قرآنی کوثر
۱۔کوثرِ پیغمبر اسلام ﷺ کی مدح و ثنا کرنا قلم و زبان کے بس کی بات نہیں ہے
تحریر و تقریر ،معنیٰ خیز، عمدہ، رسا اور بلند معانی و مضامین پر مشتتمل ہونے کے باوجود ایک ایسی شخصیت کا تعارف کرانے سے عاجز و بے بس ہے جس کی جڑیں عالم ملکوت میں ہوں اورجس کے پتّے اور شاخیں اس مادی دنیا پر سایہ فگن ہوں؛چونکہ کلام نے اس دنیا کا لباس زیب تن کر رکھا ہے اور وہ ذات ایک ملکوتی مخلوق ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اگر چہ اپنی دنیوی شکل و صورت کو الفاظ کے ذریعہ نمایاں کرتا ہے لیکن اس کا اصلی چہرہ یعنی لوح محفوظ کا چہرہ ، الفاظ و کلمات میں نہیں سما سکتا ۔ جب ایسی ذات کا تذکرہ ہو رہا ہو جو آسمان کے لئے ” زہرہ ” اور زمین کے لئے ” زہراء” ہوعرش و فرش جس وجود کے مرہون ِ منّت ہوں ، اور جس کا وجود اس کائنات کا نچوڑ اور ماحصل ہو (۲) اس کے مقامِ ادب میں قلم اپنا سر جھکا لیتا ہے اور اس کی نوک سے شرم کا پسینہ ، صفحہ قرطاس پر ٹپکنےلگتا ہے اور زبان پر لکنت طاری ہو جاتی ہے اور وہ
کسی گونگے شخص کی طرح نالہ و شیون کرتی ہے ، ایسی شخصیت کی ولادتِ باسعادت تما م عالمِ امکان کو مبارک ہو جو حبیب خدا ، پیغمبر اسلام ﷺ کو بعنوان ” کوثر ” (۳)عطا کی گئی ۔
۲۔ حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی بہشتی خوشبو
پیغمبر اسلام فرمایا کرتے تھے ” اذااشتقت الی الجنة شممت رائحة فاطمة” (۴) مجھے جب بھی جنّت کا اشتیاق ہوتا تھا تو میں اپنی بیٹی فاطمہ کے بدن کی خوشبو سونگھ لیاکرتا تھا ، آئیے ہم بھی خاتونِ جنان کے قدموں کو سجدگاہ ِ عشق قرار دیں اور آپ کے وجود کی دلنواز خوشبو کو مرضی معبود کی بشارت سمجھیں ؛ اور اپنی وسعت وجودی اور صلاحیت کے مطابق آپ (س) کے کوثر (خیر کثیر )وجود سے خود کو مالا مال کریں ؛وہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جو کائنات میں عشق ِالٰہی کے راستہ میں سب پر سبقت حاصل کئیے ہوئے ہیں ، بلکہ تمام عاشقان الٰہی کے لئیے نمونہ عمل قرار پائی ہیں ۔
۳ : حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نزدیک ، خدا کی اطاعت و بندگی کا مقام
پروردگارِ عالم کی اطاعت و بندگی کی لذّت و مٹھاس نے حضرت فاطمہ زہرا کو اپنی طرف اس قدر جذب کر لیا تھا کہ آپ خداوند عالم کے سوا کسی دوسری چیز کا تصوّر بھی نہیں کر سکتی تھیں ، وہ صرف عظمتِ الٰہی کے چہرے میں محو تھیں اور اس کے رخ ِکرامت کی زیارت کی بدولت زندہ تھیں : ” شغلتنی عن مسئلته لذةخدمته لا حاجة لي غير النظرالي وجهه الكريم ” مجھے اس کی لذّت عبادت نے اس سے کچھ مانگنے سے روک دیا ، مجھے اس کے رخ ِکریم کی زیارت کے سوا کچھ نہیں چاہئیے ۔
ایزد پرستان را نظر بر ماسوا نیست
خورشید رویان را بہ ذرّات اعتنا نیست
(خدا پرستوں کی نگاہ ،خدا کے سوا کسی چیز پر نہیں ہے
ماہ جبینوں کو ذرّوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوا ہوتی )
محبوب و معشوق کی یاد اور اس کے ذکر کے سوا کوئی شئ اس ذات کے عشق کی آگ کے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکتی ” یا ربّ لیست من أحد غیرک تثلج بها صدری”،(5) اے خدا ! تیرے سوا کوئی نہیں ہے جس سے میرے سینے کی آگ ٹھنڈی ہو۔
وہ ذات جس کی قلبی خوشی اور نفسانی سرور پر فیض الٰہی کی شعائیں جلوہ گر ہیں ” وتسرّبها نفسی” اسی کی یاد سے میرے دل کو سکون ملتا ہے ، (6) وہ ذات جس کی خنکی چشم اور اشک شوق پر خدا کی رحمانی نگاہ سایہ فگن ہے و ” تقرّبها عینی” اس کی یاد سے میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ (7 ) وہ ذات جس کا قلبی سکون و آرام ، ذات پروردگار کی طرف توجّہ اور اس سے لو لگانے میں پوشیدہ ہے ” یطمئنّ بها قلبی” (8) اس کی یاد سے میرے دل کو سکون ملتا ہے ، ایسی ذات ِ والا صفات کو ” زہرا ء” کہتے ہیں۔
۲۔ اگر آپ نفسانی طہارت اور روحانی پاکیزگی کے اعتبار سے حضرت فاطمہ زہرا کے وجودِ مقدّس پر نگا ہ ڈالیں گے تو آپ کو ان کی ذات ،ہر برائی اور خباثت سے مبرّا نظر آئے گی اور ہر اس فضیلت سے مزیّن نظر آئےگی جو آسمان ِفضیلت کے ستاروں کے جھرمٹ میں پائی جاتی ہے ، حضرت فاطمہ زہر اء آپ کو بارگاہِ پروردگار عالم میں یہ فریا د کرتی نظر آئیں گی کہ ” الّلهمّ انزع العجب و الرّیا و الکبر و البغی و الحسد و الضعف و الشّک و الوهن والضّرّ والاسقام والخذلان والمکر و الخدیعة والبلیة و الفساد من سمعی و بصری و جمیع جوارحی و خذ بناصیتی الیٰ ما تحب و ترضیٰ “(9) خدایا! میری آنکھ ، کان اور دیگر اعضاء و جوارح کو خود پسندی ، ریاکاری ، تکبر ، گناہ ، حسد ، ضعف ، شک ، سستی ، مصیبت ، بیماری ، ذلت و رسوائی ، مکر و فریب ، دھوکہ دہی ، آفت اورفساد سے دور رکھ ، اور انہیں اپنے محبوب و پسندیدہ راستے پر گامزن رکھ ۔ اس دعا میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پروردگار عالم کے حضورہر روحانی رجس اور ہر جسمانی پلیدی و خباثت کو اپنی ذات سے دور رکھنے کی دعا کر رہی ہیں اور پروردگارِ عالم کے پسندیدہ راستہ پر گامزن رہنے کی دعا کر رہی ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ماضی ، حال اور مستقبل کے حالات کا علم رہتا تھا ۔
۳۔ اگر آپ میدان ِعلم و آگہی میں حضرت زہرا کا مرتبہ جاننا چاہتے ہیں تو حقیقت ِ علم ان کے آسمان وجود میں ایک انتہائی تابناک ستارے کی صورت میں نظر آئے گی ، علمِ ازلی و ابدی اور موجودہ حالات کا علم ، ان کی آنکھوں کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے : “نادت (فاطمة) ادن (یا اباالحسن ) لأحدّثک بما کان و بماهو کائن و بما لم یکن الیٰ یوم القیامة حین تقوم السّاعة” (10) حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے آواز دی اے ابوالحسن میرے قریب آئیے تاکہ میں آپ کو گذشتہ ، حال اور روزِ قیامت تک کے حالات و واقعات سے آگاہ کردوں ۔ آپ نے وحیٔ نبوی کے ذریعہ سے جو بھی حاصل کیا اسے پورے ذوق و شوق سے محفوظ کر لیا اور آپ کو ہمیشہ آسمانی علوم کی حفاظت و پاسبانی کی فکر لاحق رہتی تھی ، یہانتک کہ آپ کسی بھی دوسری چیز کو اس کے برابر نہیں سمجھتی تھیں ، آپ اپنے دوبیٹوں ، حسنین علیہاالسّلام سے دست بردار ہونے پرتیّار تھیں لیکن اس آسمانی کلام ، اور اس ملکوتی ندا سے دست بردار ہونےپر آمادہ نہیں تھیں ، آپ نے اس آسمانی کلام کے بارے میں فرمایا : ” فانها تعدل عنّی حسنا و حسینا ” (1۱) یہ آسمانی کلام ، میرے لئیے حسن و حسین کے برابر ہے۔
علوم ِالٰہی اور دینی حقائق کی تعلیم کے سلسلہ میں ، آپ کو کبھی تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا تھا ، بلکہ تعلیم کے صلے اور ثواب کے شوق و اشتیاق میں آپ اس قدر مگن ہو جاتی تھیں کہ تھکن اور محنت و مشقت کےدرد سے آپ کے پختہ عزم پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آتی تھی : آپ فرمایا کرتی تھیں ” فقالت : اکتریت انا لکلّ مسألة بأکثر من مل ء ما بین الثّریٰ الی الارض لؤلؤا فأحریٰ ان لا یثقل علیّ”(12) میں جو بھی شرعی مسئلہ دوسروں کو سکھاتی ہوں اس کے صلے میں مجھے زمین و آسمان کی وسعت سے زیادہ موتی و جواہر ات ملیں گے ، یہی وجہ ہے کہ مجھے یہ بات، بارِگراں معلوم نہیں ہوتی ۔
۴ ۔ اگر آپ ، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام کی نگاہ سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیکھناچاہتے ہیں تواطاعت ِپروردگار کی راہ میں آپ انہیں مولائے کائنات کا بہترین ، یاور و مددگار پائیں گے ۔ حضرت علی علیہ السّلام کی نگاہ میں بہترین زوجہ وہ ہے جو اپنے شوہر کو نہ فقط ، برائی کے راستے پر چلنے سے روکے ، اور اطاعت ِپروردگار کے میدان سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دے ، جو نہ صرف راہِ الٰہی میں کمال و عبودیت میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ سخت اور دشوار حالات میں اپنے شوہر کی یاور و مددگار بھی ہو ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا ” الزهراء نعم العون علیٰ طاعة الله” ؛(۱3)(حضرت ) زہراء ، اطاعت الٰہی میں میری بہترین یاور و مددگار ہیں ۔
۵ ۔ چونکہ کسی چیز کو پہچاننے کا بہترین طریقہ ، اس کے ہم پلّہ ، ہم مرتبہ امور کی شناخت ہے اس لئیے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شخصیت کے تعارف کے لئیے سب سے بہترین راہنما ، پروردگار عالم کی آیت کبریٰ حضرت علی علیہ السّلام کی ذات والا صفات ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: اگر علی (ع)نہ ہوتے تو فاطمہ (س) کا کوئی کفو و ہمسر نہ ہوتا : ” لولا انّ امیرالمؤمنین تزوّجهالما کان لها کفوا علی وجه الارض الیٰ یوم القیامة من آدم فمن دونه”، (14) اگر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام نے جناب فاطمہ سے عقد نہ کیا ہوتا تو روئے زمین پر آدم اور ان کے بعد آنے والوں میں تا روز قیامت ان کا کوئی کفو و ہمسر نہ ہوتا ۔
امامت ولایت کی پاسداری میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جانفشانی
اگر جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو آپ ، حریم ولایت کے دفاع کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں ،جو کہ ان کا سب سے ممتاز اور برجستہ کردار ہے ،تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ ان کے دریائے وجود میں ایک عظیم تلاطم بپا ہے اور ان کی ہستی کی موجیں اپنے عروج پر جا پہنچی ہیں ، اور وہ اپنی ہستی ا و ر وجود کو راہ علی علیہ السّلام میں نچھاور کرنے کے لئیے آمادہ و تیّار نظر آتی ہیں ، اور فرماتی ہیں : اے علی !میری روح آپ کی روح پر قربان ہو ، میری جان آپ کی جان پر فدا ہو ! ” قالت : روحی لروحک الفداء و نفسی لنفسک الوقاء ” (۱5)۔ جب وہ یہ منظر دیکھتی ہیں کہ کچھ لوگ ان کے شوہر کو زبردستی مسجد کی طرف لے جارہے ہیں اور بہت آسانی سے ان سے منصب ِ خلافت کو غصب کر رہے ہیں تو یہ فریاد کرتی ہیں ، کہ میرے چچیرے کو چھوڑ دو ورنہ میں پورے وجود سے خدا کی بارگاہ میں تمہارے لئے بد دعا کروں گی ، یقیناخدا کے نزدیک ، جناب صالح کی اونٹنی ، مجھ سے زیادہ عزیز نہیں ہے اور میرے بچّے اس اونٹنی کے بچوں سے کم نہیں ہیں : ” خلّوا عن ابن عمّی فوالّذی بعث محمدّا بالحق ! لئن لم تخلوّا عنه لأنشرنّ شعری و لأضعنّ قمیص رسول الله علیٰ راسی و لأصرخنّ الی الله تبارک و تعالیٰ فما ناقة صالح باکرم علی الله منّی ولا الفصیل بأکرم علی الله من ولدی ” ؛ (16) میرے چچا کے بیٹے کو چھوڑ دو ، اس خدا کی قسم جس نے محمّد ﷺ کو بر حق نبی بنا کر بھیجا اگر تم اسے نہیں چھوڑو گے تو میں اپنے بال پریشاں کر دوں گی ، اور اپنے سر پر رسول اللہ کا کرتا ڈال کر خداوند متعال کی بارگاہ میں نفرین کروں گی ، خدا کے نزدیک جناب صالح کی اونٹنی نہ تو مجھ سے زیادہ عزیز ہے اور نہ ہی اس کے بچّے میرے بچّوں سے زیادہ عزیز ہیں ۔
۷ ۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ، عطوفت رحمانی اور رافت یزدانی کا مظہر ہیں ، حضر ت زہراء سلام اللہ علیہا اپنے شیعوں اور ولایت کے پیروکاروں کے لئیے رحمت کی بارش ہیں اور ان کے چہروں سے گناہوں اور عذاب کی دھول کو دھو ڈالیں گی جن کے چہرے گناہ و عصیان کی دھول سے اٹے ہوں گے ،آپ (س) پروردگار عالم کوتمام انبیائے کرام اور بچّوں کی گریہ و زاری کا واسطہ دے کر اپنے گنہگار شیعوں کی مغفرت کا وسیلہ بنیں گی
،آپ ان الفاظ میں پروردگار عالم سے مخاطب ہوں گی ” الهي و سیّدی ! اسئلک بالّذین اصطفیتهم و ببکاء ولدیّ فی مفارقتی ان تغفر لعصاۃ شیعتی و شیعة ذرّیتی “؛ (۱7) اے میر ے خدا، اے میرے مالک ، تجھے تیرے مبعوث کردہ انبیاء اور میرے ان بچّوں کے گریے کا واسطہ جو میری جدائی میں روتے رہے ہیں ، میرے گنہگار شیعوں اور میری ذرّیت کے گنہگار شیعوں کو بخش دے ۔ جب محشر کے صحرا میں ہر سو جہنّم کی آگ اور جہنمیوں کی چیخ و پکارسنائی دے رہی ہو گی اور جہنّم کی “هل من مزید” (18) کی آواز شیعوں کے کانوں میں پڑے گی اور ان پر لرزہ طاری ہو گا تو حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ان پر اپنی شفاعت اور نجات کے پروں کا سایہ ڈال دیں گی ۔اس سلسلے میں معصومہ کونین فرماتی ہیں ” اذاحشرت یوم القیامة اشفع عصاة النّبی” (19) جب روز قیا مت، محشر بپا ہو گا تو میں اپنے بابا کی امّت کے گنہگاروں کی شفاعت کروں گی ۔
۸۔ اگر حضرت زہرا کو زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی کےلحاظ سے دیکھنا چاہیں تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ مرضیٔ معبود کے شیریں شہد نے انہیں خدا کی نافرمانی و عصیان سے کوسوں دور رکھا ہے اور دنیا کی زرق و برق ان کی نگاہوں میں ہیچ ہے ، جب رسول خدا ﷺ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف فرما ہوتے تھے
تو آپ اکثر یہ منظر دیکھتے تھے کہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ایک ہاتھ سے چکّی پیس رہی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بیٹے حسن کو بہلا رہی ہیں ، جب رسول اسلام ﷺ جناب فاطمہ کو عالمِ آخرت کی رغبت دلاتے اور دنیاکی طرف مائل ہونے سے منع کرتے تھے تو آپ خوشی خوشی اس دعوت کو قبول فرماتیں اور خداوند متعال کی نعمتوں کا شکر بجا لاتی تھیں : یا بنتاه ! تعجّلی مرارة الدّنیا بحلاوةالآخرة ؛ فقالت: یا رسول الله ! الحمد لله علیٰ نعمائه و الشّکر علیٰ آلائه” (20) اے بیٹی! آخرت کی حلاوت کے عوض ، دنیا کی سختیوں کو برداشت کرو تو آپ فرماتی تھیں: اے رسولِ خدا ! خدا کی نعمتوں پر اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے ۔
جب اچانک جناب سلمان کی نگاہ بی بی کے پھٹے پرانے لباس پر پڑ جاتی ہے تو وہ حیرت سے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ، حضرت زہراء جناب سلمان سے فرماتی ہیں “یا سلمان انّ الله ذخّر لنا الثیاب و الکراسیّ لیوم آخر” (۲1) اللہ نے ہمارے لئیے لباس و کرسی روزِآخرت کے لئے رکھی ہے ، ہم نے عالم آخرت کی خاطر ، دنیا میں اپنے مادی حصّہ سے صرف نظر کیا ہے ۔
جب کبھی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو روزِ قیامت ، راستہ کی دشواری و سختی اورمفلسی کی یاد ستاتی تو آپ کے چہرہ اقدس پرحزن وملال کے بادل چھا جاتے ، ایک دن آنحضرت ﷺ نے اس اداسی کا راز معلوم کیا تو آپ نے جواب دیا “یا ابة ذکرت المحشر و وقوف النّاس عراة یوم القیامة”(22) اے بابا جان! مجھے روزقیامت ، اور لوگوں کے عریاں محشور ہونے کی یاد ستا رہی ہے۔
جب ایک دوسرے دن ، پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی بیٹی کو نہایت پریشاں حال اور آشفتہ دیکھا تو اس کا سبب پوچھا، جواب میں آپ نے روز قیامت کے خوف ، فاقے اور حسر ت و یاس کا تذکرہ کیا “والله ! لقد اشتدّ حزنی و اشتدّت فاقتی و طال سقمی” (۲3) خدا کی قسم میرے حزن و ملال اور فاقہ و بیماری میں اضافہ ہو گیا ۔
۹ ۔ اپنے بچّوں کی تربیت کے مقام میں وہ ایک ایسے ہمدرد باغبان کی شکل میں نظر آتی ہیں جو اپنے باغ ِ ہستی کے پھولوں کی اس طرح پرورش کرنا چاہتا ہے کہ ان کے وجود کی خوشبو سے عالم انسانیت مہک اٹھے اور ان کے ذریعہ ، عالم انسانیت معراج ِعبودیت پر فائز ہو اور معاشرے میں عدل کے معیار کو فرو غ حاصل ہو ۔ حضرت زہراء نے اپنے بچّوں سے پروردگار عالم کی اطاعت و بندگی کی سفارش کی اور اپنے والدِ ماجد حضرت علی علیہ السّلام کی طرح صرف و صرف ، پروردگار عالم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی سفارش کی جو ہر قدرت و عزّت کا سرچشمہ ہے ، اور انہیں یہ نصیحت کی کہ وہ خدا کے سوا کسی طاقت کو خاطر میں نہ لائیں اور اسے ہیچ سمجھیں اور کینہ پرور انسانوں سے کسی قسم کی دوستی کا رشتہ قائم نہ کریں :
أ شبه اباک یا حسن ! واخلع عن الحق الرسن واعبد اله ذامنن ولا توال ذاالأحن (24)
(اے حسن اپنے باپ کی شبیہ بن جاؤ اور سخاوت کا اظہار کرو اور اس خد کی عبادت کرو جو تمام نعمتوں کا سرچشمہ ہے اور کینہ پرور انسان سے دوستی نہ کرو )
مشکلات و سختیوں کے مقابلے میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا صبر وتحمّل
۱۰ ۔ مصائب و آلام اور مشکلات کے مقابلہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا چہرہ اس قدر باعظمت و باشکوہ ہے گویا آپ کے کوہِ وجود کو سیسہ پلائی ہوئی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے اور کوئی بھی مصیبت آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں پیدا کر سکتی بلکہ مصائب و آلام میں جس قدر اضافہ ہوتا جاتا ہے ، خدا کی آزمائش و امتحان سے گذرنے والی اس خاتون کے چہرے پر اسی قدر خشنودی و رضایت کے زیادہ آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قربِ الٰہی کے درجات میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے ،حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی زیارت میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں “یا ممتحنة امتحنک الله الّذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرة “(25) اے خدا کی امتحان شدہ ہستی ، جسے خدا نے تیری خلقت و پیدائش سے پہلے آزمایا اور تجھے تیرے امتحان میں صابر پایا ۔
اختتامیہ کلمات
اس تحریر کے اختتامیہ کلمات میں جو بات بطو رِ یادگار صفحہ قرطاس پر لائی جاسکتی ہے اور صفحۂ دل میں اس پر عقیدہ رکھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا ء ” کوثر ” ہیں اور یہ دخترِبطحاپوری دنیا کے لئیے نمونۂ عمل ہے آپ کی ذات گرامی نہ فقط خواتین کے لئے نمونۂ عمل اور قائد ہے بلکہ تمام مردوں اور نیک افراد کی بھی قائد و رہبر ہے ۔
خوشی و غضب ، صرف دو صفتیں نہیں ہیں بلکہ تما م انسانی صفات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں ۔ چونکہ کسی بھی انسان کاکوئی بھی عمل دو حالت سے خار ج نہیں ہے یا تو خداوند متعال اس سے راضی و خشنود ہے یا اس پر غضبناک ہے، چونکہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ذات والا صفات ، رضائے الٰہی اور غضبِ ربوبی کا مظہر ہے (26) لہٰذاانسان کے تمام اعمال کی چھان بین حضرت زہراء کی خوشنودی اور غضب کے معیار پر ہوگی ۔ اگر کوئی عمل جناب فاطمہ کی نگاہ میں رحمانیت ِالٰہی کا مظہر قرار پائے گا تو وہ عمل شرفِ قبولیت حاصل کرے گا اور خدا ایسے صاحب عمل سے راضی و خوشنود ہوگا لیکن اگر کوئی عمل اس معیار پر کھرا نہ اترے تو خدا بھی اس عمل اور صاحب عمل پر غضبناک ہو گا ۔
روز محشر، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے میزان ہونے کا ظہور ۔
اس لحاظ سے حضرت زہراء تمام اعمال و عقائد کی قبولیت اور صحّت و بطلان کا معیار ہیں اگر بعض روایات میں یہ وارد ہوا ہے کہ یہ ہستیاں روز قیامت ، میزان عمل قرارپائٰیں گی (27) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صحرائے محشر میں ان کی یہ خصوصیت ، سب پر عیاں ہو جائے گی ورنہ وہ آج بھی ” معیار ” ہیں اور ان کی رضایت و خشنودی ، حقّانیت کا معیار ہے اور ان کا غضب ، کسی بھی عقیدہ و عمل کے باطل ہونے کا معیار ہے ۔ ہمیں توقّع ہے کہ اس باشکوہ اسلامی انقلاب کی برکت اور قائدِ انقلاب کی حکیمانہ قیادت اور اس سرزمین کے عوام کے جذبۂ جہاد و شہادت کے زیر سایہ ہم ان مثالی صاحبانِ کردار اور رحمانی میہمانوں کو بہتر انداز میں پہچان سکیں گے اور ان کے توسّل سے خدا کے دار ِ امن و سلامتی میں جگہ پائیں گے ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)بحا ر ا لانوار ، ج۴۳ ، ص ۱۷ ” خلق نور فاطمة الزهراء یومئذ کا لقندیل و علّقه فی قرط العرش فزهرت السماوات السبع و الارضون السبع من اجل ذٰلک سمّیت فاطمة الزهراء ” ۔ (۔۔ جب پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ کے نور کو قندیل کی شکل میں خلق کیا اور اسے اپنے عرش اعظم کے ایک کونے میں آویزان کیا تو اسی کی وجہ سے ساتوں زمین و آسمان جگمگا اٹھے ، اسی لئیے حضرت فاطمہ کو” زہراء “کا لقب دیا گیا ہے )
(۲) امالی شیخ صدوق ، ص ۳۹۳
(۳) سورہ کوثر ، آیت نمبر ۱ ؛ ” انّا اعطیناک الکوثر ” ۔ بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے
(4)علل الشرائع ، ج۱، ص ۲۱۸ ؛ بحارالانوار ، ج۴۳ ، ص۵
(5)نماز ظہر کی تعقیبات ؛ بحارالانوار ج۸۳ ، ص ۶۷
(6)۔ تعقیبات نماز ظہر ، بحارالانوار ؛ جلد ۸۳ ، ص۶۷ ۔
(7)۔ وہی منبع
(8)۔ وہی منبع
(9)۔ بحارالانوار ، جلد ۸۳ ، ص ۸۶
(10)۔ عیون المعجزات ، ص۵۴ ؛ بحار الانوار ، ج ۴۳ ، ص۸
(11)۔ دلائل الامامۃ ، ص ۶۶
(12)۔ بحارالانوار ، ج ۲ ، ص۳۔
(13) ۔ الکوکب الدّری ، ج۱، ص ۱۶۶ ؛ بحار الانوار ، ج۴۳ ص ۱۱۷
(14)۔ امالی صدوق ، ص ۴۷۴ ، ح ۱۸
(15)۔ الکوکب الدّری ، ج۱، ص ۱۹۶
(16)۔ بحار الانوار ، ج۲۸ ، ص ۲۰۶
(17)۔ ذخائر العقبیٰ ، ص۵۳
(18)۔ سورہ ق، آیت نمبر ۳۰
(19)۔ احقاق الحق ، ج۱۹ ، ص ۱۲۹
(20)۔ بحار الانوار ، ج۴۳ ، ص ۸۶
(21)۔ بحار الانوار ، ج۴۳ ، ص ۸۶
(22)۔ بحار الانوار ، ج ۸ ، ص۵۳
(23)۔ بحار الانوار ، ج ۳۸ ، ص ۱۹
(24)۔ فضائل خمسہ ، ج۳ ، ص ۲۱ ، ؛ بحارالانوار ج۴۳ ، ص ۲۸۶
(25)۔ معتبر سند کے ساتھ حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام سے مروی ، حضرت زہرا علیہ السّلام کی زیارت ؛ بحار الانوار ، ج ۹۷ ، ص ۱۹۴
(26)۔ قال رسول اللہ (ﷺ) یا فاطمة انّ الله یغضب لغضبک ویرضیٰ لرضاک ” رسول خداﷺ نے فرمایا اے فاطمہ ،خدا تمہارے غضب کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور تیری خوشی کی وجہ سے خوش ہوتا ہے ، کشف الغمّہ ، ج۱ ، ۴۵۸ ؛ بحار الانوار ، ج۴۳ ، ص۴۴
(27) ۔ بحار الانوار ، ج۷ ، ص ۲۵۲
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید