تازہ ترین

قرآن مجید کی آیات میں مسئلہ شناخت (2) /تحریر : محمد حسن جمالی

قرآنی مباحث کا محور اللہ تعالی کے اسماء اور صفات ہیں ۔قرآن کی آیات میں تمام ملکی وملکوتی مدارج ومراتب میں عالم کائنات ،خدا کی نشانی ہونے سے معرفی ہوئی ہے ۔ ہم یہاں نمونے کے طور پر ان بعض آیات قرآنی کی طرف اشارہ کریں گے جن میں آسماء وصفات الہی ، خلقت کے آغاز وانجام ، وحی ورسالت ، انبیاء و فرشتوں سمیت ان حقیقی یا اعتباری امور کا تذکرہ ہوا ہے جو انسان کی دنیوی واخروی زندگی سے مربوط ہیں ـ

شئیر
28 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5416

خداوند متعال کی صفات کے بارے میں نازل ہونے والی آیات میں سے سورہ توحید کی آیات ہیں :قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿1﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿2﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿3﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿4﴾
(اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ وہ (اللہ) ایک ہے۔ (1) اللہ (ساری کائنات سے) بےنیاز ہے۔ (2) نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ (3) اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ (4) اس سورے کا نام اخلاص رکھنے کی وجہ تسمیہ اخلاص عملی نہیں جو تجارتی کاموں اور عبادت کے مسائل سے مربوط ہے اور وہ حکمت عملی کے باب میں سے ہے جب کہ اس سورے کی تمام آیات حکمت نظری کے باب میں سے ہیں اور یہاں اخلاص سے مراد خدا کے لئے اخلاص وجود کا مظاہرہ کرنا ہے یہ اخلاص کا وہ بلند معنی ہے جو امیرالمؤمنین کے معروف خطبہ میں بیان ہوا ہے ۔
اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُہُ وَ کَمَالُ مَعْرِفَتِہِ التَّصْدِیقُ بِہِ وَکَمَالُ التَّصْدِیقِ بِہِ تَوْحِیدُہُ وَ کَمَالُ تَوْحِیدِہِ الْاِخْلَاصُ لَہُ وَکَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَہُ نَفْیُ الصِّفْاتِ عَنْہُ لِشَہَادَۃِ کُلَّ صِفَۃٍ اَنَّہَا غَیْرُ الْمَوْصُوفِ وَ شَہَادَۃِ کُلِّ مَوْصُوفٍ اَنَّہُ غَیْرُ الصِّفَۃِ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خطبہ اول) دین کی ابتدا للہ کی معرفت ہے۔ کمال معرفت اس کی تصدیق ہے۔ کمال تصدیق توحید ہے۔ کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمال تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔ شاہد مثال یہ جملہ ہے وکمال الاخلاص نفی الصفات عنہ ـ
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن نجفی اپنی تفسیر کوثر میں فرماتے ہیں : مفسرین کی نقل کے مطابق احد اور واحد میں فرق ہے۔ واحد اس ایک کو کہتے ہیں جس میں کثرت پائی جائے۔ یعنی واحد کے بعد اثنین، ثلاث، اربع ہو سکتا ہے اور اس ایک کو بھی واحد کہتے ہیں جس میں کثرت کا شائبہ موجود ہے۔ جیسے ایک قوم، ایک قبیلہ، ایک دنیا، ایک عالم مگر اَحَدٌ اس قسم کی کثرت قبول کرنے کی جگہ استعمال نہیں ہوتا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کو جب واحد کہا گیا تو اضافے کے ساتھ کہا گیا ہے: اِلٰہٌ وَّاحِدٌ یا الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ کہا گیا ہے۔ بغیر اضافے کے واحد نہیں، احد کہا گیا ہے۔لہٰذا احد اسے کہتے ہیں جو کسی اعتبار سے بھی کثرت قبول نہیں کرتا۔ وہ مذید لکھتے ہیں: اللہ کی وحدانیت کے بارے میں چار قسم کے توحیدی درجات کے ہم قائل ہیں:
اول۔ توحید ذات: اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا ہے جس میں کسی قسم کی کثرت کا شائبہ نہیں ہے۔ اس کے اجزا نہیں ہیں۔ یعنی وہ مرکب نہیں ہے کہ اجزا کی کثرت ہو جائے۔ اس کی ذات و صفات میں کثرت نہیں ہے کہ ذات اور صفات الگ ہو۔
دوم۔ توحید صفات: اللہ تعالیٰ کے صفات ذات سے جدا کوئی اضافی چیز نہیں ہیں جیسے انسان میں ہے کہ انسان کی ذات ہے اور علم نہیں تھا۔ بعد میں اس میں آگیا لیکن اللہ کی صفات عین ذات ہیں، زائد بر ذات نہیں ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں اللہ عالم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کو علم حاصل ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے اللہ اس ذات کو کہتے ہیں جس کی ذات علم سے عبارت ہے۔ بعنوان مثال: چار جفت ہے، چار ذات ہے، جفت اس کی صفت ہے۔ یہاں ذات و صفت ایک ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ایسے چار کا تصور کریں جو جفت نہ ہو بعد میں اسے جفت کی صفت مل گئی ہو بلکہ چار ہی اسے ہیں جو بذات خود جفت ہو۔ اسی طرح ہم اللہ کہتے ہی اسے ہیں جو بذات خود عالم ہو۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ توحید کی آیات، خداوند متعال سے شریک کی نفی کرنے کے مقام میں ہیں اس کے علاوہ قرآن کی دوسری آیات میں بھی خدا سے مکمل طور پر شریک کی نفی ہوئی ہے جیسے قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ـ کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
سورہ مبارکہ انعام آیت نمبر 73 میں اللہ تعالی کے مبدئ وخالق ہونے کی تصریح کے ساتھ بعض اسلامی اصولوں کا بھی ذکر ہوا ہے ۔ وَ ھوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ۬ؕ قَوۡلُہُ الۡحَقُّ ؕ وَ لَہُ الۡمُلۡکُ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ ؕ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا اور جس دن وہ کہے گا ہو جا! تو ہو جائے گا،اس کا قول حق پر مبنی ہے اور اس دن بادشاہی اسی کی ہو گی جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ پوشیدہ اور ظاہری باتوں کا جاننے والا ہے اور وہی باحکمت خوب باخبر ہے۔
اس میں خلقت کی نسبت حق کی طرف دی گئی ہے یعنی حق تعالی نے انسان کو خلق کیا ہے ـ اس آیت میں خدا کے مبدئ ہونے کی تصریح کرنے کے علاوہ معاد کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے کیونکہ موجود بالحق وہ ہے جو با ہدف ہے چنانچہ موجود بے ہدف عبث ہے ـ بنابرایں قرآن مجید کی بعض آیات میں اللہ تعالی نے خلقت کے عبث ہونے کی نفی کرنے کے ساتھ معاد کو ثابت بھی کیا ہے جیسے اَفَحَسِبْتُـمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گےـ پس سورہ انعام کی پہلی آیت کا پہلا حصہ اسلامی تین بنیادی اصولوں یعنی مبداء، معاد اور آسمان وزمین مخلوق ونشانہ الہی ہونے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اسی آیت میں معاد کے بارے میں بھی تصریح ہوئی ہے اور آیت کے آخری حصے میں غیب وشہود کی نسبت اللہ کی جانب دینا اس حقیقت کی نشانی ہے کہ جہان خلقت، غیب و شہود میں تقسیم ہوئی ہے اور عالم ، غیب وشہود میں تقسیم ہونا علم ، اسباب ، وسائل اور علم کے شرائط وموانع کی تقسیم کا باعث بنتا ہے ۔ سورہ یونس کی آیت نمبر 5 بھی مذکورہ سورہ انعام کی آیت میں بیان ہونے والے اسلامی اصولوں پر ناظر ہے ۔ ھوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَـ وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو، اللہ نے یہ سب کچھ صرف حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے، وہ صاحبان علم کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے حق کی نشانی آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ یعنی نظم وہدف کی بنیاد پر خلق کیا ہے پس آسمان اور زمین اللہ تعالی کی با ہدف مخلوق ہیں ۔
قرآن مجید کی متعدد آیات میں وحی اور لوگوں کی ہدایت کے لئے نبوت و آسمانی رہبری کا تذکرہ ہوا ہے مثلا” سورہ نساء آیت نمبر 164۔ 165 میں خدا فرماتا ہے : وَ رُسُلًا قَدۡ قَصَصۡنٰہُمۡ عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ رُسُلًا لَّمۡ نَقۡصُصۡہُمۡ عَلَیۡکَ ؕ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوۡسٰی تَکۡلِیۡمًا﴿ ۱۶۴۔ ان رسولوں پر (وحی بھیجی) جن کے حالات کا ذکر ہم پہلے آپ سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کے حالات کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے تو خوب باتیں کی ہیں۔ اسی طرح آیت 165 میں فرمایا: رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا(یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
یہ آیات حضرت موسی کلیم اللہ سے مخصوص نہیں بلکہ نبوت عامہ میں خدا کے تمام رسولوں سے مربوط ہیں جن کا وظیفہ لوگوں کو ڈرانا اور بشارت دینا ہے ۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے : اگر انسان کی ہدایت کے لئے انبیاء نہ آئے ہوتے تو لوگ اللہ تعالی کے حضور احتجاج کرتے چنانچہ خدا نے انبیاء بھیج کر لوگوں پر اتمام حجت کیا ہے ۔ یہ آیات نبوت عامہ کے مباحث پر جس طرح واضح دلالت کرتی ہیں اس مطلب پر بھی نمایاں طور پر دلالت کرتی ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کےلئے عقل لازم ضرور ہے مگر ہرگز کافی نہیں بلکہ ہدایت کے لئے انسان ،عقل کے علاوہ وحی الہی کا بھی محتاج ہے کیونکہ یہ عبارت ۔ لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل ۔ تنہا گرچہ واجد مفہوم نہیں لیکن مقام استدلال وتحدید میں یہ اس معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وحی الہی نہ ہوتی تو روز قیامت انسان یوں احتجاج کرسکتا تھا کہ پروردگار آپ نے انبیاء ورسولوں کو ہماری ہدایت کے لئے بھیجے بغیر ہم سے تکلیف کا تقاضا کیا ہے ـ پس آدمی کی عقل اس معنی پر ہونے والے استدلال کو سمجھنے کی قدرت رکھتی ہے کہ وحی کی مدد کے بغیر انسان اپنے مقصد کی طرف نہیں جاسکتا ۔
…………جاری…………..

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *