مکہ و مدینہ کے مناظرات
< اٴدع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی احسن>[2]
”(اے رسول)تم (لوگوںکو)اپنے پرورگار کے راستہ کی طرف حکمت اَور اَ چھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت دو اوربحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طرےقہ سے جو (لوگوںکے نزدیک)سب سے اچھا ہو، “
ا ب یہ تین اعتراضات اور انکے جوابات آپ کی پیش خدمت ہیں۔
”پہلا اعتراض“
< ۱>
< ستفترق امتی الی ثلاثةوسبعین فرقةََ کلھا فی النار الاّفرقة واحدةھی الناجیہ( النبیی الکریم)
”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گئی،سب کا ٹھکانہ جھنم ہے سوائے ایک فرقہ کے، وہی فرقہ ناجیہ(نجات پانے والا)ہے
”کون سا فرقہ ، فرقہ ناجیہ( نجات یافتہ)ہے“؟
مکہ مکرمہ اور مدنیہ منورہ میں حج و عمرہ کرنے والے شخص کا سامنا تنگ نظر، جاہل واحمق نیز جھوٹ اوربہتان باندھنے والے ایسے افراد سے ہوتا ہے جن کے نزدیک اسلام کی تعریف صرف لمبی داڑھی، اُونچا پا ئجامہ،اور منہ میں مسواک رکھنا ہے۔جبکہ اسلام کی دوسری اہم و چیدہ تعلیمات و احکام کووہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔اس کے باوجود وہ اپنے خیال خام میںیہ تصور کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام انجام دے رہے ہیں ۔
خدا وند کریم نے ایسے افراد کو قرآن میں ان الفاظ سے یاد کیا ہے:
<الذین ضلّ سعیھم فی الحیوة الدنیا و ھم یحسبون انھم یحسنون صنعاََ >[3]
”وہ ایسے لوگ (ہیں)جن کی دنیاوی زندگی کی سعی وکو شش سب اکارت ہو گئی اور وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کر رہے ہیں“
لیکن اُن کا یہ عمل اور مومنین کرام پر افتراء و بہتان انہیں ذیل کی آیت کا مصداق بناتا ہے۔
< اَنہ کان فاحشةومقتاََ و ساء سبیلاََ >[4]
” وہ بد کاری اور( خدا کی) نا خوشی کی بات ضرور تھی اور بہت براطریقہ تھا“
بہتان وافتراء ایسی مذموم صفت ہے جس کے بارے میں قرآن یوں خبر دیتا ہے:
< انما یفتری الکذب الذین لا یومنو ن بآیات اللہ واولٓئک ھم الکاذبون >[5]
”جھوٹ و بہتان تو پس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آےات پرایمان نہیں رکھتے اور (حقیقت امر یہ ہے کہ)یہی لوگ جھوٹے ہیں“
میرے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ جب میں مکہ مکرمہ کے مسجد الحرام میں عبادت میں مصروف تھا،کہ ایک شخص جس کی داڑھی لمبی اواُنچا کرتا ،منہ میں مسواک چباتا ہوا، بغیر سلام کیے میرے پہلو میں آ بیٹھا، جبکہ سلام کرنا تمام مسلمانوں کے نزدیک سنت نبوی ہے اُس کا نفرت آمیزکریہ المنظرچہرہ اُس کے پنہان کینے کی نشاندہی کر رہا تھااس نے مخاطب ہوکر کہا کیا تم شیعہ عالم دین ہو؟
میں نے جواب میں کہا :خداوند متعال نے مجھے اپنے احکام وتعلیمات کا متعلم قرار دیا ہے۔
تو اس نے کہا تم لوگ گمراہی پر ہو۔
میں نے اُس سے استفسار کیا:تم کو یہ کیسے معلوم کہ ہم لوگ گمراہی پر ہیں؟ تو اُس نے جواب دیاکیونکہ پیغمبر نے فرمایا:
< ستفترق اُمتی الی ثلاثةو سبعین فرقة کلھا فی النار الّا واحدة ھی الناجیة >[6]
”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گئی،سوائے ایک فرقہ کے سب کا ٹھکانہ جھنم ہے وہی ایک فرقہ ، فرقہ نا جیہ(نجات پانے والا ہے)[7]
پھراس نے کہا ہم ہی وہ فرقہ ناجیہ( نجات پانے والا) ہیں ۔
میں نے اس سے کہا : میں کہتا ہوں وہ فرقہ ناجیہ ہم ہیں۔ہر فرقہ اورہر گروہ کا یہی دعوی ہے کہ نجات پانے والے گروہ کا تعلق اس سے ہے۔صوفیت، وہابیت،قادیانیت،اہل سنت،اور شیعہ میں ہر ایک کا یہ کہنا ہے کہ فرقہ ناجیہ ہم ہیںلہٰذا یہ کوئی مسئلہ کا حل نہیں۔جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:
”کل یدعی وصلاََ بلیلیٰ ولیلیٰ لا تقر لھم بذاکا“
”ہرایک کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی لیلیٰ تک رسائی ہے،درحالانکہ لیلیٰ نے کسی مدعی کے لیے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ میں اس کی ہوں “
جب آپ ےہ جاننا چاہتے ہیں کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون لوگ ہیں تو ضروری ہے کہ اُس قرآن کی طرف رجوع کیا جائے جو ہمارے دین کی اصل ہے،اُس وقت یہ اللہ کی کتاب ہماری اس بات کی طرف رہنمائی کرےگی کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون لوگ ہیںاُس شخص نے پوچھا وہ کےسے؟میں نے کہا قرآن کا یہ ارشاد ہے :
< فاِن تنازعتم فی شیءِِِِِِِِ فردوہ الی اللہ والرسول اِن کنتم تومنون باللہ والیوم الآخرذلک خیر و احسن تاویلا>[8]
ٓٓٓ ”اَگرتم کسی بات پر جھگڑا کروپس اگرتم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر میں خدا اور اُ س کے رسول کی طرف رجوع کرو پس (تمہارے حق میں)بہتر ہے اورانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے“
اس آیت کریمہ میں ہمیںخدا اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے،اس بنا پر ہم خدا وند عالم سے ہی اس چیز کی وضاحت چاہیںگے کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون سا فرقہ ہے؟تو اس وقت ہمیں خدا کی مقدس وغالب کتاب سے یہ جواب ملے گا․
<مااٴتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا >[9]
”جو تم کو رسو ل دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اُس سے باز رہو“
اس آےت میں خدا ئے تعالیٰ نے رسول اکرم کیطرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ آپ ہی الہٰی بیان کے رسمی اور قانونی نمائندے ہیں۔اسی وجہ سے آپ وحی خدا کے بغیر اَپنی زبان کو جنبش نہیں دیتے تھا اوراللہ کا ارشاد ہے:
< وما ینطق عن الھویٰ اِن ھو الّا وحی یوحی> [10]
” اَور وہ تو اَپنی خواہشات نفسانی سے کچھ بولتے ہی نہیں وہ تو بس وہی بولتے ہیں جو وحی ہوتی ہے“۔
تو بس اب ہم پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں دست بستہ یہ عرض کریں گے کہ اے اللہ کے رسول !خدا وند عالم نے ہمیں آپ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کہ آ پ ہمارے لئے یہ معین اور واضح فرما دےں کہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟
اس سوال کے جواب میں پیغمبر اپنے متعدد واضح اور روشن فرامین کے ذریعہ ہمارے لئے فرقہ ناجیہ کا تعین فرماتے ہیں، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:
(حدیث اول)
< مثل اھل بیتی فیکم کمثل سفینة نوح من رکبھا نجا و من تخلّف عنھا غرق وھوٰی >[11]
”تمہارے درمیان میرے اہل بیت (ع) کی مثال حضرت نوح(ع) کی کشتی کے مانند ہے،جو اس پر سوار ہو گیا نجات پا گیا ،اور جس نے اس کشتی پر سوار ہونے سے رو گردانی کی وہ غرق و ہلاک ہو گیا “
پیغمبر اکرم (ص) کی اس حدیث مبارک سے درجہ ذیل امور کا استفادہ ہوتا ہے:
۱۔ فرقہ ناجیہ کا تعلق صرف اہلبیت(ع) کے مذہب کے ساتھ ہے۔کیونکہ پیغمبر نے فرمایا:”من رکبھا نجا“جو اس کشتی اہل بےت (ع) پر سوار ہوگا وہ نجات پا ئے گا ۔لہٰذا نجات کا دارو مداراہلبیت(ع) کی اتباع وپیروی پر ہے۔
۲۔ اہلبی(ع)ت کے مذہب سے اختلاف ہونے کی صورت میںبھی اہلبیت (ع)کے علاوہ کسی دوسرے کی اتباع و پیروی کرنا جائز نہیں،کیونکہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:”ومن تخلّف عنھا غرق وھوٰی“جس نے اس کشتی نجات سے روگردانی کی اور سوار ہونے سے انکار کیا وہ ہلاک ہو گیا“
لہٰذا اختلاف کی صورت میں بھی کسی طرح ان ہستیوں کے علاوہ کسی سے تمسک کرنا جائز نہیں ہے۔اس بنا پر اگر حنفی،شافعی،مالکی،اور حنبلی کا مذہب اہلبیت (ع) کے ساتھ احتلاف ہو جانے کی صورت میں کسی بھی طرح ایک ایسا مسلمان جوخود کوقرآن و سنت رسولکا پیرو کہتاہے اسکے لئے پیغمبر کے اس واضح و روشن فرمان کہ جس کی حقانیت میں اصلاََ کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش نہیںہے، مخالفت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول نے اہلبیت(ع) سے تخلّف و دوری کو ”غرق و ھوٰی “ (غرق وہلاکت ) سے تعبیر فرمایا ہے۔
(دوسری حدیث)
پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے فرمایا:
< النجوم اَمان لاھل الارض من الغرق واہل بیتی اَمان من الاختلاف فی الدین فاذا خالفتھا قبیلة من العرب اختلفوا فصاروا من حزب ابلیس> [12]
”(آسمان ) کے ستارے اہل زمین کے لئے ،تباہی وہلاکت سے امان کا سبب ہیں اَور میرے اہلبیت(ع) ان کے لئے دین میں اختلاف سے امان کا سبب ہیں پس جب کوئی عرب کا قبیلہ ان اھلبیت (ع) کی مخالفت کرے گا تو وہ پراگندگی کا شکار ہو کرشیطان کے گروہ کا حصہ بن جائے گا“۔
رسول اعظم کے اس پاک کلام سے درجہ ذیل نکات کا استفادہ ہوتا ہے۔
۱۔ اہل بیت(ع) کے قول وگفتار پر عمل اُمت کے درمیان اختلاف سے امان کاسبب ہے۔جب سب لوگ پیغمبر کے اس فرمان”اہل بیتی امان من الاختلاف“ پر عمل پیرا ہو جائیں تویہ وحدت اور اتحاد بین المسلمین کا سبب ہو گا۔
۲۔ مذہب اہل بیت (ع) سے دوری اور انکی مخالفت مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کا سبب ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے خود اس کی طرف ان الفاظ میں ”فاذا خالفتھاقبیلة من العرب اختلفوا “ (جب عرب کا کوئی قبیلہ اہلبیت(ع) رسول کی مخالفت کرے گا وہ پراگندگی واختلاف کا شکار ہو جائے گا) ،ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔
۳۔ مذہب اہلبیت(ع) کی مخالفت اور انسے دوری خدا اُور اس کے رسول سے دوری کاسبب ہے ۔ جو شخص خدا اُور اس کے رسول سے دور ہو جائے تو وہ شیطان کا قرین اورساتھی ہے،جیسا کہ خود رسول اکرم نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”فصارو من حزب ابلیس“(اختلاف کی صورت)میں شیطان کے گروہ میں شامل ہو جائے گا“۔
(حدیث سوم)
پیغمبر اکرم (ص) کا فرمان ذیشان ہے۔
<انی مُخلف اَو تارک فیکم الثقلین ،کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی مااِن تمسکتم بھما لن تضلّو بعدی اَبداََ>
”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اللہ کی کتاب اورمیری عترت جو میرے اہل بیت(ع) ہیںاگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔“
کتاب مسند احمد بن حنبل میں یہی حدیث درجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔
<عن ابی السعید الخدری قال:قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ انی قدترکت فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلّوا بعدی:احدھما اکبر من الآخر، کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اہل بیتی الّا انھما لن یفترقا حتیٰ یردا علیَّ الحوض >[13]
(ترجمہ)”حضرت ابو سعید خدری ۻ سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو میرے بعدکبھی گمراہ نہیں ہو گے، ان میںسے ایک دوسرے سے افضل وبرتر ہے،( ایک)اللہ کی کتاب جو اللہ کی رسی ہے اور آسمان سے لیکر زمین تک کھینچی ہوئی ہے (دوسرے)میرے اہل بیت علیہم السلام، یہ دونوں اس وقت تک جدا نہیں ہو ں گے جب تک حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہنچ جائیں“۔[14]
اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور کا استفادہ ہوتا ہے:
۱۔ قرآن اور اہلبیت(ع) سے تمسک کی صورت میں گمراہی و ضلالت سے نجات کی ضمانت موجود ہے جیساکہ پیغمبر نے فرمایا: ”ماان تمسکتم بھما لن تضلّوا بعدی ابدا“[15]
”جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے ہر گز تم میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے“
۲۔ قرآن اور اہل بیت (ع) کا آپس میںبہت گہرا تعلق ہے اوریہی تعلق اور پیوند ضلالت وگمراہی سے نجات کاذریعہ ہے۔لہٰذا کوئی بھی رسول خدا کے اس قول کی روشنی میں ان دونوں کے درمیان تفرقہ وجدائی نہیں ڈال سکتا:
”اَنھمالن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض“ یہ قرآن و اہلبیت(ع) آپس میں کبھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔
رسول اکرم کی حدیث کے اسی جملہ کو حضرت مہدی(ع) کے وجود اقدس پر دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اس زمانے میںقرآن کے قرین ا ہلبیت(ع) میں سے حضرت قائم آل محمد(ع) ہیں ،مثلاََ اسی چیز کو پیغمبر اکرم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
”و انھما لن یفترقاحتی یردا علیَّ الحوض“یہ قرآن و اہلبیت(ع) آپس میں کبھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے حاضر ہوں گے۔
۳۔ رسول کا یہ جملہ”انی مخلف فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی․․“کہ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں،ایک قرآن اور دوسرے میری عتر ت جو میرے اہلبیت ہیں“رسول کی زبان سے یہ کلام کسی قلبی میلان یادلی خواہش کی بنا پر جاری نہیں ہوا،کیونکہ آپ تو وحی کے بغیرکلام ہی نہیں کرتے تھے۔ <وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الّا وحی یوحیٰ․․>[16]
” اَور وہ تو اَپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ وہی بولتے ہیں جو ان کی طرف وحی ہوتی ہے“
۴۔ پیغمبر اکرم کی نظر میں اہل بیت علیھم السلام کے علاوہ قرآ ن کا قرین اور محافظ کوئی اور نہیں تھا ۔اگر کوئی اور ہوتا تو آپ ضرور اُ س کا ہم سے تعارف کراتے۔
۵۔ نبی اکرم نے فرقہ ناجیہ کی وضاحت کے سلسلہ میں فقط ا نہیں احادیث پر اکتفا نہیں فرمایا،بلکہ مختلف مقامات پر متعدد احادیث میں نجات پانے والے فرقہ کے متعلق صاف طور پر تاکیدفرمائی ہے۔ جیسا کہ کنز العمال میںذکر ہوا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا :
”جب لوگ اختلاف اور تشطّط(تفرقہ) کا شکار ہو جائیںتو ایسی حالت میں یہ(علی) اور ان کے اصحاب حق پر ہو ں گے۔[17]
۶۔ صاحب کنز العمال نے پیغمبر اکرم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد فتنہ وفساد برپا ہو گا،جب ایسا ہو توعلی ابن ابی طالب سے متمسک رہناکیونکہ وہ حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔[18]
۷۔ کنز العمال میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
اے عمار!اَگرتم یہ دیکھوکہ علی(ع) کا راستہ، لوگوں کے راستے سے جدا ہے تو علی(ع) کی پیروی کرتے ہوئے اُن ہی کا راستہ اختیار کرنا اور لوگوں کو چھوڑ دینا،کیونکہ علی کبھی بھی تمہیں گمراہ نہیں کریں گے اور ہدایت سے دور نہیں ہونے دیں گے“۔[19]
اس کے علاوہ بھی پیغمبرسے متعدد احادیث منقول ہیں جو فرقہ ناجیہ کی تشخیص و تعیین کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
پھر میں نے اس معترض شخص کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ اگرتم نجات پانے والے فرقہ کے راستہ پر گامزن ہونا چاہتے ہو توتجھے اس سلسلہ میں قرآن اور سنت رسول کی پیروی کرناچاہیے،اگر تو نے قرآن و سنت کے مطابق عمل کیا تو نجات کا راستہ اختیارکر لیا ہے ورنہ تیرا شمار اُن افراد میں ہو گا جن کو خداوندعالم نے اس عنوان سے تعبیر فرمایا ہے:
<واذاقیل لھم تعالو الی ما انزل اللہ و الی الرسول راٴیتَ المنافقین یصدون عنک صدوداََ>[20]
ترجمہ”اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کتاب خدا (وہ کتاب جو اللہ نے نازل کی ہے) اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو تو تم منافقین کی طرف دیکھتے ہو کہ جو تم سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں“
”دوسرا اعتراض“
<۲>
کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟
جمع بین الصلاتین
خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں)پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
مذکورہ اعتراض کا جواب:
میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔
(پہلی دلیل)
”قرآن کی واضح و صریح آیت “
قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:
<اقم الصلاہ لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشھودا>[21]
ََترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔
آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیںاوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں:
۱۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔
۲۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔
۳۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں۔
یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔
(دوسری دلیل)
”سنت رسول “
پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔
اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں:
النووی کی صحیح مسلم جلد۵ ص۲۱۳،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں
(۱)یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قراٴت کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“
(۲)احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“
(۳)ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں“
(۴)بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔[22]
(۵)جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں۔[23]
(۶)ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔[24]
(۷)نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔[25]
(۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔[26]
(۹)عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“[27]
(۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“[28]
(۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“[29]
(تیسری دلیل)
”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“
ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔
لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔[30]
دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:
(۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔
نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:
<اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشھوداََ>[31]
”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“
(چوتھی دلیل)
پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“
مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں
“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس(۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیںکہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میںنقل ہوئی ہیںلیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :
پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میںکہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔[32]
اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعلہ فی لیلة مطیرة“کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّہ فی لیلة مطیرة)کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیںاور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّہ فی سفرِِو مطرِِ)کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔
یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :
<ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا> [33]
”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“
مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:
”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔
(۱)زوال کا وقت (۲)مغرب کا اول وقت(۳)فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیںلہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔[34]
اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت <اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل․․․․>سے مطلقاََ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انہ دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز؟“
(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیںہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)
ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔
”تیسرا اعتراض“
<۳>
تقیہ کی شرعی حیثیت
کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟
کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیںجس میں یہ ارشاد ہواہے:
< وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان>[35]
ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔
جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔
ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیںہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیںکیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیںکہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:
<و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانہ اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی اللہ و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیہ کذبہ وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن اللہ لایھدی من ھومسرف کذاب> [36]
ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“
پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔
(۲)قول خدا وندی ہے:
<لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شئی الّا اٴن تتقوا منھم تقاةََ و یحذرکم اللہ نفسہ و ا لی اللہ المصیر>[37]
ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میںیہی کہاہے۔
(۳)ارشاد باری تعالیٰ ہے:
<من کفر باللہ من بعد ایمانہ الّا مَن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیھم غضبُ من اللہ ولھم عذاب عظیم>[38]
ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔
پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسرۻ کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تقیہ اورسنت رسول
دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔
مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت
<من کفر باللہ من بعد ایمانہ الّا مَن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان>[39]
”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“
کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار ۻ کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔
اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔
پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیںاَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔[40]
لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میںتقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں)یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار ۻبن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:
”ان عادوا لک فعدلھم بما قلت“۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “
تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
<ومانقمو منھم الّا اٴن یومنوا بااللہ العزیز الحمید>[41]
ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“
……………………..
مصادرو منابع
۱۔ قرآن کریم
۲۔ تفسیر کشاف زمخشری
۳۔ تفسیر رازی الکبیر
۴۔ تفسیر طبری
۵۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)
۶۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید
۷۔ سنت نبویہ
۸۔ المستدرک حاکم نیشاپوری
۹۔ صحیح بخاری
۱۰۔ صحیح مسلم
۱۱۔ سنن ترمذی
۱۲۔ سنن ابن ماجہ القزوینی
۱۳۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی
۱۴۔ کنز العمال
۱۵۔ مصحف عبد الرزاق
۱۶۔ مسند البزار
۱۷۔ مسند احمد بن حنبل
۱۸۔ معجم الکبیر
محترم قارئین:۔
یہ کتاب اُن تین اعتراضات کا جواب ہے ،جو عقل ودل کے بیمار افرادکی جانب سے پیش کیے گئے جو نہ تو نور علم سے مستفیض ہوئے ہیں اور نہ ہی اُنہوں نے (دین) کے کسی مضبوط و محکم رکن کو اپنی پناہ گاہ قرار دیا ۔وہ تین اعتراضات درجہ ذیل ہیں۔
(۱)کون سا فرقہ اورکونساگروہ نجات پانے والا ہے؟
(۲)جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا ) کیسے جائز ہے؟
(۳)کیا اسلام میں تقیہ پر عمل کرنا جائز ہے؟
یہ اور اس طرح کے اوردوسرے اعتراضات کہ جن کو مکہ مکرمہ کے حرم مقدس اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں میرے سامنے پیش کیے گئے۔یہ مختصر سا کتابچہ نہایت ہی سلیس اَور آسان طرز تحریر میں مذکورہ اعتراضات کا جواب ہے کہ جس سے ہر قسم کا قاری بخوبی استفادہ کر سکتا ہے۔
——————————————————————————–
[1] سورہ بقرہ،آیت ۱۴۲
[2] سورہ نحل ،آیت ۱۲۵
[3] سورہ الکہف،آیت ۱۰۴
[4] سورہ نساء ،آیت ۲۲
[5] سورہ نحل ،آیت ۱۰۵
[6] حدیث مذکورہ ”افتراق امت “ شیعہ اور سنی کی احادیث کی کتابوں میں بکثرت نقل ہوئی ہے صاحب تفسیر الکشاف نے اس حدیث کے بارے میں جو تحریر کیا ہے اس کی عین عبارت یہ ہے”کہ یہ حدیث حضرت علی ،امام صادق،و سلیم بن قیس و انس بن مالک و ابوہریرہ و ابودرداء ،وجابر بن عبد اللہ انصاری و عبداللہ بن عمر اور عمر بن عاص کے واسطہ سے مختلف الفاظ و مقامات پر پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہے ۔تفسیر کشاف ج۲ ص۸۲ ،سورہ انعام کی ۱۵۹ کے آیت کے ذیل میں ۔
[7] المستدرک حاکم ،ج۱ ص۱۲۸،و سنن ترمذی ج۵ ص۲۶،سنن ابن ماجہ ج۲ ص۴۷۹
[8] سورہ نساء ،آیت ۵۹
[9] سورہ حشر ،آیت ۷
[10] سورہ نجم ،آیت ۳،۴
[11] حاکم نیشاپوری نے کتاب ”المستدرک علی الصحیحینج۳ ،ص۱۶۳ میں اس کا تذکرہ کیاہے۔
[12] حاکم نے مستدرک کی ج۳ ص۱۴۹ میں نقل کرتے ہوئے کہا ،یہ حدیث صحیح ہے ،اور کتاب صواعق محرقہ ابن حجر ص۹۱ و ۱۴۰ طبع میمنیہ اور ص۱۵۰ اور ۲۳۲ طبع الحمدیہ میں موجود ہے
[13] ترمذی نے مناقب کی ج۵ ص۶۶۳ حدیث ۳۷۸۸ میں نقل کیا ہے ،اور مسند احمد بن حنبل ج۳ ص۳۸۸ حدیث ۱۰۷۲۰
[14] اس حدیث کو ترمذی نے مناقب ج۵ ص۶۶۳ حدیث ۳۷۸۸ کے تحت نقل کیا ہے اور مسند احمد بن حنبل ج۳ ص۳۸۸ حدیث ۱۰۷۲۰
[15] اس حدیث کو ترمذی نے مناقب ج۵ ص۶۶۳ حدیث ۳۷۸۸ کے تحت نقل کیا ہے اور مسند احمد بن حنبل ج۳ ص۳۸۸ حدیث ۱۰۷۲۰
[16] سورہ نجم ،آیت ۳ و ۴
[17] کنز العمال ،ج۱۱ص۶۱۲،حدیث ۳۳۰۱۸
[18] کنز العمال ج۱۱،ص۶۲۱،حدیث ۳۲۹۶۴
[19] کنز العمال ،ج۱۱ص۶۱۴،حدیث ۳۲۹۷۲
[20] سورہ نساء ،آیت ۶۱۔
[21] سورہ اسراء آیت ۷۸
[22] صحیح بخاری ج۱ ص۱۱۳
[23] صحیح بخاری ج۱ص۱۱۳
[24] سنن ترمذی ج۱ ص۳۵۴،حدیث ۱۸۷ باب ،ما جاء فی الجمع
[25] سنن نسائی ،ج۱ ص۲۹۰باب الجمع بین الصلاتین
[26] سنن نسائی ج۱ ص۲۸۶ ،باب الوقت الذی یجمع فیہ المقیم
[27] مصہف عبد الرزاق ج۲ ص۵۵۲،حدیث ۴۴۳۸،
[28] مسند البزار ج۱ ،ص۲۸۳،حدیث ۴۲۱
[29] المعجم الکبیر الطبرانی ،ج۱۰ ص۲۶۹،حدیث ۱۰۵۲۵
[30] سنن ترمذی ،ج۱ ص۳۵۴،حدیث ۱۸۷باب ما جاء فی الجمع
[31] سورہ اسراء ،آیت ۷۸
[32] صحیح بخاری ج۱ ص۱۱۰،باب تاخیر الظہر الی العصر
[33] سورہ حشر ،آیت ۷
[34] تفسیر رازی ،الکبیر ،ج۲۱،۲۲۔ص۲۷
[35] سورہ مائده آیت 2.
[36] سورہ الغافر ،آیت ۲۷
[37] سورہ آل عمران ،آیت ۲۸
[38] سورہ نحل ،آیت ۱۰۶
[39] سورہ نحل ،آیت ۱۰۶
[40] شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ج۳ ص۱۵
[41] سورہ البروج ،آیت ۸
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید