تازہ ترین

قرآن کی نگاہ میں عزت

عزت کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
عزت کا لفظ(عزّ یعزّ) سے ثلاثی مجرد کا مصدر ہے ۔ اور قرآن میں یہ لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح سے استعمال ہوا ہے۔ لفظ عزت کے بہت سے مشتقات ہیں اور ان تمام مشتقات کے معانی یکساں نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ تو اپنے اصلی معنی میں اور کچھ مجازی اور استعاری معانی میں استعمال ہوۓ ہيں۔اس لفظ کے اصلی معانی ڈکشنریوں میں اس طرح ملتے ہيں:«عزت کا لفظ شدت ، قدرت اور ہر اس معنی پر دلالت کرتا ہےجس میں غلبہ اور قہر پایا جاتا ہو» اسی طرح ایک اور مقام پر اس کا معنی یوں آیا ہے«عزت کی اصل قدرت، شدت اور غلبہ ہے» ۔ چونکہ شدت اور قوت میں ہمیشہ ایک طرح کی فوقیت اور برتری کا معنی پایا جاتا ہے لہذا «عزّت» کا معنی “وہ چیز کہ جس کا حصول ممکن نہ ہو” ہے۔

شئیر
88 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5307

علامہ طباطبائی اس لفظ کے بارے میں لکھتے ہيں:عزت کا معنی نایابی اور ندرت ہے۔ جب کہاجاۓ فلاں چیز «عزیز الوجود»ہے، اس جملہ کا معنی یہ ہے کہ اس چیز تک رسائی حاصل کرنا مشکل کام ہے۔ اسی طرح عزیز قوم سے مراد وہ قوم ہے کہ جس پر آسانی سے شکست اور غلبہ نہيں پایا جا سکتا ۔
آیۃ اللہ جوادی بھی اس بارے میں لکھتے ہيں: عزت ، ایسی محکم اور قاطع حالت کا نام ہے کہ جو مغلوب ہونے سے مانع ہو۔
پس مندرجہ بالا کی گئی تعریفوں سے یہ معنی نکال سکتے کہ لغت میں«عزّت» کا معنی شدت اور غلبہ ہے اور اس کا لازمہ دوسری قوتوں کے مقابل میں ڈٹ جانا اور شکست کو قبول نہ کرنا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں عزت کے اور بھی معانی پاۓ جاتے ہیں ان معانی میں سے سخت، گران اور نایاب ہیں اور بہ طور کلی قرآن مجید میں عزت اور اس کے مشتقات 120 مرتبہ آۓ ہيں۔
عزت اور کرامت میں فرق
عام طور پر عزت اور کرامت کے الفاظ کو مترادف اور ہم معنی سمجھا جاتا ہے جب کہ تھوڑی سی دقت کرنے سے ان دو کلمات کے معانی کو ایک دوسرے سے جدا کیا جا سکتا ہے۔
کرامت «کَرَم» کے مادے سے بنا ہےجس کا معنی بخشش اور نعمت دینا ہے۔ کرم اگر خداوند متعال کا وصف ہو تو اس سے مراد احسان اور اللہ تعالی کی واضح اور آشکار نعمت ہے۔اگر کرم بندہ کی صفت قرار دی جاۓ تو اس صورت میں کرم پسندیدہ اخلاق اور افعال کا نام ہے کہ جو انسان کے اعضاء و جوارح سے ظاہر ہوتے ہيں۔ ۔ اسی وجہ سے کچھ علماء نے ان دو کلمات کے درمیان فرق کو اس طرح بیان کیا ہے: «عزیز شخص وہ ہوتا ہے کہ جو یہ نہيں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس پر حکم چلاۓ اور کریم وہ شخص ہے کہ جو اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ حکم اس کے نفع میں دیا جاۓ»۔ اس کے علاوہ اگر ان کلمات کے متضاد کو دیکھا جاۓ تب بھی ان کے معانی واضح ہو جاتا ہیں چونکہ کرامت کا متضاد خساست اور بخل ہے جب کہ عزت کا متضاد ذلت و خواری ہے۔
عزت اور تکبر میں فرق
کچھ لوگ جہالت اور نادانی کی بناء پر عزت کو تکبر اور ذلت کو تواضع سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ذلت بھرے کام بھی انجام دیتے ہيں اسی وجہ سے بزرگان دین نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ مختلف کاموں کو انجام دینے سے پہلےان کے رذائل اور فضائل اور ان کے درمیان پاۓ جانے والے فرق کو پہچان لیں۔
اسی وجہ سے علماء اخلاق نےتکبر کی تعریف اس طرح کی ہے :جب انسان دشمنی ، عناد اور سرکشی کی وجہ سے حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کرے تو اسےتکبر کہتے ہيں۔ اس لئے عزت مند انسان اپنے آپ کو شرافت میں ایک بڑا انسان سمجھتا ہے اور دوسروں کا احترام کرتے ہوۓ ان کو حقارت و ذلت کی نگاہ سے نہيں دیکھتا جب کہ متکبر انسان اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے اسی وجہ سے حق بات اور نصیحت اس پر گران گذرتی ہےاسی لئے وہ دوسروں کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔
عزت کی اقسام
اس بات میں شک نہيں ہے کہ عزت طلبی انسان کی فطرت میں رکھ دی گئي ہے اور یہ چیز ہر زمانے اور ہر فرد میں پائی گئي ہے۔ ہر انسان فطرتا عزت کی طرف میلان رکھتا ہے اور ذلت سے متنفر ہے۔ کچھ لوگ غفلت کی وجہ سے عزت کے حقیقی منشاء سے دور ہو جاتے ہيں اور کوشش کرتے ہیں کہ عزت کے لئے شارٹ کٹ راستہ اختیار کریں جب کہ قرآن مجید نے عزت کا منبع اور سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات کو قرار دیا ہے اور اس ذات کے علاوہ کسی شخص یا چیز کو سرچشمہ عزت سمجھنا ذلت اور زوال کے سوا کچھ نہيں ہے۔ پس عزتوں کا حقیقی منشاء اللہ تعالی کے علاوہ وجود نہيں ہو سکتا چونکہ خدا تعالی فرماتا ہے :« من کان يريد العزّة فلله العزة جميعاً» ۔ پس اگر کوئی شخص عزت کے اس حقیقی منبع سے متصل ہو گیا تو درحقیقت وہ اپنے پروردگار کی لامحدود عزت کا مظہر بن جاۓ گیا اور انبیاء ، رسل ، آئمہ اور مؤمنین اس لئے دنیا میں عزت مند ہوۓ چونکہ وہ عزت کے سرچشمہ سے سیراب ہو ئے۔ اسی لئے خدا تعالی فرماتا ہے : «ولله العزّة و لرسوله و للمؤمنین» ۔ یہ عزت ، عزت واقعی ہے اور اس کا سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے اور اس کا دوسرا نام عزت ممدوح بھی ہے۔ اس حقیقی عزت کے مقابلے میں عزت ظاہری ہے کہ شکل و صورت میں تو وہ بھی عزت ہے لیکن حقیقت اور باطن میں ذلت اور خواری کے سوا کچھ نہیں۔ عزت ظاہری کی تعریف یہ ہے کہ انسان عزت کے حقیقی منشاء اور سرچشمہ یعنی خدا کو بھول جاتا ہے اور اپنے کو عزیز کرنے کے لئے دوسرے عوامل جیسے جاہ و مقام، مال و ثروت اور سستی شہرت سے تمسک کرتا ہے اور ان عوامل کے ذریعے سے ایسی قدرت کو ہاتھ میں لینا چاہتا ہے کہ جسے زوال اور شکست سے دوچارنہ ہونا پڑےاور اس طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عزت مند بنا رہے۔ ایسی عزت کا دوسرانام عزت مذموم ہے۔ ان جیسی صفات کے مالک لوگوں کے حال کو خدا تعالی اس طرح بیان کرتا ہے:«واتّخذوا من دون الله آلهة لیکونوا لهم عزّاً» ترجمہ تفسیر المیزان میں اس آیت کے ذیل میں اس طرح تفسیر کی گئی ہے: ان معبودوں سے مراد ملائکہ ، جن ، انسانوں میں سے مقدس لوگ اور جابر بادشاہ ہیں۔ چونکہ اکثر مشرکین بادشاہوں کے لئے آسمانی قداست کے قائل تھے اور اللہ تعالی کے اس فرمان کہ “لیکونوا لهم عزّاً “( تاکہ وہ ان کی عزت ہوں ) سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کے شفیع بنیں اوروہ انہیں اللہ تعالی کی درگاہ کےقریب کریں تاکہ انہيں دنیوی عزت حاصل ہو سکے»۔
اب یہاں پر حقیقی اور اصلی عزت کے بارے میں بیان کرتے ہيں۔
خداوند قدوس حقیقی اور سچی عزت کا سرچشمہ ہےاور جس نے بھی عزت کے اس سرچشمہ کی طرف قدم بڑھایا اس نے حقیقی عزت کو پا لیا۔ قرآن مجید فرماتا ہے: «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ» حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(ص) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں
حقیقی عزت کے عوامل اور اسباب
عزت کے اسباب اور عوامل مندرجہ ذیل ہیں:
1) انسان کا خدا سے ارتباط
چونکہ تمام عزتوں کا منشاء اور سرچشمہ ذات پروردگار ہے اور اس کے علاوہ باقی سب کچھ فقر و ذلت کا سراپا ہيں۔ جو شخص یہ چاہے کہ اسے عزت اور وقار ملے اور ذلت و پستی سے نجات حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ وہ الہی راستے پر گامزن ہو جاۓ ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کا مطیع محض اور فرمانبردار بن جاۓ۔
قرآن مجید فرماتا ہے:
«مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا» ؛ جو کوئی عزت کا طلبگار ہے (تو وہ سمجھ لے) کہ ساری عزت اللہ ہی کیلئے ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں عزت مندی اور آبرو کے حصول کے رمز اور راز کو سبیل خدا ، نیک کردار اور درست عقائد کو جانا گیا ہے: «إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ» ؛ (لہٰذا وہ عزت کو خدا سے طلب کرے) اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے (یا اللہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے)
عزت مند لوگوں کے امام حسین ابن علی (علیہ السلام) کہ جو تمام انسانوں میں خدائي ترین انسان تھے اور ان کے تمام وجود کو عشق خدا نے پر کر رکھا تھا ۔ آپ (علیہ السلام) عزت و سربلندی تک پہنچنے کے لئے فرماتے ہيں: “يا من خصّ نفسه بالسّموّ والرّفعة فاوليائه بعزّه و يعتزّون يا من جعلت له الملوك نير المذلة علي اعناقهم فهم من سطواته خائفون” ؛ اے وہ خدا کہ جو بلند اور رفیع (اور عزت ) و مقام کا مالک ہے پس جو اللہ کے دوست ہیں وہ اس کی عزت کے صدقے میں عزیز اور آبرومند ہو جاتے ہيں، اے وہ خدا کہ جس نے (ظالم) بادشاہوں کو ذلت کا طوق پہنا کر خاک مذلت پر بٹھا دیا ہے ، اس لئے وہ تیری عزت و عظمت کے مقابلے میں سخت پریشان اور ڈرے ہوۓ ہيں۔
یقینا، عزت اسی ذات کے ہاتھ میں ہے اور جو بھی لیاقت رکھتا ہو وہ اللہ کی دی ہوئی عزت سے مفتخر ہو سکتا ہے جیسا کہ ہم قرآن میں تلاوت کرتے ہیں:«قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُوءْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَيَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ» ؛ (اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، ہر قسم کی بھلائی تیرے قبضہ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
امام صادق (علیہ السلام) سے سؤال کیا گیا کہ آیا اللہ تعالی نے بنی امیہ کو حکومت عطا کی؟ (اور ان کو عزت بخشی)؟!!
فرمایا:نہ ، ایسا نہيں ہے بلکہ خدا تعالی نے ہمیں حکومت دی تھی ، لیکن بنی امیہ نےاسے ہم اسے ‏غصب کر لیا ،( اور خلافت کے لباس کو نا حق اپنے جسم پر پہن لیا) جیسا کہ حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہيں: «واللّه لقد تقمصها ابن ابي قحافة» ؛ آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا۔ علی (علیہ السلام) نے فرمایا: «العزيز بغير الله ذليل» ؛ وہ صاحب عزت کہ جو اللہ کے علاوہ کسی اور سے عزت لیتا ہے وہ حقیقت میں ذلیل و پست ہے۔اور فرمایا: من أعزَّ بغير الله أهلكهُ العزّ ؛ جو شخص اللہ کے راستے سے ہٹ کر عزت حاصل کرے وہی (ناروا )عزت اس کی ہلاکت( ابدی) کی موجب بنتی ہے۔
2) خدا ، رسول اور آئمہ طاہرین کی اطاعت
جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ عزت ذاتی اللہ تعالی کی ذات سے مختص ہے اور عزت اعطائی اور عنائی (وہ عزت کہ جو اللہ کسی کو عطا اور عنایت کرے) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور مؤمنین کے لئے ہے«وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ» ؛ حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(ص) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔ مؤمنین کا اکمل اور اتم مصداق ہمارے آئمہ معصمومین (علیہم السلام) ہیں۔
ایک شخص نے امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے پوچھا: «فيك عظمةٌ قال: لا، بل فيّ عزّةٌ قال الله تعالي «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ» ؛ آیا آپ (علیہ السلام) کے اندر عظمت ہے ، فرمایا: نہيں، بلکہ میں صاحب عزت ہوں جیسا کہ خدا تعالی فرماتا ہے: «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ»؛ حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔
امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا:
” الا و ان الدعی ابن الدعی قد رکز بین اثنتین بین السلۃ و الذلۃ و ھیھات منّا الذلۃ یابی اللہ ذالک لنا و رسولہ والمؤمنون و حجور طابت و طھرت” اے فوج اشقیاء !تمھارے نا مشروع امیرنے مجھے دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا ہے ، یا ذلت کے ساتھ بیعت یزید کر لوں یا جنگ کے لئے آمادہ ہو جاؤں” ھیھات منّا الذلۃ” اور ذلت ہم خاندان عصمت و طہارت سے کوسوں دور ہے” یابی اللہ ذالک لنا و رسولہ والمؤمنون و حجور طابت و طھرت” یہ کیسے ممکن ہے کہ وحدہ لاشریک کے دروازے پر سر جھکانے والا انسان ، پروردہ آغوش رسالت، فاطمہ کے دودھ سے پلنے والا انسان ، غیرت مند باپ کا غیرت مند بیٹا اور دنیا کے سب سے عظیم انسان کا عظیم نواسہ یزید جیسے فاسق او رفاجر کی بیعت کر ے یہ ممکن نہیں۔
پس جب کہ ثابت ہو گیا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آئمہ معصومین اللہ کی طرف سےعزیز اور آبرومند ہيں ۔ قرآن نے لوگوں کو اس عزت تک پہنچنے کے لئے دو راستے دکھا‌ۓ ہیں اور اس طرف دعوت دی ہے۔
‌أ. تشویق اور نمونہ عمل قرار دینا
اللہ تعالی فرماتا ہے:
«لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا» ؛ بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہےاور امام حسین (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا: “و لكم فيّ اسوةٌ” میں تمھارے لئے بہترین نمونہ عمل ہوں۔
‌ب. اطاعت اور فرمانبرداری
خداوند ‏عظیم قرآن مجید میں پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آئمہ اطہار کی پیروی اور اطاعت پر تاکید کرتے ہوۓ فرماتا ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَي اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُوءْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً» ؛ اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمانروائی کے حقدار ہیں)۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع (یا جھگڑا) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان رکھتے ہو تو یہ طریقہ کار تمہارے لئے اچھا ہے اور انجام کے اعتبار سے عمدہ ہے۔
اور اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے رسول کےاخلاق حسنہ کی بھی تعریف کی: «انّك لعلي خُلُق عظيم» ؛ اور بےشک آپ(ص) خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔
پس اس طرح پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آئمہ اطہار (علیہ السلام) کہ ان میں سے ہر ایک عزت کے سرچشمہ سے پیوستہ ہيں اور یہ ذوات مقدسہ ہمارے لئے عزت مندی کا سبب ہیں۔
امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہيں:
«اطاعة ولاةِ الأمر تمام العزّة» ؛ سب اولی الامر کی اطاعت کاملا عزت اور شرف ہے ( ساری کی ساری عزت کا خلاصہ آئمہ اطہار کی اطاعت ہے)۔
امام حسین (علیہ السلام) سے کسی نے عرض کی اے فرزند رسول کوئی ایسی حدیث کہ جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے بلاواسطہ سنی ہو، بیان فرمائیں: حضرت نے فرمایا: اللہ تعالی عظیم اور باشرافت کاموں کو دوست رکھتا ہے اور پست اور ذلت آمیز کاموں کو ناپسند کرتا ہے ”
ہاں، البتہ عزت مند انسان ، باعزت و احترام والی بات کرتا ہے ، ظرف سے وہی کچھ باہر ٹپکتا ہے جو اس میں موجود ہوتا ہے۔
3) قرآن (کتاب عزیز) کے ساتھ متمسک رہنا
قرآن مجید کلام الہی اور پروردگار عالم کی قدرت ، عزت اور علم و حکمت کا جلوہ ہے اور اس کی نورانی آیات خداوند متعال کی عزت و عظمت کی نشاندہی کرتی ہيں۔قرآن کریم ایک مسلمان کےلئے عزت و شرافت کے حصول کے لئے نسخہ کیمیا ہے چونکہ خود قرآن عزیز و آبرومند ہے: «إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ * لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلا مِنْ خَلْفِهِ…» ؛ جن لوگوں نے ذکر (قرآن) کا انکار کیا جب وہ ان کے پاس آیا حالانکہ وہ ایک زبردست (معزز) کتاب ہے۔ باطل کا اس کے پاس گزر نہیں ہے وہ نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے یہ اس ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے جو بڑی حکمت والی ہے (اور) قابلِ ستائش ہے۔ چونکہ خداوندمتعال کہ جو عزت و بزرگی کا سرچشمہ ہے اس کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔
“تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ” ؛ یہ کتاب (قرآن) اس خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ جس نے بھی قرآن کے دامن کو تھاما اس نے عزت کا راستہ اختیار کیا۔ خداوند عالم فرماتا ہے: “وَيَرَي الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَي صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ” ؛ اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں وہ کچھ (قرآن) آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور وہ غالب اور لائقِ ستائش (خدا) کے راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ ہاں، البتہ مسلمانوں کی عزت اس میں ہے کہ وہ قرآن کہ جو حبل المتین اور اللہ کی مضبوط رسی ہے اس کو تھام لیں اور اس کے فرامین کے مطابق کامل عمل کریں، لہذا قرآن مجید فرماتا ہے: “وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَيَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون” ؛ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے کہ تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت (فضل و کرم) سے بھائی بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے بھرے ہوئے گڑھے (دوزخ) کے کنارے پر کھڑے تھے جو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔
ایک اور آیت میں فرماتا ہے:
“فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ۔۔وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ” ؛پس آپ(ص) مضبوطی سے اسے تھامے رہیں جس کی آپ(ص) کی طرف وحی کی گئی ہے۔ یقیناً آپ سیدھے راستہ پر ہیں ۔ اور بےشک وہ (قرآن) آپ(ص) کیلئے اور آپ(ص) کی قوم کیلئے بڑا شرف اور اعزاز ہے اور عنقریب تم لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
علی (علیہ السلام) فرماتے ہيں:
“و عزّا لاتهزمُ انصارُهُ” ؛قرآن اپنے دوستوں کے لئے عزت کا تحفہ دیتا ہے کہ جس کے بعد شکست اور مغلوبیت نہيں ہے۔ اور فرمایا: “و عزّا لِمَنْ تَوَلاّه” ؛ اور عزت اور قدرت اس کے لئے ہے کہ جو قرآن کے احکام کی اطاعت کرے۔
4) مؤمنین کی صفات سے متصف ہونا
ہر انسان کی شخصیت اس کی عزت کی مرہون منت ہے۔ انسان ، اپنی شخصیت کی عزت و تکریم میں ساری چیزوں (حتی کھانے پینے) سے زیادہ نیازمند ہوتا ہے، چونکہ کھانے پینے کی تکلیف اور اذیت برطرف ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ حقارت کہ جو ذلت ، خواری اور عزت نہ ہونے کی وجہ سے کسی شخص یا معاشرے کی روح و روان کو دامنگیر ہوتی ہے وہ آسانی سے پیچھا نہيں چھوڑتی ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو عزیز اور آبرومند خلق کیاہے«وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ» اور اسے کبھی بھی ذلت پذیری اور عزت کے ہاتھ جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔امام صادق نے فرمایا: “انّ اللّه فوّض الي المؤمن أموره كلّها و لم يفوّض اليه ان يكون ذليلاً أما تسمع الله يقول” : «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ» فالمؤمن يكون عزيزا و لايكون ذليلاً ان المؤمن اعزّ من الجبل…» ؛ خدا تعالی نے مؤمن کو (اس کی زندگی کے ) تمام امور کے انتخاب میں خود مختاربنا دیا ہے لیکن اس کو اس بات کا اختیار نہیں دیا کہ وہ ذلت قبول کرے ، آیا اللہ کے اس فرمان کو نہیں سنا کہ فرمایا: ( عزت اللہ ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لئے ہے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے )؛ پس مؤمن ہمیشہ عزیز اور آبرومند ہے اور ہرگز ذلت کو قبول نہیں کرتا، بتحقیق مؤمن پہاڑ سے بھی زیادہ محکم اور عزیز ہے ( کہ جو طوفانوں سے نہيں لرزتا)۔ امام حسین (علیہ السلام) نے بھی فرمایا:” مؤمن ذلت قبول نہیں کرتا، خداوند متعال اور پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بھی مؤمنین کو ایسا کرنے کی اجازت نہيں دی ہے۔”هيهات منا الذلة قط اخذ الدنية یابی الله ذلك و رسوله”۔
جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عزت و آبرو کے عوامل اور اسباب میں سے ایک ایمان لاکر اور اللہ کی طرف میلان پیدا کر کے مؤمنین کی صف میں قرار پانا ہے، بلکہ اس سے بھی بالا تر یہ ہے کہ نہ تنہا مؤمن ہونا عزت آفرین ہے بلکہ مؤمنین کے ساتھ تعلق اور میل ملاپ بھی رکھنا عزت آور ہے۔ چونکہ صلح اور کینہ چھپے راستوں سے ایک سینہ سے دوسرے سینے میں چلے جاتے ہيں۔ جیسا کہ فارسی زبان میں کہتے ہيں۔
صحبت طالح تو را طالح كند صحبت صالح تو را صالح كند؛ یعنی طالح (بدبخت اور بے ایمان) کی دوستی تجھے بدبخت اور رسوا کر دے گی اور نیک لوگوں کی رفاقت تجھے نیک بنا دے گی۔ جیسا کہ ناپاک لوگوں کی ہمراہی اور دوستی (بالخصوص منافقین اور کفار کی دوستی) ذلت و خواری کا باعث بنتی ہے۔ بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا * الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُوءْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا» ؛ منافقوں کو سنا دیجیے! کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔وہ (منافق) جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں۔ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے (اس کے اختیار میں ہے)۔ مندرجہ بالا آیت سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ جو لوگ عزت و آبرو کسب کرنا چاہتے ہيں ان کو مؤمنین کے ساتھ تعلق اور ارتباط رکھنا چاہیےچونکہ مؤمنین عزت کے اصلی سرچشمہ یعنی خدا تعالی کے ساتھ ارتباط رکھے ہوۓ ہيں نہ کفار و منافقین کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرتے ہیں۔
5) اصالت خانوادگی ( خاندانی شرافت)
وراثت اور تربیت انسان کی شخصیت کی تعمیر کے اصلی عوامل میں سے ہیں۔ وہ لوگ کہ جو معزز گھرانوں میں پیدا ہوتے ہيں اور باعزت ماں باپ کی گود میں آنکھ کھولتے ہيں اور شرافت و عزت کے ماحول میں پرورش پاتے ہيں وہ عزت کے خواہاں اور خاندانی شرافت کے نگہبان ہوتے ہيں، ایسے لوگ یا بالکل ذلت قبول نہيں کرتے یا پھر کم تر زیر بار ذلت جاتے ہيں اور اللہ تعالی بھی ان جیسےلوگوں کی عزت کا محافظ ہوتا ہے۔ حضرت موسی اور جناب خضر کی داستان میں پڑھتے ہیں: وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ.» ؛ باقی رہا دیوار کا معاملہ تو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان بچوں کا خزانہ (دفن) تھا۔ اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں اور یہ سب کچھ پروردگار کی رحمت کی بناء پر ہوا ہے۔ اور میں نے جو کچھ کیا ہے اپنی مرضی سے نہیں کیا (بلکہ خدا کے حکم سے کیا) یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اوپر والی بیان شدہ آیت سے پتہ چلتا ہے کہ خداتعالی بہترین بندوں کے ذریعے مؤمن کے بچوں کی (مالی اور معنوی) عزت کی حفاظت کرتا ہےاور ایسے فرزند بھی اپنی اصالت خانوادگی کے نگہبان ہوتےہيں۔امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «و هيهات منا الذّلة… و جدودٌ طابت و حجورٌ طهرت و انوفٌ حميّةٌ و نفوسٌ ابيّةٌ لاتؤثر طاعة اللئام علي مصارع الكرام…» ؛ بہت بعید ہے کہ ہم ذلت اور خواری کو قبول کریں،خدا اور رسول نے ہمیں اس طرح کی اجازت نہيں دی ہے اور ہمارے خاندان کی شریف اور پاک دامن مائیں ، عزت نفس اور ہمت بلند رکھنے والا خاندان ہرگز اجازت نہيں دیتا کہ ہم ذلیل اور پست لوگوں کی اطاعت کو شرافت مندانہ موت پر ترجیح دیں۔
6) جہاد و شہادت
شرافت مند افراد اور عزت مند معاشرہ ہمیشہ ستم گر، بے شخصیت اور ذلیل بدمعاشوں کے ذریعے سے مورد ہجوم قرار پاتے ہيں، لیکن وہ لوگ کہ جو عزت ، شرافت اور پاسداری کی پہلی صف میں قرار پاتے ہیں وہ مجاہدین فی سبیل اللہ اور شہداء ہيں۔ وہ کوشش کرتے ہيں کہ اپنی جان نثار کر کے اپنی عزت و شرافت کی حفاظت کریں اور خود بھی ہمیشہ ہمیشہ کی عزت و عظمت سے سر افراز ہوں۔ قرآن کریم ان جیسے بہادر لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے: «فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَي الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَي وَفَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَي الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا * دَرَجَاتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً» ؛مسلمانوں میں سے بلا عذر گھر میں بیٹھے رہنے والے اور راہِ خدا میں مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو درجہ کے اعتبار سے بیٹھے رہنے والوں پر فضیلت دی ہے اور یوں تو اللہ نے ہر ایک سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اس نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ساتھ فضیلت دی ہے۔یعنی اس کی طرف سے (ان کے لئے) بڑے درجے، بخشش اور رحمت ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ایک اور آیت میں تلاوت کرتے ہيں: «وَكَفَي اللَّهُ الْمُوءْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» ؛ اور اللہ نے مؤمنوں کو جنگ (کی زحمت) سے بچا لیا اور اللہ بڑا طاقتور (اور) غالب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
«فرض الله الجهاد عزّا للاسلام» ؛اللہ تعالی نے جہاد کو اسلام کی عزت و سربلندی کے لئے واجب قرار دیا ہے۔
امام حسین (علیہ السلام) نے حر بن ریاحی کے جواب میں کہ جب اس نے جہاد و شہادت سے ڈرایا تو آپ نے جہاد و شہادت کی عزت آوری کے بارے میں فرمایا: «ليس شأني شأنِ مَنْ يخافَ الموت ما اهونَ الموتُ علي سبيل نيل العِزّ و احياء الحقّ، ليس الموت في سبيل العزّ الاّ حياةً خالدةً و ليست الحياة مع الذّل الا الموت الذي لا حياة معه افبالموت تخوّفني؟ هيهات حاش سهمك و خاب ظنّك لست اخاف الموت ان نفسي لاكبر من ذلك و همّتي لاعلي من ان احملِ الضيم خوفا من و هل تقدرونَ علي اكثرَ من قتلي؟! مرحبا بالقتل في سبيل الله ولكنّكم لايقدرون علي هدم مجْدي و محو عزّتي و شرفي فاذا لا ابالي من القتل» ؛ میں ان لوگوں میں سے نہيں ہوں کہ جو موت (شہادت) سے ڈرتے ہیں اور کتنا آسان ہے عزت ابدی اور دین حق کو زندہ کرنے کے لئے جان پر کھیلا جاۓ۔ عزت تک پہنچنے کے لئے جان دینے کا نتیجہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے علاوہ اور کچھ نہيں ہے اور ذلت آمیز زندگی سواۓ ایسی موت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جس میں کسی قسم کی زندگی کی رمق موجود نہ ہو۔ آیا تو مجھے موت اور شہادت سے ڈراتا ہے؟! بہت بعید ہے (کہ تو مجھے راہ حق سے پلٹا دے) تیرا نشانہ خطا گیا ہےاور تیرا یہ خیال باطل ہے۔ میں اور موت سے ڈروں؟! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں اور میری ہمت و حوصلہ اس سے بہت بلند ہے کہ موت کے ڈر سے ظلم و ستم کو برداشت کروں۔ تم لوگ مجھے قتل کرنے کے علاوہ کر ہی کیا سکتے ہو؟! درود و سلام ہو ، اللہ کی راہ میں قتل ہو جانے پر( لیکن اس بات کو یاد رکھنا) کہ تم لوگ میری عزت اور عظمت اور شرف ابدی کو نابود نہیں کر سکتے، لہذا میں موت و شہادت در راہ خدا سے بالکل ہی نہيں ڈرتا۔
یہی امام حسین(علیہ السلام) کے الفاظ تھے کہ جنہوں نے حربن یزید کو عزت ابدی کی طرف کھینچا اور ہمیشہ کے لئے حر کو عزت مند اور آبرو دار بنا لیا ۔
ایک اور جگہ پر فرماتے ہيں:”موتٌ في عزّ خيرٌ من حياةٍ في ذُلٍّ” عزت کی موت ذلت کی زندگی سے (کئی درجے) بہتر ہے۔
7) بصیرت ، علم اور آگاہی
ایک اور عامل کہ جو عزت و شرف آفرینی میں مہم ترین رول ادا کرتا ہے وہ دینی بصیرت و آگاہی کے علاوہ زمانہ شناسی ہے۔ قرآن مجید صاحبان علم و آگاہی کی عزت و رفعت اور مقام کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے: «يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ» ؛ اللہ ان لوگوں کے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے در جے بلند کرتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بڑا باخبر ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ایمان اور مؤمنین عزت آفرین ہیں ۔
امام صادق (علیہ السلام) سے سؤال کیا گیا کہ آیا اللہ تعالی نے بنی امیہ کو حکومت عطا کی؟ (اور ان کو عزت بخشی؟) فرمایا:نہ ، ایسا نہيں ہے بلکہ خدا تعالی نے ہمیں حکومت دی تھی ، لیکن بنی امیہ نے ہم سے اسے ‏غصب کر لیا ،( اور خلافت کے لباس کو نا حق اپنے جسم پر پہن لیا)
انسان عالم دشمن کے ذلت آور سازشوں کا شکار نہیں ہوتا ۔ امام علی (علیہ السلام)فرماتے ہيں: جو شخص زمان شناس ہو وہ زمانے کے فتنوں سے غافل (عاجز) نہیں ہوتا بلکہ ان کا آمادگی کامل کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔
اسی طرح بصیرت کے نقطہ مقابل یعنی جہل اور بے خبری انسان کی ذلت کا باعث بنتے ہيں۔ علی (علیہ السلام) فرماتے ہيں: «والجهل ذُلّ»نادانی اور جہالت( دین اور زمانے سے بے خبری) ذلت و رسوائی ہے۔
امام حسین (علیہ السلام)( کہ جو معزز اور آبرومند لوگوں کے پیشوا تھے) کے اصحاب کا جان تک کھیل جانےکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے نے ہمیشہ ہمیشہ کی عزت و آبرو کو تخلیق کیا اور جس کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عزت مند اور جاوید ہو گئےاور یہ وہی بصیرت و آگاہی تھی۔ ان سب کے سرفہرست جب ابوالفضل العباس صاحب رشادت تھے کہ جنہوں نے ذلت آمیز امان نامہ کو قبول نہ کیا چونکہ آپ بہت زیادہ بصیرت کے مالک تھے۔امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: «كان عمّنا العباس نافذَ البصيرة» ؛ کہ ہمارے چچا عباس نہایت ہی صاحب بصیرت تھے۔ عمر ابن سعد (کہ جس نے اتنی زیادہ ذلت و خواری کو برداشت کیا،اس کی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری تیز بینی اور بصیرت کا نہ ہونا تھا۔ ابن زیاد نے اس فکری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوۓہزار چہرے، پست اور ذلیل شخص یعنی شبث بن ربعی کو ان کے ساتھ ہمراہ کیا تاکہ قتل حسین(علیہ السلام) کی توجیہ کرے۔ شبث نے کوشش کی کہ کسی طرح عمربن سعد کے ذہن میں یہ بات ڈالے کہ حسین (علیہ السلام) کافر حربی ہیں کہ جن کا قتل واجب ہے!!اسی وجہ سے ان کا قتل ماہ حرام (محرم ) میں جائز ہے۔
عزت کے دشمن لوگ
البتہ اس دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں کہ جو عزت اور آبرو کے دشمن ہیں اور وہ دو گروہ ہيں۔
1) ظالم سلاطین
ستمگر اور ظالم لوگ سلاطین اور بادشاہوں کے روپ میں طول تاریخ میں معاشرے کی ذلت و خواری کا باعث بنے ہيں اور عزت کو خراب کرنے کے درپے رہے ہيں۔ قرآن مجید میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: «قالت إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ» ؛ ملکہ نے کہا بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور ایسا ہی (یہ لوگ) کریں گے۔
حدیث میں ہے لوگ عزت کو (ظالم) بادشاہوں کی اطاعت میں ڈھونڈتے ہيں وہ ہرگز عزت نہ پا سکیں گے(البتہ ذلت و خواری ان کا مقدر بنے گی)۔ «والناس يطلبونها في ابواب السلاطين»۔
2) منافقین
خدا تعالی فرماتا ہے:«يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَي الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوءْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ» ؛ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم لَوٹ کرمدینہ گئے تو عزت والے لوگ وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔
نتیجہ گیری
در نتيجه منافقین عزّت ستيزي تو کرتے ہيں لیکن ذلت سے گریز نہیں کرتے
فہرست منابع
1. ابن شعبه، علي ، تحف العقول
2. ابن فارس، معجم مقائیس اللغة
3. ابن منظور، لسان العرب
4. ابوعلم، توفيق ، كتاب اهل البيت (مصر، مطبعه سعادت)
5. اسحاقي، سيد حسين ، جام عبرت، قم، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، 1381۔
6. اصفهانی، راغب ، المفردات فی غریب القرآن
7. آمدي،عبدالواحد ، غرر الحكم (قم) دفتر تبليغات اسلامي
8. جوادی آملی ، توحید در قرآن
9. ري شهري، محمدي ، ميزان الحكمة، (دارالحديث، چاپ دوّم، 1419 هـ.ق)
10. قرآن کریم
11. قریشی، قاموس قرآن
12. قمي، شيخ عباس ، مفاتيح الجنان، دعاي امام حسين در روز عرفه
13. قمي، شيخ عباس ، نفس المهموم، تهران، كتاب فروشي علميه اسلاميه، 1374 ه
14. مجلسي، محمد باقر ، بحارالانوار، (بيروت، مؤسسة الوفا)
15. مصطفوی، حسن ، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم
16. مصطفی، ابراهیم ، المعجم الوسیط،
17. مكارم ، استاد ناصر شيرازي و همكاران، تفسير نمونه، (دار الكتب الاسلامية1370)
18. موسوی جزائری، فروق اللغات فی التمییز بین مفاد الکلمات
19. موسوی همدانی، ترجمه‌ی المیزان
20. نہج البلاغہ

 

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *