تازہ ترین

منظومہ فکری رہبر انقلاب کے موضوع پر علمی و فکری نشست

مورخہ ۹ نومبر ۲۰۲۴ کو جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق کے زیر اہتمام *”گروہ دورہ مطالعاتی منظومه فکری رھبری”* کے تعاون سے جدید طرز پر ایک علمی و فکری نشست بلتستان کے سطح پر منعقد ہوئی۔ جس میں بلتستان بھر کے مجامع کے مسئولین اور علماء کرام نے شرکت کی۔ اس پروگرام کی نظامت […]

شئیر
77 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10316

مورخہ ۹ نومبر ۲۰۲۴ کو جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق کے زیر اہتمام *”گروہ دورہ مطالعاتی منظومه فکری رھبری”* کے تعاون سے جدید طرز پر ایک علمی و فکری نشست بلتستان کے سطح پر منعقد ہوئی۔ جس میں بلتستان بھر کے مجامع کے مسئولین اور علماء کرام نے شرکت کی۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض معروف قلم کار شیخ بشیر دولتی نے انجام دی۔ جبکہ کلام مجید کی تلاوت کا شرف محترم قاری غلام نبی صادقی نے حاصل کی۔ مطالعاتی دورے کا تعارف جناب عارف بلتستانی نے کرایا اور اس علمی و فکری نشست سے محترم سہیل شگری، جاوید غندوسی، شیخ صادق جعفری اور استاد حوزہ جناب شیخ فدا علی حلیمی نے خطاب کیا۔

مطالعاتی دورے کا تعارف کرتے ہوئے معروف قلم کار جناب عارف بلتستانی نے کہا کہ یہ دورہ چار افراد سے شروع ہو کر ایک کاروان کی شکل اختیار کیا ہے جس میں مہدویت، تبلیغ، خودکشی کا روک تھام اور رہبر انقلاب کے منظومہ فکری جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

اس مطالعاتی دورے کی خاصیت بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ پانچ مراحل پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے کتاب کا مطالعہ، پھر خلاصہ نویسی پھر گروہی مباحثہ اس کے بعد ارائه اور آخر میں تفکر و تعقل شامل ہے۔

اس کے بعد برادر سہیل شگری نے منظومہ فکری کی ضرورت ، ماہیت اور اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منظومہ فکری کے بغیر انسان افراط و تفریط کا شکار ہوتا ہے۔ منظم ہوکر ایک فکر کے ساتھ ، ایک سمت میں اور مشخص ہدف کی طرف بڑھنے کا نام منظومہ فکری ہے۔ منظومہ فکری ایک عصر کے خاص متفکر کا ہی ہو سکتا ہے جو کہ ہمارے زمانے میں سید علی خامنہ ائ کی صورت میں موجود ہے۔

اس کے بعد برادر جاوید غندوسی اور شیخ صادق جعفری نے ایمان کی بحث کو منظومہ فکری کے تحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ائ جس ایمان کی بات کر رہے ہیں وہ ایسا ایمان ہے جو قلب و نظر سے نکل کر اعضاء و جوارح سے ظاہر ہو۔ ایسا ایمان جو انسان کے اندر احساس مسئولیت پیدا کرے اور عمل صالح انجام دے اور اسی پر متعہد رہے۔ تب جا کے خداوند عالم اس انسان کو کامیابی کی نوید سناتا ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے۔

آخر میں استاد حوزہ حجت الاسلام و المسلمین فدا علی حلیمی صاحب نے مطالعہ و مباحثے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا،”مطالعہ استعداد کی کنجی ہے اس کے بغیر اعلیٰ علمی مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ در حقیقت مطالعہ و مباحثہ *”رب زدنی علما”* کی عملی تفسیر کا نام ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ مطالعہ ہی نہ کرے اور علم میں اضافہ ہوتا رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ائمہ علیہم السلام کے بعد سب سے مفید ترین شخصیات میں سے ایک رہبر معظم سید علی خامنہ ائ کی ذات ہے جس کے منظومہ فکری کا مطالعہ طالب علم کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ آپ نے منظومہ فکری کی عناصر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس منظومہ فکری کا پہلا عنصر مبانی اور بنیاد کا مستحکم ہونا ہے جو انسان کو افراط و تفریط سے بچاتا ہے۔ دوسرا عنصر منظم اور ہدف کا مشخص ہونا ہے۔ تیسرا عنصر انسجام اور وحدت ہے جبکہ چوتھا عنصر عقل کی حاکمیت ہے۔

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *