تازہ ترین

فدک آج کہاں واقع ہے؟

ترجمہ و تحقیق: افتخار علی جعفری   دختر رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ زہرا(س) کی شہادت کے ایام ہیں۔ حضرت زہرا(س) کا اسم گرامی ذہن میں آتے ہیں ان پر پڑے مصائب بھی انسان کے ذہن میں آ جاتے ہیں۔ اور جب مصائب کا تذکرہ آتا ہے باغ فدک کا آپ سے چھینا جانا اور […]

شئیر
60 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1528

ترجمہ و تحقیق: افتخار علی جعفری

 

دختر رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ زہرا(س) کی شہادت کے ایام ہیں۔ حضرت زہرا(س) کا اسم گرامی ذہن میں آتے ہیں ان پر پڑے مصائب بھی انسان کے ذہن میں آ جاتے ہیں۔ اور جب مصائب کا تذکرہ آتا ہے باغ فدک کا آپ سے چھینا جانا اور حضرت زہرا(س) کا اپنا حق مانگنے کے لئے دربار خلیفہ میں جانا بھی انسان کے ذہن میں آ جاتا ہے اور انسان کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ باغ فدک کے بارے میں زیادہ جانکاری حاصل کرے جس کی خاطر دختر رسول دربار خلیفہ تک گئیں۔ اسی وجہ سے ایام فاطمیہ میں باغ فدک کے بارے میں ایک مختصر تحقیق کی گئی ہے جو خاندان اہلبیت(ع) کے چاہنے والوں کی نذر کی جاتی ہے۔

فدک ایک گاؤں کا نام ہے جو مدیںہ النبی سے ۲۶۰ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور درختوں سے لبریز تھا یہ گاؤں، خیبر کا حصہ تھا اور مدینہ کے یہودی اس میں زندگی گزارتے تھے اس میں کاشت کرتے تھے اور اس کے باغات سے اپنی روزی روٹی کماتے تھے یہ علاقہ ایک ذرخیز اور بہترین درآمد والا علاقہ تھا۔

اس کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام نے جنگ خیبر میں خیبر کا قلعہ فتح کیا یہودیوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے صلح کرنے کی خاطر فدک کا علاقہ پیغمبر اکرم (ص) کو بخش دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے مبارک ہاتھوں سے فدک میں خرمے کے درخت لگائے اور اس کے قرآن کریم کے حکم سے اسے اپنی لخت جگر فاطمہ زہرا(س) کو ہدیہ دے دیا(۱)۔

پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد، خلیفہ اول نے اس پر قبضہ کر لیا اور حضرت زہرا(س) کے خادموں وہاں سے نکال کر اپنے مزدور اس می کام پر لگا دئے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خلیفہ اول سے فدک حاصل کرنے کے مقدمہ دائر کیا اور اپنا حق واپس لینے کی بھرپور کوشش کی لیکن انہیں واپس نہ دیا گیا۔ خلیفہ ثانی نے اپنے دور حکومت میں اسے یہودیوں کو لوٹا دیا۔ خلیفہ ثالث نے دوبارہ یہودیوں سے واپس کر کے مروان اور دیگر رشتہ داروں کو بخش دیا بنی امیہ کے خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت تک یہ فدک بنی امیہ کے پاس رہا۔

عمر بن عبد العزیز نے فدک کو حضرت فاطمہ زہرا(س) کی اولاد کو واپس کر دیا لیکن یزید بن عبد الملک نے دوبارہ اولاد فاطمہ(س) سے اسے چھین لیا۔ عباسی خلیفہ سفاح نے اسے عبد اللہ محض کو دیا لیکن منصور دوانیقی نے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا مہدی عباسی نے اسے ایک بار پھر اولاد زہرا(س) کو واپس کر دیا لیکن موسی بن مہدی نے پھر چھین لیا۔ آخر کار مامون نے اپنے سرکاری حکم کے مطابق فدک کو اولاد زہرا(س) کو واپس دے دیا۔

لیکن مامون کے بعد متوسل نے اس باغ کو پھر اولاد حضرت زہرا(س) سے چھین کر اسے عمر بازیار کو بخش دیا عبداللہ بن عمر بازیار نے فدک میں لگائے ہوئے ان درختوں کو کاٹ دیا جو پیغمبر اکرم نے اپنے دست ہائے مبارک سے لگائے ہوئے تھے درخت کاٹنے کے بعد اس کے ہاتھ شل ہو گئے (۲)

بنی عباس کی حکومت کا سلسلہ ختم ہونے اور عثمانی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پورا عربستان عثمانی حکومت کے زیر قبضہ آ گیا اور اس علاقے کی اہمیت بھی پیغمبر اکرم(ص) کے لگائے ہوئے درختوں کے کاٹ دئے جانے کے بعد ختم ہو گئی اور تاریخ میں بھی اس کے بعد کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔

موجودہ دور میں فدک کا علاقہ کہاں واقع ہے؟ اس کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اس وقت فدک کو حرہ ہتیم یا الحویط کے نام سے جانا جاتا ہے جو حرہ خیبر کے مشرق میں واقع ہے۔

مدینہ شناسی کے مولف لکھتے ہیں کہ سرزمین فدک کے بارے میں کافی تلاش و جستجو میں نے کی آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس وقت فدک کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے اس سرزمین کو حائط کے نام سے جانا جاتا ہے جو امارات حائل کے تابع ہے الحلیفہ کے مغرب اور ضرغد کے جنوب اور خیبر کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔

مولف کا کہنا ہے کہ ان ایام میں جب میں فدک کی تلاش میں تھا جو موجودہ حائط ہے ۱۹۷۵ عیسوی میں یہ علاقہ ۲۱ دیہاتوں پر مشتمل تھا جن میں گیارہ ہزار کی آبادی تھی جبکہ خود الحائط کی مرکز سرزمین میں ایک ہزار چار سو سے زیادہ لوگ نہیں رہتے تھے۔ لیکن یہ زمین کجھور کے درختوں سے بھری اور کھیتی باڑی کے لیے آمادہ سر زمین تھی جبکہ اس کے اطراف کی دیگر تمام زمینیں خشک اور بنجر تھیں۔ حائط (فدک) موجودہ دور میں اپنی سابقہ اہمیت کو کھو چکا ہے مدینہ کے کسی راستے میں بھی واقع نہیں ہے اس لیے متروک ہو چکا ہے(۳)

بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یہ علاقہ اس وقت وہاں کے رہنے والوں کے زیر استعمال ہے اور بطور عمومی  سعودی حکومت ہی کے زیر قبضہ ہے اور اس کی درآمد سے بھی اس سرزمین پر ساکن لوگ ہی استفادہ کرتے ہیں اور کوئی خاص شخص یا کوئی خاص حکومت اس کی مالک نہیں ہے۔

حوالہ جات

۱؛ اسراء/۲۶؛ حشر/۶ و ۷؛ و بلاذری، فتوح البلدان، قم، منشورات الارومیه، ۱۴۰۴، ص ۴۲ ـ ۴۷ و ص ۳۶ ـ ۴۲؛ و مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین، قم، انتشارات امین، ۱۴۱۸، ص ۴۶ و ۵۱.

۲: فالی، سید احمد، فدک، قم، مجمع الذخائر اسلامی، چاپ دوم، ۷۸، ص ۱۸۳.

۳ نجفی، محمد باقر، مدینه شناسی، آلمان، ناشر سفارت ایران در بن، ۱۳۷۵، ص ۳۳۵ ـ ۳۴۰؛ و محمد محمد حسن شراب، المعالم الاثیره فی السنه و السیره، دمشق، دار العلم، ۱۴۱۱، ص ۲۱۵.

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *