تازہ ترین

فریب خوردہ جوانوں کو تکفیریوں سے الگ کرنے کی ضرورت:آیۃ اللہ مکارم شیرازی

آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے “علماء اسلام کے نقطۂ نظر سے انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں پر عالمی کانفرنس” میں اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا:میں آپ سبھی کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس کانفرنس میں حاضر ہونے پر آپ سبھی کا شکر گزار ہوں۔

شئیر
23 بازدید
مطالب کا کوڈ: 920

آج کل کے حالات میں ضروری ہے کہ اس منحرف گروہ کے محرکات کا جائزہ لیا جائے اور انکے افکار و نظریات کو سمجھ کر انکی جڑوں کو خشک کر دیا جائے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیری نے عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں تکفیریوں کے ذریعہ انجام پانے والے ہولناک جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:آخر کب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے انکا تماشا دیکھتے رہیں؟
انہوں نے فرمایا کہ آج ہم یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ عالم اسلام کی اہم ترین مشکلات کے سلسلہ میں گفتگو اور مشورہ کریں اور تکفیریوں کے منحوس اعمال کے لئے کوئی مناسب راہ حل تلاش کریں۔
عالم تشیع کے مرجع تقلید نے کہا:اسلام حتیٰ غیروں کے لئے بھی محبت و مہربانی کا مذہب ہے۔ ہمیں دنیا والوں کے لئے یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ تکفیریوں کے اعمال  و کردار کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اور جو فریب خوردہ جوان طبقہ ان سے جا ملا ہے اسے ان سے جدا کرنے کی ضرورت ہے۔اس تکفیری گروہ سے فوجی مقابلہ لازم اور ضروری ہے مگر کافی نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اسلام کے ذریعہ انکی جڑوں کو خشک کر دیا جائے۔
اسکے بعد آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے حاضرین کو عربی زبان میں خطاب کیا جس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:
ہمارے تین اہم اہداف و مقاصد ہیں:
پہلا ہدف یہ ہے کہ ہم اس بات کا اعلان کریں کہ تمام علماء اسلام کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ تکفیری کے اعمال و کردار کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
دوسرا ہدف یہ ہے کہ وہ جوان جو ان تکفیریوں سے جا ملے ہیں انہیں آتش جہنم سے نجات دلائی جائے۔اس لئے کہ ارشاد خداوندی ہے کہ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے وہ ہمیشہ جھنم میں رہے گا۔
تیسرا ہدف یہ ہے کہ آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کی جائے اور ایک دوسرے کے مشورہ سے کوئی ایسا راہ حل تلاش کیا جائے جس کے ذریعہ امت مسلمہ اس بحران سے اپنے کو نجات دلا سکے۔
ہم چاہیں گے کہ اس مہم میں تین بنیادی اصولوں کا خیال رکھا جائے اور ان حدود سے آگے نہ بڑھا جائے:
پہلے یہ کہ انتہا پسند دینی اور مختلف سیاسی مسائل سے پرہیز
دوسرے یہ کہ مذھبی اختلافات کو ہوا دینے والے مسائل حتیٰ ایک کلمہ سے بھی پرہیز
تمام اسلامی مذاہب کا احترام
اسکے بعد تکفیری تحریکوں سے پیدا ہونے والے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے کہا: افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تکفیری گروہوں نے دشمنان اسلام کے لئے یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اسلام کو ظلم، تشدد اور بربریت کے حامی کے طور پر پہچنوائیں۔
انہوں نے “داعش” کے ذریعہ استعمال ہونے والے نام “عراق و شام میں اسلامی حکومت” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:داعش نہ تو کوئی “حکومت” ہے اور نہ ہی”اسلامی” ہے۔ لیکن اس کے باوجود دشمنان اسلام مسلسل اس نام کو دھراتے ہیں تاکہ اسلام کو بدنام کر سکیں۔
آج یہ صورتحال ہے کہ قرآنی تعلیمات کو بھلا دئے جانے کے بعد بکثرت ایسے جرائم انجام دئے جا رہے ہیں کہ جس سے اسلام کی تصویر تاریک دکھائی دیتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس قسم کے انحرافات کی بنیادوں کو پہچانیں۔ مذہب سلفیت سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے تشدد اور بربریت کی مذمت کی ہے ۔یہاں تک کے سعودی عرف کے مفتی اعظم نے بھی دو فتوے صادر کئے ہیں۔ پہلے فتوے میں انہوں نے کہا ہے کہ انتہا پسندانہ اور دھشتگدانہ افکار و نظریات کہ جن کی بنا پر زمین پر فساد کھڑا ہوتا ہے، انکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس بات میں انہوں نے صراحت  سے بیان کیا ہے کہ اس قسم کے نظریات رکھنے والے جہنمی ہیں۔
دوسرے فتوے میں بھی انہوں نے پورے زور و شور کے ساتھ عاشور کے دن “احساء” نامی جگہ پر ہونے والے دھشتگردانہ حملوں کی مذمت کی ہے اور ساتھ ہی ان حملوں میں ملوث رہنے والوں کے لئے قصاص کا مطالبہ کیاہے۔اس قسم کے فتوے واقعا سراہنے کے قابل ہیں۔
آیۃ اللہ مکارم نے کہا:ہمیں شدت پسندوں کے شر سے اسلام کو محفوظ بنانا ہوگا۔
یہاں پر ضروری ہے کہ میں پاپ اور ویٹیکن کے اظہار خیال کی طرف بھی اشارہ کروں۔ میں نے انہیں ایک خط لکھ کر پوری صراحت سے اس بات کا اعلان کیا کہ اس قسم کے افعال حرام ہیں اور آپکو صرف مسلمانوں کے خلاف کئے جانے والے حملوں کو حرام قرار دینے پر اکتفا نہیں کرنی چاہئے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ مسلمانوں اور عیسائیوں سے یکساں طور پر دفاع کریں۔
جواب میں پاپ نے بھی ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے اس موقف کے شکر گزار ہیں۔
شیعوں کے مرجع تقلید نےاپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تکفیریوں کی بنیادی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:
۱۔ اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنا: تکفیریوں نے قرآن و سنت کے درک و فہم کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور انکا کہنا ہے کہ شرک، ایمان، بدعت اور توسل کا وہی مفہوم ہے جو ہم کہتے ہیں۔ جبکہ بہت سے علمائے اہل سنت بھی ان کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ خود یہ علماء بھی انکی نظر میں کافر شمار کئے جاتے ہیں!
بہتر تھا کہ وہ لوگ آیۂ “فاسئلوا اھل الذکر ان  کنتم لا تعلمون” پر عمل کرتے اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بزرگ علماء سے مشورہ لیتے تاکہ نجات پاجاتے۔
۲۔ بعض آیات پر ایمان اور بعض دیگر کا انکار: یہ لوگ بعض ان آیات پر ایمان رکھتے ہیں جو انکے نظریات سے میل کھاتی ہیں جبکہ بعض دیگر آیات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
آیۃ اللہ مکارم نے فرمایا: تکفیری، قرآنی آیات سے غلط اور ایک طرفہ معانی کو سمجھتے ہوئے تمام ان لوگوں کو کافر شمار کرتے ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر مقدس افراد سے مدد طلب کریں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ ایسے افراد اور دور جاہلیت کے کفار کے درمیان نہ صرف یہ کہ کسی فرق کے قائل نہیں ہوتے بلکہ توسل کرنے والوں کو دور جاہلیت کے کفار سے بھی بدتر قرار دیتے ہیں۔
جبکہ قرآنی آیات میں شرک اور ایمان کا مسئلہ بالکل واضح ہے اور مشرک اسے کہا جاتا ہے جو اللہ کے لئے شریک قائل ہو اور دوسروں کو اللہ کے مرتبہ پر تصور کرتا ہو۔
ہمارا ایک سوال ہے کہ کیا ایسا کوئی مسلمان ہے جو اولیاء خدا کو اللہ کا شریک قرار دیتا ہو؟یا خدا کے برابر قرار دیتا ہو؟یا پھر ذات اور ماہیت کے اعتبار سے خدا جیسا سمجھتا ہو؟کیا تمام مسلمان اس بات پر عقیدہ نہیں رکھتے کہ اولیاء خدا کے تمام معجزات اور انکی کرامات سب اللہ کی مشیت کے زیر سایہ ہیں؟
انہوں نے جناب عیسیٰ کے ذریعہ انجام پانے والے معجزات کی طرف اشادہ کرتے ہوئے فرمایا:کیا حضرت عیسیٰ مشرک تھے؟ کیا حضرت عیسیٰ کے اصحاب اور حواری جنہوں نے جناب عیسیٰ سے معجزہ کی درخواست کی سب کافر ہوگئے تھے؟ کیا ان لوگوں کا خون بہانا مباح تھا؟
اگر یہ تکفیری لوگ اُس زمانہ میں بھی ہوتے تب بھی جناب عیسیٰ کے سلسلہ میں یہی کرتے اور یہی کہتے۔کیونکہ یہ لوگ اس بات کی طرف متوجہ نہیں کہ یہ تمام امور اذن خدا سے انجام پاتے ہیں۔
آیۃ اللہ مکارم نے توحید کے صحیح عقیدہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: شفاعت اور توسل صرف اور صرف اذن خدا کے ساتھ ممکن ہیں اور اولیاء خدا بغیر مشیت الٰہی کوئی کام انجام نہیں دیتے۔
ہم بہت ہی آہ و کرب کے عالم میں اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ تکفیریوں نے اسلام اور قرآن سے بہت ناچیز درک کیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حقیقی علماء سے وہ دور رہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ قرآنی آیات کی غلط تفسیر کرتے ہیں۔
ہم عام طور پر صرف مشکلات کا ذکر کرتے ہیں اور درد کا ذکر کرتے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ راہ حل اور علاج کو تلاش کیا جائے تاکہ بے شمار مشکلات کاسرچشمہ قرار پانے والے افکار و نظریات کا خاتمہ کیا جاسکے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم ہو سکے۔
قرآن کریم نے تفرقہ ایجاد کرنے کو بھی شرک کا ایک مصداق قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:مشرکین اور وہ لوگ جو تفرقہ کا شکار ہو گئے ،ان میں سے مت ہو جانا۔
اس سال کو تشدد اور انتہا پسندی سے عاری سال کا نام دیا گیا ہے،مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور دنیا والوں کے اموال و ناموس پر دست درازی کی جارہی ہے۔ ادھر مغربی اور عربی ممالک صرف فوجی راہ حل پر اکتفا کئے ہوئے ہیں جبکہ یہ کافی نہیں ہے اور ضرورت ہے کہ فکری طور پر محرکات کو درک کر کے راہ حال پیش کیا جائے۔
آیۃ اللہ  مکارم نے اپنی تقریر کے اختتام پر تکفیریوں کے وجود میں لانے والے اسباب و محرکات پر غور و خوض کرنے کے لئے یہ تجویز رکھی کہ اس کانفرنس کو ایک مستقل محکمہ تشکیل دیا جائے جسکا  مرکزی دفتر عالم اسلام کے کسی ایک اھم شھر میں ہو۔علماء اسلام اسکی رکنیت قبول کریں اور ان تکفیری اور انتہاپسندانہ سرگرمیوں کے خاتمہ پر تحقیقات میں مصروف ہوں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *