محرم ۔ کوفیوں کی بیعت شکنی اور فرزند رسول (ص) کے خلاف فوج کشی
ولید ابن عتبہ کی طرف سے مطالبۂ بیعت کے جواب میں امام حسین علیہ السلام نے یہ کہکر کہ ہم اہلبیت کون ہیں اور یزید بے حیا کون ہے کیا میرا جیسا اس کے جیسے کی بیعت کرسکتا ہے اس مسئلے پر رات بھر غور و فکر کرلو اور اس کے بعد مسئلہ سب کی موجودگي میرے سامنے رکھنا تو میں اپنے فیصلے کا اعلان کروں گا اور پھر مروان ابن حکم کی مداخلت اور قتل کی دھمکی کے جواب میں یہ کہکر کہ ” اے ابن زرقاء ! کیا تو مجھے قتل کرسکتا ہے ؟
” اپنے عزيز و اقارب کے ساتھ دربار ولید سے واپس آگئے ،رات نانا کے مزار اور ماں کی لحد پر گزاری صبح کو دروازہ پر مروان سے پھر آنکھ چار ہوگئی مروان نے کہا : ” اب بھی موقع ہے آپ یزید کی بیعت کرلیجئے دین و دنیا بن جائے گی ” امام نے جواب میں کلمۂ استرجاع کے بعد فرمایا: ” وہ اسلام بھی اسلام ہے کہ جس کا سردار یزید جیسا فاسق و فاجر ہو، میں نے اپنے نانا محمد مصطفی (ص) سے سناہے خلافت منصوص من اللہ ہے اور اولاد ابوسفیان پر خلافت حرام ہے ” یہ سنکر مروان پیرٹپختا ہوا وہاں سے چلا گیا ، امام (ع) گھر میں داخل ہوئے بہن پر نظر پڑی تو فرمایا : زینب (ع) یزید کی طرف سے بیعت کا مطالبہ کیا گیا ہے تم کیا کہتی ہو ؟ ثانی زہرا (ع) نے عرض کی : ” بھائی آپ، میرے ماں باپ کی نشانی ،مجھے سب سے زيادہ عزيز ہیں مگر ایسے فاسق و فاجر کی بیعت سے تو مرجانا بہتر ہے ۔” چنانچہ امام (ع) نے بہن کو سفر کی تیاری کا حکم دیا ، جناب محمد حنفیہ کو اپنا تحریری وصیت نامہ حوالے کیا اور بنی ہاشم کے نام ایک اور وصیت نامہ لکھ کر عبداللہ ابن جعفر کے سپرد کیا اور کہا آپ بیماری کے سبب سفر سے معذور ہیں لیکن بنی ہاشم میں جو بھی میرے ساتھ سفر اختیار کرے گا شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوگا اور پھر اہلبیت (ع) کو لے کر گھر سے اس طرح نکل پڑے جیسے بھرے گھر سے جنازہ نکلتا ہے آپ کی مظلومی نے زبان حال سے نوحہ پڑھا : ” فریاد از غریبی و بے یاری حسین ” حرم رسول (ص) سے جدا ہوکر حرم الہی میں سکونت اختیار کی اور درہم و دینار کی طمع میں چور، مخمور و خوابیدہ دل و دماغ کو بیدار کرنا اپنا فریضہ قراردیا ۔حالات نے شامی حکومت کو اپنے غیر انسانی رد عمل کے اظہار پر مجبور کیا اور انہوں نے لباس احرام پہن کر نواسۂ رسول (ص) کے قتل کی سازش رچی نتیجہ میں امام حسین (ع) نے مکہ کو ترک کردیا کیونکہ خدا کے گھر میں خون کی بارش امام (ع) کو گوارا نہ ہوئی اہل عراق خصوصا” کوفیوں کی جانب سے سینکڑوں خطوط آپ کے پاس آچکے تھے لہذا آپ نے کوفہ کا رخ کیا اور جس وقت تک آپ کے مخصوص سفیر حضرت مسلم ابن عقیل کی شہادت کی خبر نہ مل گئی آپ کوفہ کی طرف بڑھتے رہے پھر اس کے بعد آپ نے کربلا کی طرف قدم بڑھایا ۔کوفیوں کے سلسلے میں تاریخ کا بیان ہے کہ سالہا سال سے وہ شامی حکومت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے مگر امیر شام کی مخالفت کی قوت و توانائي نہ پاکر سکوت اختیار کررکھا تھا ، امیر شام کی موت اور یزید کے بر سر اقتدار آنے کی خبر سنتے ہی انہوں نے نواسۂ رسول (ص) کے پاس اپنی حمایت و وفاداری کے خطوط لکھنا شروع کردئے حتی وفد کی صورت میں بھی انہوں نے امام (ع) سے ملاقات کی اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا امام حسین علیہ السلام نے ابتدائی طور پر اپنے چچا زاد بھائي مسلم ابن عقیل کو اپنی طرف سے بیعت لینے کے اختیار کے ساتھ کوفہ روانہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اٹھارہ ہزار کوفیوں نے جناب مسلم کے ہاتھوں پر امام حسین (ع) کی امامت و خلافت قبول کرتے ہوئے بیعت کی اور سفیر حسینی نے کوفیوں کے شوق و اشتیاق کی خبر امام (ع) کے پاس روانہ کردی ۔مگر ،اسی درمیان یزيد نے عبیداللہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کردیا اور ابن زیاد نے حیلہ و فریب سے کام لے کر پورے شہر میں خوف و وحشت کی ایسی فضا ایجاد کی کہ بیعت کرنے والے تمام کوفیوں نے مسلم ابن عقیل کو کوفہ میں اکیلا چھوڑدیا ۔کچھ نے ابن زیاد کے ساتھ ساز باز اورکچھ نے مکمل سکوت کی روش اختیار کی اور ہانی و مختار کی مانند کچھ افراد نے استقامت دکھائی تو وہ گرفتار یا قتل کردئے گئے جناب مسلم ابن عقیل نے جہاد کیا تو ان کو شہید کرکے ابن زیاد نے ان کی بے سر لاش پورے شہر میں کھنچوا کر لوگوں کے دلوں میں اور زيادہ وحشت پیدا کردی ۔امام حسین (ع) کو جب راستے میں اپنے وفادار سفیر کی شہادت اور لاش کی بے حرمتی کی خبر معلوم ہوئی تو آپ نے کوفیوں کی بے وفائی پر نفرین کرتے ہوئے اپنے قافلے کا رخ کربلا کی طرف موڑدیا اور ایک بار پھر اپنے ساتھیوں سے کہا : شہادت ہمارا پیچھا کررہی ہے جس کو جان عزیز ہو ہم سے جدا ہوجائے میں اپنی بیعت اس سے اٹھاتا ہوں اور پھر جن کو آپ کا ساتھ عزيز تھا انہیں لے کر آگے بڑھے ۔اس کے بعد حر ابن یزيد ریاحی کے ایک ہزار لشکر نے آپ کے قافلے کو گھیرا امام (ع) نے مکہ واپس ہونے یا کوفہ کی طرف جانے سے انکار کیا اور حر کی موافقت سے آپ سرزمین کربلا پر وارد ہوئے اس منزل میں اسلامی مفکرین نے کوفہ کی طرف امام علیہ السلام کی آمد سے متعلق مختلف نظریے پیش کئے ہیں کچھ کا خیال ہے امام علیہ السلام کو شروع سے ہی معلوم تھا کہ کوفیوں سے وفا کی کوئی امید نہیں ہے مکہ میں رہیں یا کوفہ جائیں خون بہرحال بہے گا مگر اس فرق کے ساتھ کہ مکۂ معظمہ میں قتل یا گرفتار ہوئے تو موثر ردعمل ظاہر نہیں ہوگا مگر عراق میں شہادت زیادہ بہتر نتائج کی حامل ہوگی ۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ امام نے کوفیوں کی دعوت کو قابل اعتماد سمجھ کر سفر کیا تھا کہ ان کی مدد سے اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر حالات نے رخ بدلا اور امام شہید کردئے گئے اور کوفہ کی مہم کامیاب نہ ہوسکی لیکن شہید مطہری نے کوفیوں کی دعوت کو حسینی اقدام کا ایک کمزور ترین محرک قرار دیتے ہوئے ،شروع سے ہی ” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ” اور ” امت کی اصلاح ” کو امام علیہ السلام کا اصل ہدف و مقصد قراردیا ہے ۔ورنہ وہ کہتے ہیں امام کو مسلم کے ساتھ کوفیوں کی بے وفائی کی خبر کے بعد انقلاب سے منصرف ہوجانا چاہئے تھا مگر اس کے بعد آپ کی تقریروں میں پہلے سے زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔بہرحال کوفہ میں عبیداللہ ابن زياد کے آنے کے بعد جس وقت اس نے مسجد جامع میں یزید کو امیرالمومنین کہتے ہوئے امام حسین (ع) کو خلیفۃ المسلمین کا دشمن قراردے کر یزید کی طرف سے اہل کوفہ کے ماہانہ وظیفہ میں سوگنا اضافہ کا اعلان کیا اور خزانے کا منہ کھول دیا اور بیت المال پانی کی طرح بہنے لگا تو کوفہ کے چند دیندار مجاہدوں کے سوا سب دولت و ثروت کی لالچ میں بہہ گئے اور ایک لاکھ کا لشکر نواسۂ رسول (ص) سے جنگ کے لئے خود کوفہ میں تیار ہوگیا ۔شاید اسی بنیاد پر کوفیوں کے ساتھ بے وفائی کی لفظ استعمال ہونے لگی ہے ورنہ حضرت علی (ع) ،امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی نصرت و مدد کرنےوالے ایسے اسلامی دلیروں کی بھی کمی نہیں ہے جو کوفہ سے تعلق رکھتے تھے اور جنہوں نے اپنا خون اسلام و قرآن کی رگوں میں دوڑایا اور مسلمانوں کو زندہ و بیدار کیا ہے ۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید