تازہ ترین

امام زمانہ کی معرفت ایمان میں پختگی کی علامت/ترجمہ : احمد علی جواہری

امام کی پہچان و معرفت کا ایک اثر یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت امام کی ظہور کیلئے آمادہ رہتاہے
شئیر
52 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4368

کسی بھی انسان (شخص) کی پہچان کے دو طریقہ ہے۔

۱۔ اسی ذاتی معلومات (مثلا حسب و نسب، رشتہ دار، قوم و قبیلہ، دوست وغیرہ۔۔۔)

۲۔ اسکی حقیقی پہچان: اس سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ میں اسکی حیثیت کیا ہے؟ اسکی معاشرہ میں کیا اہمیت ہے؟ اور اسکی کیا ضرورت ہے؟

امام زمان کی معفرت سے مراد دوسری قسم ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں امام حسن عسکری ؑ کے خادم ابو نصر طریق نقل کرتے ہیں کہ :’’جب امام زمانہ ؑ گھوارے میں تھے تو مجھے ان کی زیارت نصیب ہوئی اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے پہچانتے ہو؟

میں نے عرض کیا: جی مولا

امام نے فرمایا : میں کون ہوں؟

عرض کیا: آپ میرے مولا کے بیٹے ہو۔

فرمایا : میں نے اس طرح سے تو نہ پوچھا۔

عرض کیا کہ قربان جاوں مولا! تو کس چیز کے بارے میں پوچھا ہے؟

فرمایا: ’’انا خاتم الاوصیاء و بی یرفع اللہ البلاء عن اہلی و شیعتی‘‘ میں پیغمبر ؐ کی آخری وصی ہوں ، خداوند عالم نے میرے وساطت سے شیعوں اور انکی اہل و عیال سے بلاوں کو ٹال دینگے۔( الہدایۃ الکبری ص ۳۵۸، کمال الدین و تمام النعمۃ ج۲، ص ۴۴۱، ح ۲۱)

یہ روایت اس چیز کو بیان کر رہا ہے کہ امام زمانہ کی شناخت سے مراد حقیقی معرفت اور انکی معاشرے میں انکی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟ نہ کہ فقط امام کے بارے میں معلومات حاصل کرے اور یقیناًانسان کی زندگی معرفت امام زمانہ انسان کے ایمان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتاہے کیونکہ جب امام زمانہ ؑ کو رہبر اور ولی خدا مانتا ہے تو اسوقت انسان اپنی زندگی کو انکے فرامین کے مطابق ڈالنے کی کوشش کرتاہے تاکہ امام کے نزدیک (دوست) ہوسکے۔

کچھ ایسے اسباب جو امام کے نزدیک ہونے کا سبب بنتے ہیں:

۱۔ امام کو اپنے اعمال پر حاضر و ناظر جاننا۔

شیعوں کے محکم عقائد میں سے ایک امام کے علم وہبی (یعنی تمام چیزوں پر علم ہونا) ہے۔ امام خلیفہ الٰہی ہونے کی حیثیت سے کائنات کے تمام چیزوں کا علم رکھتاہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہورہا ہے کہ ’’ قل کفی بااللّٰہ شہیدا بینی و بینکم ومن عندہ علم الکتاب‘‘ (رعد ۴۳)

کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔

بہت ساری روایات میں اس آیت میں علم کتاب سے مراد امام علی ؑ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور یہ روایات بیان کرتی ہے کہ آدم سے لیکر خاتم تک تمام انبیاء ؑ جتنے علوم ذات الٰہی سے لیکر آئے تھے بارہ اماموں میں ہے۔ (تفسیر القمی ج۱، ص ۳۶۷)

اور جو شخص تخت بالقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لائے تھے اسکے پاس جو علم تھا آئمہ کے مقابل میں بہت کم تھے، یعنی سمندر کے مقابل میں قطرہ کے مانند۔ (تفسیر القمی ج۱، ص ۳۶۷)

جیسے کہ آیت ’’ولارطب و لا یابس الا فی کتاب مبین‘‘ (انعام ۵۹) (کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو) کی تفسیر میں آیا ہے۔ اور نقل ہوا ہے کہ ’’وعلم ہٰذا الکتاب عندہ‘‘ اور حضرت علی ؑ کے پاس اس کتاب کا علم ہے۔(الاحتجاج علی اہل اللجاج ج۲، ص۳۷۵)

اس روایت کی بنا پر حضرت علی ؑ کے پاس اولین و آخرین کے علم موجود ہے لیکن طبق نظر شیعہ یہ علم فقط حضرت علی ؑ تک نہ تھے بلکہ بارہ اماموں میں ہے خصوصا امام زمانہ ؑ کے پاس۔ اس بنا پر کہہ سکتا ہے کہ امام زمان ؑ کے پاس تمام انسانوں کے افعال و حوادث کے علم موجود ہیں اور انسانو کے افعال و اقوال ان کے ناظر ہے۔ چنانچہ سورہ توبہ میں ارشاد ہورہا ہے۔ ’’قل اعملوا فسیری اللہ عملکم و رسولہ والمومنون و ستردون الی عالم الغیب والشہادۃ فینبئکم بما کنتم تعملون‘‘ (اور کہدیجیئے : لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹادیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو) (توبہ ۱۰۵)

یہ آیت رسول اللہ ؐ و مومنین کو انسانوں کے اعمال پر شاہد کیلئے معرفی کرتاہے، کافی روایات کی بنا پر اس آیت میں ’’مومنون‘‘ سے مراد امام معصوم ؑ ہے۔ چنانچہ یعقوب بن شعیب کہتا ہے کہ اس آیت میں مومنون سے مراد کون لوگ ہے؟

امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا کہ اس آیت میں مومنون سے مراد کون ہے؟ تو امام ؑ نے فرمایا کہ ’’ہم الائمہ‘‘ اس سے مراد امام معصوم ہے۔ (الکافی ،ج۱، ص ۲۱۹)

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ عبداللہ بن ابان نے امام رضا ؑ سے عرض کیا کہ میرے اور میرے خانوادہ کیلئے دعا کریں۔ تو امام نے فرمایا کہ ’’ اولست افعل واللّٰہ ان اعمالکم لتعرض علی فی کل یوم و لیلۃ قال فاستعظمت ذالک۔۔۔۔۔۔‘‘ (الکافی ج۱، ص ۲۱۹، ح۴)

تمہارے لئے دعا نہ کروں؟ خدا کی قسم تمہارے اعمال ہر روز و شب ہمارے پاس آتا ہے اور یہ اس آیت سے لیا ہے ’’وقل اعملوا فسیری اللہ عملکم و رسولہ والمومنون و ستردون الی عالم الغیب والشہادۃ فینبئکم بما کنتم تعملون‘‘ (توبہ ۱۰۵)

ان مطالب کی بنا پر جو شخص امام زمان ؑ کی معرفت رکھتاہے وہ امام کو اپنے اعمال و افعال پر شاہد و ناظر جانتا ہے اور اپنے آپ کو ہر وقت امام کے حضور پاتا ہے اور امام کے سامنے ہرگز کسی قسم کے گناہ کا مرتکب نہیں ہونگے۔ یہ امام کے معفت کا ایک اثر ہے کہ انسان گناہ چھوڑدے۔ چونکہ یہ جانتا ہے کہ امام کو گناہ پسند نہیں ہے اور گناہگار انسان کو امام دوست نہیں رکھتا۔ چنانچہ امام زمان نے خود علی ابن مہزیار سے فرمایا کہ ’’ ولو ان اشیاعنا وفقھم اللہ لطاعتہ علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعہد علیھم لما تاخر عنھم الیمن بلقائنا ولتعجلت لھم السعادۃ بمشاہدتنا علی حق المعرفۃ و صدقہا منھم بنا فہا یحسبنا عنھم الا ما یتصل بنامما نکرہہ ولا نوثرہ منھم‘‘ (الاحتجاج ج۲، ص ۴۹۹)

چنانچہ ہمارے پیروکار (خدا انکی توفیقات خیر میں اضافہ کرے)۔۔۔۔۔

گفتم شبی بہ مہدیاز تو نگاہ خواہم

گفتا کہ من ہم از تو ترک گناہ خواہم

ایک رات امام زمان سے عرض کیا کہ مولا آپ سے ملاقات کے خواہاں ہوں

امام نے نے فرمایا کہ میں بھی تم سے ترک گناہ کے خواہاں ہوں۔

۲) خود سازی

امام کی معرفت کا ایک اور علامت یہ ہے کہ انسان انکی دوستی میں اپنی گفتار، کردار، رفتار اور اخلاق اس طرح درست کرنے کی کوشش کرے گا کہ امام زمان کو پسند آئے۔ چونکہ محبت حقیقی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے محبوب کے پسند کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرتاہے۔

جیسے کہ ارشاد رب العزت ہورہا ہے کہ ’’قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفر لکم ذنوبکم واللّٰہ غفور رحیم‘‘ (کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاوں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے) (آلعمران ۳۱)

اس آیت میں خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے کہ محبت تنہا دلی چاہت کا نام نہیں بلکہ اسکے تاثرات عمل سے ظاہر ہونا چاہئے۔ کوئی بھی محبت خدا کے دعویدار ہے اولین علامت یہ ہے کہ وہ اسکے بھیجے ہوئے آئین اور نبی کی پیروی کریگا۔ در حقیقت یہ محبت کے اثرات میں سے ہے کہ وہ محبوب کی چاہت کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرتاہے اور محبت کے یقیناًآثار عملی ہوتاہے۔

دلیل یہ ہے کہ کسی چیز کے ساتھ عشق و محبت اسلئے ہوتا ہے کہ وہ اس چیز میں کوئی ایسی کمال پاتا ہے جسکی وجہ سے وہ پسند آتا ہے اور پست چیزوں کے ساتھ ہرگز محبت نہیں کرتا۔ اسی لئے خدا کے ساتھ محبت اسلئے ہے کہ وہ تمام کمالات کے سرچشمہ ہے اور اسکے تماما آئیں اور دستور ہم کامل ہے پس کیسے ممکن ہے کہ انسان اس کمال تک پہچانے والے سے محبت نہ کرے اور اگر محبت نہ ہوتو یہ خلاف واقعیت عشق و محبت نہیں ہے ؟

یہ آیت نہ صرف مسیحیان نجران یا وہ لوگ جو عصر پیغمبر میں دعویدار محبت تھے کیلئے جواب ہے بلکہ اسلامی اقدار میں تمام زمانوں کیلئے ایک قانون اساسی ہے۔ وہ لوگ جو شب و روز خدا و پیغمبرؐ، آئمہ ؑ و صالحین ، مجاہدین اور نیکوکاران کے ساتھ محبت کی دعویدار ہے اور انکی عمل سے کچھ بھی ظاہر نہیں ہورہا یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔

وہ لوگ جو گناہوں میں آلودہ ہے اس حالت میں یہ دعوای محبت خداو پیغمبر ؐ اور آئمہ ؑ رکھتا ہے یا یہ عقیدہ رکھتا کہ عشق و محبت دل میں ہونا چاہئے عمل سے کوئی اس کا تعلق نہیں ہے تو یہ لوگ بیگانہ ہے۔(تفسیر نمونہ ج۲، ص ۵۱۴)

امام صادق ؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے ’’ما احبہ اللہ من عصاہ‘‘ جو گناہ کرتا ہے خدا سے محبت نہیں کرتا۔ (امالی الصدوق ص ۴۸۹، ح۳)

اسکے بعد یہ مشہور اشعار فرمایا۔

تعصی الالہ و انت تظہر حبہ

ہذا لعمری فی الفعال بدیع

لو کان حبک صادقا لا طعتہ

ان المحب لمن یحب مطیع

(امالی الصدوق ص ۴۸۹، ح۳)

جان کی قم! یہ بہت عجیب کام ہے۔ اگر تمہارے محبت سچے تھے تو اسکی اطاعت کرتے، چونکہ جو کسی سے محبت کرتاہے اسکی پیروی کرتاہے اور اسکی فرمان پر عمل کرتاہے۔

جس طرح خدا کی محبت کی پہچان اطاعت کے بغیر نہیں اور اطاعت محبت خدا کی نشانی ہے اسی طرح امام زمان ؑ کی محبت کی پہچان اسکی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ چونکہ امام زمان ؑ خدا کی محبت اور اطاعت ہم سے چاہتے ہیں اور گناہگار سے بیزارہے اسی لئے تنہا وہ شخص امام کی محبت حاصل کرسکتاہے جو خدا کی اطاعت کرے۔ اسی لئے امام محمد باقر ؑ نے جابر بن عبداللہ سے فرمایا کہ ’’یا جابر ! من اطاع اللہ و احبنا فھو ولینا، ومن عصی اللہ لم ینفعہ حبنا‘‘ (امالی الشیخ الطوسی ص ۲۹۶)

اے جابر وہ شخص جو خدا کی اطاعت کے ساتھ ہمارے محبت بھی رکھے وہ ہمارے ولی ہے اور وہ شخص جو خدا کی اطاعت نہ کرے اور ہمارے محبت کے دعویدار ہو تو ہماری محبت اسے کچھ فائدہ نہ دیگا۔

۳۔ امام کی ظہور کیلئے آمادہ رہنا:

امام کی پہچان و معرفت کا ایک اثر یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت امام کی ظہور کیلئے آمادہ رہتاہے۔ چونکہ جانتا ہے کہ امام زمان غیبت میں ہے اور ظہور کرنے والا ہے لذا ہر وقت اسکی ظہور کا انتظار کرتاہے اور اسکی ظہور کے انتظار میں اپنے آپ کو اسکی چاہت کے مطابق بنانے کی کوشش کرتا رہتاہے۔ اور جسطرح کسی عزیز کے سفر سے واپسی کا انتظار ہوتا ہے اسی طرح ہر وقت اسکی ظہور کا منتظر رہتاہے۔ چونکہ یقین ہوتا ہے کہ اس نے آنا ہے لذا اسی یقین کامل کے ساتھ انتظار کرتاہے۔

اسی لئے اکثر روایات میں اسکی ظہور کو آنکھ جھپکنے سے قریب قرار دیا ہے جیسے کہ ’’کلمح البصر او ھو اقرب۔۔۔ ‘‘(المزار للشہید الاول ص ۲۱۰) یا یہ کہ اسکی ظہور کا انتظار بہترین اعمال میں سے قرار دیا ہے چنانچہ پیغمبر اکرم ؐ سے ارشاد ہے کہ ’’افضل الاعمال امتی انتظار الفرج‘‘ (الامامۃ والتبصرۃ من الحیرۃ ص ۱۲)

انتظار ظہور بہترین کام ہونے کے سبب، اس روایت کے مطابق کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ ’’افضل الاعمال احمزھا‘‘(مفتاح الفلاح فی عمل الیوم واللیۃ من الواجبات والمستحاب ص۴۵) بہترین عمل مشکل ترین کام کو پیش کیا۔ چونکہ بلاشبہ، امام کی ظہور کے وقت ہر شخص اپنے کردار پیش کرنے کیلئے ہر وقت کوشش کرتاہے۔ اسلئے وہ ہر وقت اپنے اخلاق ، کردار کو امام کے دوستداروں کی صفات کے مطابق درست کرنے کی کوشش کرتا ہے، چونکہ یہ چاہتا ہے کہ امام کے دوستدار میں شامل ہوجائے اور امام کے دوستوں کے ساتھ خود شامل ہوکے امام کی نصرت کروں۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر ایسی صفات پیدا کرے کہ اگر ایک جملہ میں کہا جائے تو ’’تمام رذائل سے دوری اور تمام فضائل سے مالا مال ہو‘‘۔

جیسے کہ امام صادق ؑ نے فرمایا کہ ’’من سرہ ان یکون من اصحاب القائم فلینتظر ولیعمل بالورع و محاسن الاخلاق‘‘ (الغیبۃ للنعمانی ص ۲۰۰)

جو شخص یاران امام میں سے ہونے کو چاہتا ہے ضروری ہے کہ امام کے ظہور کی انتظار کرے اور انتظار کے ساتھ ساتھ اپنے عمل و کردار اور اخلاق کو درست کرے۔

جو امام کے انتظار میں ہو اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر وقت امام کی ظہور اور ان کی یاران میں شاملہونے کیلئے خدا سے دعا کرتے رہے اور ان دعاوں کی قبولیت کیلئے اپنے اعمال میں بہتری لائے جیسے امام نے شیخ صدوق ؒ سے فرمایا کہ ’’فلیعمل کل امری منکم بما یقرب بہ من محبتنا و یتجنب ما یدنیہ من کراہتنا و سخطنا فان امرنا بغتۃ فجاوۃ حین لا تنفعہ توبۃ ولا ینجیہ من عقابنا ندم علی حوبہ‘‘ (الاحتجاج علی اہل اللجاج ج۲، ص ۴۹۸)

پس تم میں سے ہر شخص وہ عمل انجام دیں جسکی وجہ سیہماری محبت حاصل کرسکیں۔ اور وہ چیزیں جنکی وجہ سے تم لوگ ہم سے دور ہوجائے اسے ترک کرو۔ چونکہ میرا ظہور کسی وقت اور اچانک ہونگے تو اس وقت تمہاری توبہ کوئی فائدہ مند نہیں ہونگے اور اسی دن پچھتاوا کسی کو نجات نہیں دے سکتا۔

پس اسی لئے معرفت امام کی ایک نشانی، امام کے ظہور کی انتظار کرنا ہے کہ یہ انتظار انسان اپنے آپ کو بنانے کی وجہ بنتا ہے اور تمام اوامر و نواہی میں امام کے حکم کے مطابق عمل کرتاہے اور یہ چیز اسکی ایمان اور اخلاق میں ارتقای کے سبب بنتاہے۔

۴۔ امام کی ظہور کیلئے زمینہ فراہم کرنا:

چوتھی چیز جو امام کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے اور یہ انسان کی ایمان میں پختگی کے سبب بنتا ہے امام کی ظہور کیلئے زمینہ فراہم کرنا ہے۔ چونکہ جو شخص امام کی معرفت حاصل کرتاہے کہ اسکا ہم و غم یہی ہوتا کہ ہے امام کی ظہور ہواور موجودہ حالات سے ناراض ہوتا ہے اور خوشحالی مستقبل کے امیدوار ہوتاہے۔(جب امام ظہور ہوجائے)

جو کوئی یہ احساس نہیں رکھتا کہ امام کے ظہور ہونے سے خوشحالی ہونگے اور ابھی بدنظامی ہے ، منتظر حساب نہیں ہوتا۔

جو شخص امام کے ظہور کی انتظار میں ہوتا ہیوہ یہ جانتا ہے کہ امام کے ظہورر سے نہ صرف لوگوں کی اصلاح ہونگے بلکہ امام ؑ کی ہدف ایک حکومت جہانی ہے جو صالحین کی حکومت ہوگی اور اس طرح لوگوں کو دین کی ہدایت کرینگے۔

اس بنا پر انسان منتظر نہ صرف خود سازی کی طرف توجہ دیتا ہے بلکہ وہ اجتماعی ہدایت ، تبلیغ و ترویج احکام کی طرف بھی نظر رکھتاہے۔تاکہ امام ؑ کے ظہور کے ساتھ ایسی حکومت کیلئے زمینہ ساز ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:

1. ابن ابی زینب، محمد بن ابراهیم،الغیبة للنعمانی، نشر صدوق، ۱۳۹۷ ه ق

2. ابن بابویه، محمد بن علی، الامالی، نشر کتابچی، ۱۳۷۶ه ش

3. ابن بابویه، علی بن حسین، الامامة والتبصرة من الحیرة، مدرسه الامام المهدی ع، ۱۴۰۴ھ ق

4. ابن بابویه، محمد بن علی ، الخصال/ ترجمه فهری، علمیه اسلامیه، بی تا

5. ابن بابویه، محمد بن علی ، صفات الشیعه/ترجمه توحیدی، انتشارات زراره، ۱۳۸۰ ه ش

6. ابن بابویه، محمد بن علی، فضائل الشیعه/ترجمه توحیدی، انتشارات زراره، ۱۳۸۰ ه ش

7. ابن بابویه، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمه، اسلامیه، ۱۳۹۵ ه ق

8. ابن شهر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب نشر علامه، ۱۳۷۹ ه ق

9. ابن طاووس، علی بن موسی، التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن، موسسه صاحب الامر عج، ۱۴۱۶ ه ق

10. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفۃ الائمه، بی جا، ۱۳۸۱ ه ق

11. بهائی، محمد بن حسین، مفتاح الفلاح فی عمل الیوم واللیلة من الواجبات والمستحبات، نشر دار الاضواء، ۱۴۰۵ ه ق

12. خصیبی، حسین بن حمدان، الهدایة الکبری، بیروت، ۱۴۱۹ ه ق

13. شهید اول، المزار، مدرسه امام مهدی ،،۱۴۱۰ ه ق

14. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اهل اللجاج، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ ه ق

15. طوسی، محمد بن الحسن، الغیبة، بی جا، ۱۴۱۱ ه ق

16. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، دارالثقافه، ۱۴۱۴ ه ق

17. طوسی، محمد بن الحسن، تهذیب الاحکام(تحقیق خرسان)، دارالکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ ه ق

18. قطب الدین راوندی، راوندی، سعید بن هبه الله، الخرائج والجرائح، بی جا، ۱۴۰۹ ه ق

19. قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، دارالکبت، ۱۴۰۴ ه ق

20. کفعمی، ابراهیم بن علی عاملی، المصباح، دارالرضی، ۱۴۰۵ ه ق

21. کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی، دارالکبت الاسلامیه، ۱۴۰۷ ه ق

22. مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیة، بی جا، ۱۳۸۴ ه ق

23. مفید، محمد بن محمد، کتاب المزار۔  مناسک المزار،۔ کنگره جهانی هزاره شیخ مفید، ۱۴۱۳ ه ق

24. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، دارالکتب، ۱۳۷۴ هش

……………..

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *