياسة [1 /26] 
 -[9]   صحيح ابن حبان [2 /150] صحيح البخاري [6 /2503] مسند أحمد بن حنبل [1 /55]  السيرة النبوية لابن كثير [4 /489]     السيرة النبوية لابن هشام [6 /81] مصنف عبد الرزاق [5 /439]  
  –  [10]   خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلاً مِنْهُمْ بَعْدَنَا ، فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لاَ نَرْضَى ، وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَاد// مسند أحمد [1 /56] صحيح البخاري [6 /2503] مصنف عبد الرزاق [5 /439] 
-[11]  إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ۔۔۔ فمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا /  صحيح البخاري [6 /2503]   أنساب الأشراف [1 /252] السيرة الحلبية [3 /490]   السيرة لابن حبان [ص 419] 
 – [12] مصنف ابن أبي شيبة [14 /566] السيرة الحلبية [3 /482]فتح الباري – ابن حجر [7 /32] المسند الجامع [32 /187]  تاريخ ابن خلدون [2 /487]الكامل في التاريخ [3 /444]  نهاية الأرب في فنون الأدب [5 /183]تاريخ الطبري [2 /459] 
اسی طرح نقل ہوا ہے  {فقال عمر قتله الله إنه منافق۔۔ تاريخ الطبري – (2 / 244) 
{ لا تدعه حتى يبايع ۔۔ تاريخ الطبري – (2 / 244)السيرة الحلبية [3 /483]  الكامل في التاريخ [1 /361 
 – [13] لا والله لا يخالفنا أحد الا قتلناه فتح الباري [7 /31] سمط النجوم العوالي – (1 / 375) الاكتفاء بما تضمنه من مغازي [2 /355] سبل الهدى والرشاد [12 /313] 
/-[14] ؛فكان عمر يقول ما هو إلا أن رأيت أسلم فأيقنت بالنصر/ ۔تاريخ الطبري [2 /459] نهاية الأرب   ـ [19 /21]۔۔ 
وجاءت أسلم فبايعت فقوي أبو بكر بهم وبايع الناس بعد/  الكامل في التاريخ [2 /194] شرح نهج البلاغة   [ص 366] 
– [15] نثر الدر [1 /87] السقيفة وفدك [4 /3]  شرح نهج البلاغة – ابن ابي الحديد [ص 210] 
  -[16] خذوا سيفه واضربوا به الحجر ثم أتاهم عمر فأخذهم للبيعة/ 
 تاريخ الطبري [2 /233] الكامل في التاريخ [2 /189] الامامة والسياسة [1 /19] نهاية الأرب في فنون الأدب [19 /23] 
[17][17]  -[17] فانصرفوا  عنها فلم يرجعوا إليها حتى بايعوا لابي بكر- مصنف ابن أبي شيبة [8 /572] الإستيعاب في معرفة الأصحاب [1 /298] الوافي بالوفيات [5 /428] نهاية الأرب   [19 /24] أتى عمر بن الخطاب منزل .. فقال : والله لأحرقن عليكم أو لنخرجن إلى البيعة- تاريخ الطبري [2 /116] 
 – [18] المعجم الكبير [1 /62] شرح نهج البلاغة [ص 5733 تاريخ دمشق [30 /421] الأحاديث المختارة [1 /10] تاريخ الإسلام للإمام الذهبي [3 /118] تاريخ الطبري [2 /619] العقد الفريد [2 /78]مروج الذهب [1 /290] الأموال لابن زنجويه [1 /387] 
[19] – إنكم ستحرصون على الإمارة وستصير حسرةً وندامةً –صحيح البخاري – ج 6 ص2613 – صحيح ابن حبان – ج 10 ص 334 – – مسند أحمد، ج 2  448-  مصنف ابن أبي شيبة – ج12 ص 215)- – السنن الكبرى للنسائي – ج 4 ص 436- 
[20] ۔ شرح المقاصد، ج‏5، ص:   255 ، النص منتف في حق أبي بكر 
فخرالدین رازی، الاربعين في اصول الدين، ج‏2، ص 274: انه لا يمكن اثباتها بالنص، لأنه لو كان منصوصا عليه بالامامة، 
لكان  توقيفه يوم السقيفة إمامة نفسه على البيعة، من أعظم المعاصى و ذلك يقدح فى إمامته    
جیساکہ خود خلیفہ دوم سے نقل ہوا ہے کہ رسول پاک نے کسی کو اپنا چانشین نہیں بنایا تھا ۔۔۔۔ 
فان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف // السنن الكبرى للبيهقي (8/ 149سنن أبى داود (3/ سنن الترمذى (8/ 440،صحيح مسلم / 1/396 
) النووي اسی حدیث کی ضمن میں لکھتا ہے : هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنُصَّ عَلَى خَلِيفَةٍ وَهُوَ إِجْمَاعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَيْرِهِم ۔ شرح على مسلم (12/ 206 
ابن حجر عسقلانی  اس حدیث کی ضمن میں جناب عمر کی طرف سے کسی کو خلیفہ معین نہ کرنے کی وجہ بیان کرتا ہے : 
فأخذ من فعل النبي صلى الله عليه و سلم طرفا وهو ترك التعيين ۔ فتح الباري – ابن حجر (13/ 207 
[21] ۔دیکھیں ۔۔ فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ .. اس حدیث کو نقل کرنے والے اہل سنت کے علماء۔ کی کتابوں کو ملاحظہ کریں۔ 
ابن حجر هیثمی:« أن كثيرا من طرقه صحيح أو حسن[الصواعق المحرقة – ج2 ص 355-ابن حجر عسقلانی: و هو کثیر الطرق جداً و کثیر من اساتید صحّاح وحسان{ فتح الباری، ج7، ص 61 – آلوسی: رواه النسائى بإسناد جيد قوى، رجاله كلهم ثقات- روح المعاني – ج6 ص 194– شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين مسند أحمد بن حنبل [5 /347] « هذا حديث صحيح على شرط مسلم ، المستدرك على الصحيحين للحاكم [10 /381] البانی ، إسناده صحيح على شرط البخاري۔ السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 [4 /249] ابن كثير -هذا إسناد جيد قوي رجاله كلهم ثقات.البداية والنهاية [5 /228]     
[22] –  السنن الكبرى للنسائي [5 /132 ] المعجم الكبير [18 /128]جامع الأصول من أحاديث الرسول   [8 /6492]  : صحيح سنن الترمذي [5 /632] قال شعيب الأرنؤوط : إسناده قوي صحيح ابن حبان [15 /373]   مصنف ابن أبي شيبة [6 /372]مسند أحمد [33 /154] فضائل الصحابة [2 /605]   بيان شيخ الإسلام و هو قوي متين كما ترى ، فلا أدري بعد ذلك وجه تكذيبه للحديثإلا التسرع و المبالغة في الرد على الشيعة ، غفر الله لنا و له – .السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 [5 /222] 
[23] -مسند أحمد بن حنبل [5 /356] غاية المقصد فى زوائد المسند [2 /1350] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد [9 /172] السنن الكبرى للنسائي [5 /133] -السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 [5 /222]الصواعق المحرقة [1 /109] 
[24] ۔«إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي..كتاب الله . وعترتي أهل بيتي – 
{قال الشيخ الألباني : صحيح – سنن الترمذي [5 /663] تعليق شعيب الأرنؤوط : حديث صحيح “مسند أحمد بن حنبل [3 /59] صحيحة-الصواعق المحرقة [2 /653]المعجم الكبير [3 /65] 
[25]- مجمع الزوائد ومنبع الفوائد – ج9 ص259-كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال – ج1 ص 187- السنة لابن أبي عاصم – ج2 ص644  – المعجم الكبير – ج5 ص 166- المستدرك   – ج3 ص118-سنس الکبری ج ۵ ص۴۵ ح ۸١۴۸ 
[26] -«يا أيها الناس إني تارك فيكم أمرين لن تضلوا إن اتبعتموهما و هما كتاب الله و أهل بيتي عترتي ثم قال،  أتعلمون إني أولى بالمؤمنين من أنفسهم ثلاث مرات قالوا : نعم فقال رسول الله «ص» : من كنت مولاه فعلي مولاه  المستدرك على الصحيحين – ج3 ص118 – السنة لابن أبي عاصم – ج2 ص644 
[27]- « لاَ يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً۔ »   صحيح مسلم – ج6 ص4 –    مسند أحمد – ج5 ص 89- المعجم الكبير – ج2 ص208- 
  ۔  المعجم الکبیر، ج5، ص 166، ح4971   /[28] 
[29]-  «انا مدينة العلم وعلى بابها فمن أراد البيت فليات الباب» المستدرك على الصحيحين، ج3 ص 137- المعجم الكبير – ج11 ص65 – تاريخ بغداد، ج2 ص 377- المحب الطبري ،الرياض النضرة – ج 1 ص265 
[30] ۔ النووي    وَقَالَ جَمَاهِير أَهْل السُّنَّة مِنْ الْفُقَهَاء وَالْمُحَدِّثِينَ وَالْمُتَكَلِّمِينَ : لَا يَنْعَزِل بِالْفِسْقِ وَالظُّلْم وَتَعْطِيل الْحُقُوق ، ۔ شرح النووي على مسلم [6 /314] 
/ صاحب العقائد النسفية :و لا ينعزل الامام بالفسق) شرح العقائد النسفية ص 100  
/ تفتازاني و لا ينعزل الإمام بالفسق شرح المقاصد  ج‏5 ص 233    
  جیساکہ اس سلسلے میں بہت سے شواہد موجود ہیں ہم اختصار کی خاطر انہیں نقل نہیں کرتے ۔ . [31] 
[32]- ابن‌جوزی، تلقیح فهوم اهل‌الاثر، ص287 
مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸. [33] 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *