نماز میں تقرب الہی
نماز میں تقرب الہی
ترجمہ و ترتیب: ضامن علی چندوی
رہبر معظم نے نماز کی خاطر چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی
ہم عتبات عالیات کی زیارت کی غرض سے عراق چلے گئے تھے، حتی الامکان کوشش کرنے کے باوجود بھی ٹرین صبح کی نماز کے لئے نہیں رک رہی تھی، اس طرح سے اہتمام کیا گیا تھا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ ٹرین کو روکا جا سکے اور آخر میں مجبوراً مجھے نماز کےلئے ٹرین سے چھلانگ لگانا پڑی۔
خامنہ ای ڈاٹ آئی آر کے معلوماتی ادارے نے رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نماز کے بارے میں عملی سفارشات شائع کیں ہے، جو کہ علم دوست ساتھیوں کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔
نماز کو کبھی ترک نہیں کرنا چاہئے
سختی اور محنت کے دوران، میدان جہاد میں، فرصت اور راحت کے دوران اور یہاں تک کہ معاشرتی اور اجتماعی آلودگیوں جیسے خواہشات نفسانی، کینہ، حسد، شہوت اور خود غرضی کے باوجود بھی نماز کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔
نماز ایک طاقت آور اور شفا بخش شربت کی مانند ہے، اسے اپنی مرضی کے مطابق پینا چاہیے اور جہاں بھی ہم ہیں ہمیں ایک قدم یا ایک میدان جنتِ رضوان سے قریب ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ نہ ہی حی علی الجہاد، نہ ہی حی علی الصوم اور نہ ہی حی علی الانفاق کہا ہے، لیکن ہر روز کئی بار حی علی الصلوۃ کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے۔
انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کے دوران، نماز ہمیں مزید پر عزم اور مضبوط تر بناتی تھی اور آج غفلت و مایوسی، حقیر خواہشات اور روزمرہ کی بے بنیاد عادات ہمیں نماز سے روک رہی ہیں۔ نماز ہمارے ارادوں کو مضبوط بنا دیتی ہے، بے راہ روی سے بچاتی ہے اور ہمارے مستقبل کو واضح کر دیتی ہے۔
آج ہمارے ملک میں اول وقت میں نماز ادا کرنے کا رجحان انقلاب سے پہلے سے کئی گنا بہتر بڑھ چکا ہے۔ انقلاب سے پہلے آپ میں سے اکثر کو یاد بھی نہیں ہو گا، ایران اور بعض دیگر علاقوں میں نماز کی حالت بہت ہی ابتر تھی۔
ہم عتبات عالیات کی زیارت کی غرض سے عراق چلے گئے تھے، حتی الامکان کوشش کرنے کے باوجود بھی ٹرین صبح کی نماز کے لئے نہیں رک رہی تھی، اس طرح سے اہتمام کیا ہوا تھا کہ یعنی ایسا بالکل بھی نہیں ہوسکتا تھا اور آخر میں مجھے نماز کےلئے ٹرین سے چھلانگ لگانا پڑی تاکہ میں اپنی نماز کو وقت پر ادا کر سکوں، کیونکہ ٹرین کے اندر بہت ہی گندگی پھیلی ہوئی تھی اس حالت میں نماز ادا کرنا بہت ہی مشکل تھا، باہر حال ان چیزوں کی رعایت نہیں ہوتی تھی۔ آج کل بہت بہتری آئی ہے، لیکن ہمیں نماز جیسی عبادت کی جانب مزید دھیان دینے کی ضرورت ہے، تاکہ نماز کی اہمیت کو معاشرے میں اجاگر کیا جا سکے۔
امام صادق علیہ السلام نے حالت احتضار میں اپنے ولی( جانشین) سے فرمایا:
لَیْسَ مِنِّی مَن اسْتَخَفَّ بِالصَّلوة
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو نماز کو ہلکا اور سبک جانتا ہو۔
استخفاف یعنی : کسی چیز کو ہلکا سمجھنا اور اہمیت نہیں دینا۔
نماز اپنی تمام تر خصوصیات اور خوبیوں کے باوجود انسان سے کتنا وقت لیتی ہے؟
ہماری فرض نمازیں جو کہ سترہ رکعات ہیں، اگر کوئی شخص اسے غور و فکر سے ادا کرنا چاہیے تو شاید کہ اس میں چونتیس منٹ لگیں، بصورت دیگر اسے بھی کم وقت لگے گا۔
بعض اوقات ہم اپنے پسندیدہ پروگرام کا انتظار کرتے ہوئے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے پہلے ہم مسلسل پندرہ بیس منٹ تک صرف اشتہارات سنتے اور دیکھتے ہیں، جس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اس طرح سے ہم اس پسندیدہ پروگرام کی خاطر بیس منٹ ضائع کرتے ہیں جو کہ بعد میں آنے والا ہے۔
ہماری زندگیوں کے بیس منٹ اس طرح سے ضائع جاتے ہیں
ہم ٹیکسی کا انتظار کرتے ہیں، بس کا انتظار کرتے ہیں، اپنے دوستوں کا کہیں سے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں جو کلاس کےلئے دیر سے آتے ہیں۔ ہم مجالس و محافل میں خطیب کا دیر تک انتظار کرتے ہیں؛ یہ سب ( دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ ) ضائع ہوجاتا ہے۔
کس قدر اچھی بات ہو گی کہ یہ پچیس منٹ اور یہ تیس منٹ نماز پڑھنے میں لگائیں جو کہ ایک بہت بڑا اور سود مند عمل ہے ۔
معاشرے کے نوجوان طبقے کو دوسروں کی نسبت نماز کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نماز سے نوجوانوں کے دلوں کو روشنی مل سکتی ہے، امید مل سکتی ہے اور ان کی روح کو سکون ملے گا۔
یہ حالات زیادہ تر نوجوانوں کے لئے ہوتے ہیں، زیادہ تر نوجوانی اور جوانی کے عالم میں یہ مواقع میسر آتے ہیں، تاکہ روحانی لذت سے بھرہ مند ہوں اور اگر خدا ہمیں توجہ سے نماز ادا کرنے کی توفیق دے تو پھر نماز پڑھنے میں کوئی سستی نہیں آئے گی بلکہ لذت اور لطف کا احساس ہونے لگے گا۔
جب کوئی شخص نماز دھیان اور توجہ سے ادا کر دیتا ہے تو اسے اتنا لطف آتا ہے کہ جو کسی دوسری چیز یا نفسانی خواہشات سے نہیں آسکتا۔
یہ سب نماز کو خضوع و خشوع سے ادا کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
دیدگاهتان را بنویسید