تازہ ترین

مُحسن مِلّت، علّامہ سیّد صفدر حُسین نجفی/تحریر: طاہر عبداللہ

مُحسن مِلّت، علّامہ سیّد صفدر حُسین نجفی

آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور تحریک جعفریہ کے بانی علماء میں سے تھے، جبکہ امامیہ آرگنائزیشن، وفاق علماء شیعہ پاکستان اور دیگر قومی تنظیموں کو محسنِ ملت کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ نے قائدینِ ملتِ جعفریہ مفتی جعفر حسین مرحوم، علامہ شہید عارف حسین الحسینی اور علامہ سید ساجد علی نقوی کے اِنتخاب میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کے نامور، ممتاز اور سرفراز شاگردوں میں سے آیت اللہ حافظ بشیر حسین نجفی وہ قابلِ قدر شخصیت ہیں، جو عراق میں مرجع اور مجتہد کی پوزیشن پر فائز ہیں۔ آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی وہ معزز شخصیت اور عظیم ہستی ہیں، جو آپ کی وفات سے لے کر اب تک جامعۃ المنتظر لاہور کے پرنسپل آرہے ہیں۔ مفسر قرآن اور اسوہ سکول سسٹم کے بانی شیخ محسن علی نجفی بھی آپ مرحوم کے عظیم شاگردوں میں سے ایک ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

شئیر
29 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4175

 علامہ سید صفدر حسین نجفی 1932ء میں ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ سید غلام سرور نقوی کے فرزند تھے، جو علاقے کی مشہور و معروف نقوی سید فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا شجرہءِ نسب سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے جا کر ملتا ہے، جو حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ مولود آگے چل کر محسنِ ملت کے نام سے موسوم ہوگا اور پاکستان میں شیعیت کی تاریخ کو اپنے کردار، عمل، جدوجہد اور خلوص سے چار چاند لگا دے گا۔ آپ اپنے ملک، قوم اور نوجوان نسل کیلئے اسلامی تمثیل تھے۔ آپ اہل بیت علیہما السلام کے سچے پیروکار تھے اور آپ نے اپنی ساری زندگی الٰہی مشن کی ترویج اور فروغ کیلئے وقف کر دی۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ آپ اپنے دَور کے ابوذر تھے۔ آپ نے تین سال کی عمر میں اپنی ماں کی آغوش میں بیٹھ کر قران مجید پڑھنا شروع کیا۔ اِس کے بعد آپ نے 8 سال کی عمر میں دینی تعلیم کا اپنے چچا استاد العلماء سید محمد یار شاہ نقوی نجفی سے آغاز کیا، جو کہ ایک نامور، بہادر اور نڈر مذہبی سکالر تھے۔ قبلہ یارشاہ مرحوم کے قابلِ ذکر شاگروں میں سید صفدر حسین نجفی کا نام ایک عظیم اور منفرد شاگرد کے طور پر آتا ہے۔

اِس کے ساتھ ساتھ آپ نے مختلف مراحل میں چھ اور قابلِ ذکر مدارس سے بھی تعلیم حاصل کی۔ جن میں استاد العلماء علامہ سید محمد باقر نقوی چکڑالوی المعروف علامہ باقر ہندی کا مدرسہ خانیوال، مدرسہ باب العلوم ملتان، مدرسہ جلالپور ننگیانہ سرگودھا، مدرسہ سیت پور مظفر گڑھ، مدرسہ ٹھٹھہ سیال مظفر گڑھ اور ایک اہل سنت کا مدرسہ ملتان بھی شامل ہے۔ اِن مذکورہ مدارس میں آپ نے 1946ء تک تعلیم حاصل کی۔ پھر 1947ء سے 1950ء تک درسِ نظامی کیلئے مدرسہ صادقیہ خانپور مظفر گڑھ، مدرسہ خان گڑھ اور مدرسہ باب النجف جاڑا، ڈی آئی خان میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ پھر آپ اعلٰی دینی تعلیم کے لئے 1951ء میں نجفِ اَشرف تشریف لے گئے۔ باب العلم مولاعلی ؑ کے اِس مقدس شہر نجف میں پانچ سال تک آپ دُنیائے اسلام کے نامور علماء و فقہاء سے علم کے قیمتی موتی اپنے دامن میں سمیٹتے رہے، جن میں قابلِ احترام اُستاد اور عظیم شخصیات آیت اللہ سید محسن الحکیم، آیت اللہ ابوالقاسم خوئی، علامہ شیخ محمد علی افغانی، علامہ سید ابوالقاسم راشتی، آیت اللہ آغا بزرگ تہرانی (جنہوں نے آپ کو حدیث کا اجازہ دیا)، شیخ محمد تقی آلِ رضی، شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی شامل ہیں۔ 1955ء میں پاکستان آکر آپ نے قومی اُمور میں اپنی خدمات کا آغاز کر دیا۔ آپ نے 1966ء میں جامعۃ المنتظر لاہور کا چارج سنبھالا۔ اُس وقت پورے پاکستان میں جامعۃ المنتظر سمیت صرف اور صرف پانچ مدارس تھے اور یہ بات لمحہءِ فکریہ تھی۔

ایران میں اِسلامی اِنقلاب کے بانی رُوح اللہ امام خمینی کا پاکستان میں تعارف اِنقلاب کی آمد سے کوئی 10 سال پہلے اُن کی تصنیف کردہ کتاب توضیح المسائل کا ترجمہ کرکے کرا دیا تھا۔ آپ امام خمینی کے سچے عاشق اور محب تھے۔ آپ کا امام خمینی سے بذریعہ خطوط اور پیغامات ایک مضبوط تعلق بنا رہا۔ امام خمینی ہمیشہ آپ کی کوششوں اور کاوشوں کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے، بلکہ ایک بار تو آپ نے سیٹھ نوازش علی مرحوم کے ہمراہ امام خمینی سے اُن کی جلاوطنی کے دَور میں فرانس میں ملاقات کی۔ جس میں آپ نے امام خمینی کو فرانس میں قیام کی بجائے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ امام خمینی نے آپ کے خلوص اور دعوت کا دل سے شکریہ ادا کیا اور اُن کی توفیقات خیر میں اضافے کی دُعا کی۔ انقلابِ اسلامی ایران کے بعد آپ پاکستان کے پہلے مذہبی سکالر ہیں، جو پاکستان میں اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی انقلابی کاوشوں کا تعارف تقریری اور تحریری انداز میں کراتے رہے۔ یہ دِلی اور روحانی تعلق امام خمینی کی وفات 3جون 1989ء تک رہا۔ آپ کی امام خمینی سے والہانہ محبت اور عشق کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام خمینی کی فوتگی اور تدفین کے بعد آپ نے قم المقدسہ ایران سے رخصت ہوتے ہوئے کہا تھا کہ اب امام خمینی کے بغیر رہنا بہت مشکل ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ٹھیک پانچ ماہ بعد 3 دسمبر 1989ء کو آپ بھی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

آپ کی یہ ہمیشہ خواہش رہی کہ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع اکابرین کا ایک پلیٹ فارم ہو اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی اِنہی کاوشوں اور اقدامات کی وجہ سے تمام مسلمان بلاتفریق مسلک و مذہب آپ سے محبت کرتے تھے۔ محسنِ ملت نے شیعہ علماء کیساتھ ساتھ سنی علماء سے بھی قریبی اور مضبوط روابط قائم کرکے اتحاد بین المسلمین کو فروغ دیا، جبکہ علماء اور ذاکرین کو اکٹھا کرکے، اُن کے درمیان غلط فہمیوں کو دُور کرکے اتحاد بین المومنین کو بھی پروان چڑھایا۔ وہ ذاکرین پر زور دیا کرتے تھے کہ سٹیجِ حسینی پر کھڑے ہونے سے پہلے ذکرِ اہلِ بیت ؑ کیلئے علماء سے رہنمائی حاصل کر لیا کریں، تاکہ کوئی غیر مصدقہ روایت بیان نہ ہوجائے، جو عوام پر منفی طور پر اثرانداز ہو اور مکتبِ اہل بیت ؑ کی بدنامی کا باعث ہو۔ آپ سیاست کے خلاف نہیں تھے بلکہ اُن خرابیوں کے خلاف تھے، جو سیاست کے نام پر کی جاتی ہیں۔ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے دَور میں بحیثیت نائب صدر قوم کی خدمت کرتے رہے اور اُن کی وفات کے بعد 10 فروری 1984ء کو بھکر کنونشن میں بطور قائد آپ کا انتخاب کیا گیا، لیکن علامہ سید صفدر حسین نجفی نے پاکستان کے جید شیعہ علماء و اکابرین کی اِیما پر اپنے شاگردِ خاص علامہ عارف الحسینی کو اُن کی قائدانہ صلاحیتوں، انقلابی جذبوں اور اعلٰی اِنسانی صفات کی بنا پر تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کا نیا قائد و سربراہ منتخب کیا۔

آپ نے فرمایا کہ میری زندگی کا مقصد پاکستان کے گوشے گوشے میں مدارس قائم کرنا اور دُنیا بھر میں اسلامی تعلیمی نظام قائم و مربوط کرنا ہے۔ اِس لئے مَیں قیادت کیلئے خود کو پیش نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی اِس تجویز کو تمام علماء کرام نے قبول کر لیا۔ آپ نے اپنے مشن اور منصوبے کو عملی شکل دینے کیلئے پاکستان کے ہر صوبے اور گلگت بلتستان میں 27 مدارس قائم کئے اور اِن کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر برطانیہ اور امریکہ میں ایک ایک اور ایران میں تین مدارس قائم کئے۔ ایک موقع پر آپ نے کہا تھا کہ شیر شاہ سوری نے 15 سو میل لمبی سڑک پشاور سے کلکتہ تک تعمیر کرائی تھی اور ہر دس میل پر اُس نے ہوٹل، پانی کا کنواں اور چیک پوسٹ بنائی۔ میری خواہش ہے کہ مَیں جی ٹی روڈ یعنی شاہراہِ پاکستان پر ہر 50 میل کے علاقے میں ایک معیاری مدرسہ قائم کروں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی محنتوں اور کاوشوں کی وجہ سے آج پاکستان میں 419 مدارس کام کر رہے ہیں۔ پھر بھی یہ تعداد کم ہے اور اِس پر علماء کرام کو مزید توجہ دینے اور کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان میں کل مدارس کی تعداد 35 ہزار ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ قوم و ملت کے بچوں، خواتین اور حضرات کی درست رہنمائی کیلئے آپ نے المنتظر کے نام سے ماہانہ میگزین کا آغاز کیا۔ آپ نے مختلف عناوین پر 40 کتابیں تحریر فرمائیں اور 60 کتابوں کا ترجمہ کیا، جن میں تفسیر نمونہ تالیف آیت اللہ مکارم شیرازی کی 27جلدیں، پیامِ قرآن تالیف آیت اللہ مکارم شیرازی کی 15 جلدیں، منشورِ جاوید تالیف آیت اللہ جعفر سبحانی کی 14 جلدیں اور سیرتِ آئمہ پر 12 جلدیں اور احسن المقال تالیف محدث قمی کی 4 جلدیں قابلِ ذکر ہیں، باقی تمام کتب قومی و تاریخی اَثاثہ ہیں۔

آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور تحریک جعفریہ کے بانی علماء میں سے تھے، جبکہ امامیہ آرگنائزیشن، وفاق علماء شیعہ پاکستان اور دیگر قومی تنظیموں کو محسنِ ملت کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ نے قائدینِ ملتِ جعفریہ مفتی جعفر حسین مرحوم، علامہ شہید عارف حسین الحسینی اور علامہ سید ساجد علی نقوی کے اِنتخاب میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کے نامور، ممتاز اور سرفراز شاگردوں میں سے آیت اللہ حافظ بشیر حسین نجفی وہ قابلِ قدر شخصیت ہیں، جو عراق میں مرجع اور مجتہد کی پوزیشن پر فائز ہیں۔ آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی وہ معزز شخصیت اور عظیم ہستی ہیں، جو آپ کی وفات سے لے کر اب تک جامعۃ المنتظر لاہور کے پرنسپل آرہے ہیں۔ مفسر قرآن اور اسوہ سکول سسٹم کے بانی شیخ محسن علی نجفی بھی آپ مرحوم کے عظیم شاگردوں میں سے ایک ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آیت اللہ حسن رضا غدیری، پرنسپل جامعۃ المنتظر لندن، مولانا موسٰی بیگ نجفی، مولانا باقر علی شگری، مولانا محمد اسلم صدیقی، علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا منظور حسین عابدی، علامہ محمد حسین اکبر، مولانا سید محمد عباس، مولانا سید خادم حسین نقوی، مولانا ابوالحسن نقوی، مولانا حافظ سید محمد سبطین نقوی، آیت اللہ سید علی نقی نقوی قمی، ڈاکٹر علامہ سید ابرار حسین عابدی اور بے شمار قابل ترین ہستیوں کو محسنِ ملت کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔

آپ نے 1953ء میں نجف میں ایک پاکستانی معزز سادات گھرانے میں شادی کی، جو شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان کی پھوپھی اور علامہ امیر حسین نقوی کی ہمشیرہ تھیں۔ جن سے آپ کی کوئی اولاد نہ ہوئی اور وہ محترمہ 1979ء میں فوت ہوئیں۔ آپ نے دوسری شادی 1967ء میں ساہیوال کی معتبر سبزواری سادات فیملی میں کی، جو علامہ سید بختیارالحسن سبزواری اور ڈاکٹر غلام شبیر سبزواری سابق مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان کی ہمشیرہ تھیں۔ جن سے آپ کی چار دختران اور چھ فرزند پیدا ہوئے۔ وہ محترمہ 1994ء میں فوت ہوئیں اور قم ایران میں مدفون ہیں۔ محسن ملت کی تمام اولاد مذہبی سکالر ہیں۔ آپ کے فرزندان میں آیت اللہ سید علی نقی نقوی قمی (عمر 47سال) مجتہد عالم ہیں۔ آپ عربی، فارسی، انگلش، اردو، پنجابی اور سرائیکی میں تحریر و تقریر پر دسترس رکھتے ہیں اور آج کل ایران میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ علامہ سید محمد تقی نقوی (عمر 46سال) عرصہ 17سال سے جامعہ علمیہ کراچی میں دینی خدمت کا فریضہ ادا کر رہے ہیں، جبکہ سید محمد مہدی نقوی 1986ء میں سولہ سال کی عمر میں ایران میں دینی تعلیم حاصل کرتے ہوئے سڑک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ علامہ سید حسن عسکری نقوی (عمر 43سال) ایک مشہور مذہبی سکالر ہیں، جنہوں نے ایران سے 15 سال تک مذہبی تعلیم حاصل کی ہے اور مذکورہ بالا چھ زبانوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ مولانا سید حسین علی نقوی (عمر 41 سال) اور مولانا سید محمد علی نقوی (عمر 40 سال) ابھی تک اسلامی مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ساتھ ہی دین کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ اِن تمام فرزندان کی شریکِ حیات بھی دینی سکالر ہیں اور قوم کی خدمت کر رہی ہیں۔ آپ کی چاروں دختران عالمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی، عالمہ سیدہ توصیف زہرا نقوی، عالمہ سیدہ تنویر زہرا نقوی اور عالمہ حافظہ سیدہ تسنیم بتول نقوی مذہبی سکالر ہیں، علمائے کرام کی شریک حیات ہیں اور بطور معلم اور مصنف کے دینِ محمدی کی ترویج میں شب و روز مصروف ہیں۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *