تازہ ترین

غلو اور غالیان ائمہ معصومین علیہم السلام کی نظر میں/تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی 

غلو کا لغوی معنی حد سے تجاوز کرنا ہے یعنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں حد سے تجاوز کرتےہوئے اس کی صفت بیان کرنا ۔حقیقت میں غلو کا لغوی معنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں مبالغہ کرنا ہے  جبکہ شرعی اصطلاح میں غلو سے مراد انبیاءو اولیاء کے بارے میں حد […]

شئیر
23 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2715

غلو کا لغوی معنی حد سے تجاوز کرنا ہے یعنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں حد سے تجاوز کرتےہوئے اس کی صفت بیان کرنا ۔حقیقت میں غلو کا لغوی معنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں مبالغہ کرنا ہے  جبکہ شرعی اصطلاح میں غلو سے مراد انبیاءو اولیاء کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ہوئےان کی ربوبیت اور الوہیت کا عقیدہ رکھنا ہے ۔ تاریخ  میں بہت سارے افراد ایسےگزرے ہیں جنہوں نے  انبیاء و اولیاء کے بارے میں حد سے تجاوزکیا ہے جنہیں غالی،یا غالیان کہاجاتا ہے ۔

قرآن کریم اہل کتاب کو حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے سے منع کرتا ہےچنانچہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے :{ يَأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُواْ فىِ دِينِكُمْ وَ لَا تَقُولُواْ عَلىَ اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ  إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسىَ ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُه}۱اے اہل کتاب !اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور خدا کے بارے میں حق بات کےسوا کچھ نہ کہو ، بے شک {مسیح} عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں۔

اہل کتاب {عیسائی}حضرت عیسی علیہ السلام کے حق میں غلو کرتے ہوئےان کی الوہیت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس سلسلےمیں فرماتاہے :{ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَم}۲وہ لوگ یقینا کافر ہو گئے جو کہتے ہیں:مسیح بن مریم ہی خدا ہیں ۔ حالانکہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی دوسرے انبیاء کی طرح  نبی تھے جو ہر گز مقام الوہیت پر فائز نہیں تھےچنانچہ قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے :{ مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُل}۳مسیح بن مریم تو صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ 

دین میں غلو کرنے سے ایک طرف انسان کامقام ربوبیت اور الوہیت  کی حد تک پہنچ جاتا ہے تودوسری طرف سے مقام الوہیت اور ربوبیت   کا معیار اس حد تک نیچے آ جاتا ہے کہ انسان خدا  کےبارے  میں جسمانی صفات کا قائل ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے قرآن کریم پہلےاہل کتاب کو خدا کےبارے میں ناحق کہنے سے منع کرتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{لاتقولوا علی الله الا الحق}خدا کے بارے میں حق بات کےسوا کچھ نہ کہو۔  اس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ان کے عقیدے کو مردود قرار دیتا ہے اور اس کے بعدفرماتاہے :{انما المسیح عیسی بن مریم رسول الله و کلمته}بے شک {مسیح} عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں۔

 بنابریں دین میں غلو کرنا  تشبیہ اورتجسیم کا  بھی باعث بنتا ہے لیکن اس کے برعکس تشبیہ اورتجسیم کے قائل ہونے کا لازمہ ہمیشہ غلو کرنا نہیں  یعنی تشبیہ اورتجسیم کا قائل ہونا غلو کا سبب نہیں بنتا ہے ۔ البتہ خدا کے بارے میں حلول کا عقیدہ رکھنا دین میں غلو کا باعث بنتا ہے  کیونکہ خدا کا کسی انسانی جسم میں حلول کرنےیا کسی کے جسم میں سماجا نے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ شخص بھی الوہیت کے مقام پر فائز ہے ۔{جبکہ یہ خلاف توحید ہے }۔

دین اسلام کے اعتقادی مسائل میں جتنے انحرافات ظاہر ہوئےہیں ان میں سے ایک غلو اور غالیوں کا ظہور ہے ۔غالی وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حضرت علیعلیہ السلام اور دوسرے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی الوہیت اور خداوند متعال کا ان کے جسم میں حلول کرنے  کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔تاریخی واقعات کے مطابق  دین اسلام میں سب سے زیادہ غلو حضرت علیعلیہ السلام کے بارے میں واقع ہواہے ۔

شیخ مفیدغالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں :غلاۃ  دین اسلام کا دکھاوا کرنے والے لوگ ہیں جنہوں نے  امیر المومنین علیہ السلام  اور ان کی اولاد پاک کے سلسلے میں الوہیت اور نبوت کی نسبت دی ۔یہ افرادگمراہ اور کافرتھے ۔امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے قتل کا حکم دیا تھاجبکہ دوسرے ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے بھی انہیں کافر اور دین سے خارج قرار دیا تھا ۔۴

غالیوں کے کچھ عقائد جو غلو شمار ہوتے ہیں حسب ذیل ہیں :

1۔پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،امیر المومنین علیہ السلام یا ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں سےکسی ایک کی الوہیت اور ربوبیت کا عقیدہ رکھنا ۔

2۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیر المومنین علیہ السلام یا ائمہ اہل بیت علیہم السلام کوکائنات کی تدبیر اور چلانے کا اختیار حاصل ہے ۔{یعنی خلقت اوررزق کو ان سے متعلق جاننا }

3۔امیر المومنین علیہ السلام، ائمہ اہل بیت علیہم السلام  اور امت اسلامی میں سےکسی   ایک کی نبوت کا  اعتقاد رکھنا ۔

4۔کسی کے بارےمیں وحی اور الہام کے بغیر علم غیب جاننے کا عقیدہ رکھنا ۔

5۔یہ عقیدہ رکھنا کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام  کی شناخت، معرفت اور ان کی محبت ، انسان کو خدا کی عبادت سے بے نیاز کر کے ہر قسم کےشرعی فرائض سے مستغنی کر دیتی ہے ۔5

شیخ مفید   غلو کے علائم کے بارے میں لکھتےہیں : غلو ثابت ہونےکے لئے یہی کافی ہے کہ کوئی ائمہ معصومین علیہم السلام کے حدوث کی نفی کرے اور ان کی الوہیت نیز ان کے قدیم ہونے کا عقیدہ رکھے ۔وہ مفوضہ اور غالیوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں :مفوضہ بھی غالیوں کا ایک گروہ ہے  اور ان دونوں فرقوں میں فرق صرف یہ ہے کہ مفوضہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو حادث اور مخلوق قرار دیتے ہیں  لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے  کہ خداوند متعال نے انہیں خلق فرمانے کے بعد کائنات کو چلانے اورموت و حیات نیز رزق تقسیم کرنے کا اختیار انہیں کے سپرد کیا ہے ۔ 6

ائمہ اہل بیت علیہم السلامنے ہمیشہ سختی  سے غالیوں کی مخالفت کی ہے  چنانچہ اس سلسلے میں بے شمار احادیث نقل ہوئی ہیں علامہ مجلسی   نے بحار الانوار کی پچیسویں جلد میں اس بارے میں ایک سو{100} احادیث کو نقل کیا ہے  ۔ جن میں سے بعض احادیث بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :

1۔امام جعفر صادق علیہ السلام{اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتےہوئے }فرماتے ہیں :{احذرواعلی شبابکم الغلاة لا یفسدوهم فان الغلاةشرخلق الله ،یصغرون عظمة الله و یدعون الربوبیة لعباد الله …}۷ اپنے جوانوں کو غالیوں سےبچاوٴ  ایسا نہ ہو کہ وہ ان کے دینی اعتقادات کو فاسد کریں ،حقیقت میں غالی بدترین لوگ ہیں ۔یہ  عظمت خدا کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے ربوبیت اور الوہیت کے دعویدار ہیں ۔

2۔حضرت علیعلیہ السلام خدا کی بارگاہ میں غالیوں سے برائت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{اللهم إنی بریء من الغلاة کبرائة عیسی بن مریم من النصاری،اللهم اخذلهم أبدا و لا تنصر منهم أحدا}۸خدایا میں غلو کرنے والوں سے ایسے ہی بیزار ہوں جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نصاری سے بیزارتھے ۔خدایا ان کوہمیشہ ذلیل و خوار کر اور ان میں سے کسی کی  بھی نصرت نہ فرما ۔

3۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{لعن الله عبد الله بن سباء انه ادعی الربوبیة فی امیرالمومنین و کان و الله امیرالمومنین عبدا لله طائعا،الویل لمن کذب علینا،وان قوما یقولون فینا مالا نقول فی انفسنا، نبرءالی الله منهم، نبرء الی الله منهم}۹خدا عبد اللہ بن سباء پر لعنت کرےوہ امیر المومنین علیہ السلام کی ربوبیت کا قائل تھا جبکہ خدا کی قسم آپ ؑخدا کے عبادت گزار اور خالص بندے تھے، ہم پر بہتان باندھنے والوں پر وائے ہو ایک گروہ ہمارے بارے میں  وہ کہتا ہے جوخودہم اپنے بارے میں نہیں کہتے ۔ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں،ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔

4۔امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس جب غالیوں کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپ ؑنے فرمایا:ان کے ساتھ ہر قسم کی نشست وبرخاست سےپرہیز کرو۔

5۔ آپ ؑدوسرے مقام پر فرماتے ہیں :خدا کی لعنت ہو اس شخص  پر جو ہمیں پیغمبر اور نبی سمجھتاہے ۔۱۰

6۔امام رضا علیہ السلام فرماتےہیں :غلاۃ   کافراور مفوضہ مشرک ہیں جو کوئی بھی ان کے ساتھ رفت و آمد رکھے ،کھائے پیئے،صلہ رحمی کرے ،شادی کرے یا ان کے مال کو اپنے پاس  امانت رکھے یا ان کی باتوں کی تصدیق کرے یا صرف کسی ایک کلمےسے ہی ان کی مدد کرے ،وہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہم اہل بیت علیہم السلام کی ولایت سے خارج ہوجائے گا ۔۱۱

شیعہ متکلمین نے بھی  ہمیشہ غالیوں کو کافر اور مشرک قرار دیتےہوئے ان سے برائت کا اظہار کیا ہے ۔یہاں ہم بعض شیعہ متکلمین کے نظریات بیان کرتے ہیں:

الف:ابو اسحاق ابراہیم بن نوبخت غالیوں کے عقائد کو  رد کرتےہوئےلکھتےہیں:{وقول الغلاة یبطل اصله، استحالته کون الباری تعالی جسما،ومعجزات امیرالمومنین معارضة بمعجزات موسی وعیسیعلیهم السلام}۱۲خداوند متعال کے لئے جسم ہونا محال ہے اس لئے غالیوں کا نظریہ سرے سےباطل ہوجاتاہے ۔ان لوگوں نے امیر المومنینعلیہ السلام کے معجزات کو آپ کی الوہیت اور ربوبیت کے لئے دلیل قرار دیا ہے  جبکہ یہ دلیل باطل ہے کیونکہ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلامبھی صاحب معجزہ تھے لیکن وہ مقام الوہیت اور ربوبیت پر فائز نہیں تھے ۔

ب: شیخ صدوق    لکھتے ہیں :غلاۃ  اور مفوضہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ  یہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں ۔۱۳

ج:شیخ مفیدغالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں :غلاۃ دین اسلام کا دکھاوا کرنے والے لوگ ہیں جنہوں نے  امیر المومنین علیہ السلام اور ان کی اولاد پاک کی طرف  الوہیت او رنبوت کی نسبت دی تھی ۔یہ افرادگمراہ اور کافر  تھے ۔امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے قتل کا حکم دیا تھااور دوسرے ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے بھی انہیں کافر اور دین سے خارج قرار دیا تھا ۔۱۴

د: علامہ حلی اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں :غالیوں کا ایک گروہ امیر المومنین علیہ السلام کی الوہیت اوردوسرا گروہ آپ ؑکی نبوت کا قائل تھا حالانکہ یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ یہ بات  ثابت ہےکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمخاتم الرسل ہیں اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ   خدا صاحب جسم نہیں ہے اور خدا  کا  کسی  شئی میں حلول کرنا اور کسی کےجسم میں سما جانامحال ہے ۔۱۵

ھ: علامہ مجلسی غلو کے مصادیق ذکر کرنے کے بعد لکھتےہیں : مذکورہ موارد میں سےکسی ایک  کے بارے میں بھی عقیدہ رکھنا کفر اور دین سے خارج ہونے کا باعث بنتا ہے ۔دلائل عقلی اور آیات و روایات بھی اس بات  پر دلالت کرتے ہیں۔  علاوہ ازیں ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے بھی غالیوں سے برائت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے کافر ہونےاور ان کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ۔بنابریں اگر کسی حدیث میں اس کے خلاف کوئی مطلب موجود ہو تو اسے تاویل کرنا چاہیے اور اگر وہ قابل تاویل نہ ہو توحتما وہ غالیوں کی من گھڑت باتیں ہیں ۔۱۶علامہ مجلسی  لکھتے ہیں : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ انہیں خدا کے نام سےپکارا جائے یا عبادت و  پرستش میں انہیں خدا کا شریک قرار دیا جائے یا خلقت اور رزق کو ان سے متعلق جانیں ،یا یہ  اعتقاد پیدا کریں کہ خدا  ان میں حلول کر گیا ہے یا کہیں کہ وہ خدا کی طرف سے الہام کے بغیر علم غیب سے آگاہ ہیں ،یا ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو پیغمبر جانیں ،یا تصور کریں کہ ان کی شناخت اور معرفت ہمیں خدا کی عبادت سے بےنیاز کر کے ہر قسم کے فرائض الہی  سے مستغنی کر دیتی ہے ۔

علاوہ ازیں شیعوں کی کلامی اور فقہی کتابوں میں بھی اس سلسلے میں صراحت کے ساتھ مطالب موجود ہیں جن کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

حوالہ جات:

۱۔نساء،171۔

۲۔مائدۃ،72۔

۳۔مائدۃ،75۔

۴۔التبصیر فی الدین،ص147۔

5۔بحار الانوار ،ج25،ص346۔

6۔تصحیح الاعتقاد،ص109۔

۷۔بحار الانوار ج25،ص265۔امالی شیخ طوسی۔

۸۔ایضاً۔

۹۔بحار الانوار ،ص 286۔رجال کشی ،ج6،ص 324 ،شمارہ 174۔

۱۰۔ایضاً 296۔

۱۱۔بحار الانوار ج25،ص273۔عیون اخبارالرضا{ع}۔

۱۲۔انوار الملکوت فی شرح الیاقوت ،ص 201۔

۱۳۔الاعتقادات،ص 71۔

۱۴۔تصحیح الاعتقاد ،ص 109۔

۱۵۔انوار الملکوت،ص 202۔

۱۶۔بحار الانوار ،ج25،ص364۔

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *