تازہ ترین

مشکل فیصلے، تحریر: ایس ایم شاہ

آخر ہم کب تک آل سعود اور امریکہ کے اشاروں پر چلتے رہیں گے۔ حکومتوں کی بار بار تبدیلی کے حوالے سے گاندھی نے ہمیں طعنہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنے کپڑے تبدیل کرنے سے پہلے پاکستان کی حکومت تبدیل ہو جاتی ہے۔
شئیر
102 بازدید
مطالب کا کوڈ: 7082

ج ر ب، کسی بھی حکومت کو مشکل فیصلے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس بہترین آئیدیالوجی ہو، مضبوط قؤہ فیصلہ رکھتی ہو، مصمم ارادے کا حامل ہو، آزادانہ پالیسی بنانے کا اختیار رکھتی ہو اور ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کی جرأت و حوصلہ رکھتی ہو۔
آج کل ہمارا ملک بہت ہی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ بجلی کی کمی کے باعث ملکی معیشیت زوال پذیر ہے اور انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں۔ گیس کی شدید قلت کے باعث گھروں کے چولہے بج چکے ہیں۔ پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے تمام پاکستانیوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ آج ہم گردشی قرضوں کے باعث واحد اسلامی اٹامک ملک ہونے کے باوجود بھی امریکی خوف سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے اور طویل المدتی معاہدے کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، بیروزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے، جس کے باعث آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچ ہے کہ ہمارے ملک میں تمام معاملات امریکہ اور آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت طے پانے لگے ہیں۔ آئے روز تیل کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکسز میں اضافہ، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ، غرض ہر چیز کی قیمت اب آئی ایم ایف طے کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ابھی تک حکومت آئی ایم ایف کی خوشنودی مول لینے میں ناکام ہے۔ خدا نہ کرے کہ کہیں ایسا وقت آجائے کہ ہمارا اٹامک پروگرام بھی خطرے میں پڑ جائے۔ کیونکہ مغربی طاقتوں کا کام کسی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا نہیں بلکہ سودی قرضے فراہم کرکے مختلف ممالک کو معاشی اعتبار سے کمزور کرکے دیوالیہ بنا کر ہمیشہ کے لئے اپنا غلام بنائے رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرض دیتے وقت ہی ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں کہ ان سے لیے ہوئے قرضوں سے کسی بھی ملک میں کوئی میگا پروجیکٹ نہ بننے پائے بلکہ ان کی نظر میں موسیقی میگا پروجیکٹ ہے، فحاشی پھیلانا میگا پروجیکٹ ہے۔ ان قرضے کے پیسوں سے سرکاری اداروں میں موسیقی کو فروغ دیا جانا میگا پروجیکٹ ہے، جس کے لئے ہزاروں ٹیچرز بھرتی کیا جانا چاہئے تاکہ وہ مغربی مادر پدر آزاد کلچر کو ہمارے ہاں بہ آسانی اپنے ہی لوگوں کے ذریعے سے فروغ دے سکیں۔
مملکت خداداد پاکستان مدت مدید سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ آج تک کسی جمہوری حکومت کو اس کی قانونی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ عمران خان کے دور میں بھی مہنگائی کافی بڑھی، ناتجربہ کار وزراء اور مضبوط اقتصادی اور معاشی پالیسی نہ ہونے کے باعث وہ بھی صحیح معنوں میں ملک کو درست سمت میں لانے کے حوالے سے مکمل ناکام رہا۔ البتہ ان کی ایک خارجہ پالیسی جس کا فقط انھوں نے ابھی اعلان ہی کیا تھا کہ ہم تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہ ان کی مثبت خارجہ پالیسی تھی اور یہی اعلان ان کی حکومت کے لئے سوہان حیات ثابت ہوا۔ اب موجودہ وزیر اعظم کو چاہئے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے پہلے مشکل فیصلوں کا تعین کریں پھر ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ مشکل فیصلے آئے روز مہنگائی میں اضافہ کرنا، تیل بم، گیس بم، بجلی بم گرا کر لوگوں کا جینا حرام کرنا نہیں بلکہ استعماری طاقتوں کی غلامی سے نکل کر آزاد فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آنا مشکل فیصلہ ہے، امریکہ اور اس کے حواریوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنا سب سے مشکل فیصلہ ہے۔
ہمارے ملک میں امریکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے ملکی مفادات کے لئے دور رس نتائج کے حامل فیصلے کرنا مشکل فیصلہ ہے۔
فقط امریکا کی رضامندی مول لینے کے لئے ملک کو دیوالیہ بنانے کی پالیسی اپنانے کی بجائے ہمارے دوست اور ہمسایہ ممالک چین، ایران، ترکیہ اور روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کا فیصلہ کرنا مشکل فیصلہ ہے۔
حال ہی میں ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایران کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ایران پاکستان کی بجلی، تیل اور گیس کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت اور آمادگی رکھتا ہے۔ جس کے بعد وزیر خارجہ نے امریکی خوف سے پاک ایران تجارتی تعلقات کی راہ میں امریکی پابندیوں کو رکاوٹ قرار دیکر لیت و لعل سے کام لیا۔ حالانکہ امریکی پابندی کی بین الاقوامی لیول پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس طرح کی مختلف پابندیاں تو خود ایران نے امریکہ پر عائد کی ہوئی ہیں۔
امریکہ، اسرائیل، بھارت اور عرب امارات کا نیا اتحاد بن رہا ہے۔ لہذا ایسے وقت میں امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہماری اس مشکل گھڑی میں ہمیں سب سے پہلے قبول کرنے والا اور ہمارے ساتھ ہزار کلومیٹر مشترک بارڈر رکھنے والا ہمسایہ اسلامی ملک ایران سے پاک ایران گیس پائپ لائن کو فنگشنل کرنا مشکل فیصلہ ہے۔
آئے روز پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر عالمی منڈی سے مہنگے داموں تیل خریدنے کے بجائے ایران سے سستے داموں طویل المدتی معاہدے کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کو یقینی بنانا مشکل فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ انڈیا اور چین نے کر دیا ہے لیکن ہمارے اندر یہ جرأت ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ چین کے ایران سے طویل المدتی معاہدے ہیں اور چین وافر مقدار میں ایران سے تیل لیتا ہے۔ ہمیں کسی ملک کی غلامی کرنے کے بجائے ایک آزاد اور خودمختار ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی خود بنانا ہوگی۔ ٹھیک ہے برابری کی بنیاد پر امریکہ سے بھی تعلقات رکھیں، سعودی عرب سے بھی بہتر تعلقات رکھیں اور قلب اسلام پر چھرا کھوپنے والی، مسلمانان عالم کے قبلہ اول پر قابض غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے علاوہ دنیا کے دیگر تمام ممالک سے بھی روابط برقرار رکھیں لیکن ہمیں کسی غلام کا غلام نہیں بننا چاہئے۔ ہمارے حساس اداروں کے فیصلہ ساز عہدوں پر سابق ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور سے لیکر آج تک سعودی نواز لوگ براجمان ہیں۔ جو ہمیشہ آل سعود کے اشاروں پر چلتے ہیں اور سعودی حکومت امریکہ سے ہدایات لیتی ہے۔ اب ملک کو دیوالیہ ہونے کی حد تک یہی افراد لے آئے ہیں۔ یہ عناصر کبھی پاک ایران تعلقات کو بہتر ہونے نہیں دیتے۔ جب بھی پاک ایران تعلقات میں پیشرفت ہونے لگتی ہے تو یہی عناصر فوراً سعودی کسی وزیر کو یا وفد کو بلاکر اسے پھر سے سعی لاحاصل بنا دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہمارا وزیر خارجہ ایران گئے اور یوں پاک ایران تعلقات میں بہتری کی ایک امید ظاہر ہوگئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کی واپسی پر تیل، گیس اور بجلی کے فوری حصول کے لئے مختلف میکینیزم پر بحث کرکے کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی لیکن ان کے وہاں سے لوٹتے ہی سعودی عرب سے ایک وفد کو سرمایہ کاروں کے عنوان سے بلایا گیا اور ابھی تک میڈیا کی زینت بنائے رکھے ہوا ہے۔ ہمیں اگر اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا ہے تو سب سے پہلے اپنے ملکی اداروں کو ان غیرملکی عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔ سعودی اور امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگا اور یہ سب سے مشکل فیصلہ ہے۔

آخر ہم کب تک آل سعود اور امریکہ کے اشاروں پر چلتے رہیں گے۔ حکومتوں کی بار بار تبدیلی کے حوالے سے گاندھی نے ہمیں طعنہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنے کپڑے تبدیل کرنے سے پہلے پاکستان کی حکومت تبدیل ہو جاتی ہے۔ آخر ہمارے ملک کے تمام اداروں میں امریکہ نے اتنا رسوخ کیا ہوا ہے کہ اس کے خوشنودی کے بغیر ہماری حکومتیں ایک ہفتے تک بھی نہیں چل سکتیں؟ دو قومی نظریے کے تحت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو کسی مغربی و استعماری طاقت کی غلامی کے لئے حاصل نہیں کیا تھا بلکہ اس ملک کے بنانے کا مقصد آزاد خارجہ پالیسی کے تحت اس ملک کو آگے کی طرف لے جاکر دیگر تمام اسلامی ممالک کے لئے رول ماڈل بنانا تھا۔

ہمارے ملک میں بجلی کا شارٹ فال تقریبا سات ہزار میگاواٹ ہے جبکہ فقط گلگت بلتستان سے ہی 50ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی کے حصول کے مواقع موجود ہیں۔ جس کی طرف کبھی کسی نے توجہ نہیں دی۔ اسی طرح ایران سے سستے داموں بجلی درآمد کرنے کے ذریعے وقتی طور پر ہم اپنی انڈسٹری کو تباہ ہونے سے بچا جاسکتے ہیں۔ ہمارے اس زرخیز ترین ملک میں بنیادی طور پر تین چیزوں کی کمی ہے۔ تیل، گیس اور بجلی۔ ہماری یہ تینوں ضروریات ایران سے روابط کے استوار کرنے کے ذریعے بہ آسانی پوری کی جاسکتی ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن تفتان بارڈر تک مکمل بچھی ہوئی ہے اور حال ہی میں لاہور میں ایرانی مندوب نے کہا تھا کہ اگر پاکستان اجازت دے تو ہم 6مہینے کی مدت میں پاکستانی حدود کے اندر بھی گیس پائپ لائن بچھاکر گیس سپلائی شروع کر دیں گے۔ یاد رہے کہ 2015میں ایران اور مغربی ممالک میں جو معاہدہ ہوا اور ابھی تک ایرانی جوہری پروگرام پر آئی اے ای اے کی نگرانی جاری ہے۔ جس کے تحت ایران سے قانونی طور پر تیل اور گیس برآمد کرنے سے متعلق تمام پابندی ہٹائی جاچکی ہیں۔ بعد ازاں فقط امریکہ نے اپنی من مانی کے تحت خود سے اس معاہدے سے الگ ہونے اعلان کیا۔ جو بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی تھی۔ البتہ دیگر چار مغربی ممالک ابھی تک اپنے معاہدے پر قائم ہیں لیکن امریکہ چند کمزور ممالک میں اپنے گماشتوں کے ذریعے سے ایران سے روابط بڑھانے پر پابندی لگا رہی ہے۔ جس کی بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی حیثیت نہیں۔ ایسی پابندیاں تو ہم بھی امریکہ پر عائد کرسکتے ہیں۔ جس طرح ایران نے بہادری اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا کیا بھی ہے۔
لہذا اس مشکل گھڑی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو مستقل بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے حکمرانوں کو چاہئے کہ مشکل فیصلے کریں؛ وقتی طور پر ہمیں کچھ ممالک کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس کا سینہ سپر ہوکے مقابلہ کرنا ہی ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا کرے گا اور پوری دنیا میں ہم سرخرو ہوں گے اور ہمارا ملک ایک خوددار، شجاع، بہترین آئیڈیالوجی کے حامل اور آزاد و خود مختار ملک کے عنوان سے پہچانا جائے۔ کیونکہ مشکلات ہی آسانیوں کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہیں۔

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *