تازہ ترین

ملی وحدت کا فقدان۔۔۔اصل مشکل کہاں ہے

    تحریر :سید قمر عباس حسینی تعلیم اور تربیت  ناقابل تقسیم اکائی ہے ۔ یہ دو ایسے اہم مرکب ہے جو قابل انفکاک ہی نہیں  لیکن اگر کوئی قوم ان دونوں کو الگ الگ  کردےاور تعلیم کو اس دور کی ضرورت اور تربیت کو غیر اہم سمجھےتو یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے اس […]

شئیر
26 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1575

 

 

تحریر :سید قمر عباس حسینی

تعلیم اور تربیت  ناقابل تقسیم اکائی ہے ۔ یہ دو ایسے اہم مرکب ہے جو قابل انفکاک ہی نہیں  لیکن اگر کوئی قوم ان دونوں کو الگ الگ  کردےاور تعلیم کو اس دور کی ضرورت اور تربیت کو غیر اہم سمجھےتو یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے اس قوم کا زوال شروع ہوجائے گا ۔ آج کے دور میں بعض ماڈرن ذہنیت کے لوگ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ماڈرن بنانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ تعلیم وقت کی ضرورت ہے جبکہ تربیت مذہبی لوگوں کی باتیں ہیں ۔ در حقیقت ان نام نہاد ماڈرن لوگوں نے ابھی تک تربیت کا اصل مفہوم سمجھا ہی نہیں ،تربیت بنیادی طور پر دو طرح کی ہے ،ایک اخلاقی و دینی اور دوسری فنی و ہنری۔

اخلاقی و دینی تربیت کے بغیر انسان علم یا فن و ہنر میں جتنی بھی ترقی کرجائے وہ  فقط نام کا انسان ہوتاہے۔ہمارا  سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں  دونوں طرح کی تربیت کا فقدان چلا آرہاہے ۔ آداب اسلامی اور عقائد اسلامی کے مطابق تربیت نہ ہونے   کی وجہ سے ہم آج مغرب پرست بنے ہوئے ہیں ہم مغرب کی ہر حرکت کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ آج  اہلِ مغرب ہمارے مربّی ہیں  اور ہم ان کی تقلید کرنے کو فخر سمجھتے ہیں جبکہ مسلم تہذیب ہزار برس تک دنیا پر اس طرح حکومت کرتی رہی ہے کہ افریقہ سے لے کر وسطی ایشیا اور یورپ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی متمدن دنیا میں کوئی اس کی ہم سری اور برابری کا تصور ہی نہیں کرسکتا تھا۔

جب معاشرے میں تربیت یافتہ اور شعور دینی و آداب اسلامی سے واقف افراد ہونگے تو انہی میں سے ہی بعض افراد اس سماج کے باگ ڈور  سنبھالیں گے تو ایک اچھا حکمران نہ صرف قومی مفاد اورمصالح کی مد نظر رکھتاہے بلکہ قوم کے افراد کی صلاحیتوں کو بھی چمکاتااور صیقل کر تاہے ۔لیکن جب حکمران تربیت یافتہ نہ ہوں فہم و ادراک دینی سے نا بلد ہوں تو وہ  عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں پڑیں گے  ، اشرافیہ ان کے ساتھ زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے  تو لازمی بات ہے عوام پر بدترین  وقت آئے گا طرح طرح کی مشکلات سے عوام کو دوچار ہونا پڑے گا یہاں تک کہ یہ لڑاو اور حکومت کرو کے اصولوں پر عمل کرتا  رہےگا۔ یوں انسانیت کا محترم خون حکمرانوں کی ہوس کی خاطر گلی کوچوں میں بہتا رہے گا نہ صرف یہی بلکہ ابن آدم کو انسان کی بجائے جانور اور کولہو کابیل سمجھا جاتارہے گا  ۔

دیگر مناطق کی طرح آج ہمارا گلگت  بلتستان بھی علمی لحاظ سے عروج پر ہے  لیکن تربیتی عنوان سے زوال کا شکار ہے،ڈاکٹر ہمارے اپنے ہیں، انجئینرز بھی مقامی ہیں،پروفیسرز بھی ہیں اور یوں   ہم ایک تعلیم یافتہ قوم کہلواتے ہیں لیکن  باوجود  اس کے  ہم نہ اخلاقی برائیوں سے بچ سکے، نہ اپنے اسلاف کی اسلامی تہذیب و تمدن اور کلچر کی حفاظت کر سکے اور نہ ہی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر علاقے میں ترقی لا سکے ۔

ترقی یافتہ بننے  اورفیشن ایبل بننے کی کوشش میں ہم نے یورپ کی تقلید شروع کی  خواتین بازاروں میں ننگے سر پھرنا شروع ہوئیں ،منشیات کو عام کردیا  گیا، فحاشی ،عریانی یعنی وہ تمام چیزیں جو ایک غیر اسلامی ملک میں ہوتا ہے ہم کر گزرے  لیکن دوسری طرف  ، بنیادی  انسانی حقوق  اور آئینی حقوق لینے کی نہ ہماری اسمبلی میں طاقت ہے نہ ہمارے نمائندوں  کی کوئی حیثیت  ہے  اورنہ ہمارے صحافیوں میں دم خم ہے ۔ ہمارا سی پیک میں کوئی حصہ نہیں ،حکومت ہماری زمنیوں پر زبردستی قبضہ کرتی چلا جارہی ہے اور ہم ایک دوسرے سے لڑتے مرتے جارہے ہیں۔ہمیں ابھی تک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونا بھی نہیں آتا۔

 

 اگر ہم علاقائیت ،لسانیت ،فرقہ واریت سے بالاتر ہو کراپنی نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تربیت  پر آج بھی توجہ دیں تو اگلے کچھ عرصے میں ہم  سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ آج ہمارے جوانوں کے پاس  ڈگریاں اور پیسے تو ہیں لیکن اجتماعی اور قومی شعور نہیں ہے اور یہی چیز ہماری ملی وحدت اور قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *