تازہ ترین

مایوسی کفر ہے!/تحریر: محمد حسن جمالی

 امید انسان کی زندگی کو جلابخشتی ہے، یہ وہ عنصر ہے  جس کے سہارے اقوام عالم منزل کمال کی طرف رواں دواں رہتی ہیں، اسی کے بل بوتے پر آدم کی اولاد زندگی کے تمام شعبوں میں کامیابی کے حصول کے لئے متحرک رہتی ہےـ تاریخ بشریت اس بات پر گواہ ہے کہ ماضی کی جنگوں میں فاتح اور علمی، سیاسی اوراقتصادی میدانوں میں کامیاب رہنے والی قوموں کا عظیم سرمایہ امید ،ہمت، حوصلہ، استقامت جہد مسلسل اور اتحاد تھا ـ اس کے مقابلے میں جو قومیں  مایوسی کا شکار رہیں وہ ہمیشہ ہر میدان میں مغلوب اور ناکام رہی ہیں ـ

شئیر
29 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4273

 اسلامی تعلیمات میں ناامیدی کفر ہے ، یہ ایک ایسی بری صفت ہے جو قوموں کو مفلوج کردیتی ہے، اس صفت کے حامل لوگوں کا مستقبل تاریک ہوتا ہے ـ گلگت بلتستان کے باسی ۷۱ سالوں سے امید کا سہارا لیتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں سے اپنے حقوق مانگ رہے ہیں ، وہ پورے حوصلے سے پاکستانی حکمرانوں سے مسلسل یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم پاکستانی تھے، ہیں اور رہیں گے لہذا ہمیں اپنے جائز حقوق دیں ، ہمیں رسمی طور پر پاکستان کے شہری تسلیم کرلیں، گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرکے اس کے باشندوں کو عزت سے جینے کا موقع فراہم کریں، مگر جو بھی اقتدار پر آیا اس اہم ایشو کو نظر انداز ہی کرتا رہا، کسی نے اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت نہیں کی ـ

 پاکستانی حکمرانوں نے دھوکھادہی اور دروغگوئی کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کی آواز کو خاموش کراتے رہےـ اقتدار اور منصب کے بھوکوں نے اپنی دھواں دار تقریروں میں اہلیان گلگت بلتستان کو طرح طرح کے ترقیاتی منصوبوں، وعدوں اور آئینی حقوق کی جلد فراہمی پر مبنی باتیں کرکے خوش فہمی کے خواب میں سلاتے رہےـ گلگت بلتستان کے حقوق کے مسئلے کو تمام سیاسی جماعتوں نے ثانوی حیثیت دی اور ان کے سربراہان نے اسے حل کرنے کی طرف توجہ دینے کے بجائے مختلف بہانے تراشتے ہوتے ناقابل حل مسئلہ قرار دیتے رہےـ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس خطے کے عوام نے جن افراد کو اپنے  مسائل حل کروانے کے لئے بعنوان نمائندہ انتخاب کیا گیا وہ بھی  اپنے عوام کی درست نمائندگی کرنے کے بجائے زرخرید غلام بن کر دوسروں کے اشارے پر ناچتے رہے اور ہیں ـ سابق وزیر اعلی مہدی شاہ ہو یا موجودہ وزیر اعلی حفیظ الرحمن ـ سپیکر ناشاد ،سابق گورنر میر غضنفر ہوں یادوسرے ایوان حکومت تک رسائی رکھنے والے غرض کسی نے بھی عملی میدان میں آئینی حقوق کے حصول کے لئے دل لگاکر پوری سنجدگی سے جدوجہد نہیں کی ، ہاں پاکستانی حکمرانوں کی نقل کرتے ہوئے اخبارات کی شہ سرخیوں میں وہ اپنے بڑے بیانات ضرور چھپواتے رہے ـ

 موجودہ گورنر راجہ جلال کا امتحان تازہ شروع ہوا ہے ـ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بھی دوسرے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غلامی کی زنجیر میں جھکڑ کر قوم کے متفر نمائندوں کی صف میں شامل ہوتے ہیں یا آئنی حقوق کے حوالے سے کردار ادا کرکے عوام کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بناتے ہیں ـ اس بات میں شک نہیں کہ راجہ جلال صاحب کو  ایک سنہری موقع ملا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس موقعے سے مثبت استفادہ کریں گے ـ

 جب پاکستان کا موجودہ وزیر اعظم عمران خان منصب وزارت پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوئے تو گلگت بلتستان کے باسیوں کو بے حد خوشی ہوئی جس کی وجہ گلگت بلتستان کے حوالے سے عمران خان کی وہ باتیں ، تقریریں اور بیانات تھے جن میں انصاف پارٹی کا سابقہ چیرمین اور موجودہ وزیر اعظم پاکستان جناب  عمران خان نے  گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اور طرح طرح کے سبز باغ دکھائے گئے تھے ـ انہوں نے پورے وثوق سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم پورے پاکستان سے کرپشن اقرباء پروری و… کی بیخ کنی کریں گے ـ ہم پاکستان کی سرزمین پر امیر اور غریب لوگوں کے ساتھ یکسان سلوک کریں گے ، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرکے انصاف پر مبنی حکومت قائم کرنا ہمارے منشور کا حصہ ہے ـ ہم پوری قوم کے ساتھ یکساں سلوک کرکے پاکستان میں علاقائی اور لسانی تفریق پر ہمیشہ کے لئے خط بطلان کھینچیں گے ، ہم پاکستان کے نظام حکومت میں انقلاب برپا کرکے نیا خوشحال پاکستان بنائیں گے اور گلگت بلتستان  اس کا اہم حصہ ہونے کا قانونی مجوز دیں گے ـ انہوں نے یہ باورکرایا تھا کہ گلگت بلتستان کے مسائل ہم ترجیحی بنیاد پر حل کریں گے کیونکہ یہ خطہ ہر حوالے سے خوشحال پاکستان کے لئے بہت اہم ہے ـ اس طرح کی باتوں سے ذیادہ متاثر ہوکر اہلیان گلگت بلتستان نے انصاف حکومت پر کچھ زیادہ توقع کررکھی تھی ، مگر اقتدار انسان کو آندھا بنادیتا ہے کے مطابق جب عمران خان صاحب کو اقتدار ملا انہوں نے یکسر طور پر گلگت بلتستان کے مسائل سے توجہ ہٹادی ـ اقتدار حاصل کرنے تک گلگت بلتسان کے آئینی حقوق کو اہم مسئلہ شمار کرنے والے خان کو اقتدار ملنے کے بعد آئینی حقوق کا مسئلہ غیر اہمیت کے حامل مسائل میں دکھائی دینے لگے ـ یوں انصاف حکومت نے بھی گلگت بلتستان کے باسیوں کو زبردست طریقے سے دھوکا دے کر یہ ثابت کردکھایا کہ یہ مسئلہ قابل حل نہیں ـ یہ ہمیشہ اسی طرح لٹک کے رہے گا ـ خطہ گلگت بلتستان صوبہ نہیں بن سکتا ـ اس کے باشندوں کو آئینی حقوق نہیں مل سکتے ہیں ـ 

یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہلیان گلگت بلتستان کو ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ مایوسی کفر ہے، بلکہ ضروری ہے کہ وہ امید کے دامن سے متمسک رہ کر اپنی آئینی حقوق کے حصول کی جنگ جاری رکھیں ، اپنی ہمت اور حوصلے کو مذید تقویت فراہم کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد کو مستحکمتر کریں ـ جب وحدت کی بات آئی تو اس اہم نکتے کی جانب اپنے قارئین کو متوجہ کرنے کا خیال آیا ـ توجہ رہے جب سے گلگت بلتستان کی سرزمین پر قومی حقوق کے حصول کی خاطر قوم کے لئے واقعی دل میں درد رکھنے والی دو عظیم شخصیت( آغا علی رضوی اور مولانا سلطان رئیس) نے ملکر گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا شروع کی ہے تب سے گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے جوانوں کو علماء سے متنفر کرنے کی سازش میں سرعت دیکھنے کو مل رہی ہے ـ  جب پاکستانی حکمران سمیت گلگت بلتستان کی ترقی کو اپنے گلے کی ہڈی سمجھنے والے ٹولوں نے یہ بھانپ لیا کہ ایک دینی تعلیم یافتہ خبیر وبصیر عالم دین وارد میدان ہوتے ہیں تو کم از کم گلگت بلتستان میں ہماری شکست یقینی ہے کیونکہ یہ خطہ کٹر مذہبی ہے ـ اس خطے میں آج بھی مذہبی رہنماؤں کی ہی حکومت ہے ـ یہاں تک کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے پسندیدہ نمائندے کو ووٹ دینے سے پہلے اپنے مذہبی رہنما سے مشورہ لیتے ہیں پھر جاکر کسی کا انتخاب کرتے ہیں ـ بنابرین سازشی ٹولے وسیع پیمانے پر گلگت بلتستان کے عوام خصوصا نسل جدید کو علماء سے دور کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں جس سے گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے طبقے کو بیدار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ـ  یہ سازشی ٹولے علماء سے متنفر کرنے کے لئے مختلف باتوں اور پریپیگنڈوں کے ذریعے جوانوں کے ذہنوں کو خراب کرنے میں مگن ہیں ـ کھبی وہ کہتے ہیں کہ مدرسے میں پڑھے ہوئے افراد کا سیاست سے کیا تعلق ہے ؟ سیاستدان بننے کے لئے کالج یا یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہونا ضروری ہے کیونکہ مدرسے میں پڑھا ہوا طبقہ روشن فکر نہیں ہوتا ، یہ طبقہ عالمی سیاسی حالات سے بے خبر ہوتا ہے،  جب کہ کالج یونیورسٹی میں پڑھنے والے زیرک ، دنیوی حالات سے آگاہ اور روشن خیال ہوتے ہیں  ـ کھبی وہ یہ کہتے ہوتے ہوئے جوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ علماء جب سیاسی میدان میں آتے ہیں تو وہ استعمال ہوتے ہیں درنتیجہ وہ قومی مفاد کے لئے کام نہیں کرسکتے جب کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے جب سیاست میں آتے ہیں تو ایسا  بالکل نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے ـ کھبی وہ یہ کہکر فریب دیتے ہیں کہ مولوی لوگ سیاست کے اصولوں سے نابلد ہوتے ہیں ـ ان کا کام دینی امور کو نمٹانا ہے بس ، سیاست دین کا حصہ نہیں ، دین اور سیاست دو جدانہ چیزیں ہیں ـ جب وہ ان دونوں میدانوں میں چھلانگ لگائیں گے تو سیاست میں ان کی ناکامی یقینی ہے جب کہ کالج یا یونیورسٹی کا پڑھا لکھا شخص سیاست میں آتا ہے تو اس کی کامیابی قطعی ہے اس طرح کی اور بہت ساری باتیں … 

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مکتب آل محمد کا پڑھا ہوا انسان ہر طرح سے جامع ہوتا ہے ـ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ زیارت جامعہ کی واضح عبارت کے مطابق آل محمد ساسة العباد ہوں اور مکتب آل محمد میں تحصیل کرنے والے ان کے شاگرد سیاست سے لاتعلق ہوں ـ سید حسن نصراللہ، امام خمینی ، شیخ زکزاکی شیخ عیسی قاسمی  وغیرہ کسی مغربی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہیں تھے بلکہ انہوں نے تعلیم، تربیت اور سیاست مدرسے میں ہی سیکھی ـ وہ مکتب جعفری کے فارغ التحصیل تھے یہ نمونے ان افراد کے لئے حجت ہیں جو یہ پریپیگنڈا پھیلاتے نہیں تکھتے کہ علماء کو سیاست سے دور رہنا چاہئیے ، انہیں سیاست کرنا نہیں آتا ہے ـ یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ کیجئے کہ علماء کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں بلکہ جس طرح دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے غلطیاں ہوتی ہیں ان سے بھی غلطیاں اور اشتباہات ہوسکتے ہیں ممکن ہے کوئی عالم دین میدان سیاست میں غلطی کر بیٹھے یاکسی میں سیاست کی فہم نہ ہو  لیکن اس ایک یا چند مصداق کو دیکھ کر بطور کلی یہ حکم لگانا کہ علماء کوسیاست نہیں آتی انہیں ضرور کسی پارٹی کا سہارا لینا پڑھتا ہے و… ہرگز منطقی نہیں ـ

  لہذا ایک بار پھر تاکید کرتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام اور پڑھالکھا جوان طبقہ اس خطرناک سازش کا شکار نہ ہو ـ ہوشیار اور بیدار رہے اور گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے قلمی جہاد کرنے والے قلمکار احباب سے اس سازش کو بے نقاب کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کرتا ہوں اگر ہماری قوم متحد ہوکر علماء کے زیر سایہ رہتے ہوئے حقوق گلگت بلتستان کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں تو ایک دن کامیابی ہمارے حصے میں ضرور آئے گی ہمیں کھبی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ مایوسی کفر ہے

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *