قیام امام حسین علیہ السلام کے مقاصد
اگر ھم تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو بے شمار تحریکیں اور قیام دیکھنے کو ملتے ہیں اگر غور کیا جائے تو معلوم ھوگا وہ تحریکیں جو انسانی اقدارپر مبنی ہیں اور ایسے قیام جو اقدار انسانی تحفظ کی خاطر ھوئے بیشتر ایسے قیام انبیاء الھی اور اولیاء خدا کی رھبری میں وقوع پذیر ھوئے ہیں۔اگر […]
اگر ھم تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو بے شمار تحریکیں اور قیام دیکھنے کو ملتے ہیں اگر غور کیا جائے تو معلوم ھوگا وہ تحریکیں جو انسانی
اقدارپر مبنی ہیں اور ایسے قیام جو اقدار انسانی تحفظ کی خاطر ھوئے بیشتر ایسے قیام انبیاء الھی اور اولیاء خدا کی رھبری میں وقوع پذیر ھوئے ہیں۔
اگر ھم غور اور دقت نظر سے دیکھیں تو یہ جتنے اھداف و مقاصد انبیاء الھی کے قیاموں میں نظر آتے ہیں وہ بنحو اتم قیام امام حسین علیہ السلام میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔معاویہ جب چالیس سالہ آمرانہ دور حکومت کو تمام کرچکا تو اس پر اپنی موت کے آثار واضح ھونا شروع ھوگئے یہ دیکھ کر اس نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا اور اپنی زندگی میں ھی اس کی بیعت بھی لے لی ۔معاویہ کے مرنے کے بعد یزید تخت نشین ھوا اور اس نے مدینہ کے گورنر ولید کو خط لکھا جس میں امام حسین علیہ السلام سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ولید نے امام کو دربار میں بلا بھیجا اور معاویہ کے مرنے اوریزید کے تخت نشین ھونے کی اطلاع دی اور بیعت کا مطالبہ کیا اور اگلے دن تک کے لئے آپ کو مھلت دی۔ اگلی صبح مروان کی آپ سے ملاقات ھوئی اور اس نے یزید کی بیعت کر نے کا مشورہ دیا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
“انَّا لَلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہ رٰاجِعُون وَ عَلٰی الْاِسْلٰامِ وَالسَّلاٰمِ،اِذْ قَدْ بَلِیتْ الِامۃبراع مِثْلَ یزید وَلَقَدْ سَمِعْتُ جَدِّی یقُولُ: اَلْخِلٰافَۃُ مُحَرَّمَۃٌ عَلی آلِ سُفْیان “(۱)
اگر یزید کی بیعت کروں تو اسلام کو سلام کہہ دوں کیونکہ اسلام یزید جیسے کی حکمرانی سے دوچار ھوگیا ہے اور میں نے اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا تھا کہ آل سفیان پر خلافت حرام ہے۔
پس اسلام پر اب ایسا مشکل وقت آن پڑا تھا کہ وجود اسلام خطرے میں پڑ چکا تھا اور اب اسلام کو ایک مددگار کی ضرورت تھی جو اسلام کے کمزور و نحیف بدن کو اپنے خون سے قو ی و توانا کردے اور اسلام کے زخموں کا مداوا کرے تاکہ ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبروں کی کاوشوں کا نتیجہ یہ دین مبین اسلام قائم رہ سکے۔
جناب شھید مطھری فرماتے ہیں کہ آپ کے قیام کے بارے میں تین قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں:( ۲)
۱۔ دشمنوں کانظریہ:
انکے مطابق یہ اقتدار کے حصول کی جنگ تھی۔اور امام حسین علیہ السلام حکومت کا ارادہ رکھتے تھے، جسکو وہ حاصل نہ کرسکے۔
۲۔ نادان دوستوں کا نظریہ:
آپ اس لئے شھید ھوئے تاکہ امت کے گناھوں کا کفارہ قرار پائیں (تاکہ امت کے بھشت میں جانے کی راہ آسان ھوجائے) انھوں نے وھی نظریہ اپنایا جوعیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں اپنایا کہ آپ کو سولی پر لٹکائے جانے سے امت کے گناھوں کو معاف کردیا گیا ۔لیکن آئے دیکھیں خود سید الشھداء اپنے قیام کا کیا ھدف قرار دیتے ہیں․
۳۔ نظریہ سید الشھداء علیہ السلام:
“انی لم اخرج اشرا و لا بطرا ولا ظالما ولا مفسدا انما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی۔ ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرۃ جدی و ابی علی ابن ابی طالب”
میرا قیام خودپسندی و گردن کُشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نھیں ہے بلکہ میرا قیام اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے میں امر بالمعروف ونھی عن المنکر انجام دینا چاھتا ھوں اور اپنے نانا اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کو اپنانا چاھتا ھوں۔ (۳)
امام کا یہ کلام بھت ھی کلیدی اھمیت کا حامل ہے امام کا یہ کلام گویا کہ دو حصوں پر مشتمل ہے پھلے حصے میں دشمن کی طرف سے ممکنہ تھمتوں کا جواب دیا ہے اور دوسری حصے میں اپنے قیام کے اھداف و مقاصد کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔
امام بخوبی آگاہ تھے کہ میری شھادت کے بعد دشمن پروپیگنڈہ کرکے میرے اس قیام کو مختلف نام دے کر تحریف کی نظر کردے گا پس آپ نے تا قیامت آنے والی نسلوں پر یہ روشن کردیا کہ میرے قیام کا مقصد
۱۔ فخر و مباھات نھیں ہے۔
۲۔ قتل و غارت کرنا نھیں ہے۔
۳۔ فساد کو رواج دینا نھیں ہے۔
۴۔اور ظلم کو عام کرنا نھیں ہے۔
بلکہ میرے اھداف اس سے بالکل ھٹ کر ہیں میرا یہ قیام:
الف۔ اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے جو فساد کا شکار ھوچکی ہے اور اپنی فطرت (اسلام )سے دور ھوچکی ہے۔
ب۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کو معاشرے میں رواج دینے کے لئے ہے کیونکہ یہ اسلام کے دو بنیادی و اساسی رکن ہیں اور اسلام کا نظام انھی کی بدولت قائم ہے۔ جبکہ موجودہ معاشرہ ان دونوں کو فراموش کرچکا ہے۔لھذا اسلام کاوجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔
ج۔ اپنے جد اور والد گرامی کی سیرت پر عمل پیرا ھونے کے لئے ہے کہ جنکی آغوش میں اسلام پروان چڑھا اورجنھوں نے اسلام کی حفاظت کے لئے مشرکین اورمنافقین کی اذیتیں برداشت کیں،آپ نے “مقام بیضہ” پر حرکے لشکر سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:
“اَیھَا النَّاس اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قٰالَ: مَنْ رَاٴی سُلْطٰانا ًجٰائِراً مُسْتَحِلّاً لِحَرَامِ اللّٰہِ، نٰاکِثاً عَھْدَہُ،مُخٰالفاً لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ یعمَلُ فِی عِباٰدِ اللّٰہِ بِاالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ فَلَمْ یغیر عَلَیہ بِفِعْلٍ وَلا قَوْلٍ کٰانَ حقاً عَلیٰ اللّٰہِ اَنْ یدخِلَہُ مُدْخَلَہُ” (۴)
اے لوگو ! رسول اللہ نے فرمایا: جو کسی ایسے سلطان جابر کو دیکھے کہ جو حرام خدا کو حلال قرار دے، عھد شکنی کرے، سنت رسول کا مخالف ھو، لوگوں کے ساتھ ظلم و تجاوز کرے اور یہ اس کے کرتوتوں پر زبانی طور پریا عملی صورت میں کوئی قدم نہ ا ٹھائے ، تو خدا کے لئے سزاوار ہے کہ اسکو دوزخ میں اس جگہ قرار دے جھاں پر وہ ظالم ہے، یعنی خدا کے لئے سزاوار ہے کہ اسکا حشر بھی سلطان جابر جیسا ھو اور اسکا ٹھکانا بھی ظالم بادشاہ کا ٹھکانا ھو۔
امام جب مقام ” ذی حسم ” پر پھنچے تو وھاں پر دنیا کی بے وفائی پر خطبہ دیا اور آخر میں اپنے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ھوئے فرمایا:
“اَلَا تَرَوْنَ اِلَی الْحَقِّ لَا یعمَل بِہِ وَ اِلَی الْبٰاطِلِ لَا یتنٰاھِی عَنْہُ لِیرغِبَ الْمُوٴمِن فِی لِقَاءِ اللّٰہِ مُحَقًّا فَاِنّی لَا اَرَی الْمَوْتَ اِلَّا سَعٰادَۃً وَالْحَیاۃَ مَعَ الظَّالِمِین اِلَّا بَرَمًا” (۵)
کیا تم نھیں دیکھ رھے کہ حق پر عمل نھیں ھورھا(بلکہ اسے چھپانے اور نابود کرنے کی کوشش کی جارھی ہے) اور باطل سے منع نھیں کیا جارھا(بلکہ سب اسکے سامنے سر خم کئے ھوئے ہیں اور کوئی اسکے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار نھیں ہے ) پس جب ایسا ماحول قائم ھوتو ایسی حالت میں مومن پر لازم ہے کہ وہ اپنے ربّ کے لقاء کی طرف رغبت پیدا کرے یعنی ظالم کے اس ظلم کے خلاف قیام کرے۔
کیونکہ ایسی موت میری نظر میں سعادت کے علاوہ کچھ نھیں ہے اور ظالمین کے ساتھ زندگی گزارنا ذلت اور ننگ و عار ہے۔
اپنے اس فرمان میں مولا نے اپنا قیام کا مقصد بھی واضح کردیا ہے اور ھمارے لئے فریضہ بھی تعین فرمادیا کہ یاد رکھو جب حق پر عمل نہ ھو رھا ھو اور باطل رواج پارھا ھو تو اُس وقت ایک مومن کے لئے خاموش رھنا جائز نھیں ہے بلکہ اُسے ظالموں کے خلاف میدان میں اترنا ھوگا۔
یھاں پر امام گویا کہ یہ بات واضح کردینا چاھتے ہیں کہ ظالم و فاسق حکمرانوں کے سائے میں فاسق و فاسد معاشرے وجود میں آتے ہیں کہ جن میں حق کی پامالی ایک عام چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسے فاسد معاشروں میں پھرفاسد روحیں ھی پیدا ھونگی،پاکیزہ روحیں کبھی بھی پروان نھیں چڑھ سکتیں،اسلام کبھی بھی ایسے معاشروں میں اپنے وجود کو باقی نھیں رکھ سکتا۔ پس پھلے اپنے ان معاشروں کو ظالموں اور فاسدوں سے پاک کرو جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ھوئے ہیں اور اس کام کے انجام دینے کے دوران آنے والی موت محض سعادت ہے۔
اور اگر ظالموں کے خلاف آواز بلند نہ کی بلکہ خاموشی اختیار کی یا اُن کی ھاں میں ھاں ملائی پھر ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ ھاتھ نھیں آئے گا۔
جیسا کہ چند سطر پھلے بیان ھوا کہ امام نے اپنے ایک خطبہ میں رسول خدا(ص) کی اس حدیث “مَنْ رَاٴی سُلْطٰانا ًجٰائِراً “کو بیان فرمایا یہ حدیث واضح کردیتی ہے کہ ظالم سلطان کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے وگرنہ انجام خود اس جیسا ھوگا۔ اسکے باوجود اگر کوئی یہ نظریہ رکھے کہ ھمیں ظالم حکومتوں سے کیا لینا دیناہے ؟ ھم اپنے کام سے کام رکھیں تو یہ سوچ بے شعوری پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے ظالم حکومتوں کے سائے میں حقیقی اسلام کا وجود خطرے میں ھوتا ہے۔حرام خدا کو حلال قراردے دیا جاتا ہے۔
آج ھمارے زمانے میں مسلمان ممالک پر قابض ظالم حکمراں ھی تو اس بات کا موجب بنے ہیں کہ ان ممالک میں آج فقط اسلام کا نام باقی رہ گیا ہے، اور عملی طور پر اسلام کا نام و نشان بھی نھیں ہے بلکہ اُلٹا حرام خدا کو حلال قرار دیا جارھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ظلم ا ور اسلام کبھی ایک ساتھ نھیں رہ سکتے۔ ایک کے ھوتے ھوئے دوسرے کا وجود قائم نھیں رہ سکے گا صدام کی ظالم حکومت ھمارے سامنے ہے کہ جس نے ھزار سالہ عظیم الشان حوزہٴ علمیہ نجف کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا علماء کو شھید کردیا گیا۔ کتب خانوں کو آگ لگادی گئی۔
خود انقلاب اسلامی سے پھلے شاہ ایران کی ظالم حکومت کا دور ھمارے سامنے ہے کہ اسی حوزہٴ علمیہ قم میں سکون و اطمینان کے ساتھ درس و بحث کرنا بھی نصیب نہ تھا ھمارے بڑے علماء چوری چھپے باغات میں جاکردرس و تدریس کیا کرتے تھے۔ لیکن جب امام خمینی(رہ) کی قیادت میں انقلاب اسلامی کے ذریعے اس ظالم حکومت کا خاتمہ ھوا،اور دنیا کے سامنے حقیقی اسلام کی ایک جھلک نظر آئی تو دنیا نے حوزہٴ علمیہ قم میں ایک عظیم علمی ترقی کا مشاھدہ کیا،پس ظالم حکومتوں کے سائے میں رہ کر اسلام اپنی اصلی حقیقت پر باقی رہ سکے یہ ناممکن بات ہے اور اسی خطرے کو بھانپ کر امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا،
اگر ھم ” کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا ” پر ایمان و عقیدہ رکھنے والے ہیں تو آج بھی امام کا یہ کلام ھمارے اوپر اسی طرح حجت ہے گویا کہ امام ھم سے خطاب فرمارھے ہیں۔
۱۔ اَلَا تَرَوْنَ اِلَی الْحَقِّ لَا یعمَل بِہِ
۲۔ وَ اِلَی الْبٰاطِلِ لَا یتنٰاھِی عَنْہُ
۳۔ لِیرغِبَ الْمُوٴمِن فِی لِقَاءِ اللّٰہِ مُحَقًّا
پس امام نے ھمارا فریضہ معین فرمادیا ہے اور کوئی عذر و بھانہ اب ھمارے پاس باقی نھیں ہے۔
شھید مطھری(رہ) ایک اور جگہ پرفرماتے ہیں : ( ۶)
“امام حسین علیہ السلام کا یہ جھاد صرف یزید کے خلاف نہ تھا امام کا مقام اس سے کھیں بلند و بالاترہے کہ اُنکا ھدف ایک خاص فرد و شخص قرار پائے۔ ھدف امام اصولی و کلی تھا اور حقیقت میں امام کا یہ مبارزہ ظلم اور جھل کے خلاف تھا جس طرح کہ ھم زیارت اربعین میں پڑھتے ہیں:
“وَ بَذلَ مُھْجَتَہُ فِیک لِیستَنْقِذَعِبٰادَکَ مِنَ الْجِھٰالَۃ وَ حَیرۃِ الضَّلاٰلَۃِ”
(خدایا) انھوں نے تیری خاطر جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی اور گمراھی کی پریشانیوں سے، کربلا کی جنگ اقتدار کی جنگ نہ تھی بلکہ اقدار کی جنگ تھی، یزید جیسے لعین شخص کے ھاتھوں اسلامی اقدار کو خطرہ درپیش تھا اور اسی اقدار کی حفاظت کے لئے امام علیہ السلام نے یہ قیام فرمایا، پس دراصل معرکہ کربلا میں ھمیں دو مجسم اقدار کے نمونے نظر آتے ہیں ایک طرف حسینی اقدار کے مجسم نمونے ہیں تو دوسری طرف یزیدی اقدار کے مجسم نمونے ہیں۔
حسینی اقدار رکھنے والے ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبروں کے وارث ہیں تو یزیدی اقدار والے فرعون و قارون و ھامان و نمرود و معاویہ کے وارث ہیں۔
امام حسین علیہ السلام اپنے ایک خطاب میں انھیں اقدار کویوں بیان فرمایا:
“اِنَّااَھْلُ بَیت النُّبُوَّۃِ وَ مَعْدَنُ الرِّسٰالَۃِ وَ مُختَلَفُ الْمَلٰائِکَۃِ وَ بِنَا فَتَحَ اللّٰہ وَ بِنا خَتَمَ اللّٰہ وَ یزید رَجُلٌ فٰاسِقٌ، شٰارِبُ الْخَمْرِ،قٰاتِلُ النَّفْسِ الْمُحَرَّمَۃِ،مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ وَ مِثلِی لاٰ یبایع مِثلَہ نُصْبِحُ وَتُصْبِحُوْنَ وَ نَنْظُرُ وَتَنْظُرُوْنَ اینا اَحقُّ بِالْبَیعۃِ وَالْخِلٰافَۃِ”(۷)
ھم اھل بیت نبوت ہیں اور رسالت کا معدن ہیں اور ملائکہ کی رفت وآمد کا مرکز ہیں خداوند متعال نے ھم سے ھی ابتدا کی اور ھم پر ھی اختتام کرے گا جبکہ یزید فاسق مرد ہے شرابی ہے،پاکیزہ نفوس کا قاتل ہے،اور فسق و فجور کو علناً انجام دینے والا ہے اور میری شان کا آدمی اس جیسے کی بیعت نھیں کرسکتا ھم بھی صبح کرتے ہیں تم بھی کرو، ھم بھی منتظر ہیں اور تم بھی منتظر رھو، کہ ھم میں سے کون بیعت و خلافت کا زیادہ حقدار ہے۔
امام علیہ السلام کے یہ کلمات اس وقت کے ہیں جب ولید نے آپ سے یزید کی بیعت مانگی تھی ۔اور امام نے اس پر دونوں طرف کے کردار کو واضح کردیا۔ بلکہ اس پر یہ بھی واضح کردیا کہ قیامت تک کے لئے جو میری طرح ھوگا یعنی حسینی اقدار و کردار کا حامل ھوگا وہ یزید جیسے فاسق و فاجر کے سامنے نھیں جھکے گا۔ امام کا یہ کلام ” مثلی لا یبایع مثلہ” بھت معنی خیز کلام ہے گویا امام نے ایک معیار بیان فرمادیا ہے اور ان دو اقدار کے درمیان ھمیشہ کی جنگ کو بیان فرمادیا ہے یعنی ” مثلی لا یبایع مثلہ” کی تفسیر و وضاحت ” کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا” سے واضح ھورھی ہے۔
امام حسین علیہ السلام حقیقت میں “امام عزت” ہیں یزید کے اقتدار پر آنے سے کرامت انسانی کو خطرہ درپیش تھا اور یھی کرامت نفس ھی تو ہے کہ جس میں انسان کی انسانیت کا راز مضمر ہے وگرنہ ” کَالْاَنْعٰامِ بَلْ ھُم اَضَلُّ سبیلا ” کا مصداق ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کا یہ قیام حقیقت میں اس انسانیت کی بقاء کے لئے تھا پس امام حسین علیہ السلام نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو عزت و کرامت نفس کا دستور عطا فرمایا۔ا ور یہ واضح کردیا کہ جب ذلت کی زندگی اور عزت کی موت میں سے ایک کے انتخاب کا موقع آئے تو اس وقت عزت کی موت کو ترجیح دینا، آپ فرماتے ہیں: (۸)
“الا و ان الدعی ابن الدعی قد ترکنی بین الثنتین بین السلّۃ والذلّۃ و ھیھات منا الذلہ”
اس زنا زادے کے بیٹے زنا زادے نے مجھے دو کاموں کے درمیان مخیر کردیا ہے موت اور ذلت کی زندگی کے مابین اور بھت بعید ہے کہ میں ذلت کو قبول کروں۔
پس جو حسینی ھوگا اسکی زندگی کا شعار بھی ” ھَیھَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃ ” ھوگا ۔ دراصل امام حسین علیہ السلام نے اپنے اس قیام سے اپنے پیروکاروں پر یہ واضح کردیا کہ دیکھو جب بھی زندگی میں معرکہ حق و باطل پیش آئے ایک طرف حق اور دوسری طرف باطل ھوتو ایسی صورت میں تماشائی نہ بننا،کنارہ کشی اختیار نہ کرلینا، عافیت طلب نہ بن جانا، اور ھم اکثر زیارات میں پڑھتے ہیں کہ ” لَعَنَ اللّٰہُ اُمَّۃ سَمِعَتْ بِذٰلِکَ فَرَضِیت بِہِ”۔ پس حسینی تب ھوگے جب اس معرکہ حق و باطل میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ کردار ادا کرو گے اور اگر حق کو تمھارے خون کی ضرورت ھو تو وہ بھی دینے سے دریغ نہ کرنا۔
پس امام حسین علیہ السلام کا قیام ایک نمائندہ الھی کا نمائندہ شیطان کے مقابلے میں قیام تھا اور یہ ان تمام اھداف و مقاصد پر مشتمل تھا جو کہ انبیاء الھی کے قیاموں میں موجود تھے۔
حوالہ جات:
۱۔ بحار الانوار ج۴۴،ص۳۲۶ (چاپ موسسہ الوفاء بیروت لبنان)۔
۲۔حماسہٴ حسینی ج۲،ص۵۸ (چاپ ۲۹)
۳۔ بحار الانوار ج۴۴،ص۳۲۹ ۔
۴۔ سوگنامہ آل محمد ص۲۲۱ (چاپ چاردھم)۔
۵۔ سوگنامہ آل محمد ص۲۰۳ (چاپ چاردھم)۔
۶۔ حماسہ حسینی ج۲،ص۳۲ ۔
۷۔ بحارالانوار ص۳۲۵، ج۴۴۔
۸۔ سوگنامہ آل محمد ص۲۳۰۔
منبع: http://www.ishraaq.in
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید