تازہ ترین

واقعہ کربلا میں بچوں کی قربانیاں

 تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی مقدمہ   جب مذہب کو ظلم کی سیاست کا لباس پہنا کر الٰہی سیاست کا نام دیا جانے لگے ، بادشاہی کے زور پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا جانے لگے ، پیسے کے زور پر عوام کو ایسے اندھیرے میں دھکیلا جائے کہ وہ حق کی شناخت […]

شئیر
23 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2125

 تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی

مقدمہ  

جب مذہب کو ظلم کی سیاست کا لباس پہنا کر الٰہی سیاست کا نام دیا جانے لگے ، بادشاہی کے زور پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا جانے لگے ، پیسے کے زور پر عوام کو ایسے اندھیرے میں دھکیلا جائے کہ وہ حق کی شناخت کھو بیٹھے ،جب حق کو باطل اور باطل کو حق کہا جانے لگے ، ہر طرف عدم مساوات کا ماحول پیدا ہو، ایک طرف دولت و ثروت کی ریل پیل اور دوسری جانب غربت و افلاس عام ہو ، جب بھوکے کو روٹی اور بیمار کو دوا نہ ملے ، کمزوروں سے زندگی کرنے کا حق چھین لیا جائے ۔ تو اس طرح کے ماحول کے بارے میں لوگوں کے کیا تائثرات ہوں گے ؟ یقینا دنیا کے دانشور اور صاحب عقل و شعور اس طرح کے تاریک دور کو ظلم و تعدی ، غیر عادلانہ اور تاریک ماحول قرار دیں گے اور اس کو بدلنے کے لیے اس کے خلاف احتجاج اور جنگ پر آمادہ ہو جائیں گے ۔

جب دنیا میں اس طرح کا غیر عادلانہ دور اور تاریک ماحول رونما ہوتا ہے اور دن کی روشنی رات کی تاریکی کے زیر سایہ آنے لگتی ہے تو پھر حق پسند اور حق گو لوگوں کا ایک مختصر گروہ حق کے راستے پر باطل کے مقابلے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے ۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ کربلا کے میدان میں باطل کے مقابلے میں ایک ایسی ہی جنگ لڑی گئی تھی جس میں ایک حق کا علمبردار اپنے چند مخصوص اور مخلص ساتھیوں کے ساتھ باطل کے خلاف اٹھا اور ایسی عظیم الشان قربانی پیش کی کہ حق کا چہرہ روشن اور نمایاں ہو گیا اور باطل شرمندہ و پشیمان کہیں منہ دکھانے کے لائق نہ رہا، ان حق پسندوں نے اپنی قربانی سے انسانیت کو سر بلند کردیا اور اس ظلمت کدے میں اپنے خون سے ہدایت کے چراغ روشن کرکے اپنے معبود حقیقی سے جاملے ۔ 

حق و باطل کی جنگ ابتداء انسانیت سے شروع ہوئی ہے اور تا قیامت جاری رہے گی ،خود پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں کتنی جنگیں لڑی گئیں ، مولا امیر المومنین علیہ السلام کے دور میں اور اس کے بعد ؟ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام جنگوں کے تذکرے کیوں نہیں ہوتے ؟ ان جنگوں میں شہید ہونے والوں کی یاد میں مجالس بپا کیوں نہیں ہوتیں؟ ان کے لئے آج صف عزاء کیوں نہیں بچھائے جاتے ؟ صرف کربلا کے شہداء کے لئے یہ سارے اہتمام کیوں ؟ اس کا جواب سادہ سا ہے : دنیا کے اندر جنگی اصول ہے کہ میدان جنگ میں ہمیشہ جنگ جوانوں ، سپاسالاروں اور پہلوانوں کے درمیان ہوتی ہے لیکن کربلا کی جنگ وہ واحد جنگ ہے جس میں ایک طرف عباس علمدار اور علی اکبر جیسے جوان بھی تھے ، زہیر و بریر جیسے بہادر لوگ بھی تھے تو انہی کے ساتھ حبیب بن ظاہر اسدی اور مسلم بن عوسجہ جیسے عمررسیدہ اصحاب بھی اور عون و محمد اور علی اصغر جیسے بچے بھی ۔حق کی سر بلندی اور باطل کی نابودی کے لئے قیام کرنے والے اس عظیم قافلے میں ہر طبقہ فکر، ہر قوم و ملت اور ہر عمر کے لوگ شامل تھے ۔ اس مختصر مقالے میں ہم اس عظیم واقعے میں بچوں کے کردار پر بحث کریں گے ۔

کربلا میں موجود بچے اور ان کی قربانیاں 

۱۔ عبد اللہ بن الحسین علیہ السلام 

السَّلَامُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحُسَيْنِ‏، الطِّفْلِ‏ الرَّضِيعِ  الْمَذْبُوحِ بِالسَّهْمِ فِي حَجْرِ أَبِيه‏.(۱)

سلام ہو شیر خوار عبداللہ بن حسین ؑپر جوتیر کا نشانہ بنا اور اپنے ہی خون میں غلطاں ہوا اور اپنے بابا کے آغوش میں ذبح ہوگئے ۔

عبد اللہ بن حسین علیہ السلام ایک شیر خوار بچہ تھا جو کہ عاشورا کے دن ظہر کے وقت پیدا ہوا تھا اور ان کی ولادت سے شہادت تک کا عرصہ تقریبا ایک گھنٹہ تھا ۔[۲]ان کی ماں ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ بن تیمیہ تھی ۔ام اسحاق کی پہلی شادی حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے ہوئی جن سے طلحہ نامی بیٹا ہوا جو کہ بچپنے میں ہی فوت ہوگئے ۔امام حسن ؑنے اپنی شہادت کے وقت امام حسین  علیہ السلام سے فرمایا: میں اس عورت سے راضی ہوں ،میری وفات کے بعد یہ خاتون اس گھر سے باہر نہ جائے لہذا عدت کی تکمیل کے بعد اس سے شادی کریں ۔امام حسین ؑنے بھائی کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس خاتون سے شادی کرلی جس کے نتیجے میں فاطمہ بنت الحسین اور عبد اللہ بن الحسین پیداہوئے ۔[۳]جب امام حسین ؑکے تمام یاران و انصار شہید ہوئے تو آپ ؑخیمہ گاہ کی طرف گئے اور گھوڑے سے اتر کر خیمے کے دروازے پر بیٹھ کر اسی وقت دنیا میں آنے والے بچے کے کان میں آذان دی اور امام ؑاس بچے سے وداع فرمارے تھے تو اسی وقت عبداللہ بن عقبہ الغنوی یا ہانی بن ثبیت الحضرمی نے ایک تیر پھینکا جو کہ اس بچے کے نازک گلے میں پیوست ہوگیا اور اپنے بابا کی آغوش میں ابدی نیند سوگئے ۔[۴]

چو خم شد تا ببوسد طفل خود را گلويش تير پيش از وي ببوسد 

۲۔علی بن حسین معروف بہ علی اصغر علیہ السلام 

حضرت علی اصغرؑ کی ماں رباب دختر امرء القیس تھی ۔ علی اصغرؑ کے بارے میں مشہور روایت یہ ہے کہ جب واقعہ کربلا رونما ہوا تو اس وقت وہ چھے ماہ کے تھے جیسا کہ ابی مخنف کہتے ہیں :وله من العمر ستة اشهر..وہ [علی اصغر ] چھے مہینے کا تھا ۔اس حساب سے وہ مدینے میں ہی پیدا ہوئے تھے اور اپنے خاندان کے ساتھ کربلا لائے گئے تھے ۔ان کی شہادت کے حوالے سے کتب تاریخ میں مختلف روایات موجود ہیں لیکن یہاں پر ہم مشہور روایت پر اکتفا کریں گے ۔ جب امام کے تمام جانثار ساتھی شہید ہو چکے اور صرف عورتوں اور بچوں کے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رہا تو امام حسین علیہ السلام نے استغاثہ بلند کیا : هَلْ مِنْ ذَابٍ‏ يَذُبُ‏ عَنْ حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِ ص هَلْ مِنْ مُوَحِّدٍ يَخَافُ اللَّهَ فِينَا هَلْ مِنْ مُغِيثٍ يَرْجُو اللَّهَ بِإِغَاثَتِنَا هَلْ مِنْ مُعِينٍ يَرْجُو مَا عِنْدَ اللَّهِ فِي إِعَانَتِنَا.[۵]ترجمہ : کوئی ہے جو حرم رسول خدا کا دفاع کرے ؟ کوئی توحید پرست ہے جو خدا سے ڈرے اور ہمیں تنہا نہ چھوڑے؟ ہماری فریاد پر پہنچنے والا کوئی ہے ؟ کوئی مددگار ہے جو ہماری مدد کرے ؟امام کایہ استغاثہ سن کر خیمہ گاہ سے  نالہ و فریاد کی صدائین بلند ہوئیں  تو امام علیہ السلام خیمہ گاہ کی طرف واپس آئے اور انہیں تسلی دی اس کے بعد فرمایا: نَاوِلُونِي عَلِيّاً ابْنِيَ‏ الطِّفْلَ‏ حَتَّى أُوَدِّعَه‏.[۶]میرے چھوٹے بیٹے کو لے آئیے تا کہ اس سے وداع کروں ۔ اس کے بعد اس بچے کو بوسہ دیا اور حضرت ام کلثوم ؑکو دیتے ہوئے فرمایا:يا اختاه اوصيک بولدي الاصغر خيرا فانه طفل صغير وله من العمر ستة اشهر.(۷)اے میری بہن : میں وصیت کرتا ہوں کہ میرے اس چھے مہینے کے بیٹے کی حفاظت کریں ۔ام کلثوم ؑنے عرض کیا :بھائی جان یہ بچہ پیاسا ہے پانی کا ایک قطرہ اسے پلادیجیے ۔ امام حسین ؑنے علی اصغر کو دوبارہ آغوش میں لیا اور دشمن کی طرف چل پڑے اور ان کے سامنے کھڑے ہوکر فرمایا: يا قوم‏ ان‏ لم‏ ترحمونى‏ فارحموا هذا الطفل اما ترونه کيف يتلظّي عطشا‏.[۸]اے لوگو : اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے ہو تو اس بچے پر رحم کرو ،کیا تم لوگ نہیں دیکھتےکہ  پیاس کی وجہ سے کس طرح زبان نکال رہا ہے ۔اس وقت حرملہ بن کاہل اسدی نے کمان سے ایک تیر چھوڑا اور اس بچے کو اپنے باپ کی آغوش میں ذبح کیا۔ 

فذبح الطفل من الوريد الي الوريد او الاذن الي الاذن (۹)ایک رگ سے دوسری رگ تک یا ایک کان سے دوسرے کان تک کاٹا گیا۔

امام ؑجلدی سے خیمہ گاہ کی طرف واپس پلٹے اور علی اصغر کے گلے سے تیر کو نکالا اور اسے اپنی بہن زینب سلام اللہ علیہا کے حوالے کیا اور ہاتھوں میں اصغر کے خون کو لے کر آسمان کی طرف پھینکا اور فرمایا:اللهم احکم بيننا و بين القوم دعونا لينصرونا فقتلونا(۱۰)پروردگارا میرے اور اس قوم کے درمیان جنہوں نے مجھے دعوت کر کے بلایا پھر ہمیں قتل کیا ،فیصلہ کر ۔ سید ابن طاووس لکھتے ہیں : امام حسین علیہ السلام نے علی اصغرؑ کے خون کو پھینکنے کے بعد میں فرمایا: هَوَّنَ‏ عَلَيَ‏ مَا نَزَلَ بِي أَنَّهُ بِعَيْنِ اللَّهِ.[۱۱]جو بھی مجھ پر نازل ہوتا ہے میرے لئے آسان ہے کیونکہ خدا دیکھ رہا ہے ۔اس وقت ندائے غیبی حسین علیہ السلام کے کانوں تک پہنچی : دعه‏ يا حسين‏ فان له مرضعا في الجنة]۱۲]اے حسین اسے چھوڑ دیں کیونکہ خدا نے اس کے لئے بہشت میں ایک دایہ مقرر کیا ہے ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام گھوڑے سے اترے اور تلوار سے ایک چھوٹی سی قبر کھودی اور اس خون سے رنگین نازک جسم کو دفن کیا ۔ [۱۳]

۳۔ حسن بن حسن [حسن مثنیٰ]

حضرت امام حسن علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ایک حسن بن حسن المعروف حسن مثنیٰ ہیں ان کی والدہ خولہ دختر منظور ہے ۔ [۱۴]اس کی سال ولادت تاریخ میں کہیں پر بھی واضح نہیں تا ہم بعض نے لکھا ہے کہ روز عاشورا اس کی عمر سترہ سال تھی۔[۱۵]حسن مثنیٰ نے اپنے چچا امام حسینؑ کی بیٹی فاطمہ سے نکاح کیا ، ان کا نکاح مدینہ سے قافلے کے نکلنے کے بعد راستے میں ہوا اور کربلا میں فاطمہ ایک نئی نویلی دلہن تھی ۔ سید ابن طاووس کے مطابق حسن مثنی نے عاشورا کے دن سترہ دشمنوں کو واصل جہنم کیا اور ان کے جسم مبارک پر اٹھارہ زخم آئے ۔ [۱۶]بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئے اور میدان میں گر پڑے، دشمنوں نے سمجھا کہ وہ مارے گئے ہیں ۔ گیارہ محرم کو جب عمر سعد کے حکم پر سروں کو جسموں سے جدا کیا جارہا تھا تو دیکھا کہ وہ ابھی زندہ ہے ۔ اسماء بن خارجہ فزاری  جو کہ خود شامی فوج میں تھا مگر حسن مثنیٰ کی والدہ کا رشتہ دار  تھا ، اس نے کہا : یہ میرے حوالے کردیں اگر عبیداللہ بن زیاد  مجھے بخش دیں تو ٹھیک ورنہ جو وہ حکم دے گا اس پر عمل کروں گا ۔اسماء ،حسن مثنیٰ کو کوفہ لے گیا ، جب ابن زیاد کو صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے کہا : اسے اسماء کے حوالے کیا جائے ۔ اسماء نے اس  کا علاج کیا اور اسے مدینہ واپس بھیج دیا۔[۱۷]مشہور یہ ہے کہ حسن مثنیٰ ؑکو پینتیس سال کی عمر میں اموی خلیفہ عبدالملک کے حکم پر زہر دیا گیا اور ان کا قبر مبارک بقیع میں ہے ۔[۱۸]

۴۔ قاسم بن الحسن علیہ السلام 

کربلا کی تاریخ کا ایک بہادر نام قاسم بن الحسن ہے ، ان کی والدہ ماجدہ کا نام رملہ ہے ۔ ان کی زندگی کے بارے میں تفصیلات میسر نہیں مگر روز عاشورا ان کی شجاعت اور بہادری کے داستان تمام کتب تاریخ و سیر میں موجود ہے ۔ابو حمزہ ثمالی روایت کرتے ہیں : عاشورا کی رات جب امام حسین علیہ السلام نے اتمام حجت کے لئے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور فرمایا: کل سب مارے جائیں گے جو بھی جانا چاہے چلا جائے  ۔ با وفا ساتھیوں نے یکے بعد دیگرے  وفاداری کا اعلان کیا تو اس وقت یہ بہادر بچہ بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا: اے چچا جان کیا میں بھی مارا جاوں گا یا نہیں ؟ امام ؑنے پوچھا : يَا ابْنَ أَخِي كَيْفَ‏ الْمَوْتُ‏ عِنْدَك‏۔ اے میرے بھتیجے تمہیں موت کیسی لگتی ہے ؟ قاسم نے کہا : يَا عَمِّ أَحْلَى مِنَ الْعَسَل‏۔ اے چچا شہد سے بھی زیادہ شیرین ہے ۔امام ؑنے فرمایا : خدا کی قسم تو بھی یقینا مارا جائے گا ۔[۱۹]

علامہ محمد باقر مجلسی لکھتے ہیں : اکثر روایتوں کے مطابق حضرت قاسم بن الحسن ؑعاشورا کے دن ایک نابالغ بچہ تھا ۔جب امام حسین علیہ السلام نے اسے جنگ کے لئے تیار دیکھا تو اسے سینے سے لگا کر اس قدر دونوں روئے کہ بے ہوش ہوگئے جب ہوش میں آئے تو قاسم نے جنگ کی اجازت طلب کی مگر امام حسین علیہ السلام نے انکار کیا تو قاسم بن الحسن نے امام کے مبارک ہاتھوں اور پیروں کو اس قدر بوسہ دیا کہ امام سے جنگ کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے ۔ حضرت قاسم ؑآنسو بہاتے ہوئے میدان کی طرف گئے اور ان الفاظ میں رجز خوانی کی :

ان تنکروني فانا ابن الحسن سبط النبيّ المصطفي المئوتمن 

هذا  حسين کالاسير المرتهن بين اناس لا سقو ا صوب المزن 

ترجمہ : اگر مجھے نہیں جانتے تو جان لیں میں پیغمبر اسلام کے نور نظر حسن ؑکا بیٹا ہوں ، یہ حسین ؑہیں جو لوگوں کے ہاتھوں اسیر ہیں خدا ان لوگوں کو کبھی بھی سیراب نہ کرے ۔ان کا چہرہ چودہویں کے چاند کی مانند چمک رہا تھا ۔ اس کم سنی میں اس قدر دلیری سے لڑے کہ ۳۵ دشمنوں کو جہنم میں پہنچایا ۔[۲۰]طبری لکھتے ہیں: حمید بن مسلم کہتا ہے : میں ابن سعد کی فوج میں تھا اتنے میں ایک جوان کو دیکھا جو میدان کی طرف آرہا تھا اور وہ چاند کا ٹکڑا جیسا تھا ، ہاتھ  میں تلوار اور بدن پر ایک پیراہن تھا اس کا ایک جوتا پھٹا ہوا تھا میں نہیں بھول سکتا کہ وہ بائیں طرف کا جوتا تھا ۔ ابن سعد نے کہا : خدا کی قسم میں اس پر سخت ترین حملہ کروں گا اور یہ کہتے ہوئے ایک تلوار اس کے سر مبارک پر مارا اور یہ جوان “یا عماہ” کی صدا بلند کرکے زمین پر گر پڑے ۔امام حسین علیہ السلام تیزی کے ساتھ اس کے سرہانے پہنچے اور فرمایا: بُعْداً لِقَوْمٍ‏ قَتَلُوكَ وَ مَنْ خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيكَ جَدُّكَ ثُمَّ قَالَ عَزَّ وَ اللَّهِ عَلَى عَمِّكَ أَنْ تَدْعُوَهُ فَلَا يُجِيبُكَ أَوْ يُجِيبُكَ فَلَا يَنْفَعُكَ. جس قوم نے تجھے قتل کیا ہے وہ خدا کی رحمت سے دور اور قیامت کے دن آپ کے جد بزرگوار کے دشمنوں میں سے ہے ۔خدا کی قسم تیرے چچا کے لیے انتہائی سخت مرحلہ ہے کہ تو نے آواز دی مگرمیں  جواب نہ دے سکا اگر دے بھی دیا تو اس وقت کہ کوئی فائدہ نہ ہوا ۔امام حسین ؑ قاسم کے بدن کو خیمہ گاہ کی طرف لے گئے اور باقی شہدا  کے ساتھ لٹادیا ۔[۲۱]

۵۔ امام باقرعلیہ السلام 

شیخ مفید لکھتے ہیں : امام سجاد علیہ السلام کے کل پندرہ بچے تھے جن میں سے صرف امام باقر علیہ السلام کربلا میں موجود تھے ۔امام باقر کی والدہ ماجدہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام  کی بیٹی فاطمہ ہے ۔آپ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اپنے والد گرامی اور دادا کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے اور اپنی مبارک آنکھوں سے عاشورا کی ان عظیم مصیبتوں کا نظارہ کیا ۔[۲۲]

۶۔ عون و محمد 

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شادی ان کے چچازاد بھائی عبداللہ بن جعفر سے ہوئی اور ان سے کئی اولاد اللہ عطافرمائیں۔ ان کے نام علی ، عون ، عباس، محمد ، اور ام کلثوم ہیں ۔[۲۳]ان میں سے عون اور محمد کربلا میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ موجود تھے ۔محمد بن عبداللہ  امام حسین علیہ السلام کی اجازت سے میدان میں گئے اور دس لوگوں کو  جہنم رسید کرنے کے بعد عامر ابن نہشل تمیمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔ اس کے بعد ان کا بھائی عون میدان کی طرف گئے اور اکیس دشمنوں کو واصل جہنم کیا ،آخر کار عبداللہ بن قطنہ نبہانی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔[۲۴]

اس کے علاوہ عبداللہ بن مسلم بن عقیل ، محمد بن مسلم ، محمد بن ابی سعد، عمرو بن جنادہ ، قاسم بن حبیب اور دیگر بچے بھی کربلا میں موجود تھے اور امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہید ہوئے ۔

تاریخ کربلا کے دقیق مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ یہ عظیم سانحہ ایسے ہی مشہور اور معروف نہیں ہوا بلکہ اس میں تمام صنف اورمختلف عمر کے لوگوں نے جان کی باز ی لگائی۔ اسی لیے مولا حسین علیہ السلام نے فخریہ انداز میں فرمایا: مجھے جو اصحاب و اعوان ملے ہیں وہ میرے نانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور میرے بابا علی مرتضیٰ علیہ السلام کو بھی نہیں ملے ۔دعا ہے کہ ہمیں بھی سیرت انصار الحسین پر چل کر قیامت کے دن انہی کے ساتھ محشور ہونے کی توفیق عطافرمائے۔

حوالہ جات و منابع :

1) مجلسی ، علامہ باقر ، بحار الانوار ج ۴۵، ص ۶۶

2) احمد بن یعقوب  ، تاریخ یعقوبی ، ج۲ ، ص ۲۴۵

3) شیخ عباس قمی ، نفس المہموم ،ص ۳۴۲

4) تاریخ یعقوبی ،ج ۲ ، ص ۲۴۵

5) مقتل خوارزمی ، ج۲ ، ص ۳۲، مقتل لہوف ،ص ۱۱۶

6) بحارالانوار، ج۴۵ ، ص ۴۶

7) مقتل ابی مخنف ، ص۱۲۹

8) مہدی مازندرانی ، معالی السبطین ، ج۱، ص ۲۵۹

9) مہدی مازندرانی ، معالی السبطین ، ج۱ ، ص ۲۵۹

10) شیخ عباس قمی ، نفس المہموم ، ص ۲۱۶

11) مقتل اللہوف ،ص ۱۱۷

12) شیخ عباس قمی ، نفس المہموم ، ص ۲۱۷

13) مقتل خوارزمی ، ج۲ ، ص ۳۲

14) شیخ مفید ، الارشاد ،ص ۳۶۰

15) اعیان الشیعہ ،ج۵، ص ۴۳

16) مقتل اللہوف ،ص ۱۴۵

17) دائرۃ المعارف الشیعہ ،ج۸ ،ص ۶۲

18) شیخ مفید ، الارشاد ، ص ۳۶۶

19) محمد تقی سپہر، ناسخ التواریخ ، ج۲ ، ص ۲۲۰

20) بحارالانوار ، ج ۴۵ ص ۳۶

21) تاریخ طبری، ج ۴، ص ۳۴۱/الارشاد ، ص ۴۶۱، مقتل اللہوف ، ص ۱۱۵

22) الارشاد ، ص ۵۰۶

23) اعیان الشیعہ ، ج ۷ ، ص ۱۳۷

24) مناقب آل ابی طالب ،ج ۳، ص ۲۵۴

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *