نبی رحمت کی طرز زندگی 1 /محمدجان حیدری
نبی رحمت کی طرز زندگی 1
بمناسبت ماہ ولادت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مقدمہ
پیغمبرؐ نے بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان بسر کئے تھے۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے ابلاغرسالت کا آغاز کیا تو مشرکین کبھی بھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کردیتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں
منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: “ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے”رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: “اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟”، سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اور اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔
خاندانی پس منظر
نیک اور مثبت و روشن پس منظر کے علاوہ، آپ کا خاندان بھی بہت اہم اور قابل احترام تھا اور آپ عربوں کے لئے بھی “اپنے” تھے اور ان خصوصیات نے بھی آپؐ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ قبیلۂ “قریش” برس ہا برس پہلے سے عربوں کے درمیان جانا پہچانا اور اہم قبیلہ تھا۔ یہ قبائلی اہمیت بھی سبب بنی کہ بہت سے قبائل نے اس قبیلے کی برتری کو تسلیم کیا اور کسی حد تک بعض امور میں اس قبیلے کی پیروی بھی کی۔
ادھر رسول اللہؐ کے اجداد (قُصَی بن کلاب، ہاشم اورعبدالمطّلب) وہ لوگ تھے جو عربوں کے درمیان بزرگی، شان و منزلت اور شرافت و عظمت کے حوالے سے پہچانے گئے تھے۔ اس خاص زمانے میں جزیرةالعرب کا معاشرہ ایک محدود معاشرہ تھا اور دوسرے علاقوں کے ساتھ اس کا کوئی خاص تہذيبی رابطہ نہیں تھا۔ اس صورت حال نے فطری طور پر ان کے درمیان “عربیت” (عربی تعصب) کا کافی طاقتور احساس پیدا کردیا تھا۔ اور اسی احساس کی وجہ سے وہ دوسروں کی باتیں قبول نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں وہ “دوسرے (دیگر)” تھے اور صرف وہ بات قبول کرتے تھے جو “اپنی” ہوتی تھی۔ قرآن مجید میں رب متعال کا ارشاد ہے:
وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ ٭ فَقَرَأَهُ عَلَيْهِم مَّا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ۔اور اگر ہم اسے اتارتے غیر عرب کسی شخص پر اور وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا تو یہ اس پر ایمان نہ لاتے۔ جو شاید اسی عربی عصبیت کی طرف اشارہ ہو۔
پیغمبر کا “اپنا” ہونا آپ کے پیغام کی پذیرائی کے امکان میں اضافہ کردیتا تھا۔ قرآن نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اخلاق پیمبر
رسول اللہؐ کی اعلی ترین اور نمایاں ترین خصوصیت آپ کی اخلاقی خصوصیت تھی۔ خداوند متعال اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍاور بلاشبہ آپ عظیم اخلاق کے درجے پر فائز ہیں۔
رسول اللہؐ کے طرز سلوک اور صفات کے بیان میں منقول ہے کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت سے زیادہ نہيں بولتے تھے۔ کبھی بھی پورا منہ نہيں کھولتے تھے، زیادہ تر تبسم فرماتے تھے اور کبھی بھی اونچی آواز میں (قہقہہ لگا کر) نہيں ہنستے تھے، جب کسی کی طرف رخ کرنا چاہتے تو اپنے پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف پلٹتے تھے۔ صفائی، نظافت اور خوشبو کو بہت زيادہ پسند کرتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ کہیں سے گذرتے تو فضا میں خوشبو پھیل جاتی تھی۔ اور راہگیر خوشبو محسوس کرکے سمجھتے تھے کہ آپ یہاں سے گذرے ہیں۔ انتہائیسادہ زندگی گذارتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور زمین پر ہی بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے، کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے اور بہت سے مواقع پر خاص طور پر جب آپ ابتدا میں مدینہ تشریف فرما ہوئے تھے اکثر بھوکے رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کے باوجود راہبوں کی طرح زندگی نہيں گذارتے تھے اور خود بھی فرماتے تھے کہ “میں نے اپنی حد تک دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور روزہ بھی رکھا ہے اور عبادت بھی کی ہے”۔ مسلمانوں حتا کہ دیگر ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ بھی آپ کا طرز سلوک شفقت، کرامت و درگذر اور مہربانی پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کی سیرت اور روشِ حیات مسلمانوں کو اس قدر پسند تھی کہ وہ آپ کی حیات کریمہ کے نہایت چھوٹے چھوٹے واقعات کو سینہ بہ سینہ منتقل کیا کرتے تھے اور آج تک مسلمان ان نکات کو اپنے دین اور زندگی کے لئے مشعل راہ کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔
حضرت امام علی علیہ السلام حضرت رسول اکرم للہؐ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “جو بھی پیشگی آشنائی کے بغیر آپ کو دیکھتا، وہ ہیبت زدہ ہوجاتا تھا اور جو بھی آپ کے ساتھ معاشرت کرتا اور آپ کو پہچان لیتا اور وہ آپ کا حبدار بن جاتا تھا”۔
“رسول اللہؐ اپنی نگاہ اور توجہ کو اپنے اصحاب کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے اور سب پر یکسان انداز سے نظر ڈال دیا کرتے تھے” “رسول اللہؐ نے جب کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے اس وقت تک اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے جب تک کہ دوسرا شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتا ۔
رسول اللہؐ ہر شخص کے ساتھ اس کے ظرف اور عقل کے مطابق گفتگو فرمایا کرتے تھے۔آنحضرتؐ کی عفو و بخشش ـ ہر اس شخص کے لئے جس نے آپ پر ظلم و ستم روا رکھا ہوتا تھا ـ بھی آپ کی وجۂ شہرت تھی، حتی کہ آپ نے اپنے چچا حمزہ کے قاتل “وحشی” اور اسلام کے دیرینہ دشمن ابو سفیان تک کو بخش دیا۔ آپ مختلف افراد کے ساتھ اس قدر مخلصانہ انداز سے پیش آتے تھے کہ ہر شخص گمان کرلیتا تھا کہ پیغمبرؐ اس کو بے انتہا پسند فرماتے ہیں اور اس کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔
پیمبر اکرم کی زاہدانہ زندگی
رسول خداؐ:
“سب سے برا گناہ یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی عزت کو پامال کیا جائے۔۔
پیغمبر اکرمؐ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری حیات میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ اپنی پوری عمر کے دوران سونے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔
منزل اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھا، آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔
ایک روز فاطمہ(س) جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لے آئیں اور عرض کیا: بابا جان یا رسول اللہؐ! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول اللہؐ نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: “جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!”۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: “آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے”۔ کبھی تو آپ حتی نہایت بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔
وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے ہاتھ گروی تھی۔
نظم و انضباط اور آراستگی
رسول اللہؐ زندگی کے امور میں بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کے لئے ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون وغیرہ۔
شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی لگایا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کردیتے تھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے
آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دان، کنگھی، مسواک اور قینچی۔
اُمّی ہونا
پیغمبر اکرمؐ قرآن کے مطابق امی تھے اور یہ وہ اصطلاح ہے جو عام طور پر ان لوگوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ہیں۔ رسول اللہؐ پڑھتے تھے اور نہ ہی لکھتے تھے۔ خداوند متعال قرآن مجید میں آپ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اور آپ اس سے پہلے کوئی نوشتہ نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے اس صورت میں باطل پرستوں کو شک کا موقع ہوتا۔آپ کی فضیلت میں۔ مزید تفصیلات کے لئے شھید مطہری رہ کی کتاب پیمبر امی کامطالعہ فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
منابع وماخذ:
سیرت حلبی۔
سنن النبی۔
الصحیح من سیرہ النبی۔
نبی امی۔
صحیح بخاری۔
دیدگاهتان را بنویسید