تازہ ترین

فلسطینیوں کی مظلومیت اور امت مسلمہ کی بے حسی

مملکت خداداد پاکستان میں قبلہ اول سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک بار پھر پارا چنار کو غزہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے
شئیر
90 بازدید
مطالب کا کوڈ: 9451

فلسطینیوں کی مظلومیت اور امت مسلمہ کی بے حسی

تحریر: ایس ایم شاہ

ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے قبلہ اول پر 75 سالوں سے غاصب اسرائیل قابض ہے۔ فلسطینی مسلمان 75 سالوں سے اسرائیلی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ امت مسلمہ کا دل فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں کے تانے بانے امریکہ اور اسرائیل سے ملتے ہیں۔ آج تک قبلہ اول کو غاصب صہیونیوں سے آزاد کرانے کے لیے اسلامی ممالک نے ملکر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ عرب قوم جو اپنے آپ کو دنیا کی با شرف قوم سمجھتی ہے۔ اب یہی عرب ممالک یکے بعد دیگرے اسرائیل کو تسلیم کرتے جارہے ہیں۔ سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، اردن سمیت دیگر بعض عرب ممالک میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ ان اڈوں سے کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکی جہاز عرب ممالک کے اڈوں سے آکر فلسطین پر بمباری کر رہا ہے۔ معلوم نہیں اب عرب حکمرانوں کی غیرت کہاں چلی گئی ہے؟ فلسطینی بچے اسرائیل سے لڑتے لڑتے جوان، فلسطینی جوان اسرائیل سے لڑتے لڑتے بوڑھے اور فلسطینی بوڑھے افراد اسرائیل سے لڑتے لڑتے اس دنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور وہ اب بھی قربانیاں دے رہے ہیں۔ غلیل سے اپنا دفاع کرنے والے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے پاس اب راکٹ اور میزائیل ٹیکنالوجی آگئی ہے۔ اسرائیلی اور امریکی فوج اس وقت فلسطینی مجاہدین کا آمنا سامنا کرتے ہوئے لرزہ براندام ہے۔ دنیا اس وقت ورطۂ حیرت میں پڑ گئی جب 7 اکتوبر 2023 کو دنیا کی مشہور اسرائیلی ایجنسی موساد کو بھی بے خبر رکھ کر حماس کمانڈوز نے اسرائیل کے اندر گھس کر کم و بیش دو ہزار فوجیوں کو ہلاک کیا اور بڑے بڑے فوجی آفیسروں کو گرفتار کیا اور ایک ماہ کا عرصہ ہونے کے باوجود ابھی تک اسرائیلی اور اپنے آپ کو سپر طاقت ڈکلیئر کرنے والی امریکی فوج غزہ کی پٹی کے اندر داخل ہونے سے قاصر ہے۔ کیونکہ فلسطینی مجاہدین نے زیر زمین 500 کلومیٹر پر مشتمل سرنگیں بنائی ہوئی ہیں. جن کی اطلاعات فقط حماس مجاہدین کے پاس ہے۔ امریکی اور اسرائیلی فوج کو معلوم ہے کہ جو بھی ان سرنگوں میں گھسنے کی کوشش کرے گا تو یہ سرنگیں ان کے قبرستان میں تبدیل ہوجائیں گے۔ کیا حماس مجاہدین کے پاس یہ ساری طاقتیں اتفاقی طور پر آگئی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اس حوالے سے نہ فقط فلسطینی مسلمان بلکہ پوری امت مسلمہ اسلامی جمہوریہ ایران کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کیونکہ ایران میں 1979 کے انقلاب اسلامی کے بعد سے تمام تر مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر فرزند اسلام امام خمینی نے اسرائیل کے وجود کو قلب اسلام پر خنجر قرار دے کر فلسطینوں کی بھرپور مدد کرنے کا اعلان کیا۔ آپ نے پوری امت مسلمہ سے مخاطب ہوکے فرمایا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل پر گرا دے تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔ چند سال قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی پیشگوئی کرچکے ہیں کہ اسرائیل پچیس سال سے پہلے ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اسرائیل کے حوالے سے سخت اصولی موقف اور فلسطینی مسلمانوں کی بھرپور حمایت کی وجہ سے امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایران پر سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ 45 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی ایرانی قوم ان تمام تر پابندیوں کا بھرپور مقابلہ کر رہی ہے۔ سخت ترین پابندیوں کے باوجود بھی ایرانی قوم اپنی آئیڈیالوجی سے ذرہ برابر پیچھے نہیں ہٹی۔ امریکی خوف کے باعث بہت سارے اسلامی ممالک نے بھی یا تو ایران کے ساتھ روابط کو مکمل طور پر قطع کر دیا یا روابط کو بہت محدود کر دیا۔ ایران کے سپاہ پاسداران میں باقاعدہ القدس فورس کے نام سے فوجی دستے موجود ہیں۔ ایران نے لبنان میں حزب اللہ کی تشکیل کے ذریعے مقاومتی بلاک تشکیل دیا۔ جسے آج دنیا اسرائیل سے دس گنا طاقتور فوج سمجھتی ہے۔ سپاہ پاسداران اور حزب اللہ کے مجاہدین نے ماضی قریب میں داعش جس کی پشت پر 80 ممالک کھڑے تھے، کا خاتمہ کر دیا۔ حماس کی تشکیل اور ان کی تربیت اور چاروں طرف سے اسرائیلی نرغے میں ہونے کے باوجود ان تک اسلحے کی ترسیل اور ٹیکنالوجی کی فراہمی میں ایران اور حزب اللہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے ایرانی سپاہ پاسداران القدس فورس کے سربراہ سردار جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی شہید القدس ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے کہا کہ فلسطینی بجٹ کا 90 فیصد ایران پورا کر رہا ہے۔

اس وقت تریپل ایچ یعنی فلسطینی حماس، لبنانی حزب اللہ اور یمنی حوثی مجاہدین اسرائیل پر حملے کر رہے ہیں اور مزید پہلے سے طاقتور انداز سے حملے کے لیے آمادہ ہیں۔ حزب اللہ کے بہت سارے کمانڈوز جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اس وقت بھی فلسطین کے ساتھ سب سے طاقتور انداز سے ایران کھڑا ہے اور ایران نے دنیا کے دو بڑی سپر طاقتوں یعنی روس اور چین کو بھی اپنے ساتھ ملا دیا ہے۔

او آئی سی اجلاس میں بھی ایران نے عرب ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تیل دینا بند کر دے۔ پاکستان، عراق، شام، اردن، ترکیہ، سعودی عرب اور بعض دیگر اسلامی ممالک نے فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ایک طرف عالمی میڈیا پر نہتے فلسطینیوں کی حالت زار پر ہر منصف مزاج انسان فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کر رہا ہے تو دوسری جانب برطانیہ اور امریکہ جنہوں نے انیسویں صدی میں ہی اس ناجائز ریاست کی تشکیل کے لیے بنیاد فراہم کی، آج ساتھ دہائیوں سے سرزمین فلسطین پر قابض غاصب اسرائیل کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور مہلک ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور یورپی ممالک نے بھی ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ اب ایران اور حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی دھمکی کے بعد یہ ممالک امریکہ کو جنگ سے پیچھے ہٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ امریکہ نے یورپی ممالک کو ایک طرف یوکرین کی جنگ میں دھکیل کر سپر پاور ملک روس کے مدمقابل لاکھڑا کر رکھا ہے تو دوسری طرف اب امریکہ فلسطین اسرائیل جنگ میں ان ممالک کو دھکیل کر پوری امت مسلمہ اور سپر پاور چین اور روس کے مدمقابل لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

حماس مجاہدین کے حوصلے بلند ہیں اور تواتر سے حزب اللہ اور حماس کی جانب سے اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں اسرائیلی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے اقرار کیا ہے کہ 500 امریکیوں کو عز الدین القسام بریگیڈز نے پکڑ رکھا ہے۔ حزب اللہ اور حماس کے حملوں اور اسرائیلی حملوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حزب اللہ اور حماس فقط اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ اسرائیل کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نہ ان کے حملوں سے سکول محفوظ ہے نہ ہسپتال، نہ گھر محفوظ ہے نہ سرکاری ادارے، نہ عورتیں محفوظ ہیں اور نہ بچے اور بزرگ۔

غزہ ہسپتال پر غاصب اسرائیلی فوج کے ہوائی حملے میں کم و بیش ایک ہزار بے گناہ بچے، خواتین اور بزرگ شہید ہوگئے۔ اب آئے روز ہسپتالوں پر مزید حملے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ ستر فیصد سے زیادہ غزہ کی آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت مر چکی ہے۔ نام نہاد انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں معدوم ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ امریکہ کی لونڈی بن چکی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کے سربراہان فقط بیان بازی کے ذریعے فلسطینیوں پر اپنا قرض اتار رہے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کے عوام قبلہ اول اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے کمر بستہ ہیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلم حکمران امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کی رو سے اس جنگ کے باعث اسرائیل کو روزانہ 300$ سے 400$ ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یعنی یومیہ 80 ارب سے ایک کھرب کی ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں نتین یاہو کے خلاف تل ابیب میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے وزیر اعظم نیتن یاہو سے استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یوں اسرائیل اندر سے بھی کھوکھلا ہو چکا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں موجود نتین یاہو کا بیٹا ساحل سمندر پر عیاشیاں کرتے ہوئے اس کی ننگی تصویر سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ اس نے اسرائیلی عوام پر جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اسرائیلی شہریوں کا کہنا ہے کہ ادھر نتین یاہو ہمیں جنگ میں دھکیل کر ہمارا قتل کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اس کا اپنا بیٹا امریکہ میں عیاشیاں کر رہا ہے۔ حماس مجاہدین نے نتین یاہو کا ایک بھتیجا بھی گرفتار کر لیا ہے۔ لندن میں اسرائیل کے خلاف احتجاج میں ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔

مملکت خداداد پاکستان میں قبلہ اول سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک بار پھر پارا چنار کو غزہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے محب وطن شہریوں کو دہشتگرد گروہوں کے ذریعے سے قتل عام کیا جا رہا ہے۔ پارا چنار کے عوام ہر طرف سے محاصرے میں ہے۔ سڑکیں بند اور انٹرنیٹ کی سہولت معطل ہے۔ آخر بار بار ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ پاک فوج کے شہیدوں کے سروں سے کھیلنے والے تکفیری ٹولے اس وقت کیوں دھندناتے پھر رہے ہیں؟ اپنی جان جوکھوں پر رکھ کر ملک کی حفاظت کرنے والوں پر آئے روز حملے کیوں ہو رہے ہیں؟ ان سے جینے کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے؟ آخر دہشتگرد تکفیری ٹولوں کو کھلی چھوٹ کیوں دی ہوئی ہے؟ سکول کے بچوں کو علم کی روشنی فراہم کرنے والے اساتذۂ کرام کو دن دہاڑے شہید کرنے والے دہشتگردوں کا ابھی تک سراغ کیوں نہیں لگایا گیا ہے؟ اس وقت پاکستانی عوام بیدار ہو چکی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ دہشتگردوں کو سپورٹ اور ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پارا چنار میں فوری امن بحال کیا جائے اور دہشگردوں کو گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔

فلسطینی مسلمانوں کی فقط زبانی کلامی حمایت کافی نہیں بلکہ ایک آزاد اٹامک پاور ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے فلسطینی مظلوم مسلمانوں کے ساتھ فوجی امداد اور جنگی آلات سمیت ہر قسم کا تعاون کیا جانا چاہئے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *