غزہ کا نوحہ
اے کائنات کے پالنے والے، اے رحیم و کریم اللہ! اب تو ہی ان مظلوموں کی صدائے ھل من کو سن لے۔ اے اللہ! وہ معصوم کلیاں جو اسرائیل کے بے رحم ہتھیاروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں اور ان کلیوں کی بے بس ماؤں کے پارہ پارہ کلیجے تجھ سے فریاد کرتے ہیں کہ تیرے سوا ہماری کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے فریاد کرتے ہیں کہ اس دنیا میں اگرچہ بہت سے انسانیت کے دعویدار موجود ہیں، بہت سے لوگ پرچم اسلام کو اٹھائے دنیا میں گشت کرتے ہیں۔ اسلامی خلافتیں قائم کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی ان مظلومین کی مدد کرنے والا نہیں۔ اے اللہ! تو اپنے مظلوم بندوں پر رحم فرما اور غیب سے ان مظلومین کی مدد فرما۔
جو مظالم اب تک اسرائیل مظلوم فلسطینیوں پر ڈھا چکا ہے، انہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان مظالم کو بیان کرنا الفاظ کے بس میں نہیں۔ نوع انسانی کی کوئی قوم اس قدر وحشی ہوسکتی ہے میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم کمال ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ کسی بھی قسم کا عالمی دباؤ ہمیں حملوں سے نہیں روک سکتا۔ دوسری جانب اس وزیراعظم کی قوم کے افراد سدیروت کی پہاڑیوں پر بیٹھ کر اسرائیلی بمباری کے مناظر دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں۔ اسی قوم کی ایک رکن قومی اسمبلی کہتی ہے کہ فلسطینی بچے سانپ کے بچے ہیں، ان کو قتل کرنا مستقبل کے سانپوں کو مارنا ہے۔ اے اللہ! انسانیت سے عاری اس قوم کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے۔؟
اے اللہ! اس میں شک نہیں کہ جہاں یہ انسانیت سے عاری قوم تیرے عذاب کی مستحق ہے، وہیں وہ لوگ بھی تیرے عذاب کے مستحق ہیں جو اس قوم کے مددگار اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ وہ اقوام جو ان وحشی درندوں سے کاروبار کرتی ہیں، وہ اقوام جو ان وحشی درندوں کو ہتھیار فروخت کرتی ہیں، وہ اقوام جو ان وحشی درندوں کو سفارتی اور سیاسی تحفظ فراہم کرتی ہیں اور وہ اقوام جو ان درندوں کے خلاف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، سب اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ اے اللہ! جس طرح تو نے اپنے گھر کو ابرہہ کے لشکر سے بچایا اور طاقت کے نشے میں چور اس لشکر کو نشان عبرت بنایا، آج ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ اپنی بے کس مخلوق کو بھی اسی طرح ان وحشی درندوں کے لشکر سے بچا۔
اے اللہ! ماہ مبارک ہے، برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے لیکن تیرے نام لیوا آگ اور بارود کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک جانب سمندر کی پہنایاں ہیں تو دوسری جانب دشمن کا لشکر۔ اے اللہ! نہ زمین جائے پناہ ہے اور نہ آسمان میں کوئی راہ فرار۔ اس زمین کے باسیوں کا فقط یہ جرم ہے کہ وہ تیرے نبی رحمت کی امت ہیں اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بے کس لوگ عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں لیکن طاقتور دشمن ان سے عزت، افتخار اور دین نام کی ہر شے چھین لینا چاہتا ہے۔ یہ دشمن خوف، وحشت، درندگی اور طاقت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ تیرے بندے مجبور ہو کر اس فرعون کی غلامی اختیار کر لیں۔
اے اللہ! اس وقت دنیا میں موجود انسانی حقوق کی تنظیمیں اس وحشی درندے کے سامنے بے بس ہیں یا جان بوجھ کر حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اے اللہ! وہ مسلمان حاکم جنہیں تو نے اختیار اور وسائل دیئے ہیں، ان غیر مسلم تنظیموں سے مختلف نہیں ہیں۔ چھ روز گزرنے کے بعد آج عرب لیگ کو یہ خیال آیا ہے کہ ہمیں فلسطین کے معاملے پر ایک ہنگامی کانفرنس منعقد کرنی چاہیے۔ یہ ہنگامی کانفرنس آج یا کل نہیں بلکہ سوموار کو منعقد ہونا طے پائی ہے۔ مغربی ممالک سے لاکھوں ڈالر کا کاروبار کرنے والے عرب حکمران اس سارے منظر کو ایک تماشائی کی مانند دیکھ رہے ہیں۔ آج چھ روز کے بعد بھی ہمیں کسی بھی عرب ملک سے اسرائیل کی مذمت میں کوئی آواز سنائی نہیں دی۔
اے اللہ! تو گواہ ہے کہ ایسا بھی نہیں کہ یہ عرب حکمران بالکل گونگے، بہرے ہیں یا ان کے بوسیدہ اجسام میں حرکت کی کوئی سکت نہیں۔ عالم انسانیت گواہ ہے کہ 2011ء میں اٹھنے والی بحرینی تحریک کو کچلنے کے لیے خلیجی ممالک کی افواج چند دنوں میں بحرین میں داخل ہوگئیں۔ اسی طرح ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہ عرب حکمران اور ان کے کاسہ لیس علماء شام میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے میدان عمل میں اترے۔ مجاہدین کو جہاد کی تشویق دینے سے لے کر ان کو جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی تک سب انہی عرب حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔ آج آل سعود، آل خلیفہ، آل ثانی اور آل نہیان خطے میں موجود دیگر ہمنواؤں کے ساتھ مل کر حکومتوں کو ناکام کرنے اورکامیاب بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہ عرب شیوخ مصر میں اخوان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ہر دوسری قوت سے زیادہ بے چین تھے۔ انہی نے جنرل سیسی کو اربوں ڈالر کی امداد دی، تاکہ یہ جرنیل اخوان کو کچل کر مصر میں عرب شیوخ کی مرضی کی حکومت قائم کر سکے۔ ان عرب حکمرانوں نے اخوان المسلمین، حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے میں ایک لمحے کا بھی توقف نہ کیا۔
لیکن آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے واقعی یہ حکومتیں سو سالہ ضعیفہ ہیں، جس میں کسی بھی واقعہ کے خلاف ردعمل کی کوئی صلاحیت نہیں۔ نہ تو ان کی آنکھ کوئی ظلم ہوتا دیکھ رہی ہے اور نہ ہی ان کے کان کسی آہ و بکا کو سن رہے ہیں۔ بوڑھی عورتوں کی مانند عرب لیگ کے تندور پر ان حکمرانوں کے وزرائے خارجہ اکٹھے ہوں گے اور سنی سنائی کی بنیاد پر ایک مذمتی قرارداد جاری کریں گے۔ اے اللہ! امت مسلمہ کو جلد از جلد ان خائن حکمرانوں سے نجات عطا فرما۔ وہ لوگ جو ان کے خائن ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے اقتدار کی راہیں ہموار کر رہے ہیں، کا طرز عمل بھی ہمارے سامنے ہے۔ القاعدہ، داعش اور اس فکر کے حامل گروہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہمارے تمام تر مسائل کی بنیادی وجہ یہ خائن حکمران ہیں، لیکن عملی طور پر ان گروہوں نے بھی مسلمان ممالک کے وسائل کو تقسیم کرکے لوٹنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ دعویٰ یہ کہ ہم دنیا میں خلافت اسلامیہ قائم کریں گے، جس کے تحت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی کا زریں دور لوٹ آئے گا، لیکن عملی طور پر چھری مسلمان کے گلے پر ہی چلتی ہے۔ آج کہاں ہیں خلافت اسلامیہ کے دعویدار۔ کیا انہیں غزہ میں ہونے والے مظالم نظر نہیں آتے؟ کیا انہیں یاد نہیں کہ مسلمانوں کے خلیفہ ثانی کہا کرتے تھے کہ میری سلطنت میں اگر کوئی کتا بھی بھوکا ہو تو میں اپنے آپ کو قصور وار سمجھوں گا۔
یہ گروہ اپنے آپ کو ’’کسر الحدود‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں، کیا سرحدوں کو توڑنے کا نظریہ فقط مسلمان ممالک پر ہی لاگو ہوتا ہے۔ کہاں ہے جیش الاحرار، کہاں ہے جبہۃ النصرہ، کہاں ہیں انصار الاسلام، کہاں ہے الدولۃ اسلامیہ فی العراق والشام، کہاں ہے خلیفۃ المسلمین اور اس کی بیعت کرنے والے۔ کہاں ہیں اسلام کا نام لے کر مسلم ممالک میں فساد برپا کرنے والے؟ غیر مسلح مسلمانوں کو اپنی تلواروں سے تہ تیغ کرنے والے۔ کہاں ہیں عرب کے بہادر بیٹے، کیا انہیں فلسطین کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی۔ کہاں ہیں اہلسنت کہلانے والے اور اہلسنت کے تحفظ کا علم بلند کرنے والے۔ اے اللہ! اپنے دین کی حفاظت فرما۔ اپنے دین کے ولی کو اذن ظہور دے؟ (آمین)
تحریر: سید اسد عباس تقوی
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید