تازہ ترین

واقعہ غدیر خم سیکولر نقطہ نظر کے باطل ہونے پر ٹھوس اور واضح دلیل ہے، سید علی خامنہ ای

 ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے 18 ذوالحجہ عید سعید غدیر کے موقع پر اپنی ملاقات کیلئے آئے ہوئے ہزاروں عقیدت مندوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رونما ہونے والا واقعہ غدیر خم دو بنیادی نکات کا حامل ہے جن میں سے ایک نکتہ “امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا پیغمبر اکرم (ص) کی جانب سے اپنی جانشینی اور خلافت پر منصوب کیا جانا” اور دوسرا نکتہ “سیاست اور حکومت میں اسلام کا دخیل ہونا” ہے۔

شئیر
46 بازدید
مطالب کا کوڈ: 828

انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کی اشد ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: “ہر وہ شخص یا ہر ایسا اقدام جو شیعہ یا سنی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کا باعث بنے، درحقیقت امریکہ، برطانیہ اور صہیونیزم یعنی جاہل، متحجر اور تکفیری گروہوں کے حقیقی بانیوں کا مددگار اور حامی قرار پائے گا۔” 
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے عید سعید غدیر کی مناسبت سے تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ غدیر خم کا اہم اور بابرکت واقعہ اسلامی تاریخ کے مسلمہ اور متفقہ واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: “کوئی بھی اسلامی فرقہ غدیر خم کے واقعے اور اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معروف حدیث یعنی “من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” کا انکار نہیں کرتا اور اس ضمن میں بعض قدیم اور جدید علماء کی جانب سے جو شکوک و شبہات پیش بھی کئے جاتے ہیں وہ اس حدیث کے معنی سے مربوط ہیں۔ البتہ ان تمام شبہات اور اعتراضات کا تسلی بخش جواب بھی دیا جاچکا ہے۔” 
 
ولی امر مسلمین جہان نے حدیث غدیر کے رائج معنی یعنی امیرالمومنین علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ اور جانشین معین کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ غدیر خم اور حدیث غدیر میں ایک اور اہم معنی بھی پوشیدہ ہے جس سے ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے، یہ معنی سیاسی اور حکومتی امور میں دین اسلام کی مداخلت کا ضروری ہونا ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے امت مسلمہ کے دشمنوں کی جانب سے سیاست اور دین اسلام میں جدائی ڈالنے اور اسلام کو انسان کے ذاتی اور شخصی امور تک محدود کر دینے کی غرض سے انجام پانے والے زہریلے پروپیگنڈے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “غدیر خم کا واقعہ اس سیکولر نقطہ نظر کے باطل ہونے پر ایک ٹھوس اور واضح دلیل ہے کیونکہ یہ واقعہ حکومتی اور سیاسی امور پر دین اسلام کی خصوصی توجہ کا حقیقی مظہر ہے۔” 
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس نظریئے کو مسترد کرتے ہوئے کہ غدیر خم کے موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام کو صرف روحانی مقام پر فائز کیا، فرمایا: “روحانی مقامات یہ قابلیت نہیں رکھتے کہ ان میں ایک شخص کسی کو اپنی جگہ منصوب کرے، لہذا واقعہ غدیر خم کا حقیقی معنی حکومت اور اسلامی معاشرے کی سرپرستی اور زعامت کی جانب پلٹتا ہے، اور یہ مسلمانان عالم کیلئے غدیر خم کا ایک عظیم پیغام ہے۔” 
ولی امر مسلمین جہان نے غدیر کو اہل تشیع کا اعتقادی مسئلہ اور شیعہ سوچ کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: “غدیر خم سے متعلق اہل تشیع کی مضبوط منطق اور ٹھوس دلیل کو بیان کیا جانا چاہئے لیکن اس بحث و مباحثے کی جگہ علمی اور پیشہ ورانہ محافل اور اجتماعات میں ہیں، لہذا ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کی روزمرہ زندگی اور ان کے درمیان موجود بھائی چارے اور اخوت پر ان علمی مباحث کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔” 
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے عالمی استعماری قوتوں کی اصلی پالیسی یعنی مختلف اسلامی مسالک خاص طور پر شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ اور دشمنی ڈالنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی صلاحتیں اور توانائیاں ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں ہی صرف ہوجائیں اور وہ اپنے بڑے اور حقیقی دشمنوں سے بے توجہی کا شکار ہوجائیں۔ یہ وہی چیز ہے جس کیلئے عالمی استعماری قوتوں نے منصوبے بنا رکھے ہیں۔” 
 اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کیلئے بڑے پیمانے پر اخراجات کئے جا رہے ہیں، جن کا اصل مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کی پرکشش اور انقلابی سوچ کا مقابلہ کرنا ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: “امریکہ، صہیونیزم اور (تفرقہ انگیزی کے گھاگ ماہر یعنی برطانیہ کی خبیث حکومت) نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے اور شیعہ اور سنی مسلمانوں کی توجہ اپنے حقیقی دشمنوں سے ہٹانے کیلئے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی اور اقدامات کا آغاز کر رکھا ہے۔” 
 
ولی امر مسلمین جہان نے عراق، شام اور بعض دیگر ممالک میں تکفیری سوچ کے حامل گروہوں کی پیدائش کو مسلمانان عالم کے اندر تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کی غرض سے عالمی استعمار کی گہری سازش قرار دیا اور فرمایا: “انہوں نے مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینے اور اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلہ کرنے کیلئے القاعدہ اور داعش کی بنیاد رکھی, لیکن اب یہ گروہ خود انہی کیلئے وبال جان بن چکے ہیں۔”
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے خطے کی موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “خطے میں جاری حالات و واقعات کا دقیق جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے داعش کے خلاف نام نھاد اور جھوٹی جنگ شروع کرنے کا اصل مقصد اس گروہ کا خاتمہ نہیں بلکہ مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینا اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور دشمنی ڈالنا ہے۔” 
 
امام خامنہ ای نے مزید فرمایا: “ہر وہ شخص جو اسلامی اصولوں کا پابند ہے اور قرآن کی حاکمیت کو مانتا ہے، چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی، اسے جان لینا چاہئے کہ امریکی_ صہیونی پالیسیاں ہی درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی اصلی اور حقیقی دشمن ہیں۔”
 ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے دوسرے مسلک سے وابستہ افراد کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے گریز کرنے کو ہر مسلمان شخص کا شرعی وظیفہ قرار دیا اور فرمایا: “شیعہ اور سنی کو جان لینا چاہئے کہ ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین اور ہر ایسا اقدام یا اظہار خیال جو فرقہ واریت کا باعث بنتا ہے، یقینی طور پر مسلمانوں کے مشترکہ دشمن کے فائدے میں ہے۔” 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ 35 برس کے دوران تسلط پسند عالمی طاقتوں کی تمام سازشوں کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “خدا کے فضل سے اس بار بھی ہمارے دشمنوں کو شکست ہوگی اور تمام مسلمان قلبی بصیرت کے ساتھ اپنے شرعی وظائف کو بھرپور طور پر انجام دیتے رہیں گے۔”

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *