تازہ ترین

غدیر کا تاریخی واقعہ اور اس کی اہمیت

اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ملکوں کی قومیں، اسلامی ولایت کا نعرہ لگانے لگيں تو اسلامی امہ کے بہت سے مسائل اور اسلامی ملکوں کی بہت سی مشکلات ختم ہو جائيں گی ۔ غدیر کا تاریخی واقعہ [1] تاریخ اسلام میں دلچسپی رکھنے والوں کو غدیر کے واقعے کے بارے میں یہ […]

شئیر
45 بازدید
مطالب کا کوڈ: 394

اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ملکوں کی قومیں، اسلامی ولایت کا نعرہ لگانے لگيں تو اسلامی امہ کے بہت سے مسائل اور اسلامی ملکوں کی بہت سی مشکلات ختم ہو جائيں گی ۔

غدیر کا تاریخی واقعہ [1]

تاریخ اسلام میں دلچسپی رکھنے والوں کو غدیر کے واقعے کے بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ غدیر کا واقعہ، ایک مسلم الثبوت واقعہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح کا شک و شبہہ نہيں ہے۔ اس واقعے کو صرف شیعوں نے نقل نہيں کیا ہے بلکہ سنی محدثین نے بھی، چاہے وہ ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہوں یا وسطی دور سے یا پھر اس کے بعد کے ادوار سے، ان سب نے اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ یعنی اسی واقعے کو نقل کیا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری حج [2] کے موقع پر غدیر خم میں رونما ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کے فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے اس عظیم کاروان کے کچھ لوگ آگے بڑھ چکے تھے، آنحضرت نے کچھ لوگوں کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا۔ وہاں ایک عظیم اجتماع عمل میں آ گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نوے ہزار کچھ دیگر کا قول ہے کہ ایک لاکھ اور بعض مورخین نے وہاں جمع ہوئے حاجیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتائی لکھی ہے۔ اس تپتے صحراء میں عرب کے باشندے بھی جن میں بہت سے صحراء کی گرمی کے عادی تھی، تمازت آفتاب کے باعث ریت پر کھڑے نہیں ہو پا رہے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے پیروں کے نیچے اپنی عبائيں بچھا لیں تاکہ زمین پر پیر رکھنا ممکن ہو سکے۔ اس بات کا ذکر اہل سنت کی کتابوں میں بھی کیا گیا ہے۔ ایسے عالم میں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ سے اٹھے، امیر المومنین علیہ السلام کو اٹھایا اور لوگوں کے سامنے ہاتھوں پر اٹھاکر کہا: «من كنت مولاه فهذا على مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه». البتہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی آنحضرت نے کچھ باتيں ارشاد فرمائیں تاہم سب سے اہم حصہ یہی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حصے میں، ولایت کے مسئلے کو، یعنی اسلامی حکومت کے مسئلے کو باضابطہ اور واضح طور پر پیش کر رہے ہيں اور امیر المومنین علیہ السلام کو اس کی اہلیت رکھنے والے شخص کی شکل میں متعارف کرا رہے ہيں۔ اسے برادران اہل سنت نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں، ایک دو کتابوں میں نہيں بلکہ دسیوں کتابوں میں، نقل کیا ہے ۔ مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں ان سب کا ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔

 

عید غدیر کی اہمیت

 

بلا شبہ غدیر کے دن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اسلامی روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ اس دن کی عظمت، عید فطر اور عید الاضحی سے بھی زيادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اسلام کی ان دو عظیم عیدوں کی اہمیت کم ہوتی ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہيں کہ عید غدیر میں ایک اعلی مفہوم مضمر ہے۔ اسلامی روایتوں کے مطابق سب سے زيادہ با عظمت اس عید کی اہمیت اسی میں ہے کہ اس سے ولایت کا مفہوم جڑا ہوا ہے۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، انبیائے الہی اور تمام عظیم رہنماؤں نے جو جد و جہد کی ہے اس کا مقصد الہی ولایت کا قیام تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کے دوران دین کے لئے کئے جانے والی کوشوں کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا ہے: «ليخرج الناس من عبادت العبيد الى عبادت الله و من ولايت العبيد الى ولايت الله.» مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو بندوں یا غلاموں کی سرپرستی سے نکال کر اللہ کی سرپرستی میں داخل کیا جائے۔ تاہم عید غدیر کے معاملے میں یہ بات بھی ہے کہ ولایت و سرپرستی کے مسئلے میں دو اہم و بنیادی دائرے ہيں: ایک تو خود انسان اور اس کا نفس ہے۔ یعنی انسان میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ الہی ارادے کو اپنے وجود اور اپنے نفس کا فرمانروا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور خود کو اللہ تعالی کی سرپرستی کے دائرے میں داخل کرنے کی اہلیت اس میں موجود ہو۔ یہ در اصل وہ اولین اور بنیادی قدم ہے کہ جس کو نظر انداز کر دیا گیا تو دوسرا قدم بھی اٹھانا ممکن نہيں ہوگا۔ دوسرا قدم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اللہ کی سرپرستی کے سائے تلے لے آئے۔ یعنی سماج اللہ کی ولایت و سرپرستی میں آگے بڑھے اور کسی بھی طرح کی دوسری ولایت اور لگاؤ، مال و دولت، قوم و قبیلے، طاقت، آداب و رسومات اور غلط رسومات سے لگاؤ، اللہ کی ولایت کے راستے کی رکاوٹ نہ بنے اور نہ ہی اللہ کی ولایت و سرپرستی کے سامنے ان چیزوں کو کسی طرح کی اہمیت دی جائے ۔

 

آج کے دن جس (ہستی) کا تعارف کرایا گیا، یعنی مولائے متقیان حضرت امیر المومنین علیہ السلام، وہ ولایت کے دونوں دائروں اور شعبوں میں ایک مثالیہ اور منفرد شخصیت ہيں۔ اپنے نفس پر قابو اور اس پر لگام کسنے کے معاملے میں بھی کہ جو ایک بینادی عنصر ہے اور الہی ولایت کے لئے مثالیہ اور نمونہ عمل پیش کرنے کے معاملے میں بھی انہوں نے تاریخ میں ایسی مثال پیش کی ہے کہ الہی ولایت کی معرفت حاصل کرنے والے ہر شخص کے لئے ان کی کارکردگی، ایک کامل نمونہ عمل بن گئی۔

 

مثالی انتظامیہ کی اہمیت

 

غدیر کا واقعہ اور پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے امیر المومنین علیہ السلام کا ولی امر اور اسلامی امہ کے سرپرست کے طور پر تعین بہت بڑا اور معنی خیز واقعہ ہے۔ یہ در اصل سماج کے نظم و نسق میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے کردار ادا کرنا ہے۔ اٹھارہ ذی الحجہ سن دس ہجری قمری کو رونما ہونے والے اس واقعے کے معنی یہ ہیں کہ اسلام سماج کے نظم و نسق اور انتظام کو اہمیت دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کا پہلو، اسلامی نظام اور اسلامی سماج میں یونہی چھوڑ دیا گیا ہے اور اسے نظرانداز کر دیا گیا۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ کسی بھی سماج کا نظم و نسق، سماجی امور میں سب سے زیادہ موثر عنصر ہوتا ہے۔ امیرالمومنین کا تعین بھی کہ جو اصحاب پیغمبر میں تقوی و پرہیزگاری، علم و معرفت، شجاعت و دلیری، قربانی و ایثار اور عدل و انصاف کے مظہر ہيں، اس نظام کے خد و خال واضح کرتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نظم و نسق کے شعبے میں اسلام کی نظر میں جو چیزیں اہم ہیں وہ یہی ہيں۔ جو لوگ ، حضرت امیر المومنین کو خلیفہ بلا فصل نہيں بھی مانتے انہیں بھی آپ کے علم و زہد و تقوے و شجاعت میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہيں ہے۔ اس پر تمام مسلمانوں اور حضرت امیر المومنین کو پہچاننے والوں کا اتفاق ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے اسلامی سماج کو، اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میں، اپنے مطلوبہ ہدف کے طور پر کس قسم کے نظم و نسق اور حکومت و انتظامیہ کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔

 

غدیر کے عیاں و پنہاں حقائق

 

غدیر کے واقعے میں، بہت سے حقائق مضمر ہيں۔ معاملہ یہ ہے کہ اس دور میں نئے نئے تشکیل پانے والے اسلامی سماج میں جس کی تشکیل کو تقریبا دس برس کا عرصہ گزرا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکومت اور امامت کے معاملے کو، اس کے وسیع مفہوم و معانی کے ساتھ، طے کرنا چاہا اور حج سے واپسی کے وقت غدیر خم میں، امیر المومنین کو اپنا جانشین معین کرنا تھا۔ اس پورے عمل کی یہی ظاہری صورت حال بھی کافی اہمیت کی حامل ہے اور کسی بھی انقلابی سماج کے اہل تحقیق اور اہل فکر و نظر حضرات کے لئے ایک الہی تدبیر ہے لیکن اس ظاہری صورت کے پيچھے بہت بڑے حقائق بھی پوشیدہ ہیں کہ اگر اسلامی امت اور اسلامی سماج ان نکات پر توجہ دے تو زندگی کی راہ و روش واضح ہو جائے گي۔ بنیادی طور پر اگر غدیر کے معاملے میں تمام مسلمان، چاہے وہ شیعہ ہوں کہ جو اس مسئلے کو امامت و ولایت کا معاملہ سمجھتے ہيں اور چاہے غیر شیعہ ہوں کہ جو اصل واقعہ کو قبول کرتے ہيں لیکن اس سے امامت و ولایت کا مفہوم اخذ نہيں کرتے، ان نکات پر زیادہ توجہ دیں جو غدیر کے واقعے میں مضمر ہیں تو مسلمانوں کے مفادات اور مصلحتوں پر اس کے بہت سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

 

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کو پیش کرنے اور حکومت کے لئے ان کے تعین سے حکومت کے معیار اور اقدار واضح ہو گئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے، غدیر کے واقعے میں، ایسی شخصیت کو مسلمانوں اور تاریخ کے سامنے پیش کیا جس میں اسلامی اقدار اپنی مکمل صورت میں جلوہ افروز تھیں۔ یعنی ایمان کامل کی حامل ایک ایسی ہستی جس میں تقوی و پرہیزگاری، دین کی راہ میں جذبہ قربانی، دنیوی چمک دمک سے بے رغبتی اپنی کامل ترین شکل میں موجود تھی اور جسے تمام اسلامی میدانوں، خطروں کے وقت، علم و دانش، قضاوت اور اس جیسے دیگر شعبوں میں آزمایا جا چکا تھا۔ یعنی حضرت امیر المومنین کو ، اسلامی حاکم ، امام اور ولی کی حیثیت سے پیش کئے جانے سے پوری تاریخ کے تمام مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اسلامی حاکم کو، اس سمت میں قدم بڑھانے والا اور اس مکتب سے تعلق رکھنے والا اور اس نمونہ عمل سے شباہت رکھنے والا ہونا چاہئے۔ اس طرح اسلامی تاریخ میں جو لوگ ان اقدار سے محروم رہے، جن میں اسلامی تدبیر، اسلامی عمل، اسلامی جہاد، سخاوت، وسیع القلبی، خدا کے بندوں کے سامنے تواضع اور وہ خصوصیات جن کے امیر المومین حامل تھے، عنقا ہوں تو وہ لوگ حکومت کے اہل نہیں ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے سامنے یہ معیار رکھے ہیں اور یہ ایسا سبق ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔

 

غدیر کے واقعے سے ایک اور بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے، خلافت کے شروعاتی چند برسوں میں ہی یہ واضح کر دیا کہ ان کی نظر میں ترجیح، الہی و اسلامی عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یعنی انصاف، یعنی اس مقصد کی تکمیل جسے قرآن مجید نے، انبیاء کی بعثت، آسمانی کتابوں اور شریعتوں کے نزول کی وجہ قرار دی ہے: «ليقوم الناس بالقسط.» الہی عدل و انصاف کو قائم کرنا، وہ عدل و انصاف جس کو اسلامی احکام میں بیان کیا گیا ہے، انصاف کو یقینی بنانے کا سب سے بہتر راستہ ہے۔ یہی امیر المومنین کی نظر میں اولین ترجیح تھی۔

 

غدیر میں ولایت کا مفہوم

 

غدیر کے موضوع میں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے حکم کی پیروی اور قرآن مجید کے واضح حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک اہم ترین فریضہ ادا کیا: «و ان لم تفعل فما بلغت رسالته.» امیر المومنین کو ولایت و خلافت کے عہدے پر متعین کرنا اتنا اہم ہے کہ اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو کار رسالت انجام ہی نہیں دیا! یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری نہيں کی کیونکہ خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ اس کام کو کرو، یا اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کام کو انجام نہ دینے کی صورت میں، پیغمبر اعظم کی رسالت ہی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور اس کے ستون متزلزل ہو جائيں گے۔ اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے، گویا اصلی ذمہ داری پوری ہی نہيں کی گئ! اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس کے یہ بھی معنی ہوں اور اگر یہ معنی ہیں تو پھر یہ معاملہ کافی اہم ہو جاتا ہے یعنی حکومت کی تشکیل، ولایت و ملک کے نظم و نسق کا معاملہ، دین کے اصل ستونوں میں سے ہے اور عظیم پیغمبر اسی لئے اس امر کی خاطر اتنا اہتمام کرتے ہيں اور اپنی اس ذمہ داری کو لوگوں کے سامنے کچھ اس طرح سے ادا کرتے ہیں کہ شاید انہوں نے کسی بھی واجب پر اس طرح سے عمل نہ کیا ہو! نہ نماز، نہ زکات، نہ روزہ اور نہ جہاد۔ مختلف قبیلوں اور سماجی طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کو مکہ اور مدینے کے درمیان ایک چوراہے پر ایک اہم کام کے لئے اکٹھا کرتے ہيں اور پھر اس امر کا اعلان کرتے ہيں کہ جس کی خبریں پورے عالم اسلام میں پھیل گئيں کہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نیا پیغام پہنچایا ہے۔

 

غدیر میں امامت کا مفہوم

 

امامت کے معنی، کمزوریوں، خواہشات، نخوت و غرور اور حرص و طمع کے نتیجے میں سامنے آنے والے مختلف عالمی سماجی نظاموں کے بر خلاف سماج کے نظم و نسق کے لئے مثالی نظام کی مکمل تشکیل ہے۔ اسلام امامت کی روش، بشریت کے سامنے پیش کرتا ہے؛ یعنی ایسا انسان جس کا دل ہدایت الہی سے سرشار و فیضیاب ہوا ہو، جو دینی امور کو سمجھتا اور پہچانتا ہو، یعنی صحیح راستے کے انتخاب کی صلاحیت رکھتا ہو، عملدر آمد کی طاقت بھی اس میں ہو، یعنی «يا يحيى خذ الكتاب بقوة» اس کے ساتھ ہی اس کے لئے اپنی ذاتی زندگی اور خواہشات کو کوئی اہمیت نہ ہو لیکن لوگوں کی خواہشات، زندگی اور سعادت و کامرانی اس کے لئے سب کچھ ہو جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے پانچ سال سے بھی کم حکومت کے دوران اس کی عملی تصویر پیش کی۔ آپ غور فرمائيں کہ امیر المومنین کی پانچ برس سے بھی کم مدت کی حکومت، ایک مثالی اور بشریت کے لئے نا قابل فراموش دور کی شکل میں صدیوں سے تاريخ کے صفحات پر دمک رہی ہے۔ یہ غدیر کے واقعے کی حقیقی تفسیر اور اس کے اصل معنی ہيں۔

 

غدیر اور اسلامی اتحاد

 

غدیر کا واقعہ اتحاد کا باعث بھی ہو سکتا ہے؛ شاید یہ بات کچھ عجیب لگے لیکن حقیقت یہی ہے۔ خود غدیر کے معاملے میں، شیعوں کے عقیدتی پہلو سے ہٹ کر کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے اعلان سے عبارت ہے اور جو غدیر کی حديث سے بھی ثابت ہے، ولایت و سرپرستی کا موضوع بھی پیش کیا گيا ہے اور اس میں شیعہ و سنی کی کوئی بات نہيں ہے۔

 

اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ملکوں کی قومیں، اسلامی ولایت کا نعرہ لگانے لگيں تو اسلامی امہ کے بہت سے مسائل اور اسلامی ملکوں کی بہت سی مشکلات ختم ہو جائيں گی ۔ 

 

==============

 

[1] غدیر خم مکہ و مدینہ کے درمیان واقع ایک مقام ہے جہا‎ں سے حجاج کرام کا گذر ہوتا ہے۔ اس مقام پر چونکہ ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا تھا اس لئے اسے غدیر خم کہا جانے لگا۔ خم کے معنی تالاب کے ہیں۔

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر تمام حاجیوں کو اسی مقام پر جمع کیا اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کو اللہ کے حکم کے مطابق اپنے وصی و جانشین کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ اس موقع پر پیغمبر اسلام نے جو خطبہ دیا اس کا ایک جملہ “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” شیعہ سنی دونوں کی نظر میں معتبر ہے۔

 

[2] اپنی زندگی کے آخری سال دسویں ہجری قمری کے ذیقعدہ مہینے کا آغاز ہوتے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام مسلمان نشین خطوں اور عرب کے تمام مسلمان قبائل کو یہ اطلاع دی کہ اس مہینے میں وہ مکہ مکرمہ تشریف لے جائیں گے اور فریضہ حج ادا کریں گے۔ نتیجے میں مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع عمل میں آیا۔ اس حج کو حجۃ الوداع کا نام دیا گيا۔

 

منبع : خامنہ ای ڈاٹ آی آر

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *