نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل/ اثر: محمد سجاد شاکری
درس نمبر 13: ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۱۳
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: إِذَا وَصَلَتْ إِلَيْكُمْ أَطْرَافُ النِّعَمِ فَلَا تُنَفِّرُوا أَقْصَاهَا بِقِلَّةِ الشُّكْرِ.
حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’جب نعمتوں کا سلسلہ تم تک پہونچنے لگے تو ناشکری کے ذریعے اسے دور مت کرو‘‘
حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ إِذَا وَصَلَت: جب پہنچ جائے۔
۲۔ أَطْرَافُ: اطراف، کنارے۔ شارحین نے یہاں اطراف کے معنی نعمت کا آغاز یا تھوڑی نعمت کے کئے ہیں۔
۳۔ النِّعَمِ: نعمتیں۔
۴۔ فَلَا تُنَفِّرُوا: مت بھگاؤ، دور مت کرو۔
۵۔ أَقْصَاهَا: اس کی انتہا۔
۶۔ بِقِلَّةِ الشُّكْرِ: قلت شکر کے ذریعے۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’جب نعمتوں کا سلسلہ تم تک پہونچنے لگے تو ناشکری کے ذریعے اسے دور مت کرو‘‘
حصہ سوم: شرح کلام
امیر المومنین علیہ السلام اپنے اس کلام میں نعمت الہی کے استعمال کا طریقہ بیان فرما رہے ہیں۔ کہ اگر زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہو تو انسان کو کیسے ان نعمتوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ اور کسی نعمت کا درست استعمال ہی شکر نعمت اور غلط استعمال کفران نعمت کہلاتا ہے۔
انسان کی زندگی میں جو بھی نعمت اس تک پہونچتی ہے چاہے وہ اس نعمت کا مستحق ہو یا خدا نے اپنے لطف سے بغیر استحقاق کے اسے عطا کی ہو، ہر نعمت الہی کے مقابلے میں انسان کا رد عمل دو قسم کا ہوتا ہے، شکران نعمت اور کفران نعمت۔ اور دونوں رد عمل میں سے ایک کے مقابلے میں خدا کا بھی جداگانہ قانون اور سنت ہے۔
اگر انسان خدا کی نعمت کا جواب شکر کے ذریعے دے تو پھر خدا بھی نعمت کے شکرانہ کا جواب ’’ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لاَزیدَنَّکُمْ‘‘ (اگر شکر کیا تو زیادہ دوں گا) کی صورت میں دیتا ہے۔ اور نعمتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری کرتا ہے۔
اور اگر خدا کی نعمتوں کا جواب نا شکری کے ذریعے دے تو پھر خدا بھی کفران نعمت کا جواب ’’ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذابی لَشَدیدٌ‘‘ (اور اگر ناشکری کرو گے تو بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے۔) کی شکل میں دیتا ہے۔ تو نہ فقط وہ نعمت اس سے چھین لیتا ہے بلکہ اسے سخت عذاب میں گرفتار کر لیتا ہے۔
خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو تو کوئی شمار بھی نہیں کر سکتا جیسا کہ اس بارے میں ہم حکمت نمبر ۱۱ میں بھی کچھ مطالب عرض کر چکے ہیں۔ جب خدا کی طرف سے اس قدر پے پناہ نعمتوں کا سلسلہ جاری ہے تو پھر انسان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خدا کی ان عظیم نعمتوں کے شکرانے کے طور پر انہیں اسی ہدف میں استعمال کرے جس کے لئے خدا نے اسے ان نعمتوں سے نوازا ہے۔ خدا نے انسان سے اپنی دی ہوئی نعمتوں کا کوئی بدلہ نہیں چاہا لیکن شکرانہ کا ضرور مطالبہ کیا ہے۔ لہذا فرماتا ہے: ’’کُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوا‘‘ (اپنے پروردگار کی روزی سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔)
اگر انسان نعمتوں کا تسلسل برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ان نعمتوں کا شکر ادا کرے اور اسے اسی راہ میں استعمال کرے جس راہ میں خدا نے اسے استعمال کا حکم دیا ہے۔ ورنہ پھر ان نعمتوں کا سلسلہ رک جائے گا کیونکہ خداوند عالم اگر کسی کو کوئی نعمت دیتا ہے تو بھی قانون اور سنت الہی کے مطابق اور اگر کسی سے کوئی نعمت چھینتا بھی ہے تو بھی کسی نا کسی سنت اور قانون کے مطابق چھینتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا سطروں میں ہم نے کچھ قوانین و سنن الہی کی طرف قرآنی آیات کی روشنی میں اشارہ کیا۔
امیر المومنین کے اس کلام میں بھی انہیں قوانین کی طرف اشارہ ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر نعمتوں کا تسلسل چاہتے ہو تو شکر ادا کرو تاکہ نعمتوں کا سلسلہ جاری رہے۔ چاہے یہ نعمت کچھ بھی ہو، کسی بھی قسم کی ہو۔
بطور مثال نہج البلاغۃ کے بعض شارحین نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور موجودہ صورتحال کے ذریعے اس کلام کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہیں۔ کہ خداوند عالم نے پیغمبر کی حیات مبارکہ میں ہی مسلمانوں کو ایک عظیم عالمگیر حکومت اور سلطنت سے نوازا جسے بعض اسلامی روایات میں دولت کریمہ (با عظمت حکومت) سے بھی تعبیر کیا ہے لیکن مسلمانوں نے جہاد و اخلاص کے ذریعے اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کی بجائے اختلافات اور نفسانی خواہشات کی پیروی کے ذریعے ناشکری کا راستہ اختیار کیا۔ ( فی ضلال نہج البلاغہ، ج 4 ص 224 و 225)
مسلمانوں کو خداوند عالم نے رہبری، عزت اور دولت جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا اور ایران و روم کی سرزمینوں کو فتح کرنے کے بعد مدینہ کی طرف جنگی غنیمتوں کا سیلاب جاری ہوا۔ مشرق و مغرب کے درہم و دینار کے سکوں اور مال ودولت کی فراوانیوں کی وجہ سے مسلمانوں نے طغیان و سرگشی کا راستہ اختیار کیا جو کہ کفران نعمت تھا۔ اور یہیں سے ہی مسلمانوں کا زوال کا دور شروع ہوا اور مسلمان کفران نعمت کی سزا اختلاف، ذلت، رسوائی اور نفرت کی شکل میں بگھتنے پر مجبور ہوگئے۔( منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ(الخوئی) ج 21 ص28و29)
قرآنی آیات، پیغمبر کی احادیث اور ائمہ معصومین کے فرامین کی ایک بڑی تعداد احادیث کی کتابوں میں شکران نعمت اور کفران نعمت کے بارے میں موجود ہیں۔ بطور مثال امام صادق کی ایک حدیث ذکر کرتے ہیں جس میں آپ فرماتے ہیں:
’’إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْعَمَ عَلَى قَوْم بِالْمَوَاهِبِ فَلَمْ یَشْکُرُوا فَصَارَتْ عَلَیْهِمْ وَبَالاً وَابْتَلَى قَوْماً بِالْمَصَائِبِ فَصَبَرُوا فَصَارَتْ عَلَیْهِمْ نِعْمَةً‘‘
’’خداوند عالم نے ایک قوم کو نعمتوں سے نوازا لیکن اس قوم نے شکرانہ ادا نہیں کیا پس وہ نعمتیں ان کے لئے وبال بن گئیں۔ اور ایک قوم کو خداوند عالم نے مشکلات میں گرفتار کیا اور اس قوم نے صبر کیا پس وہ مصیبتیں نعمت میں بدل گئیں۔‘‘
دیدگاهتان را بنویسید