تازہ ترین

فضائلِ حضرت علی علیہ السلام علمائے اھلِ سنت کی نظر میں

  ابن عباس
 ابن عباس نے اپنی عمر کے آخری لمحوں میں سربلند کرکے یہ کھا:

“اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَ تَقَرَّبُ اِلَیْکَ بِحُبِّ الشَّیْخِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب”۔

“پروردگارا! میں علی کی دوستی اورمحبت کا واسطہ دے کر تیری قربت چاھتا ھوں”۔

شئیر
51 بازدید
مطالب کا کوڈ: 17

 ابن ابی الحدید معتزلی

 “میں اُس شخص کے بارے میں کیا کھوں کہ جس پر تمام فضائلِ انسانی کی انتھاھوجاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقے اُسے اپنا سمجھتے ہیں۔ وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے اور تمام فضیلتوں کا سرچشمہ ہے۔ وہ پھلوں میں کامیاب ترین شخص تھا اور بعد میں آنے والوں میں اگر کوئی فضیلت دیکھی گئی تو تحقیق کرنے پر معلوم ھوا کہ وہ خوبی بھی وھاں سے ھی شروع ھوئی۔ پس چاھئے کہ خوبیاں اُسی پر اکتفا کریں اور اُس جیسے کی اقتداء کریں”۔(ابن ابی الحدید،شرح نھج البلاغہ، جلد۱1،صفحہ۱۶)
ابن ابی الحدید اپنے قصیدہ عینیہ جو کہ اُس کے سات قصیدوں میں بھترین قصیدہ ہے اور وہ اس کو سونے کے پانی کے ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کے روضے پر لکھنے میں سالھا سال مصروف رھا، اُس میں کھتے ہیں:
“میں نے اُس برق سے جس نے رات کی تاریکی کو پھاڑ دیا، مخاطب ھوکرکھا:
 اے برق! اگر تو سرزمین نجف میں نھیں تو بتا کھاں ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ تجھ میں کون کونسی ھستیاں پوشیدہ ہیں؟
موسیٰ بن عمران، عیسیٰ مسیح اور پیغمبر اسلام اس میں ہیں اورنورِ خدائے ذوالجلال تجھ میں ہے بلکہ جو بھی چشمِ بینا رکھتا ہے، آئے اور دیکھ لے۔
خدا کی قسم! اگر علی نہ ھوتے تو نہ تو زمین ھوتی اور نہ ھی اُس پر کوئی مرد ھوتا۔
قیامت کے روز ھمارا حساب کتاب اُسی کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا۔قیامت کے ھولناک دن وھی ھمارا ایک مددگار ھوگا۔

 یا علی !میں آپ ھی کی خاطر مکتب اعتزال کو بڑا سمجھتا ھوں اور آپ ھی کی خاطر سب شیعوں کو دوست رکھتا ھوں”۔(ابن ابی الحدید، کتاب”علی علیہ السلام،چھرہ درخشانِ اسلام”،حصہ پیش لفظ، صفحہ۹)۔

 وہ مزید کھتے ہیں:

“یا علی ! اگر آپ میں آثارِ حدث موجود نہ ھوتے تو میں کھتا کہ آپ ھی بخشنے والے اور جانداروں کی روح کو قبض کرنے والے ہیں۔ اگر طبعی موت آپ پر اثر انداز نہ ھوتی تو میں کھتا کہ آپ ھی سب کے روزی رساں ہیں اور آپ ھی جس کو کم یا زیادہ چاھیں، بخشیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ھوں کہ دین اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لھرانے اور اس جھاں میں عدل و انصاف بھرنے کیلئے آپ کے بیٹے مھدی علیہ السلام جلد تشریف لائیں گے”۔(داستانِ غدیر، صفحہ۲۸۵،بہ نقل از”المراجعات السبع العلویات”، صفحہ۴۳۔)

علي عليہ السلام کي متوازي شخصيت

يھاں چند صفتوں کو آپ کے سامنے بيان کرتا ھوں۔

 آپ کے اٹل فیصلے اور رحم دلي:

 مثال کے طور پر بيک وقت ايک انسان کسي کے ساتھ رحم دلي بھي کرے اور وھيں پر اپنا فیصلہ بھي اٹل رکھے اور قطعاً کسي کو بے جا حق دينے پر راضي نہ ھو يعني رحم دلي اور قاطعيت آپس ميں دو ايسي متضاد صفتيں ہيں جو ايک شخص کے اندر جمع نھيں ھو سکتيں! ليکن حضرت امير المومنين عليہ السلام کے اندر رحم دلي، عطوفت و محبت اپني حد کمال کو پھنچي ھوئي ہے جو ايک عام انسان کے اندر بھت کم نظر آتي ہے مثال کے طور پر فقيروں کو مدد کرنے والے پسماندہ لوگوں کي مشکلات حل کرنے والے آپ کو بھت مليں گے۔

 ١۔ اس کام کو اپني حکومت کے دوران انجام دے۔

 
٢ ۔ اس کا يہ عمل ايک دو دن نھيں ھميشہ کا ھو۔
 

٣۔ تنھا ماّدي مدد تک ھي اس کا يہ عمل محدود نہ رھے بلکہ وہ بنفس نفيس ايسے لوگوں کے گھر جائے، اس بوڑھے کي دلداري کرے، اس نابينا کو دلاسا دے، ان بچوں کے ساتھ بچوں کي طرح کھيلے اس کا دل بھلائے اور اسي کے ساتھ ساتھ ان کي مالي مدد بھي کرے پھر ان سے رخصت ھو يہ فقط امير المومنين عليہ السلام ھي کي ذات ہے اب ذرا بتائيے آپ دنيا کے رحم دل انسانوں ميں اس جيسا کتنوں کو پيش کر سکتے ہيں؟!

حضرت عليہ السلام مھر و محبت عطوفت اور رحم دلي ميں اس طرح سے ديکھائي ديتے ہيں۔ کہ ايک بيوہ جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہيں اس کے گھر جاتے ہيں، تنور روشن کرتے ہيں ان کے لئے روٹياں سينکتے ہيں ان کے لئے کھانا پکاتے ہيں اور اپنے ھاتھوں سے ان يتيم بچوں کو کھانا کھلاتے ہيں يھي نھيں بلکہ اس لئے کہ ان بچوں کے لبوں پر بھي دیگر بچوں کي طرح مسکراھٹ آئے اور وہ بھي کچھ دير کے لئے غم و اندوہ سے باھر نکل سکيں ان کے ساتھ بچوں کي طرح کھيلتے بھي ہيں انھيں اپني پشت پر سوار کرتے ہيں انکے لئے ناقہ(اونٹ) بنتے ہيں اس جھونپڑي ميں انھيں مختلف طريقوں سے سرگرم رکھتے ہيں تا کہ وہ بھي مسکرا سکيں يہ ہے حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کي رحم دلي اور محبت و عطوفت کي ايک مثال يھاں تک کہ محبت کا يہ برتاؤ ديکھ کر اس زمانے کے ايک بزرگ کھتے ہيں اس قدر اميرالمومنين يتيموں اور بے سھارا بچوں سے محبت سے پيش آتے اور ان کے منہ ميں شھد ڈالتے اور انھيں پيار کرتے تھے کہ خود ميں تمنا کرنے لگا “موددتُ ان اکون يتيماً ” کاش ميں بھي يتيم ھوتا تاکہ مجھے بھي علي عليہ السلام اسي طرح پيار کرتے! يہ آپ کي محبت ہے۔
 اور يھي علي عليہ السلام جنگ نھروان ميں بھي ہيں جب کچھ کج فکر اور متعصب لوگ بے بنياد بھانوں سے آپ کي حکومت کو ختم کر دينا چاھتے ہيں پہلے آپ انھيں نصيحت کرتے ہيں کہ وہ جس کا مطلقاً اثر نھيں ليتے، احتجاج کرتے ہيں مگر اس کا بھي کوئي فائدہ نظر نھيں آتا۔ کسي تيسرے آدمي کو صلح و مصالحت کے لئے واسطہ بناتے ہيں ان کي مالي امداد کرتے ہيں ساتھ ساتھ رھنے کا وعدہ ديتے ہيں مگر ان سب سے کوئي فائدہ نھيں پھنچتا اور آخر کار وہ لوگ لڑنے پر تل جاتے ہيں پھر بھي آپ انھيں نصيحت کرتے ہيں مگر آپ کي يہ نصيحت ان کے لئے بے فائدہ ثابت ھوتي ہے اس وقت پورے شد و مد کے ساتھ پوري قطعيت سے پرچم زمين پر گاڑ کر فرماتے ہيں ! تم ميں سے کل تک جو بھي اس پرچم تلے آجائے گا وہ امان ميں رھے گا اور جو نھيں آيا اس سے ميں جنگ کروں گا۔ ان بارہ ھزار افراد ميں سے آٹھ ھزار افراد پرچم کے نيچے آگئے اور باوجودي کہ ان لوگوں نے آپ سے دشمني کي ہے، لڑنے ميں بر ابھلا کھا ہے پھر بھي فرماتے ہيں جاؤ تم لوگ يھاں سے چلے جاؤ و ہ لوگ چلے گئے اور پھر حضرت نے انھيں کوئي اھميت نھيں دي اور انھيں معاف کر ديا، جو دوسرے چار ھزار بچے، فرمايا! اگر تم لڑنے پر تلے ھو تو آؤ پھر جنگ کرو، آپ نے ديکھا وہ لڑنے مرنے پر تيار ہيں فرمايا! ياد رکھو تم چار ھزار ميں سے دس افراد کے علاوہ کوئي باقي نھيں بچے گا ۔ جنگ شروع ھوگئي اس چار ھزار ميں ١٠ لوگ زندہ بچے بقيہ سب کے سب ھلاک ھوگئے، يہ وھي علي عليہ السلام ہيں جب ديکھا مقابلہ ميں بدسرشت و خبيث النفس انسان ہیں تو پھر پوري صلاحيت کے ساتھ ان سے جنگ لڑتے ہيں اور ان کا دندان شکن جواب ديتے ہيں۔(اقتباس از شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام حضرت آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي کے مجموعہ خطابات کي روشني ميں)
ابن ابی الحدید نھج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
“اِنَّہُ علی علیہ السلام کَانَ اَولٰی بِالْاَمْرِوَاَحَقَّ لَاعَلٰی وَجْہِ النَّصِّ، بَلْ عَلٰی وَجْہِ الْاَفْضَلِیَّةِ،فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الْبَشَرْبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ وَاَحَقُّ بِالْخِلاٰ فَةِ مِنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ۔”

 “حضرت علی علیہ السلام منصبِ ولایت کیلئے سب سے بھتر اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ اس کیلئے از طریقِ نص نھیں بلکہ اپنے افضل ھونے کی وجہ سے اھل تھے کیونکہ رسول اللہ (ص)کے بعد وہ سب سے افضل بشر تھے اور تمام مسلمانوں سے زیادہ خلافت پر حق اُن کا تھا”۔

 ابوحامدغزالی (شافعی مذھب کے سکالر)

ابوحامد محمد ابن محمد غزالی کتاب”سِرّالعالمین”میں لکھتے ہیں:

“اَسْفَرَتِ الْحُجَّۃُ وَجْھَھٰاوَاَجْمَعَ الْجَمٰاھِیْرُعَلٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ عَنْ خُطْبَۃِ یَوْمِ غَدِیْرِ خُمٍّ بِاتِّفَاقِ الْجَمِیْعِ وَھُوَ یَقُوْلُ:مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰہُ فَقٰالَ عُمَرُ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰااَبَالْحَسَنِ لَقَدْ اَصْبَحْتَ مَوْلاٰیٰ وَمَوْلٰی کُلِّ مُوٴْمِنٍ وَمُوٴْمِنَۃٍ۔ھٰذَا تَسْلِیْمٌ وَرَضِیٍّ وَتَحْکِیْمٌ۔ثُمَّ بَعْدَ ھَذٰاغَلِبَ الْھَوٰی لِحُبِّ الْرِّیٰاسَۃِ وَحَمْلِ عَمُودِ الْخِلاٰفَۃِ۔۔۔۔۔الخ”۔
“رخِ حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور تمام مسلمانانِ عالم حدیثِ غدیرِ خم اور خطبہٴ یومِ غدیر کے متن پر متفق ہیں۔ جب پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ھوں، اُس کا علی مولا ہے، اُس وقت عمر نے کھا:اے ابا الحسن ! مبارک مبارک ۔ آج آپ نے اس حال میں صبح کی کہ میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام موٴمن مردوں اور موٴمن عورتوں کے بھی مولیٰ ہیں۔ اس طرح مبارک باد دینا پیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنا ہے اور علی علیہ السلام کی خلافت پر راضی ھونا ہے(لیکن افسوس) اس کے بعد نفس امارہ نے ریاست طلبی اور خلافت طلبی کی خاطر اُن پر غلبہ پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”۔( شبھائے پشاور،صفحہ۶۰۸،نقل از “سِرّ العالمین”، غزالی)۔

فضائلِ علی علیہ السلام علمائے اھلِ سنت کی نظر میں

عبدالفتاح عبدالمقصود (مصنف معروف مصری)

 “حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میں نے کسی کو نھیں دیکھا جو آپ کی جانشینی کے قابل ھو، سوائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاک فرزندوں کے والد یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔ میں یہ بات اھلِ تشیع کی طرفداری کیلئے نھیں کھہ رھا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ تاریخی حقائق اس کے گواہ ہیں۔ امام (علی علیہ السلام) سب سے بلند مرتبہ مرد ہے جسے کوئی بھی ماں آخری عمر تک پیدا نہ کرسکے گی اور وہ ایسی شخصیت ہے کہ جب بھی ھدایت تلاش کرنے والے اُس کے کلام، ارشادات اور نصیحتوں کو پڑھیں گے تو ھر جملے سے اُن کو نئی روشنیاں ملیں گی۔ ھاں! وہ مجسم کمال ہے جو لباسِ بشریت میں اس دنیا میں بھیجا گیا”۔( داستانِ غدیر،صفحہ۲۹۱،نقل از”الغدیر”، جلد۶۔)

 

ابوحنیفہ (مذھب ِحنفی کے امام)

 

“کسی ایک نے بھی علی سے جنگ و جدل نھیں کیا مگر یہ کہ علی علیہ السلام اُس سے اعلیٰ اور حق پر تھے۔ اگر علی علیہ السلام اُن کے مقابلہ میں نہ آتے تو مسلمانوں کو پتہ نہ چلتا کہ اس قسم کے افراد یا گروہ کیلئے اُن کی شرعی ذمہ داری کیا ہے”۔( مھدی فقیہ ایمانی،کتاب”حق با علی است”، نقل از مناقبِ ابوحنیفہ، خوارزمی،۸۳/۲،اشاعتِ حیدرآباد)۔

 

فخر رازی (اھلِ سنت کے مشھور و معروف مفکر)

 

“جو کوئی دین میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا رھبر و پیشوا تسلیم کرے گا، وھی کامیاب ہے اور اس کی دلیل خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے۔ آپ نے فرمایا: “پروردگار!حق کو اُدھر پھیر دے جدھرعلی ھو”۔( داستانِ غدیر،مصنف: بھت سے استاد، صفحہ۲۸۵، نقل از تفسیر فخر رازی، جلد۱،صفحہ ۱۱۱، اور الغدیر جلد۳، صفحہ۱۷۹۔)

 

زمخشری (اھلِ سنت کے مشھور مفکر)

 

“میں اُس مرد کے فضائل کے بارے میں کیا کھوں کہ جس کے دشمنوں نے اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے اُس کے فضائل سے انکار کیا اور اُس کے دوستوں نے خوف و ترس کی وجہ سے اُس کے فضائل چھپائے۔ مگر اس کے باوجود اُس کے فضائل دنیا میں اتنے پھیلے کہ مشرق و مغرب کو گھیر لیا”۔

 

زمخشری اس حدیث ِ قدسی کے ضمن میں کھتے ہیں:

 

“مَنْ اَحَبَّ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ وَاِنْ عَصَانِیْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ النّٰارَ وَاِنْ اَطَاعَنِی”

 

جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، وہ جنت میں جائیگا ،گرچہ وہ میرا نافرمان ھی کیوں نہ ھو اور جس نے علی سے دشمنی و بغض رکھا، وہ جھنم میں جائیگا، بے شک وہ میرا فرمانبردار ھی کیوں نہ ھو”۔

 

اس کے بارے میں زمخشری کھتے ہیں کہ محبت و تسلیم ولایت ِعلی علیہ السلام انسان کے ایمان کے کمال کا سبب ہے اور اگر کمالِ ایمان ھو تو فروع میں چھوٹی غلطی زیادہ نقصان نھیں پھنچاتی، لیکن اگر محبت و ولایت ِعلی نہ ھو تو ایمان ناقص ہے اور وہ شخص جھنم کا مستحق ہے۔

 

(داستانِ غدیر،صفحہ۲۸۴بہ نقل از زندگانیِ امیر الموٴمنین علیہ السلام، صفحہ۵؛مباحثی در معارفِ اسلامی،مصنف: علامہ فقید آیت اللہ حاجی سید بھبھانی، صفحہ۱۶۹۔)

 

شافعی (رھبر مذھب ِشافعی)

 

“اگر مولیٰ علی مرتضیٰ اپنے ظاھر وباطن کو لوگوں پر ظاھر کردیں تو لوگ کافر ھوجائیں گے کیونکہ وہ انھیں اپناخدا سمجھ کر سجدہ میں گرجائیں گے ۔ اُن کے فضائل و عظمت کیلئے بس یھی کافی ہے کہ بھت سے لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ علی خدا ہیں یا خدا علی ہے یاپھر علی علیہ السلام مخلوقِ خدا ہیں”۔(سید یحییٰ برقعی، کتاب “چکیدہ اندیشہ ھا”،صفحہ۲۹۷۔)

 

حافظ ابو نعیم (اھلِ سنت کے مشھورعالم)

 

“علی ابن ابی طالب علیہ السلام سردارِ قوم، محبِ ذاتِ مشھود،محبوبِ ذاتِ کبریا،بابِ شھرعلم، مخاطب ِآیاتِ ایمانی، عالمِ رمزِ قرآنی، تلاشِ راہِ حق کیلئے بڑی نشانی، ماننے والوں کیلئے شمعِ جاودانی، مولائے اھلِ تقویٰ و ایمان، رھبر عدالت و قاضیان، ایمان لانے والوں میں سب سے اوّل، یقین میں سب سے بڑھ کر، بردباری میں سب سے آگے، علم و دانش کا منبع، اھلِ عرفان کی زینت، حقائقِ توحید سے باخبر، خداپرستی کا عالم، حکمت و دانائی کا سرچشمہ، حق سننے اور حق بولنے والا، وفائے عھد کا بادشاہ، اھلِ فتنہ کی آنکھ پھوڑنے والا، امتحاناتِ الٰھی میں سرفراز و سربلند، ناکثین کو دورکرنے والا، قاسطین و مارقین کو ذلیل و رسوا کرنے والا، خدا کے دین میں سخت کاربند، ذاتِ الٰھی میں فانی حضرتِ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ”۔( حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد۱،صفحہ۶۱،بابِ ذکر ِعلی علیہ السلام۔)

 

احمد بن حنبل (رھبر مذھبِ حنبلی)

 

محمد ابن منصور کھتے ہیں کہ ھم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کھا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرتِ علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:

 

“اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّۃ””میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ھوں”

 

احمد بن حنبل نے جواب دیا:

 

“وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟”

 

“تم اُس سے انکار کیوں کررھے ھو؟”کیا تمھارے پاس یہ روایت نھیں پھنچی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:

 

“یٰا عَلِیُ: لا یُحِبُّکَ اِلَّا مُوٴْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ”

 

“یا علی ! تم سے محبت نھیں رکھے گا مگر موٴمن اور تم سے بغض نھیں رکھے گا مگر منافق”۔

 

ھم نے کھا:ھاں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ھی علی علیہ السلام سے فرمایا تھا۔ احمد بن حنبل نے کھا کہ اب بتاؤ کہ مرنے کے بعد موٴمن کی کونسی جگہ ھونی چاھئے؟ ھم نے کھا:بھشت۔ احمد بن حنبل نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ مرنے کے بعد منافق کی کونسی جگہ ھونی چاھئے؟ ھم نے کھا:آتش جھنم۔ اس پر احمد بن حنبل نے کہا کہ بے شک”فَعَلِیٌّ قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّۃ”(آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۴۴۰،نقل از امام الصادق،جلد۴،صفحہ۵۰۳۔)

 

عبداللہ بن احمد حنبل کھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علی علیہ السلام اور امیر معاویہ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ علی علیہ السلام کے بھت زیادہ دشمن تھے۔ انھوں نے علی علیہ السلام کے عیب ڈھونڈنے کی بھت کوشش کی لیکن ایک بھی نہ ڈھونڈ سکے۔لہٰذا علی علیہ السلام کی شخصیت کو ختم کرنے کیلئے دشمنانِ علی علیہ السلام کی مدح سرائی کی۔

 

(کتاب”شیعہ“” مذاکراتِ علامہ طباطبائی مرحوم اور پروفیسر ھنری کرین کے درمیان ،صفحہ۴۲۹،بابِ توضیحات،نقل از صواعق،صفحہ۷۶؛ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ۳۴۴پر نقل کیا ہے۔)

 

“جتنے فضائل حضرت علی علیہ السلام کی شان میں آئے ہیں، اتنے فضائل کسی اور صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی شان میں نھیں آئے”۔

 

( شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة،باب۵۹،صفحہ۳۳۵؛حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۰۷؛ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ شرح حالِ علی ،ج۳ص۶۳حدیث۱۱۰۸شرح محموی)

 

“علی ھمیشہ حق کے ساتھ تھے اور حق بھی ھمیشہ علی کے ساتھ تھا، جھاں کھیں بھی علی ھوں”۔( بوستانِ معرفت،مصنف:سیدھاشم حسینی تھرانی، ص۶۸۰،نقل از ابن عساکر، تاریخ حضرت علی علیہ السلام، جلد۳، ص۸۴، روایت۱۱۱۷۔)

 

“عبداللہ بن احمد بن حنبل کھتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ وھاں آئے اور حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتوں کے بارے میں تبادلہٴ خیال کرنے لگے، یھاں تک کہ خلافت ِ علی کا بھی ذکر آگیا تو میرے والد نے خلافت ِعلی کے بارے میں کہا:

 

“اِنَّ الْخِلَافَۃَ لَمْ تَزَیَّنْ عَلیّاً بَلْ عَلِیٌّ زَیَّنَھَا”

 

“خلافت خود علی علیہ السلام کیلئے باعثِ زینت نھیں تھی بلکہ علی علیہ السلام کا خلیفہ بننا خلافت کیلئے زینت تھا”۔

 

(ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حالِ امام علی ،جلد۳،صفحہ۱۱۴،حدیث۱۱۵۴؛ خطیب،تاریخ بغدار میں، جلد۱، صفحہ۱۳۵،بابِ شرح حالِ علی علیہ السلام، شمارہ۱)

 

احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ کھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے صحابیوں کی افضلیت کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد نے جواب دیا کہ ابوبکر،عمر،عثمان(یعنی حضرت ابوبکرحضرت عمر سے افضل اور حضرت عمرحضرتِ عثمان سے افضل)۔ میں نے پھر سوال کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس مرتبہ پر فائز ہیں تو میرے والد نے جواب دیا:

 

“ھُوَمِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ لَایُقَاسُ بِہ ھَوٴُلَاءِ”

 

“وہ(یعنی حضرت علی علیہ السلام) اھلِ بیت سے ہیں، اُن کا ان سے کوئی مقابلہ ھی نھیں”۔

 

ابن صباغ (مذھبِ مالکی کے مشھور مفکر)

 

ابن صباغ علی علیہ السلام کے بارے میں کھتے ہیں کہ:

 

“حکمت و دانائی اُن کے کلام سے جھلکتی تھی۔عقل و دانش ظاھری اور باطنی اُن کے دل میں بستی تھی۔ اُن کے سینے سے ھمیشہ علوم کے ٹھاٹھیں مارتے ھوئے دریا اُبلتے تھے اور رسولِ خدا(ص) نے اُن کے بارے میں فرمایا:”َنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا””میں علم کا شھر ھوں اور علی اُس کا دروازہ ہے”۔( بوستانِ معرفت،صفحہ۶۹۸، نقل از فصول المھمة،تالیف ابن صباغ ،فصل اوّل،ص۱۸)

 

شبلنجي (عالمِ مذھبِ شافعي،اھلِ مصر)

 

“‌سب تعريف اُس خدائے بزرگ کيلئے جس نے نعمتوں کا مکمل لباس ھميں پھنا ديا اور ھمارے آقا حضرت محمد صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کو تمام عرب و عجم پر چن ليا اور اُن کے خاندان کو سارے جھان پر برتري بخشي اور فضل و کرم سے اُن کو سب سے اعلي’ مقام پر فائز کيا- وہ دنيا و آخرت کي سرداري ميں گويا سب سے آگے ہيں- اللہ تعالي’ نے ظاھروباطن کے کمالات اُن کو عطاکردئيے اور وہ قابلِ فخر افتخارات و امتيازات کے مالک بنے۔۔۔”-(بوستانِ معرفت،صفحہ۶۹۹،نقل از نورالابصار،تاليف شبلنجي)

 

ابوعَلَم شافعي (عالمِ مذھب ِشافعي)

 

“۔۔۔اُس خاندانِ پاک کے بارے ميں تم کيا سوچتے ھو کہ جس کے بارے ميں خود اللہ تعالي’ نے فرمايا ہے:

 

“‌اِنَّمَايُرِيْدُ اللّہُ لِيُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَيْتِ وَيُطَھِّرَکُمْ تَطْھِيْراً”

 

“‌پس يہ اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اھلِ بيت تم سے ھر قسم کے رجس(کمزوري،برائي،گناہ اور ناپاکي) کو دوررکھے اور تمھيں ايسا پاک رکھے جيسا پاک رکھنے کا حق ہے”-

 

پس يہ خاندان عنايتِ پروردگار سے معصوم ہيں اور قوتِ پروردگار سے اُس کي بندگي و اطاعت کيلئے مادہ ہيں- ان کي دوستي اللہ نے مومنوں پر واجب کردي ہے- اس کو ايمان کا ستون قرار ديا ہے- جيسے اللہ تعالي’ فرماتا ہے:

 

“‌قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَيْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبیٰ”

 

“آپ کھہ ديجئے کہ ميں اس پر کوئي اجر ِرسالت تم سے نھيں مانگتا سوائے اس کے کہ تم ميرے قريبيوں (اھلِ بيت ) سے محبت کرو”-

 

پيغمبر اسلام نے بڑے واضح طريقہ سے بيان کيا ہے کہ ميرے اھلِ بيت کشتيِ نجات ہيں اور اُمت کو اختلافات اور انحراف کي ھلاکتوں سے پناہ دينے والے ہيں-

 

جاحظ (مفکر مذھبِ معتزلي)

 

“۔۔۔حضرت علي کرم اللہ وجھہ نے برسرِ منبر کھا:ھمارے خاندان کا کسي سے مقابلہ نھيں ہوسکتا”-

 

بالکل صحيح فرمايا- کس طرح مقابلہ ھو اُس خاندان سے کسي کا!اسي خاندان سے تو پيغمبر خداہيں اور اسي سے دو پاک فرزند (حسن اور حسين ) ہيں اور سب سے پاک يعني علي و فاطمہ اور پيغمبر اسلام اورراہِ خدا کے دو شھيد :شير خدا حمزہ اور صاحب ِعظمت حضرتِ جعفر —“۔( بوستانِ معرفت،صفحہ۶۸۸،نقل از شيخ سليمان قندوزي حنفي، ينابيع المودة، باب۵۲)

 

“‌حقيقت ميں ذاتي دشمنياں عقلِ سليم کو نقصان پھنچاتي ہيں اورانسان کے اخلاقِ حسنہ کوخراب کرتي ہيں اور خصوصاً اھلِ بيت عليھم السلام سے دشمني ،يعني اُن کے فضائل اور اُن کي مسلّمہ افضليت کو دوسروں کے مقابلہ ميں جھگڑے کاباعث بنانا- لھذا ھم پر واجب ہے کہ ہم حق طلب کريں- اُسي کي پيروي کريں اور قرآن سے وھي مراد چاھيں جو حقيقتاً منظورِ خدا ہے- يہ سب اسي صورت ميں ممکن ہے جب ھم تعصب و خواھشاتِ نفس اور متقدمين(باپ دادا اور اساتذہ) کي غلط تقليدکو دور پھينک ديں اور اھلِ بيتِ اطھارعليھم السلام اور عترتِ پيغمبرکي دوسروں پر افضليت کو تسليم کريں”-(بوستانِ معرفت،صفحہ۹۹۹،نقل از شيخ سليمان قندوزي حنفي، باب۵۲،ينابيع المودة)
 “‌امير المومنين علي عليہ السلام کے کئي سواقوالِ حکمت ہيں اور آپ کے ھر قول سے ھزار ھزار حکيمانہ اقوال تفسيرھوسکتے ہيں”( بوستانِ معرفت،صفحہ۶۹۰،نقل از مناقبِ خوارزمي،باب۲۴،صفحہ۲۷۱)

 

 

 

 

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *