مادران را اسوہ کامل بتول
نسب کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو سید الانبیا آپ کے والد نامدار ہیں۔ ام المؤمنین سیدۃ العرب حضرت خدیجہ الکبریؑ آپ کی والدہ گرامی ہیں، نفس رسول حضرت علی ؑ آپ کے شوہر نامدار ہیں، جنت کے جوانوں کے سید و سردار حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ آپ کے صاحبزادے ہیں اور کوفہ اور شام کے بازاروں میں اپنے فصیح و بلیغ خطبوں کے ذریعے یزیدیت کے ایوانوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دینے والی عظیم خاتون حضرت زینبؑ و ام کلثوم آپ کی صاحبزادیاں ہیں۔ حسب کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو کبھی آپ بیٹی کی صورت میں باپ کے لیے ماں کا کرار ادا کرکے باپ کی خوشنودی مول کر “ام ابیھا” کا لقب پاتی ہیں تو کبھی بیوی کی صورت میں اپنے شوہر کےلیے”نعم العون علی طاعۃ اللہ” یعنی خدا کی اطاعت کے لیے بہترین یار و مددگار ثابت ہوتی ہیں تو کبھی ماں کا روپ دھار کر حسنین کریمین اور حضرت زینب و ام کلثوم جیسی ہستیوں کی تربیت کرکے امت کے لیے بہترین نمونے چھوڑ کر جاتی ہیں۔
آپ کے والد نامدار جب بھی کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں آپ سے ملاقات کرکے جاتے اور جب بھی کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ آپ نے خود سے بھوکی رہ کر یتیموں، مسکینوں اور اسیروں کو کھانا کھلا کر ایثار کا اعلی عملی نمونہ پیش کیا۔ اسلامی روایات کی رو سے آپ کائنات کی گزشتہ، موجودہ اور قیامت تک آنے والی تمام خواتین کی سید و سردار ہیں۔ آپ کی حضرت علیؐ سے شادی بھی اپنی سادگی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے اپنی شادی کا نیا لباس بھی کسی غریب کو عطا کرکے خود پیوند شدہ لباس زیب تن کرکے تاریخ میں سادگی کی اعلی مثال قائم کردی۔ آپ کے فصیح و بلیغ خطبوں سے آپ کی علمی بلندیوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
آپ کی عبادت کا یہ حال تھا کہ شب جمعہ آپ رات بھر عبادت الہی میں مصروف رہتی تھیں، پردے میں آپ کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ ایک دفعہ آپ کے بابا نے مسجد النبی میں اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ خواتین کے لیے سب سے بہترین صفت کونسی ہے؟ تب حضرت سلمان فارسی نے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس حوالے سے آپ سے استفسار کیا۔ آپ نے فرمایاکہ عورتوں کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ نا اس کی نظر کسی نامحرم پر پڑے اور نا ہی کسی نامحرم کی نظر اس پر لگنے پائے۔ جب ایک نابینا شخص آپ کے بیت الشرف میں آئے تو آپ نے اس سے بھی پردہ کیا، آپ کے بابا نے فرمایا یہ تو نابینا ہے تب آپ نے فرمایا: بابا جان میں تو بینا ہوں۔ دعا میں آپ ہمیشہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت امام حسنؑ نے پوچھا امی جان آپ ہمیشہ دوسروں کے لیے ہی دعائیں کرتی رہتی ہیں۔ تب آپ نے فرمایا “الجار ثم الدار” پہلے ہمسایہ پھر ہمارے گھر والے۔ آپ اپنے گھر کے کام کاج کو خود انجام دیتی تھیں۔ یہاں تک کہ شادی کے چند سال بعد آپ نے گھریلو امور کو اپنے اور اپنے خادمہ کے درمیان تقسیم کر دیں۔ گھر سے باہر کے جملہ امور آپ کے شوہر نامدار انجام دیتے تھے اور گھر کے سارے امور کو آپ خود انجام دیتی تھیں، یہاں تک کہ آپ اپنے دست مبارک سے چکی بھی چلاتی تھیں۔ آپ20جمادی الثانی بعثت کے پانچویں کو دنیا میں تشریف لے آئیں۔ بابا کے وصال کے بعد زخمی حالت میں بیمار ہوکر بستر علالت پر رہیں اور مشہور قول کی بنا پر آپ 3جمادی الثانی 11ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
یقینا ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہماری مائیں بہنیں اپنی زندگی کے ہر شعبے میں سیدہ کونین کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دے کر دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہو جائیں۔ کیونکہ آپ رہتی دنیا تک کی تمام خواتین کے لیے کامل نمونہ ہیں۔
دیدگاهتان را بنویسید