مرحوم و مغفور آغا عباس موسوی قدس سرہ چھوترون شگر
مرحوم و مغفور آغا عباس موسوی قدس سرہ چھوترون شگر
تحریر وتدوین: محمد اسلم ناز
اسم گرامی
: آقائے الحاج السید عباس الموسوی البلتستانی
والد ماجد کا نام:
آقا سید محمد بن آقا سید نظام الدین کشمیری
مرحوم و مغفور حجۃ الاسلام آغا عباس علیہ الرحمہ نے ترویج دین میں جتنی زحمتیں اٹھائیں ان کی تفصیل اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں۔ البتہ ہم انتہائی مختصر انداز میں اور دستیاب معلومات کی بنیاد پر مرحوم کا مختصر تعارف نامہ پیش کرنے کی سعی کریں گے امید ہے قارئینِ کرام اس تحریر کو پڑھ کر مرحوم آغا صاحب کی بلندی درجات کے لئے دعا فرمائیں گے۔
مرحوم کے بارے میں ایک فارسی تحریر تھی جسے غالباً حجۃ الاسلام سید محمد طٰہٰ الموسوی علیہ الرحمہ نے 1382ہجری میں قلمبند کیا ہے۔ جس کا ترجمہ سن 2000 میں تنظیم طلبہ تسر نے شائع کیا تھا۔ لہٰذا ہم نے اسی ترجمے سے استفادہ کرتے ہوئے چند اہم نکات تلخیص کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مذکورہ تحریر کے مطابق آغا عباس رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 29جمادی الثانی 1280ہجری کو ہوئی۔ جب آپ بیس برس کے تھے تو تحصیل علم کی خاطر کشمیر کا رخ کیا۔ کشمیر میں آپ نے جناب آقا سید مہدی کشمیری سے علوم دینیہ کا درس لیا۔ تین سال بعد آپ کے والد ماجد کی وفات کے بعد بحالت مجبوری اپنے گھر بلتستان چلے آئے۔ لوگ شدت سے آپ کے منتظر تھے۔ تقریباً دو سال کی مدت تک بلتستان کے قرب و جوار میں دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ دوبارہ دینی علوم کے حصول کی خاطر عازمِ سفر ہوئے۔ اگر چہ لوگ نہایت اصرار کے ساتھ آپ کو روک رہے تھےمگر آپ کے علمی شوق نے آپ کو جانے پر مجبور کیا۔ 1305 ہجری میں آپ دوبارہ اپنے گھر سے روانہ ہوگئے۔ آپ ہندوستان میں مختلف مقامات پر حصولِ علم و تحصیلِ فقہ و اخلاق حسنہ میں مشغول رہے۔اٹھارہ ربیع الاول 1307 ہجری کو ہند سے روانہ ہوگئے اور جمادی الاول کے اوائل میں عتبات مقدسہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
سرمن رائ(سامرا) یعنی محل غیبت امام زمانہ عج کے مقام پر حجۃ الاسلام مرزا محمد حسن شیرازی سے ملاقات ہوئی۔ 28 ربیع الاول 1310 ہجری کو کربلا پہنچے، وہاں سے نجف اشرف روانہ ہوگئے۔ اس عہد میں ہزاروں اہلِ علم اور کم ازم کم بارہ ہزار مسلم اجتہاد پر فائز ہونے والے مجتہدین وہاں موجود تھے۔ اس مقام پر درسِ سطوح میں مشغول ہوگئے بعد ازآں مسلسل علمی کمالات میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ اللہ کے فضل و رحمت سے درجہ اجتہاد پر فائز ہوگئے اور ہر لحاظ سے تمام اوصاف اور اخلاق حسنہ اور عبادات ، اطاعتِ الہٰی آپ کے ظاہر و باطن سے نمایاں اور آشکار ہونے لگے۔
آپ عمر بھر تحصیل علم میں گزارنا چاہتے تھے مگر علماء و مجتہدین کے حکم پر آپ نے بلتستان تشریف لانے کا فیصلہ کیا۔1316 ہجری میں آپ واپس بلتستان پہنچے اورمومنین کی ہدایت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ترویج دین، مومنین کے عقائد کی اصلاح، علوم دینی کی تعلیم و تدریس، نیک آداب کی تعلیم، عبادات واجبیہ کی اصلاح، مستحب عبادات کی ترغیب، وعظ و نصیحت، آپس کے لڑائی جھگڑوں کی صلح و صفائی، فقراء و مساکین کی مالی امداد، گمراہی، بدعت اور قابل مذمت اعمال کی روک تھام وغیرہ آپ کی زندگی کے اہم ترین پہلو تھے۔
سات بڑے مجتہدین کی طرف سے اجازت نامے اور وکالت نامے آغا صاحب کے طرہ امتیاز میں شامل تھے۔
آپ کے بلتستان تشریف لانے سے قبل یہاں بہت سارے مذاہب کے پیروکار موجود تھےیہاں تک کہ کوہ پرست (سنگ پرست)، موت پرست، خانہ پرست وغیرہ بھی بستے تھے۔ لوگ ایمان اور اسلام سے آگاہ نہ تھے۔ اکثر لوگ کافروں کی رسومات انجام دیتے تھے مثلاً لڑکیوں کو مرحوم والدین کی وراثت سے محروم رکھناوغیرہ۔ آپ کی تبلیغات نے لوگوں کو نورِ ہدایت سے منور کرنا شروع کیا۔ قلیل عرصے میں لوگ احکامِ دین، صوم و صلواۃ، اخلاقِ حسنہ اور آدابِ دین سے آگاہ ہوچکے تھے۔ بہت سارے غیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا۔ آپ نے تبت، لداخ، گلگت، ہنزہ، نگر، کشمیر سمیت دیگر کئی علاقوں کا دورہ کیااور اپنے وعظ و نصیحت سے لوگوں کو مستفید کیا۔
کہا جاتا ہے کہ آپ نے بلتستان آکر پہلے گول میں رہائش اختیار کی۔ بعد میں اہلِ شگر کی دعوت پر شگر چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد شگر سے نکل کر چھوترون کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس بستی میں چونکہ گرم پانی کا چشمہ موجود تھا اور عبادات کی بجا آوری میں اس سے بہتر کوئی اور جگہ نہ تھی۔لہٰذا یہاں سکونت اختیار کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی معلوم ہوتا ہے۔ یہیں چھوترون میں آپ نے جامع مسجد اور مدرسہ بھی قائم کیا۔ آغا مرحوم کی برکتوں سے آج تک یہ سرزمین مرکزِ علم رہی ہے۔ اور تعلیم و تدریس کا گہوارہ ہے۔
موصوف کی شخصیت کے اہم نکات
سید عباس مرحوم کی شخصیت کے چند چیدہ چیدہ نکات درج ذیل تھے:
1۔ واجبات الٰہی کو انجام دینے اور منکرات سے بچنے کے ساتھ ساتھ حتی الامکان آپ نے کسی مستحب کام کو بھی ترک نہیں کیا۔ اور نہ ہی کسی مکروہ کے مرتکب ہوئے.
2۔ رزق حلال کے حصول کے لئے آپ نے جدوجہد کی۔ بعض مقاما ت پر بنجر زمینوں کو آباد کیا۔ نہر نکالے اور تعمیراتی کاموں میں خود بنفس نفیس حصہ لیتے تھے۔
3۔ خوشنودی خدا کی خاطر آپ کا غصہ بڑا سخت ہوا کرتا تھا۔ جب بھی آپ کو اطلاع ملتی کہ کوئی شخص کسی گناہ کے مرتکب ہوا ہے تو آپ اس قدر غصہ ظاہر کرتے تھے کہ حاضرین کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اور اگر کسی نیک کام کی انجام دہی کی خبر ملتی تو آپ کی خوشی قابل ِ دید ہوتی تھی۔
4۔ آپ بعض کرامات کے مالک تھے۔ مثلاً قبولیت دعا وغیرہ۔ آپ بارگاہ الٰہی میں فریاد کرتے، دعا و مناجات کرتے اور حاجات طلب کرتے تو خدا ان حاجات کی قبولیت کے اثرات بہت جلد دکھاتا۔ اس طرح لوگوں کی حاجات بھر آتی تھیں۔
آپ نے اپنی وفات سے دو ماہ قبل ایک تقریر میں کہا تھا کہ یہ میری آخری تقریر ہے۔ غالباً 19 یا 21 رمضان کی مجلس تھی۔ اسی تقریر کے دو مہینے بعد 17 ذی قعدہ 1346 ہجری کو آپ اس عالم فانی سے دارالبقاء کی جانب کوچ فرما گئے۔
آج سرزمین بلتستان میں اسلام کے شیدائی اگر بستے ہیں تو آغا مرحوم کی مرہون منت ہے۔ اس خطے میں دین کی جڑیں مضبوط کرنے میں آغا مرحوم کا کردار آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ خدا وندمتعال سے دعا ہے کہ خدا ائمہ معصومین ؑ کے طفیل اس عالم باعمل کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔
دیدگاهتان را بنویسید