تازہ ترین

نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل(درس نمبر 20) / اثر: محمد سجاد شاکری

ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۲۰
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: أَقِیلُوا ذَوِی الْمُرُوءَاتِ عَثَرَاتِهِمْ، فَمَا یَعْثُرُ مِنْهُمْ عَاثِرٌ إِلاَّ وَیَدُ اللَّهِ بِیَدِهِ یَرْفَعُهُ
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’با مروت لوگوں کی لغزشوں سے درگزر کرو، کیونکہ ان میں سے کوئی لغزش نہیں کھاتا مگر یہ کہ خدا اسے ہاتھ دے کر اٹھا لیتا ہے۔‘‘

شئیر
52 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5108

حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ أَقِیلُوا: چشم پوشی کرو، در گزر کرو۔
۲۔ ذَوِی الْمُرُوءَاتِ: با مروت لوگ۔
۳۔ عَثَرَاتِ: لغزشیں۔
۴۔ یَعْثُرُ: لغزش کھاتا ہے۔
۵۔ عَاثِرٌ: لغزش کھانے والا۔
۶۔ یَدُ اللَّهِ: خدا کا ہاتھ یعنی خدا کی قدرت۔
۷۔ یَرْفَعُ: اٹھاتا ہے۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’با مروت لوگوں کی لغزشوں سے درگزر کرو، کیونکہ ان میں سے کوئی لغزش نہیں کھاتا مگر یہ کہ خدا اسے ہاتھ دے کر اٹھا لیتا ہے۔‘‘
حصہ سوم: شرح کلام
جب مروّت کی بات آتی ہے تو عموما اس کی ایک ناقص تعریف لوگوں کے ذہن میں آتی ہے۔ وہ ہے ایسے کام سے اجتناب کرنا جو لوگوں کی نظر میں ناپسند ہو۔ جبکہ معلوم ہے کہ عوام الناس کی پسند نا پسند بہت ہی مختلف ہوتا ہے۔ کیونکہ معاشرے کے حساب سے پسند نا پسند مختلف ہوتا ہے اور ممکن ہے بعض اوقات ایک اچھا کام معاشرے کی نگاہ میں ناپسند ہو یا اس کا برعکس ایک ناپسند کام معاشرے کی نگاہ میں پسندیدہ ہو۔ لہذا با مروّت وہ نہیں ہے جو عوام پسندانہ کردار کا حامل ہو یا بے مروت وہ نہیں ہے جو عوام کی نگاہ میں ناپسند عمل کا مرتکب ہوتا ہو۔ بلکہ اس کے معیارات کچھ اور ہیں۔ جسے ائمہ طاہرین کے دیگر فرامین میں غور و خوض کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے۔
مروّت کی حقیقت:
مروت کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ائمہ طاہرین علیہم السلام ہی کے فرامین میں غور و خوض کیا جائے۔ لہذا خود امیر المومنین علی علیہ السلام کے دیگر فرامین کی طرف نظر کرتے ہیں تو آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ثَلاثَةٌ هُنَّ الْمُرُؤَةُ: جـُودٌ مـَعَ قِـلـَّةٍ، وَ احْتِمالٌ مِنْ غَيْرِ مَذَلـَّةٍ، وَتَعَفـُّفٌ عَنِ الْـمَسْأَلَةِ ‘‘ ، ’’تین چیزیں عین مروّت ہیں: تنگدستی کے وقت عطا و بخشش، ذلت قبول کئے بغیر صبر و تحمل اختیار کرنا اور ہاتھ پھیلانے سے اجتناب کرتے ہوئے عفت اختیار کرنا۔‘‘ یعنی جس شخص میں مروّت ہوگی وہ نہ تنگدستی کا بہانہ کرتے ہوئے بذل و بخشش سے اجتناب کرے گا، نہ بے صبری دکھا کر اپنی ذلت کا سامان فراہم کرے گا اور نہ ہی وہ ہر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنی حیا کا جنازہ نکالے گا۔
اسی مطلب سے ملتی جلتی حدیث امام باقر علیہ السلام سے بھی روایت ہوئی ہے۔ جس میں آپ اپنی خدمت میں حاضر لوگوں سے سوال کرتے ہیں: مروّت کیا ہے؟ تو لوگ آپ کے سوال کا مختلف جواب دیتے ہیں۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں: ’’ أَلْمُرُوَّةُ أَنْ لاتَطْمَعَ فَتَذِلَّ، وَ تَسْأَلَ فَتَقِلَّ، وَلاتَبخَـلَ فَتُشْتَمْ، وَ لاتَجْهَلَ فَتُخْـصَم۔‘‘، ’’مروّت یہ ہے کہ طمع نہ کرو تاکہ ذلیل و خوار نہ ہوجاؤ، کسی کے سامنے دستِ سوال مت پھیلاؤ تاکہ پست نہ ہوجاؤ، کنجوسی نہ کرو تاکہ تجھے گالیاں نہ پڑے اور جہالت و نادانی اختیار نہ کرو تاکہ تم سے دشمنی نہ کی جائے‘‘
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ مروّت کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’مروّت یہ ہے کہ خدا تجھے وہاں نہ دیکھے جہاں منع کیا ہے اور وہاں پائے جہاں تجھے حکم دیا ہے۔‘‘ یعنی خدا نے جن چیزوں سے منع کیا اسے ترک کرے اور جس چیز کا حکم دیا ہے اسے انجام دے۔ یہی اصل مروّت ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مروّت انسان کو بلند صفات پر ابھارتی ہے‘‘ اور دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں: ’’مروّت انسان کو ہر پست صفت سے باز رکھتی ہے‘‘ یعنی با مروت انسان عالی صفات کا مالک اور پست صفات سے پاک ہوتا ہے۔
پیغامات
مولا کے اس کلام میں کچھ خاص پیغامات ہیں جسے درک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں ان سے سبق حاصل کر سکیں۔
۱۔ ایک پیغام جو مولا کے اس کلام سے ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ با مروّت انسان سے بھی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ معصوم ہستیوں کے علاوہ ہر انسان کی لغزش کا امکان پایا جاتا ہے اگرچہ وہ عدالت کے درجہ سے بلند مروّت کے درجے پر فائز ہو۔
پس اگر کسی دوسرے با مروّت انسان کو جانتے ہو تو یہ نہ سمجھ لینا کہ اس کے قدم ڈگمگانے کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ انسان ہر لمحہ گمراہ ہو سکتا ہے۔
اور اگر خود مروّت کے درجے پر فائز ہو تو اس قدر خود پسندی کا شکار مت ہوجانا کہ اپنے آپ کو انحراف اور لغزش سے محفوظ سمجھ لو۔ بلکہ ہر لمحہ شیطان کی کمینگاہ سے حملے کے خطرے کا احساس کرتے رہنا۔ تاکہ لغزش سے بچے رہو اور اگر لغزش کا شکار ہو بھی جاؤ تو فورا استغفار اور توبے کے ذریعے بارگاہ الہی میں دوربارہ پلٹ کر آؤ۔
۲۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ اگر کسی صاحب مروّت انسان کو لغزش کا شکار ہوتے ہوئے دیکھو تو فوراً ہی اس کے خلاف محاذ مت کھولو اور اس کی آبروریزی شروع مت کرو۔ بلکہ سعی کرو کہ اس کے اس لغزش کو کسی اچھی چیز پر حمل کرو اور حسن ظن رکھو۔ کیونکہ یہ کوئی فاجر انسان نہیں ہے جو غلطی سے بھی کبھی کوئی اچھا عمل انجام نہیں دیتا۔ بلکہ اس نے اپنی زندگی کی پہچان اچھائیوں کے ذریعے سے کرایا ہے، تو اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو اس کی غلطی کو نظر انداز کرو۔ جس طرح تم خود خدا سے اور دوسرے انسانوں سے توقع رکھتے ہو کہ تمہاری ڈھیر ساری غلطیوں کو نظر انداز کریں۔ اسی طرح بامروت انسان کی غلطیوں کو بھی درگزر کرو۔ پس درگزر کرو تاکہ درگزر کئے جاؤ۔
۳۔ مولا کے کلام کا تسیرا پیغام یہ ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی میں مروّت پیشہ کرے اور زندگی کو ان اصولوں کے مطابق گزارے جو مروت کی تشریح میں ہم پچھلے سطور میں عرض کر چکے۔ تو پھر خداوند عالم بھی اسے کبھی تنہا اور بے سہارا نہیں چھوڑتا۔ حتی کہ اگر وہ کسی لغزش اور غلطی کا شکار بھی ہوجائے تو بھی خداوند اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اسے دوبارہ سے کھڑا کر دیتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی بامروّت زندگی کو دوبارہ سے جاری رکھ سکے۔
۴۔ چوتھا اور آخری پیغام یہ ہے کہ اگر کوئی با مروّت انسان لغزش کا شکار ہوجاتا ہے اور ہم ان کی اس لغزش کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کے بارے میں سوظن کرتے ہیں تو در واقع ہم نے خدا کی سنت کے خلاف عمل کیا ہے کیونکہ یہاں خدا کی سنت چشم پوشی اور درگزر کرنا ہے۔ پس ہمیں بھی خدا کی ہی سنت پر عمل کرتے ہوئے بامروّت انسان کی لغزشوں کو درگزر کر دینا چاہئے۔

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *