تازہ ترین

ملی وحدت کا فقدان ۔۔۔ اصل مشکل کہاں ہے

   تحریر: سید قمر عباس حسینی تعلیم اور تربیت ناقابل تقسیم اکائی ہے۔ یہ دو ایسے اہم مرکب ہے جو قابل انفکاک ہی نہیں، لیکن اگر کوئی قوم ان دونوں کو الگ الگ  کر دے اور تعلیم کو اس دور کی ضرورت اور تربیت کو غیر اہم سمجھے تو یہی وہ مرحلہ ہے، جہاں سے […]

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1580

 

 تحریر: سید قمر عباس حسینی

تعلیم اور تربیت ناقابل تقسیم اکائی ہے۔ یہ دو ایسے اہم مرکب ہے جو قابل انفکاک ہی نہیں، لیکن اگر کوئی قوم ان دونوں کو الگ الگ  کر دے اور تعلیم کو اس دور کی ضرورت اور تربیت کو غیر اہم سمجھے تو یہی وہ مرحلہ ہے، جہاں سے اس قوم کا زوال شروع ہوجائے گا۔ آج کے دور میں بعض ماڈرن ذہنیت کے لوگ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ماڈرن بنانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ تعلیم وقت کی ضرورت ہے جبکہ تربیت مذہبی لوگوں کی باتیں ہیں۔ درحقیقت ان نام نہاد ماڈرن لوگوں نے ابھی تک تربیت کا اصل مفہوم سمجھا ہی نہیں، تربیت بنیادی طور پر دو طرح کی ہے، ایک اخلاقی و دینی اور دوسری فنی و ہنری۔ اخلاقی و دینی تربیت کے بغیر انسان علم یا فن و ہنر میں جتنی بھی ترقی کر جائے، وہ فقط نام کا انسان ہوتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دونوں طرح کی تربیت کا فقدان چلا آرہا ہے۔ آداب اسلامی اور عقائد اسلامی کے مطابق تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہم آج مغرب پرست بنے ہوئے ہیں، ہم مغرب کی ہر حرکت کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ آج اہلِ مغرب ہمارے مربّی ہیں اور ہم ان کی تقلید کرنے کو فخر سمجھتے ہیں، جبکہ مسلم تہذیب ہزار برس تک دنیا پر اس طرح حکومت کرتی رہی ہے کہ افریقہ سے لے کر وسطی ایشیا اور یورپ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی متمدن دنیا میں کوئی اس کی ہم سری اور برابری کا تصور ہی نہیں کرسکتا تھا۔

صرف سیاست ہی نہیں بلکہ تہذیب، تمدن، علم، فن، زبان، معاشرت اور تجارت میں کوئی اس سے آگے نہ تھا۔ ایسا دور بھی گزرا ہے کہ یورپ مسلمانوں کی تہذیب و تمدن سے مرغوب تھا، مگر جب سے مسلمانوں نے اپنی اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر یورپی تہذیب کو اپنایا ہے، اس وقت سے ہمارے معاشرے کی اچھی خاصی تعداد میں مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنی دینی حیثیت کھو بیٹھے ہیں۔ تربیت کی جانب کم توجہی کہ وجہ سے مسلمان اخلاقی طور پر کمزور ہوئے تو انھیں بغداد کی تباہی اور اسپین سے نکالے جانے کا سانحہ دیکھنا پڑا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی اور تہذیبی غلبے کے لئے تعمیری سوچ اور اصلاحی ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کو الزام دینے اور ان کی سازشیں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی غلطیاں تلاش کرنا اور علم و اخلاق میں پستی کو دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کسی بھی قوم کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ان کے پاس اچھے، اہل، قابل اور اصلاح و تربیت یافتہ افراد میسر ہوں، جو ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوں، شخصی اقتدار کیلئے دوسروں کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں۔

جب معاشرے میں تربیت یافتہ اور شعور دینی و آداب اسلامی سے واقف افراد ہونگے تو انہی میں سے ہی بعض افراد اس سماج کے باگ ڈور سنبھالیں گے تو ایک اچھا حکمران نہ صرف قومی مفاد اور مصالح کو مدنظر رکھتا ہے بلکہ قوم کے افراد کی صلاحیتوں کو بھی چمکاتا اور صیقل کرتا ہے، لیکن جب حکمران تربیت یافتہ نہ ہوں، فہم و ادراک دینی سے نابلد ہوں تو وہ عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں پڑیں گے، اشرافیہ ان کے ساتھ زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے تو لازمی بات ہے کہ عوام پر بدترین وقت آئے گا، طرح طرح کی مشکلات سے عوام کو دوچار ہونا پڑے گا، یہاں تک کہ یہ لڑاو اور حکومت کرو کے اصولوں پر عمل کرتا رہے گا۔ یوں انسانیت کا محترم خون حکمرانوں کی ہوس کی خاطر گلی کوچوں میں بہتا رہے گا، نہ صرف یہی بلکہ ابن آدم کو انسان کی بجائے جانور اور کولہو کا بیل سمجھا جاتا رہے گا۔ دیگر مناطق کی طرح آج ہمارا گلگت بلتستان بھی علمی لحاظ سے عروج پر ہے، لیکن تربیتی عنوان سے زوال کا شکار ہے، ڈاکٹر ہمارے اپنے ہیں، انجئینرز بھی مقامی ہیں، پروفیسرز بھی ہیں اور یوں ہم ایک تعلیم یافتہ لوگ کہلواتے ہیں، لیکن  باوجود اس کے ہم نہ اخلاقی برائیوں سے بچ سکے، نہ اپنے اسلاف کی اسلامی تہذیب و تمدن اور کلچر کی حفاظت کرسکے اور نہ ہی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر علاقے میں ترقی لا سکے۔

ترقی یافتہ اور فیشن ایبل بننے کی کوشش میں ہم نے یورپ کی تقلید شروع کی، خواتین بازاروں میں ننگے سر پھرنا شروع ہوئیں، منشیات کو عام کر دیا گیا، فحاشی، عریانی یعنی وہ تمام چیزیں جو ایک غیر اسلامی ملک میں ہوتی ہیں، ہم کر گزرے، لیکن دوسری طرف بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حقوق لینے کی نہ ہماری اسمبلی میں طاقت ہے، نہ ہمارے نمائندوں کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہمارے صحافیوں میں دم خم ہے۔ ہمارا سی پیک میں کوئی حصہ نہیں، حکومت ہماری زمنیوں پر زبردستی قبضہ کرتی چلی جا رہی ہے اور ہم ایک دوسرے سے لڑتے مرتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ابھی تک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونا بھی نہیں آتا۔ اگر ہم علاقائیت، لسانیت، فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اپنی نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تربیت پر آج بھی توجہ دیں تو اگلے کچھ عرصے میں ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ آج ہمارے جوانوں کے پاس ڈگریاں اور پیسے تو ہیں، لیکن اجتماعی اور قومی شعور نہیں ہے اور یہی چیز ہماری ملی وحدت اور قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *