وزیر اعظم کا دورئہ ایران…زاویۂ نگاہ۔۔۔۔۔نصرت مرزا
پاکستان اور ایران نے برے وقتوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، وہ 65ء کی جنگ ہو یا 71ء کی، ایران پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ سارے خلیجی ممالک مل کر پاکستان کو جتنی امداد دیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اکیلا ایران ، پاکستان کو مدد دیتا ہے،
مگر وہ شاہ کا زمانہ تھا، پاکستان نے ایران کے انقلاب کے بعد تعلقات میں قدرے سرد مہری آئی مگر ایران عراق جنگ میں پاکستان نے ایران کی بہت مدد کی، جنرل ضیاء الحق نے ایران اور عراق جنگ کو روکنے کیلئے عراق اور ایران کے ایک درجن سے زیادہ دورے کئے مگر امریکہ اس جنگ کو طول دینا چاہتا تھا تاکہ ایران کو سزا دے اور عراق پر دو جنگوں کی تھونپنے کے ایجنڈے کی تکمیل کی بنیاد ڈالی جا سکے۔ پاکستان کو جنگ روکنے میں تو کامیابی نہیں ہوئی البتہ پاکستان نے تمام تر دباو کے باوجود ایران کی آٹھ برسوں تک ایران کی مدد کی، ایران کو خوراک کی کمی کا سامنا ،پاکستان نے چاول فراہم کرکے ایران کو خوراک کی کمی کا شکار ہونے نہیں دیا، ساتھ ساتھ اس کو کچھ اسلحہ بھی مہیا کیا، امریکہ نے پاکستان کو ایران سے دور رکھنے کیلئے پاکستان میں ایسی دہشت گردی کے فلیتے لگائے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی مشین تیار کیں جو آج بھی پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہ پاکستان اور ایران کو دور رکھنے کیلئے اپنی توانائی خرچ کر رہا ہے ۔ امریکہ پاکستان اور ایران کو قریب آنے نہیں دیتا، جیسے ہی پاکستان ایران کے ساتھ روابط بڑھانے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کے خلاف کئی طریقوں سے دباو بڑھادیتا ہے۔ امریکہ، پاکستان کو ایران سے دور رکھنے کیلئے کس قدر کوشش کرتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس روز ایرانی وزیر داخلہ کو پاکستان کے دورے پر آنا تھا اسی روز جان ڈوبنز امریکی نمائندہ برائے پاکستان اور افغانستان آگئے اور ایرانی وزیر داخلہ کے دورے کی تاریخ کو تبدیل کرنا پڑا، جس کا ایرانیوں نے برا مانا ہوگا، اسی لئے پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایران جاکر معاملات سنبھالے، اس کے بعد امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل لائیڈ آسٹن آ دھمکے اور مشورہ نما دھمکی دینا شروع کردی کہ وزیرستان کو دہشت گردوں سے صاف کرے۔ ابھی وہ پاکستان سے گئے ہی تھے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ تشریف لے آئے تاہم اس سے پہلے ایران کے وزیر داخلہ پاکستان کے دورے پر آئے اور یہ سب کچھ ایک ہفتے کے دوران ہوا اور یہ ہفتہ پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دوره ایران سے پہلے کا تھا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور ایران تعلقات کتنے اہم ہیں کہ امریکہ ان تعلقات کو پروان چڑھنے سے روکنے کیلئے کس قدر مضطرب ہے کہ اس نے تین سطحوں پر ان تعلقات کو بڑھنے سے روکنے کیلئے کوشش کی، شکر ہے کہ وزیر اعظم بالآخر ایران کے دورے پر چلے گئے۔ اس کے علاوہ جس تاریخ کو جب وہ ایران کے دورہ پر گئے اس روز پاکستان میں دو پارٹیوں کی طرف سے دھرنے دیئے جارہے ہیں ایک تحریک انصاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دے رہی ہے دوسرا دھرنے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت پاکستانی عوامی تحریک ساٹھ شہروں اور قصبوں میں دے رہی ہے ،اس عمل کو بھی پاک ایران تعلقات میں رکاوٹ ڈالنے اور وزیراعظم پاکستان کو ایران کے دورے سے روکنے کی کوشش قرار دی جا سکتی ہے کہ ماضی میں جاپان کا دورہ ملتوی کرانے کیلئے لاہور میں ایک ہی خاندان کے تیرہ افراد کو قتل کردیا گیا تھا اور جنرل مرزا اسلم بیگ جو اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف تھے کہ چین کے دورہ کو روکنے کیلئے میانی کے جنگل سے کئی سو کلاشنکوف جام صادق وزیر اعلیٰ سندھ کے دور میں ملی تھیں، خیال ہوا کہ کوئی سازش پروان چڑھ رہی ہے، اس لئے دورہ ملتوی کرنا پڑا تھا کہا جاتا ہے کہ سازش یہ تھی کہ انڈین را کا ڈپٹی چیف پاکستانی فوجی سربراہ سے پہلے چین پہنچے تاہم موجودہ دھرنوں اور وزیر اعظم کے دوره ایران کی تاریخوں میں ٹکرائو محض ایک اتفاق اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ 11مئی کو ایک سال پہلے انتخاب ہوئے تھے۔
پاکستان ، ایران تعلقات دونوں کیلئے سودمند ثابت ہوسکتی ہیں، دونوں امریکہ اور مغرب کے دباو میں ہیں جو دونوں کا باہمی تعاون بے اثر کرسکتا ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کو ضرورت کی اشیاء سے لیکر سامان حرب تک فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے خطہ میں ایران اور عربوں کے درمیان نفرت کا جو بیج بویا ہے وہ پاکستان اپنی سفارتکاری سے دور کرسکتا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ فکرمند ہے کہ اگر ایسا ہوگیا تو اس کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا، وہ اس کشیدگی سے اب تک 120بلین ڈالر عربوں سے اسلحہ کی فراہمی کی مد میں بٹور چکا ہے، اس نے عربوں کو سہما دیا ہے کہ ایران ایٹمی قوت بننے والا ہے، اس لئے خلیجی ممالک کافی بے چین ہیں، جن کو پاکستان نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ امریکہ پر زیادہ تکیہ نہ کریں، پاکستان نے ایران کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ملک شام کے باغیوں کو نہ تو ہتھیار فراہم کرے گا اور نہ ایٹمی صلاحیت سے کسی کو آراستہ کرے گا، پاکستان نے خلیجی ملکوں اور ایران کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ خطہ میں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان امریکہ کی پیدا کردہ کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران کے بنیادی طور دو اہم مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں، ایک ایران میں گڑ بڑ کرنے والی دو تنظیمیں جو ایران جاکر دہشت گرد کارروائیاں کرتی ہیں، ان کو روکنا، اس معاملہ میں ایرانی وزیر داخلہ کے حالیہ دوره پاکستان کے موقع پر تفصیل سے بات ہوگئی ہے اور پاکستان اس سلسلے کو روکنے کیلئے ایک نئی فورس کھڑی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے علاوہ سب سے اہم گیس پائپ لائن کو بچھانے کا معاملہ ہے یہ منصوبہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، پاکستان کو اگر یہ پائپ لائن بچھانے کیلئے ایران 500ملین کا قرض جس کی ایران نے پہلے پیشکش کی تھی اور پھر اس کو واپس لے لیا تھا، اس پیشکش کا اس دورے میں اگر ایران اعادہ کردے تو اس پائپ لائن کے بچھنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں اور پاکستان ہمت پکڑ سکتا ہے کہ امریکہ کے دباو کو رد کر دے۔ بہرحال پاکستان کے وزیراعظم کا دوره ایران کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے اور اس دورے سے تعلقات کی نئی راہیں کھلیں گی، غلط فہمیاں دور ہوں گی اور دونوں ممالک کے رشتے مضبوط ہوں گے،جن میں دوری پیدا کرنے کیلئے دشمنوں نے بہت خون بہایا ہے، اس کا بدلہ اور جواب یہی ہے کہ دونوں ممالک دوستی کے مضبوط رشتوں میں جڑ جائیں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید