تازہ ترین

فلسفہ معراج

 معراج سے درس حاصل کرنے کا تقاضا ہے کہ انسان کو انسانیت کی معراج، مومنانہ صفات کی ترقی و نما کی جانب متوجہ ہو جانا چاہیئے،

شئیر
59 بازدید
مطالب کا کوڈ: 237

نفس امارہ پر جس قدر گرفت ممکن ہوگی اسی قدر جاہلیت، خباثت، تکبر اور تنگ ظرفی سے چھٹکارا مل سکے گا، فکر و نظر کی وسعت اور علم و حکمت کے عرفان میں اضافہ ہوگا۔ معراج عالمِ عارف اور مومنِ محقق کے دل و دماغ میں انقلاب برپا کرتا ہے، عاشقی کے آداب اور بندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے۔

معراج النبی (ص) کی اصطلاح میں دونوں پہلو شامل ہیں، روحانی اور جسمانی بھی، تاریخ میں بعض ایسے علامات ریکارڑ کئے جا چکے ہیں، جو انسانی شواہد کی حیثیت میں معراج کے جسمانی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، مختصر وقت کے لئے ہی سہی اس رات میں سکونت کدہ سے حضور پاک (ص) کے غائب ہونے کی صراحت بھی ملتی ہے، آئمہ اطہار (ع) نے واضح طور پر معراج جسمانی کا ذکر کیا ہے۔ معراج کے ہدف و صورت کا اشارہ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ نجم میں بیان ہوا ہے، ارشاد ہوا ہے: “سبْحَانَ الَّذِی أَسرَی بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسجِدِ الْحَرَامِ إِلی الْمَسجِدِ الاَقْصٰی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنرِیَهُ مِنْ ءَایَتِنَا إِنَّهُ هُوَ السمِیعُ الْبَصِیرُ” (اور خدا پاک و پاکیزہ ہے جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی، جس کے گرد ہم نے ہر قسم کی برکت مہیا کر رکھی ہے، تاکہ ہم اس کو نشانیاں دکھائیں (مفہوم)، متعدد تفاسیر کی رُو سے مسجد اقصیٰ سے مراد وہ مسجد ہے جو خانہ کعبہ کے مقابل میں آسمان پر ہے، جہاں برکت و کرامت کا ماحول ہے، سورہ نجم میں ارشاد ہوتا ہے ’’تمہارے رفیق (محمدؐ) نہ گمراہ ہوئے نہ بہکے، وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں، یہ تو وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے، ان کو نہایت طاقتور نے تعلیم دی ہے جو اعلیٰ ہے اور جب یہ (نبی ؐ ) اونچے کنارے پر تھا تو کھڑا ہوکر قریب ہوا، پھر دو کمان کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی قریب تر‘‘ (مفہوم) آیت مذکورہ میں بلندی کی جانب عروج وہاں پہنچ کر پھر قریب کی جانب حرکت کرنا، نور خدا کی قربت کا اعلان ہے۔

اس سلسلے میں نبی اکرم (ص) کے متعلقہ احادیث مصداق موجبی ہیں، آپ (ص) نے فرمایا کہ عرش پر بلایا گیا، افلاک کی سیر کرائی گئی، جنّتوں سے گذارا گیا، مقامات آخرت کے عجائبات کا مشاہدہ کرایا گیا، دوران سفر معراج برگزیدہ انبیاء سے آپ (ص) کی ملاقات بھی ہوئی، سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبرائیل (ع) ساتھ ساتھ تھے، اس کے آگے آپ (ص) تھے اور اللہ تعالیٰ کی نوری جلوتوں اور صفاتی قوتوں کا نظارہ تھا، نوری منزل، نوری سواری، نوری سوار۔ پھر انسانی ماحول، آدمیت اور خاکیت سے بلند خلوت میں جلوتوں کا ظہور، یہ صورتحال، احساس وقت کی تابع نہیں بلکہ احساس وقت و فاصلہ، تصور زمان و مکان اس کی صوابدید پر ہے۔

معراج میں آپ (ص) کو دو عطائیں خصوصی انعام کے طور پر ملیں، اپنے لئے کوثر سب کے لئے نماز۔ نماز عبودیت کا شکرانہ ہے، نماز معراج مومن ہے، جو دانہ مٹی میں جاتا ہے سر اٹھا کر ابھرتا ہے، جو خالق و مالک کے سامنے جتنا پست ہو جاتا ہے، اسے اتنا ہی معراج حاصل ہو جاتا ہے، افسوس کہ جنونی ذہنیت رکھنے والوں نے معراج النبی (ص) کو بھی تضاد کا ذریعہ گردانا تاکہ امت میں یہ تفرقہ پیدا ہو کہ معراج جسمانی ہے یا روحانی۔ بقول استاد “قرآن کہہ دے کہ (رسول ؐ کو لے جایا گیا) یا رسول اکرم (ص) کہہ دے (مجھے لے جایا گیا)  تو اس میں اپنی تاویل کرنے کی کہاں گنجائش ہے”۔

معراج سے درس حاصل کرنے کا تقاضا ہے کہ انسان کو انسانیت کی معراج، مومنانہ صفات کی ترقی و پیشرفت کی جانب متوجہ ہو جانا چاہیئے، نفس امارہ پر جس قدر گرفت ممکن ہوگی اسی قدر جاہلیت، خباثت، تکبر اور تنگ ظرفی سے چھٹکارا ممکن ہے، فکر و نظر کی وسعت اور علم و حکمت کے عرفان میں اضافہ ہوگا۔ معراج عالمِ عارف اور مومنِ محقق کے دل و دماغ میں انقلاب برپا کرتا ہے، عاشقی کے آداب اور بندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے، ایقان کی نظر کھولتا ہے، رحمۃ للعالمین کے معانی کی تشریح کرتا ہے، معراج لطافت و حکمت کے راز سے آشنا کرتا ہے، عشق و قوت کو الہی صفات کے اثر و توفیق سے ملا دیتا ہے، سرور کائنات (ص) کے خطاب کا مفہوم رقم کرتا ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *