مہدویت اور ظہور، مقام معظم رہبری کی نگاہ سے
مقام معظم رہبری کے حکمت آمیز و گہربار بیانات جہاں انسان ساز ہوتے ہیں وہیں قرآنی و اسلامی اور خاص طور پر شیعی نکتہ نظر سے انمول خزینے بھی ہوتے ہیں,جس سے مؤمنین کے چشم و دل تمانیت کا احساس اور نسل نو علمی موشگافیوں سے سیرحاصل گفتگو کا آغاز کرسکتے ہیں،جو کہ دل کے مضراب پر معنویت کے ترنم سے سرشار حقیقت جو اور مشتاق دلوں کی دھڑکن ہوتے ہیں۔
اس آزاد منش رہبر کےہوشمندانہ بیانات چشمۂ زلال ولایت کی آبرو اور امام زمان(عج) کی الفت و محبت سے معمور نظر آتے ہیں ،انکے دل آویز بیانات کی زمزمہ خوانی جہاں دلنشین ہے وہیں آگہی بخش بھی،جہاں وقت کی رفتار روکتے ہیں وہیں خرمن باطل کو نظر آتش بھی کرجاتے ہے، اور جب بات مہدویت کی ہو تو رنگ ِ تقریر دل کی کیفیتِ درونی و سوزِ نہانی کی ایسی آئینہ داری کرتے ہیں کہ سامع نئے افق کی تلاش میں نکل پڑے ،جیسا کہ انتظار فرج کے نوازش گر و درخشاں پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
۱. انتظار فرج:
انتظار انسان کی ایک پربرکت ترین حالت کا نام ہے،ایک روشن دنیا کا انتظار جو عدل کے نور سےجگمگاتا نظر آئے ’’یملا ٔ اللہ الارض قسطاً و عدلا ً‘‘،’’خداوند اس کے دست مبارک سے سرزمیں بشری اور تمام روی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔۔۔‘‘انتظار کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مستقبل سے مایوس نہ ہوں اور اعتماد و امید برقرار رکھیں۔۔۔کہ جو ہمیں سبق دیتا ہے کہ راہ صلاح و راہ خیر میں مبارزہ و جنگ لازمی ہے۔۔۔انتظار یعنی وضعِ موجود پر ہی قانع نہ ہوں۔۔کہ ہم صرف اسی کے منتظر رہیں کہ ظرفیت کائنات پُر ہوجائے۔
۲. مصداق وعدۂ الٰہی:
نیمۂ شعبان کے پُرشکوہ دن کو عالم بشریت کی عید،اور مصداق وعدۂ الٰہی سے توصیف فرماتے ہوئے فرماتے ہیں:
مہدیٔ موعود(عج) کا یوم ولادت حقیقتا ً سارے ہی پاکیزہ صفت اور آزادی خواہ افراد کے لئے عید کا دن ہے ۔۔۔ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ امام زمان (عج) کا وجود مصداق وعدۂ الٰہی ہے۔۔۔یہ سلالۂ خاندان وحی ورسالت زمین میں خداوند کا لہراتا پرچم ہے’’ السلام علیک ایھا العلم المنصوب والعلم المصبوب والغوث والرحمۃ الواسعۃ وعداً غیر مکذوب ۔۔۔‘‘
۳. رابطۂ عشق:
امام زمان (عج) کے شیعوں سے ارتباط کو ایک والہانہ ، عاشقانہ اور ماندگار ربط بتاتے ہوئے بہت ہی اہم نکات کی طرف متوجہ فرماتے ہیں:
شیعوں کا اپنے عقیدے کی بنا پرولایت و مہدئ موعود سے دائمی رابطہ ہے، آج انسانی ذہنیت اس بات کو پوری طرح قبول کرنے پر آمادہ ہے کہ کوئی عظیم ترین انسان ضرور آنے والا ہےجو بشریت کو ظلم کے چنگل سے نجات دیگا، یہ وہی چیز ہے کہ جس کے لئے اکثر پیغمبروں نے کوشش فرمائی،یہ وہی امید کی کرن ہے جسکا وعدہ پیغمبر(ص)نے لوگوں کو دیا ہے’’وَ یَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَ اَلْأَغْلاٰلَ اَلَّتِی کٰانَتْ عَلَیْهِمْ۔۔۔۔۔‘‘ دست قدرت الٰہی، ایک انسان عرشی ، ایک انسان خدائی جسکا رابطہ عالم غیبی سے ہو وہ بشریت کی اس آرزو کو ضرور تعبیر عطا فرمائے گا۔
۴. انتظار کرنے والوں کے فرائض:
جو لوگ اس یوسف زہرؑ کے منتظر ہیں انکا تذکرہ فرماتے ہوئے انکے وظائف و ذمہ داریاں بیان فرما تے ہوئے کہتے ہیں:
امام زمان (عج)کا انتظار کرنے والوں کا سب سے بڑا وظیفہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو معنوی ، اخلاقی و عملی طور پر سنوارتے ہوئے مومنین کے ساتھ دینی، اعتقادی اور محبت کے رابطے کو مزید مضبوط بنائیں اور اسی طرح ظالمین سے پنجہ آزمائی کے لئے خود کو آمادہ کریں ۔۔۔
ظہور مہدئ موعود( ارواحنا فداہ و عجل اللہ فرجہ) سے قبل اسلام کی حاکمیت کے لئے پاک افراد میدان مجاہدت میں آزمائے جائیں گے۔۔۔
۵. شعار مہدویت:
مقام معظم رہبری اپنے بصریرت افروز بیان میں مہدویت کو دعائے ندبہ کے پَرتَو میں بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر فرماتے ہیں:
مہدویت کے شعار میں سب سے برجستہ عبارت ’’عدالت‘‘ہے مثلا ً جب ہم دعائے ندبہ میں آپ کے صفات اور اسکے بعد آپ کے آباء و اجداد کی نسبتیں آپ کے متعلق جب پڑھ لیتے ہیں تو اس کے بعد جو سب سے پہلے جملے آتے ہیں وہ یہ ہیں’’أَیْنَ الْمُعَدُّ لِقَطْعِ دَابِرِ الظَّلَمَةِ أَیْنَ الْمُنْتَظَرُ لِإِقَامَةِ الْأَمْتِ وَ الْعِوَجِ أَیْنَ الْمُرْتَجَى لِإِزَالَةِ الْجَوْرِ وَ الْعُدْوَانِ۔۔۔۔۔‘‘
۶. دروسِ لازم:
امام زمان (عج) کے روز ولادت کے موقع پر مقام معظم رہبری جہاں اس مقدس جشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تاکید فرماتے ہیں وہیں اس عطیۂ الٰہی سے درسِ لازم لینے پر بھی زور دیتے ہیں:
اس تاریخ ساز واقعہ پر جہاں اظہار ارادت و جشن و مسرت لازمی ہے اس سے بڑھ کر ہمیں چاہیئے کہ اس عظیم واقعہ سے درس بھی حاصل کریں، ہر سال جو یہ جشن برپا ہوتے ہیں اور دلوں کو معطر کرتے ہیں اگر ان سے کچھ عمق نگاہی سے کام لیں اور تجدید نگاہی کریں تو یہ ہمارے عمل و رفتار کے لئے ایک سبق آموز معلم کا رخ اختیار کرلینگے اور یہ یقیناً ہمارے معاشرے کی پیشرفت اور کمال تک پہنچانے میں معاون ہونگے۔
پہلا درس:
پہلا سبق تو یہ ہے کہ سبھی جان لیں، یقین کرلیں کہ کائنات اچھائی کی طرف گامزن ، اور روشن آفاق کی طرف رواں دواں ہے۔۔۔۔مستکبرینِ عالم جوچاہیں کہیں، چاہے جتنی قدرت نمائی کریں؛ لیکن حق و حقیقت کا لشکر اور وہ کارواں جو بشریت کو عدل و انصاف کی منزل تک پہنچائے گا روز بروز اسمیں اضافہ ہی ہورہا ہے۔۔۔۔کچھ روز پہلے انہوں نے یہ بھی کوشش کی تھی کہ کلمۂ توحید کو دلوں سے بھلا دیا جائے ۔۔۔لیکن آج ساری کائنات میں یہ کلمہ حکومتوں کا قانونی شعار اور ہر ایک کا نعرہ بن کے ابھرا ہے۔
دوسرا درس:
دوسرا عملی سبق یہ ہے کہ ظلم کی جڑوں کو سطح جہاں سے نہ صرف یہ کہ اکھاڑ پھینکنا ممکن ہے بلکہ یقینی ہے،یہ مایوسی جو دنیا کے بہت سے دانشوروں کو دامنگیر ہےبے معنیٰ ہے۔۔۔لوگوں کے پاس طاقت ہےوہ چاہیں تو پرچم عدالت لہرا سکتے ہیں چاے وہ ایک محدود دائرۂ کار میں ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ہمارے امام بزرگوار (امام خمینی)نے اس مایوسی کو دلوں سے دھو ڈالااور لوگوں کو امید اور شجاعت کاتحفہ عطا کیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے،انقلاب بپا کیا ، اپنے آپ کو دشواریوں میں ڈالا، جنگ کی، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،جس کے نتیجہ میں لوگوں نے کائنات کے اس نقطہ میں ظالمانہ او رشیطانی قوتوں کو سرنگوں اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
تیسرا درس:
تیسرا سبق جو ہمیں عقیدۂ مہدویت اور جشن نیمۂ شعبان سے لینا چاہیئےیہ ہے کہ وہ عدالت جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں وہ پوری دنیا میں برقرار ہو’’ لِیَقُومَ اَلنّٰاسُ بِالْقِسْطِ۔۔۔۔‘‘
خداوند متعال نے تمام پیغمبروں کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ کائنات میں عدل و انصاف پھیلا دیں، اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ جب سے نظام اسلامی نے اپنی جگہ لی ہے یعنی جب سے اسلام اس ملت بزرگ کے توسط سے ایک ملک کی شکل اختیار کرچکا ہےدشمنان اسلام بھی حرکت میں آگئے ہیں اور اسلام کو سنجیدگی سے لینے لگے ہیں اور اکناف عالم میں موجود اسلام کے شیفتہ اور اسکے طرفدار وں کی بھی امید جاگ اٹھی ہے۔
چوتھا درس:
مہدویت کے اعتقاد اور جشن نیمۂ شعبان کا چوتھا سبق ہمارے اور آپ کے لئے یہ ہے کہ گرچہ یہ جشن ایک عظیم ترین اور والاترین نشانی ہے جس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن ہمیں صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئےبلکہ اس پر عمل پیرا ہوکر بھی دکھانا چاہیئے۔۔۔ یعنی انتظار اس لئے ہے کہ ہم اپنے آپ کو امام زمان (عج)کا سپاہی بن نے کے لئے آمادہ کریں۔
پانچواں درس:
مردم سالارئی دینی یعنی یہ کہ حضرت مہدئ موعود (اروحنا فداہ )کی آئندہ حکومت پوری طرح سے لوگوں کی،عوام الناس کی حکومت ہوگی،لوگوں کی حکومت یعنی کیا؟ یعنی وہ حکومت جسکے ایمان و ارادے کے بازو خود لوگ ہونگے، امام زمان (عج) صرف تنہا ہی دنیا کو عدل و انصاف سے پُر نہیں کردینگے، امام زمان (عج) لوگوں میں سے ہی مومن لوگوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ساری دنیا میں عدل الٰہی کو استقرار بخشیں گےایک صد در صد عوامی حکومت کی بنیاد ڈالیں گے۔
تلخیص بیانات
۱. ایک زمانہ ایسا آئیگاکہ قدرت قاہرۂ حق، تمام فساد و ظلم کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکے گا اور انسانی زندگی کی آنکھوں کو عدالت کے نور سے منور کردیگا، یہ ہے دوران امام زمان (عج)میں انتظارکامطلب۔
۲. انتظار، یعنی دل کا امید سے لبریز ہوناانسانی زندگی کے سفر کے خاتمہ کی نسبت ،ممکن ہے کوئی اس دور کو نہ دیکھ پائے اور وہاں تک نہ پہنچ پائے ۔چونکہ فاصلہ موجود ہے۔لیکن بلاشبہ وہ دور وجود رکھتا ہے اسلئے اس عید کی مبارکباد کہ جو عید امید و عید انتظار، آسانی و وسعت والی عید ہے۔بلکل اسکے نقطۂ مقابل ایک ایسی چیز ہے جسے دشمن چاہتا ہے کہ اسے لا کھڑا کرے۔26۔9۔1376
۳. امام زمانؑ مظہر عدالت ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امام زمانؑ کی سب سے بڑی خصوصیت ۔جیسا کہ دعاؤں ،زیارات و روایات میں آیا ہے۔عدالت ہی ہے’’یملا ٔ اللہ بہ الارض قسطاً و عدلاً‘‘ 25۔7۔1387
۴. مہدیٔ موعود کے زمانے سے پہلے آرام و آسائش ،امن و راحت نہیں ہے۔۔۔مہدیٔ موعود کے ظہور سے پہلے میدان مجاہدت میں پاک انسانوں کا امتحان ہوگا۔ 30۔11۔1370
۵. ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ امام زمانؑ کا مقدس وجود وعدۂ الٰہی کا مصداق ہے،ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ سلالۂ خاندان وحی و رسالت زمین پر خدا کا لہراتا پرچم ہے۔11۔12۔1369
۶. بشریت اپنی پیاسی آنکھوں کے ساتھ امام زمانؑ کی منتظر ہےاور چاہتی ہے کہ وہ آجائیں بشریت اسلئے انکی آمد پر آنکھ بچھائے ہے تاکہ وہ آئیں اور دنیا کو عدل سے بَھر دیں اور یہی وہ پیغام ہے جو انقلاب اسلامی دنیا کو دینا چاہتا ہےاور خود بھی اس بات کا عہد و پیمان کرتا ہے کہ یہ پیغام ساری دنیا تک پہنچے۔
۷. انتظار فرج، دستِ قاہرۂ قدرتمندالٰہی کا ملکوتی انتظار ہےکہ آجائیں اور انہیں انسانوں کی مدد سے ظلم کے تسلط کا خاتمہ فرمادیں اور حق کو غالب فرمادیں اور عدل کو لوگوں کی زندگی کا شعار بنا دیں اور پرچم توحید کو سربلند فرمادیں؛انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنادیں؛ اس کام کے لئے آمادگی کریں۔۔انتظار کے یہ معنیٰ ہیں، انتظار ایک انقلاب کا نام ہےانتظار بیٹھے رہنے کا نام نہیں ، انتظار ہر کام چھوڑ کے بیٹھے رہنے کا نام نہیں ہےکہ ایسا خود بہ خود ایک دن ہوہی جائیگا، بلکہ انتظار ایک انقلاب و حرکت ہے انتظار خود کو آمادہ کرنے کا نام ہے ۔27۔5۔1387
انتظار در نظر رہبر معظم:
رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا، حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو، انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہو جائے، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑ جانے کا نہیں ہے، امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کے لئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو پریشانی سے نجات دیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں جو کچھ آج ہو رہا ہے اور اس وقت پایا جاتا ہے، انسانی (ہاتھوں اور ذہن کا بنایا ہوا) یہ غیر منصفانہ نظام، یہ انسانی نظام کہ جس میں بے شمار انسان مظلومیت کا شکار ہیں، بے شمار دلوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، بے شمار انسانوں سے بندگی کے مواقع چھین لئے گئے ہیں، اس صورت حال کے خلاف احتجاج اور اعتراض ہے، جو امام زمانہ کے ظہور کا منتظر ہے۔ انتظار فرج کا مطلب ہے اس صورت حال کو مسترد کر دینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اور انسانی زندگی پر حکمران بشری اغراض و مقاصد کے زیر اثر دنیا پر مسلط کر دی گئی ہے، انتظار فوج کا مفہوم یہی ہے۔
رھبرانقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں آج آپ لوگ دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں، وہی چیز جو حضرت ولی عصر (ہماری جانیں جن پر فدا ہوجائیں) کے ظہور سے متعلق روایات میں ہیں، آج دنیا پر حکمراں ہیں، دنیا کا ظلم و جور سے بھر جانا، آج دنیا ظلم و ستم سے بھر گئی ہے، ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے متعلق روایتوں، دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا” ” ویسے ہی جیسے ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہو گی، جس زمانہ میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہو گا، اسی طرح خداوند عالم ان کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کر دے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا۔ وہ وقت یہی ہے، اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے، آج انسانی زندگي عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے (اور ظالموں کے قہر و غلبہ کا شکار ہے) ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے، آج عالم بشریت ظلم کے غلبہ کے سبب، انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے پناہ مشکلات میں گرفتار ہے۔ آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور دسیوں لاکھ انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے طاغوتی نظاموں میں زندگي گزار رہے ہیں، حتٰی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسر پیکار ملتیں منجملہ ایرانی قوم، جس نے ایک محدود ماحول میں، ایک معین و مشخص دائرے میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کر رکھا ہے، اس پر اور مجاہدین راہ خدا پر دباؤ پوری دنیا پر ظلم و جور کا جال بچھا ہونے کی کھلی نشانیاں ہیں۔ اس انتظار فرج کا مفہوم، مختلف ادوار میں انسانی زندگي کی موجودہ کیفیات بیان کرتی ہیں۔ آج ہم کو فرج یعنی گرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب ایک عدل گستر قوی و توانا دست قدرت کے منتظر ہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو توڑ دے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم و مقہور بنا رکھا ہے، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کر دے اور انسانوں کی زندگي ایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سے تازہ کر دے، تاکہ تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا احساس ہو، یہ ایک آگاہ و باخبر زندہ و بیدار انسان کی دائمی ضرورت ہے، ہر وہ انسان جو خود اپنے وجود میں سر ڈال کر نہ بیٹھا ہوا ہو، صرف اپنی زندگی میں مست نہ ہو، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو، قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی، انتظار کا یہی مطلب ہے۔ انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبول صورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا، چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال ولی خدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنے گی۔ لہذا خود کو ایک جانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالات میں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے۔ انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کوئی کام انجام نہ دے، کسی طرح کی اصلاح کا اقدام نہ کرے، صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظر ہیں۔ یہ تو انتظار نہ ہوا۔ انتظار کس کا ہے۔؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتی ہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کا خاتمہ کر دے، حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگي میں عدل و انصاف کو حکمراں کر دے، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنا دے، اس کام کی آمادگي ہونی چاہئے۔ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے، عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم ہے، انتظار کا مطلب یہ ہے۔ انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے، انتظار تیاری اور آمادگي کو کہتے ہیں، اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں، خود اپنے گرد و پیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے، یہ خداوند متعال کی دی ہوئي نعمت ہے کہ ہماری عزیز و باوقار قوم اور ملت ایران نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور حقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے، انتظار فرج کا یہی مطلب ہے، انتظار فرج یعنی کمر کس لینا، تیار ہو جانا، خود کو ہر رخ سے، وہ ہدف کہ جس کے لئے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے آمادہ و تیار کرنا، وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہو گا وہ عدل و انصاف قائم کرنے، انسانی زندگي کو الہی زندگي بنانے اور خدا کی بندگي رواج دینے سے عبارت ہے اور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی نے انتظار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایک اور مقام پر فرمایا کہ انتظار کے بھی کچھ لوازمات اور تقاضے ہیں جن میں سے ایک، انسان کا سماجی، باطنی اور روحانی طور پر اس کے لئے آمادہ ہونا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتظار کرنے والے شخص کو چاہئے کہ ہمیشہ اس دور کی ضروری خصوصیات اپنے اندر محفوظ رکھے جس کا وہ انتظار کر رہا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کی حکومت کا زمانہ در حقیقت توحید، عدل و انصاف، حق و صداقت، اخلاص و بے لوثی اور عبودیت خداوندی کا دور ہو گا، بنابریں انتظار کرنے والے افراد کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کریں اور موجودہ حالت پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہ رہیں۔ رھبر انقلاب اسلامی نے امام مہدی علیہ السلام کے عقیدے سے متعلق ایک اور اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات کا ذکر کر کے انہیں کسی دوسرے شخص پر منطبق کرنے کی کوششیں کی گئي ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمام باتیں غلط اور انحرافی ہیں کیونکہ ظہور کی علامتوں میں بعض غیر معتبر ہیں اور جو معتبر علامات ہیں ان کے لئے صحیح مصداق کی تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس طرح کی غلط بیانیوں سے مہدویت کی اصلی حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے۔ بنابریں عامیانہ قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔ مہدویت کے عقیدے کے سلسلے میں ایک ضروری کام ماہرین اور اہل علم کے ذریعے دقیق عالمانہ تحقیق و مطالعے میں سرعت لانا اور عامیانہ، جاہلانہ، غیر معتبر اور حقائق سے عاری تخیلات پر مبنی باتوں سے گریز کرنا ہے۔
سال 2015 تہران میں منعقدہ مھدویت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امام مھدی سے متعلق عقیدے کو دینی اعلی معارف میں سے قرار دیا اور امام زمانہ کے انتظار کے سلسلے میں ،عملی ،سماجی اور ثقافتی طور پر شعور اور بیداری کےساتھ انتظار کرنے پر زوردیا ۔ نیز عقیدہ مھدویت کو ہر قسم کے انحرافات سے بچاتے ہوئے آیندہ نسلوں تک پنچانے کی تاکید کی ۔
قائد انقلاب اسلامی نے مہدویت کے عقیدے کو دین کے اعلی معارف کا اہم ترین جز قرار دیا اور فرمایا کہ انبیائے کرام کی مہم اور رسولوں کی بعثت کا مقصد، انصاف کی بنیاد پر اور توحیدی طرز فکر کے تناظر میں کائنات کے لئے منصوبہ بندی کرنا اور انسان کے اندر موجود تمام صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام زمانہ علیہ السلام کے دور میں توحید، روحانیت، دین اور عدل و انصاف کا ذاتی و سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں پر احاطہ ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ نہ ہو تو انبیائے کرام کی تمام محنتیں رائگاں ہو جائیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے آسمانی ادیان میں مہدویت کے موضوع پر خاص توجہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام ادیان الہی میں امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدہ کلی طور پر بیان کیا گيا ہے لیکن اسلام میں یہ عقیدہ مسلمہ عقائد میں سے ہے جبکہ اسلامی مکاتب فکر میں شیعہ مکتب فکر ایسا ہے جو مہدویت کے موضوع کو واضح مصداق اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مکمل ذاتی اور خاندانی خصوصیات کے ساتھ پیش کرتا ہے جو معتبر شیعہ و غیر شیعہ روایات سے ماخوذ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتظار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ انتظار کے بھی کچھ لوازمات اور تقاضے ہیں جن میں سے ایک، انسان کا سماجی، باطنی اور روحانی طور پر اس کے لئے آمادہ ہونا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتظار کرنے والے شخص کو چاہئے کہ ہمیشہ اس دور کی ضروری خصوصیات اپنے اندر محفوظ رکھے جس کا وہ انتظار کر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کی حکومت کا زمانہ در حقیقت توحید، عدل و انصاف، حق و صداقت، اخلاص و بے لوثی اور عبودیت خداوندی کا دور ہوگا بنابریں انتظار کرنے والے افراد کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کریں اور موجودہ حالت پر مطمئن ہوکر بیٹھے نہ رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام مہدی علیہ السلام کے عقیدے سے متعلق ایک اور اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات کا ذکر کرکے انہیں کسی دوسرے شخص پر منطبق کرنے کی کوششیں کی گئي ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمام باتیں غلط اور انحرافی ہیں کیونکہ ظہور کی علامتوں میں بعض غیر معتبر ہیں اور جو معتبر علامات ہیں ان کے لئے صحیح مصداق کی تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس طرح کی غلط بیانیوں سے مہدویت کی اصلی حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے بنابریں عامیانہ قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مہدویت اور انتظار کے باب میں عالمانہ اور معتبر تحقیق کرنا ایسے علمائے کرام اور ماہرین فن کا کام ہے جو “علم حدیث” اور “علم رجال” سے پوری طرح واقف ہوں اور فلسفیانہ نظریات پر بھی مکمل عبور رکھتے ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کو دعاؤں کی قبولیت کے لئے وسیلہ بنانے اور آپ سے عقیدت کے سلسلے میں فرمایا کہ مہدویت کے عقیدے سے صحیح اور علمی آشنائی حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے تئیں عقیدت میں اضافے اور بلند اہداف کی جانب مشتاقانہ پیش قدمی کا باعث بنے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرت سے توسل اور آپ کے تقرب کے سلسلے میں صحیح اور پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ آپ کو غائبانہ طور پر دعاؤں کی قبولیت کے لئے وسیلہ قرار دیا جائے اور قریب سے آپ کی زیارت کے دعوے غالبا بے بنیاد یا تخیلاتی باتیں ہیں۔
دیدگاهتان را بنویسید