وقف کی اہمیت اور افادیت قرآن و سنت کی نگاہ میں/تحریر: محسن عباس
انسان جس دین ، مکتب یا آئین سے تعلق رکھتا ہو، اس کی فطرت میں ہے کہ وہ خود، اس کا نام اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام چیزیں ہمیشہ کے لئے باقی رہے۔ دوسری طرف تمام بشریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ وہ جسمانی(Physically)طور پر ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے، پس ان دو حقیقتوں کی روشنی میں عاقل انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا نام جاودان ہو اور اس کے اموال اور اس کے منافع اس کو ہمیشہ کے لئے ملتا رہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے یہ تمام مقاصد حاصل ؟

اسلامی تعلیمات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ہدف کے حصول کا واحد اور بہترین ذریعہ “وقف” ہے۔ انسان اپنی زندگی میں نہایت تگ و دو اور خون پسینہ کر کے اموال جمع کرتا ہے اور اس کے تحفظ اور نگہداری میں کبھی اپنی جان کی بازی بھی ہار جاتا ہے،ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد یا دوسرے رشتہ دار ان اموال کو آپس میں بانٹ کر اسے اپنے لئے سرمایہ حیات قرار دیتے ہیں یا کسی کے مصرف میں آئے بغیر یہ مال وجائیداد ویسے ہی تلف ہوجاتے ہیں۔اس حیرانگی سے نکلنے اور اپنے مال و جائیداد کو ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر انسان سوچ بچار کرتا ہے۔ بعض خوش نصیب افراد آخر کار اس نتیجے کو درک کر لیتے ہیں کہ مجھے اس دنیا کے دامِ فریب میں نہیں آنا چاہیے بلکہ ایسا کوئی ذریعہ ڈھونڈ نکالنا چاہیے جس کے ذریعے میں دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوسکوں۔در نتیجہ وہ اپنے اموال کو راہِ خدا میں وقف کرکے موت کو بھی مات دے دیتے ہیں۔
تاریخی شواہد کے اعتبار سے بھی انسان کے لئے اپنی جاویدانگی اور ہمیشگی کے لئے ایک منطقی اور عقلی راہ حل “وقف” کے علاوہ دوسری اور کوئی راہ میسر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ دین مبین اسلام نے بھی انسان کی بقاء، بشر دوستی، بھلائی اور نیک مقاصد کے حصول کے لئے بہترین راہ”وقف”کو قرار دیاہے۔ اسی لئے وقف کا یہ نیک عمل ، ایمان و خلوص سے سرشار انسانوں کا وطیرہ رہا ہے ۔ ایسے افراد انسانیت کی بھلائی، معاشرے کی فلاح و بھلائی اور دینی و مذہبی امور کی ترقی کی خاطر اپنے لئے سب سے پسندید اموال و جائیداد کا ایک خاص حصہ خدا کی راہ میں وقف کرکے ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے کا شرف پاتے ہیں
انسانی زندگی میں وقف کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ وقف کا نظام نہ صرف اسلامی ممالک میں مختلف صورتوں میں رائج ہے بلکہ زرتشتی(آتش پرست) کلیمی، مسیحی اور دیگر ادیان کے پیروکاروں میں بھی کسی نہ کسی شکل میں وقف کا نظام موجود ہے۔ لہذا وقف کو “بشریت کی فلاح و بہبود کا ایک بہترین وسیلہ” قرار دیا جاسکتا ہے کہ جس کے سائے میں نہ فقط مسلمان بلکہ مسیحی،کلیمی،زرتشتی،یہاں تک کہ میڑیالیسٹ اور لائیک بھی اس کے فوائد سے مستفیض ہورہے ہیں۔
ہم یہاں پر معاشرے میں وقف کی ترویج کی خاطر اس کے کچھ اہم مباحث کو زیر بحث قرار دیتے ہیں۔
اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے وقف کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو بیان کیا جاتا ہے۔
وقف کے لغوی معنی :
وقف لغت میں کھڑا ہونے،ساکن اور روکنے کے معانی میں ہے۔وقف لغت میں قیام کرنے،ٹھہرنے، ساکن ہونے اور روکنے کے معانی میں آیا ہے۔
وقف کے اصطلاحی معنی:
فقہی اصطلاح میں وقف کی تعریف یہ ہے: “حَبسُ مَا یَملِکُ” یعنی جو چیز انسان کی ملکیت میں ہے اسے روکے رکھنا اور اسے بیچنے یا بخشش کے ذریعے دوسروں تک منتقل ہونے سے منع کرنا ہے۔ اس کے مقابل میں اس سے حاصل ہونے والے منافع اور فوائد کو اللہ تعالی کی راہ میں لگا دینا ہے جو حقیقت میں لوگوں کی خدمت ،ان کی مشکلات کا حل اور ان کے معاشرتی و ثقافتی حالات کو بہتر بنانا ہے۔
شیخ طوسیؒ کتاب مستطاب”المبسوط” میں وقف کی یوں تعریف کرتے ہیں: “فالوقف تحبیس الأصل و تسبیل المنفعۃ” یعنی اصل مِلک کو روکے رکھنا اور اس کی منفعت کو جاری رکھنا”وقف”کہلاتا ہے۔
تحبیس کی اصل”حبس” یعنی قیدی بنانا، قید میں لے آنا اور کسی چیز کی آزادی کو سلب کرنا ہے، چونکہ مِلک کے وقف ہوجانے سے اس کی نقل وانتقال کی آزادی اس سے سلب ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ عمل وقف کہلائے گا۔
لہذا کسی بھی چيز کی اصل کوروکےرکھنے اوراس میں ہبہ یا وراثت بلکہ واقف کے ارادے کے برخلاف کسی بھی تصرف کے نہ کرنے کا نام ”وقف“ ہے۔ تا کہ اسے واقف (خواہ واقف زندہ ہو یا وہ انتقال کرگیا ہو)کے ارادہ کے مطابق خیروبھلائي کے کاموں میں صرف کیا جاسکے ۔
فقہاء نے وقف کو صدقات کی زیر میں ذکر کیا ہے اور اسے ایک قسم کا صدقہ شمار کیا ہے۔فقہی کتابوں میں اقتصادِ اسلامی سے مربوط ابحاث میں”وقف،اس کی اقسام اور شرائط” کے بارے میں مطالب ذِکر ہوئے ہیں اور اس کے احکام و قواعد کی وضاحت دی گئی ہے۔
وقف کی قسمیں
فقہی کتب میں وقف کی چند قسمیں ذکر ہوئی ہیں:
۱: وقفِ عام: یہ ایسا وقف ہے جو عام جہات اور عناوین کے پیش نظر ہو۔ یعنی اس وقف میں عام طور پر لوگوں کی بھلائی مطلوب ہوتی ہے۔
۲:وقف ِ خاص: ایسا وقف ہے جو کسی خاص جہت اور مخصوص عنوان سے ہو ۔ جیسے اولادِ زکور کےلئے وقف کرنا یا کسی خاص جگہ یا کسی خاص فرد کے لئے وقف کرنا اس طرح سے کہ اس کی منفعت اور فائدہ مخصوص جگہ یا افراد کے لئے ہو۔
۳:وقف انتفاع: ایسا وقف جس سے مقصود دنیاوی و مادی درآمد و فائدہ نہ ہو جیسے اپنی ملکی زمین یا ویران زمین میں مسجد یا امام بارگاہ وغیرہ تعمیر کرنا۔
۴:وقف منفعت:ایسا وقف جس سے غرض مادی درآمد ہو اس درآمد کو کسی اور چیز پرلگایاجائے مثلاً دکان یا ملکیتی زمین وغیرہ کو مسجد کے امور چلانے کےلئے وقف کرنا یا کسی دینی مدرسہ یا ہاسپیٹل کے اخراجات پورا کرنے کے لئے دکان یا مارکیٹ وغیرہ کو وقف کرنا۔
وقف کے عام اہداف اور اس کے دنیوی آثار
وقف کا عمومی بھلائی کے کاموں سے بہت گہرا تعلق ہے،خصوصاً ایسے معاشروں میں جن میں طبقاتی اختلاف بہت زیادہ ہو،وقف کے ذریعے دولتمندشخص کسی فقیر ونادار کے بارے میں سوچ سکتا ہے،طاقتور کمزور کی خبرگیری کرسکتا ہے اور اس طرح سے بہت زیادہ عمومی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔
غریبوں کی دستگیری، محروموں کی مدد، تنگدستوں کی زندگیوں میں بہتری، اقتصادی عدالت، لوگوں کی سطحِ زندگی میں توازن، علم کی ضوفشانی کرنا، اسلامی معارف اور دینی مبانی کی تعلیم و تربیت اور ثقافت کی ترویج، مساجد کی تعمیر،امام بارگاہوں کی ساخت، کتابخانوں، مدارس ، ہاسپیٹلز، پناہ گاہوں اور رفاہِ عامہ کے مراکز کا قیام، راستے بنانا، پُلوں کی تعمیر وغیرہ ایسے امور ہیں جو موقوفات سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ایک اورزاویے سے اگردیکھا جائے تو وقف کا عمل ، انسان کے اندر سےصفاتِ رذیلہ(بُری اور ناپسندیدہ صفات)جیسے طمع و حرص اور دنیا پرستی کا قلع قمع کرتا ہے اورقناعت اور نوع دوستی(بشر دوستی)کو بڑھاتا اور تقویت کرتا ہے۔
وقف کرنا لوگوں کے درمیان کشمکش اور تفاخراور غرور کی جگہ ان کے آپس میں تعاون کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے اور ان کے اندر امداد کے جذبے کوبامِ عروج تک پہنچاتا ہے۔وقف کرنا عشق و محبت اور بشر دوستی سے سرشارمعاشرے کو معرضِ وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے،فکری سطح کو بلند کرتا ہے اور وقف شدہ اشیاء کی درآمد پیاسوں کو سیراب کرنے،مسافروں کی بھلائی کا سامان فراہم کرنے کا باعث ہے۔جیسا کہ ظاہر ہے کہ وقف کے اہداف و مقاصد فقراءاور عبادت گاہوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ عمومی اہداف علمی مراکز کی ایجاد ، ہسپتالوں وغیرہ کی تعمیر کو بھی شامل ہیں۔
انسان کی اخروی زندگی پر وقف کے آثار
فرمان معصوم ؑ ” الدنیا مزرعۃ الآخرۃ” دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو شخص اس دنیا میں جو بوئے گا وہی اس کو آخرت میں کاٹے گا۔ انسان کی زندگی چند روزہ ہے ،اس زندگی کے اختتام کے بعد وہ برزخی زندگی میں قدم رکھتا ہے ۔جہاں پر انسان کے اعمال نعمت یا عذاب کی صورت میں اس کے سامنے آتے ہیں، اس زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انسان نیک اعمال کرنے کی حسرت کے باوجود کچھ نہیں کر پاے گا ۔ پس وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انسان اگر نیک آثار وقف اور صدقہ جاریہ کی شکل میں دنیا میں چھوڑ کر آخرت کی طرف سفر کرے تو گویاوہ اپنے لئے نہ ختم ہونے والا ثواب کا انتظام کیا جیسے کہ فرمانِ الٰہی ہے : وَ نَکتُبُ مَاقَدَّمُوا وَآثَارَہُم۔ (یسین: 12)۔ اور جو کام انہوں نے کیے ہیں اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑ ے ہیں ، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں۔
ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : “جو کام انہوں نے خود کئے ہیں اور جن کاموں کے اثرات انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں اور اسی کا ہم انہیں بدلہ بھی دیں گے۔ اگر اچھے اعمال ہوں تو جزا کی صورت میں لیکن اگر برے ہوں تو اس کی سزا بھی دی جائے گی” یہاں تک کہ نیک اولاد جو نیک اعمال کرتی ہیں ان کے ثواب میں کمی کئے بغیر ا ن کے والدین کو بھی ان ہی کے برابر ثواب دیا جائے گا، اس لئے کہ اولاد بھی والدین کی کوشش اور کمائی کا ایک حصہ ہیں ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَ اَن لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی۔ [النجم : 39] “اور يہ کہ انسان کو صرف اسی کے عمل کا بدلہ ملے گا”
موقوفات او رمعاشرتی مسائل
معاشرتی لحاظ سے موقوفات کا کردار مراکزِ دینی میں اضافہ کرنا، ان کی ضروریات کو فراہم کرنا، عظیم اسلامی دانشوروں کو اقتصادی و مالی توانائی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سہولت بھی میسر کرنا ہے کہ ایک اجتماعی اور معاشرتی ادارے کے عنوان سے نہ فقط اسلامی معاشرے کی اقتصادی مشکلات کو حل کرے بلکہ اجتماعی بُحران اور سخت ترین معاشرتی مسائل میں بھی موقوفات سے مدد لینا ہے۔ لوگوں کے لئے امن و امان کی پناہ گاہ اور معنوی حمایت شمار کیا جاسکتا ہے۔
وقف کرنے کے لئے بلندہمت اور وسیع قلب درکار ہوتا ہےنیز ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پسندیدہ ترین مال اور جائیداد کو خدا کی خوشنودی کی خاطر وقف کرے ۔ یہاں اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ ناپسند چیزوں کا راہِ خدا میں وقف کرنا جہاں دوسروں کے لئے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا وہاں واقف کے لئے بھی اخروی ثواب اتنا ہی کم ملتا ہے۔
وقف کے مصادیق:
وقف کے اہم مصادیق درج ذیل ہیں:
1. طبی سہولتوں کے لئے مراکز کا قیام
2. رفاہ عامہ کے مراکز کی تاسیس
3. مساجد کی تعمیر
4. دینی مدارس کا قیام
تعلیمی امور میں وقف کی اہمیت
اگرچہ اس زمانے میں وقف کے لئے متعدد میدان موجود ہیں جن میں صحت ، طبابت، تعلیم و تربیت ، ریسرچ و تحقیق، جدید علوم ، ماحولیات اور ماڈرن شکل میں دین کی ترویج شامل ہیں۔لیکن اس میں سے مہم ترین میدان تعلیم و تربیت کا میدان ہے۔
قرآن کی نظر میں وقف کی اہمیت اور اس کا ثواب
قرآن کی نگاہ میں اموال وقف کرکے نا صرف انسان اپنی جاویدانگی حاصل کرتا ہے بلکہ اس نیک اور باخلوص عمل کے ذریعے سے وہ ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کر کے خدا کی خوشنودی بھی حاصل کر لیتا ہے۔ قرآن مجید میں وقف کا لفظ صراحت کے ساتھ تو نہیں آیا لیکن اس کے لئے صدقہ، خیر، نیکی، قرض الحسنہ، تعاون، عمل صالح، باقیات الصالحات، ایثار، انفاق اور احسان جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں۔ البتہ مذکور ہ تمام عناوین ایک لحاظ سے وقف کہلا سکتے ہیں کیونکہ وقف صدقہ ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی نیکی، ایثار، تعاون، خیر، انفاق اورباقیات الصالحات بھی ہے۔ دوسری طرف قرآن نے انسانوں کو حد سے زیادہ مال و دولت کی جمع آوری، تکاثر مال، مال و دولت کو ایک دوسرے پر برتری کا معیار قرار دیکر ایک دوسرے پر فخر مباہات کرنے، تکبر کرنے، سرکشی اور کسبِ حرام کے ذریعے مال کی جمع آوری سے منع کیا ہے۔ اس سے بھی وقف کی اہمیت اور اس کی افادیت واضح ہو جاتی ہے۔
قرآن مجید میں وقف کے بدلے میں بے شمار ثواب کے بیان کے علاوہ اس کے انفرادی اور اجتماعی آثار بھی بیان ہوئے ہیں۔
1:چنانچہ سورہ بقرہ میں آیا ہے: مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فىِ كلُِّ سُنبُلَةٍ مِّاْئَةُ حَبَّةٍ وَ اللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيم۔ “جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔”
2: فَاسْتَبِقُواْ الْخَيرْاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلىَ كلُِّ شىَْءٍ قَدِيرٌ(سورہ بقرہ/148)۔ اب تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو اور تم سب جہاں بھی رہوگے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا کہ وہ ہر شے پر قادر ہے ۔
3: يَسْئلُونَكَ مَا ذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَير فَلِلْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ وَ مَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيرفَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ۔(سورہ بقرہ/215)۔ پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راہِ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدین قرابت داروں، ایتام، مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور تم میں جو بھی کارخیر کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔
4:وَ الَّذِينَ فىِ أَمْوَالهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ، لِّلسَّائلِ وَ الْمَحْرُومِ، وَ الَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ، وَ الَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبهِّم مُّشْفِقُونَ۔(سورہ معارج 24-27) اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے ، مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے ، اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں، اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔
5: وَ تَعَاوَنُواْ عَلىَ الْبرِّ وَ التَّقْوَى وَ لَا تَعَاوَنُواْ عَلىَ الْاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورہ مائدہ/ 2)، نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے ۔
6:وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ لهَم مَّغْفِرَةٌ وَ أَجْرٌ عَظِيمٌ( سورہ مائدہ/9)۔ ) اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔
7: لن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ ۔ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ؛ (سوره آل عمران / 92)تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راسِ خدا میں انفاق نہ کرو اور جو کچھ بھی انفاق کرو گے خدا اس سے بالکل باخبر ہے۔
8: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكمُْ وَ عَمِلُواْ الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فىِ الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لهَمْ دِينهَمُ الَّذِى ارْتَضىَ لهَمْ وَ لَيُبَدِّلَنهَّم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنىِ لَا يُشْرِكُونَ بىِ شَيْا وَ مَن كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُوْلَئكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(سورہ نور/55) اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں۔
9: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا؛(سورہ کہف/ 46)۔ مال اور اولاد زندگانی دنیا کی زینت ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیاں پروردگار کے نزدیک ثواب اور امید دونوں کے اعتبار سے بہتر ہیں۔
اس آیہ کی تفسیرمیں مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اس آیت میں ” باقیات صالحات ” سے مراد چاہے اعمال صالح ہوں یا جو بھی نیک عمل ہو ، وقف ان باقیات صالحات کے مصادیق میں سے ایک ہے۔کیونکہ ائمہؑ کے فرامین اوران کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ عملِ صالح کا مکمل مصداق وقف ہے بالخصوص ان روایات کے مطابق جن میں وقف کو قیامت کے دن نجات کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔( تفسیر نمونہ)
10: وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَیْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَ اسْتَغْفِرُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم؛ (سورہ مزمل/ 20) اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی بھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاؤ گے ،بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے ۔
اس آیت میں بھی ” خیر” اور ” قرض حسنہ” سے مراد وقف ہے کیونکہ خیر یعنی ہر اچھا کام اور واضح ہے کہ وقف سے اچھا کام اور کوئی نہیں۔ اسی طرح قرض حسنہ بھی وقف کے مصادیق میں سے ہے۔( علامہ طبا طبائی، تفسیر المیزان)
وقف کی اہمیت روایات کی روشنی میں
کتبِ احادیث کی بہت سی روایات میں وقف کو صدقے سے تعبیر کیا ہے، علاوہ ازیں شیعہ اخلاقی کتابوں میں بھی وقف کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ مذہب شیعہ کی گراں قدر حدیث کی کتاب “وسائل الشیعہ” میں وقف کے لئے ایک مخصوص باب قرار دیا گیا ہے اور اس میں ائمہ ؑ کی بہت سی روایتوں کو ذکر کیا گیا ہے۔( جواهر جديد، ج 28، ص 3.)
۱: قال رسول اللهﷺ: ان مما يلحق المؤمن من عمله و حسناته بعد موته علما نشره و ولدا صالحا ترکه، و مصحفا ورثه او مسجدا بناه. او بيتا لابن السبيل بناه او نهرا اجراه، او صدقة اخرجها من ماله في صحته و حياته و تلحقه من بعد موته۔ ( نهج الفصاحة، ص 183 ح 906.)
پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: انسان کے اس دنیا سے رحلت کرنے کے بعدبھی چند چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہے گا۔
۱ ۔ لوگوں میں علم کی روشنی پھیلا کر جانا، ۲ ۔ نیک اولاد کی پرورش کرنا، ۳ ۔ قرآن کو ارث چھوڑ کر جانا،
۴ ۔ مسجد بنانا، ۵ ۔ بے پناہ مسافروں کے لئے رہائش کا انتظام کرے، ۶ ۔ پانی کا نہر بنائے اور لوگ اس سے فائدہ حاصل کرے،
۷ ۔ اپنی زندگی میں اپنے ہی مال سے میں کوئی صدقہ اللہ کی راہ میں دے کر دنیا سے رخصت ہوجائے۔
۲ : ایک اور روایت میں آپﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی راستے میں مسافرین کے لئے پناہ گاہ بنائے، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ایسی سواری پر سوار کرے گا جس کو گوہر سے سجایا گیا ہوگا اور اس کے چہرے کا نور باقی تمام انوار پر نمایاں ہوگا، یہاں تک کہ اس کا نور حضرت ابراہیم ؑ کے نور کے برابر میں قرار پائے گا، اس وقت لوگ سوال کریں گے کیا یہ کوئی فرشتہ ہے کہ اس قدر نور افشانی کررہا ہے؟ ہم نے کبھی ایسے نور کو نہیں دیکھا نیز اس کی شفاعت سے ہزاروں انسان بہشت میں داخل ہوں گے۔( وسائل الشیعہ/ج 11، ح1)
۳: قال الامام علی: ابتغاء وجه الله ليولجني الله به الجنة و يصرفني عن النار و يصرف النار عن وجهي يوم تبيض وجوه و تسود وجوه۔ ایک وقف نامے میں آپؑ نے وقف کرنے کے انگیزے کو یوں بیان کیا ہے:
میں نے صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر وقف کیا ہے تاکہ اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ مجھے بہشت نصیب کرے اور آتشِ جہنم سے مجھے دور رکھے، اور آتش کو بھی مجھ سے دور رکھے، جس دن بعض لوگوں کے چہرے تابناک ہوں گے اس کے برعکس بعض کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
4: مہران ابن محمد نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے: امام صادق ؑ نے اپنے آخری ایام میں اپنی وصیّت میں فرمایا: میری رحلت کے بعد ایام ِحج میں سات سال تک میرے لئے عزاداری کا اہتمام کیاجائے اور امام ؑ نے ہر سال کے لئے کچھ مال وقف کیا تاکہ اس سے خرچ کیا جاسکے۔
5: حضرت صاحب العصر ؑسے چند سوالات کئے گئے ان میں سے ایک وقف کے بارے میں تھا۔ امام ؑ نے جواب میں فرمایا: اگر کسی نے کوئی مال ہمارے لئے وقف یا ہماے لئے قرار دیا ہو۔ اس کے بعد وہ خود اس کی طرف محتاج ہو جائے توموقوفہ چیز اگر ہماری تحویل میں نہیں دی ہوتب وہ اسے واپس لے سکتا ہے وگرنہ وہ دوبارہ اسے واپس نہیں لے سکتا۔ خواہ وہ خود اس کا محتاج ہو یا نہ ہو ۔اس سے معلوم ہوا کہ وقف فقہی نگاہ میں ایک عقدِ لازم ہے یعنی انسان اس میں رجوع کر کے واپس نہیں لے سکتا۔
معصومینؑ علیہم السلام کی سیرت عملی اور وقف
معصومین ؑکی زندگی میں اخلاقی اوصاف حمیدہ میں سے، سخاوت اور جود وکرم کا عنصر ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ اخلاقی اصولوں میں سے ایک چیز جو معصومین علیھم السلام کی حیات مبارکہ میں بڑی کثرت سے نظر آتی ہے۔ انکی سخاوت اور جود وبخشش ہے۔ اپنی زندگی میں ان کا ہاتھ بڑا کھلا تھا اور وہ بیواؤں اور ضرورتمندوں اور محتاجوں کی دل کھول کر امداد کرتے اور اپنی اسی کرم نوازی سے انہوں نے بہت سے لوگوں کی زندگی کو سرو سامان بخشا۔
انہی بزرگان دین اور الٰہی انسانوں کی ایک بہترین روش اور سنت حسنہ ، ان کی عملی زندگی میں بہترین امور کی انجام دہی ر ہی ہے۔ انہی امور میں سے ایک “وقف” بھی ہے جو ان کے جود وسخا کے اظہار کا نمایاں ترین باب ہے۔ رہبران الہٰی اپنے پیروکاروں کی زبانی تبلیغ کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں خود بھی ایسے اچھے امور کو انجام دینے میں بھی خود سب سے آگے ہوتے تھے ۔ وقف بھی انہی بہترین کاموں میں سے ایک ہے ۔ لہذا وقف انجام دینے والا انسان معصومینؑ کی مکمل پیروی کرنے والا ہوگا۔
1: پیغمبر اسلامﷺکی سیرت میں وقف
پیغمبر گرامی اسلام ﷺ اور ائمہ ھدیٰ ؑ کے فرامین جہاں وقف کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں وہاں آپﷺ اور دیگر معصومین ؑکی عملی زندگی بھی ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے ۔تاریخی حقائق کے مطابق آپﷺ نے متعدد موقوفات چھوڑے ہیں جو کہ ” صدقات رسول ” کے نام سے تاریخ میں مشہور ہے۔ان میں سے چند یہ ہیں:
1. آپ (ص) نے اپنی زمین کا ایک بڑا حصہ مسافرین کے لئے صدقہ اور وقف قرار دے دیا۔
2. “قبا” میں آپ(ص) نے “بویرہ” نامی ایک پورے نخلستان کو نادار اور بے سہارا لوگوں کے لئے وقف کیا۔
3. منقول ہے کہ سرزمین خیبر میں آپﷺ کے کچھ موقوفات تھے جن کی آمدنی سے آپﷺ مہمانوں کی تواضع فرمایا کرتے تھے۔اس کے علاوہ بھی شیعہ و سنی تاریخی کتابوں میں حضرت رسول خداﷺ کےموقوفات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔
2: سيرت امام عليؑ میں وقف
سیرت امام علیؑ بھی سیرت رسولﷺ کی مانند تمام بشریت کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے آپؑ کی عملی زندگی میں بھی وقف کی اہمیت واضح نظر آتی ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق آپؑ نے بہت سے موقوفات راہِ خدا میں وقف کئے ۔ باوجودیکہ آپؑ خود نانِ جو پر گزارہ کرتے تھے۔اس کے چند نمونے یہاں ذکر کرتے ہیں۔
1: ایک مقام پر آپؑ نے فرمایا: اگر میرے موقوفات کو بنی ہاشم میں تقسیم کیا جائے تو سب کے لئے کافی ہونگے، یہ ان حالات میں ہے کہ جب آپؑ فرماتے تھے میں پیغمبر خداﷺ کے ساتھ بھوک مٹانے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھا کرتاتھا، حالآنکہ میں سالانہ چالیس ہزار دینار صدقہ(وقف) اللہ کی راہ میں دیتا تھا۔ ابن اثیر کہتا ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد امامؑ کے موقوفات ہیں۔
2: امام علیؑ نے اپنی زندگی میں”ینبع”، “سویقہ”(مدینہ کے نزدیک آل علیؑ کی سکونت کی جگہ) اور مدینے میں ایسے بہت سے کنویں اور پانی کے چشمے تیار کئے جس سے غیر آباد زمینیں آباد کرکے ان تمام زمینوں کو اپنی ملکیت سے خارج کر کے مسلمانوں میں بطور صدقہ وقف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپؑ کی شہادت کے وقت آپؑ کے پاس کچھ بھی باقی نہ تھا۔
3:ایک مرتبہ آنحضرتؑ نے “ینبع” کے مقام پر سو چشمے کھودے اور اس کو خانہ خدا کی زیارت پر آنے والے حاجیوں کے لئے وقف کردیا۔ اسی طرح آپ نےبصرہ و کوفہ کے مختلف مقامات پر زمینیں آباد کرکے لوگوں میں تقسیم اور راہ خدا میں وقف کرتے تھے۔
3:سیرت عملی حضرت فاطمہ زہراؑ میں وقف
معصومین ؑ مالی توانائی کے حساب سے اپنے مال سے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے وقف کرتے تھے۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کی حیات طیبہ میں بھی اپنے والد بزرگوار اور ہمسر حضرت علیؑ کے مانند جود وسخا کا اخلاقی پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
1: جیسے کہ ابوبصیر امام جعفرصادق ؑ سے روایت کرتے ہیں کہ امام ؑ نے فرمایا: اے ابو بصیر! کیا میں تمہیں حضرت زہراؑ کی وقف سے مربوط وصیت پڑھ کر سناؤں؟ راوی نے کہا کیوں نہیں اے فرزند رسولﷺ! اس وقت امامؑ نے ایک تحریر نکالی ، اس میں لکھا تھا: اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے، یہ وصیت نامہ فاطمہ بنت محمدﷺ کی طرف سے ہے ان سات باغات کے بارے میں جو سرزمین خیبر میں ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:عواف، دلال برقہ، مبیت، حسنی، صافیہ اور مال ام ابراہیم، ان باغات کے بارے میں، میں علی بن ابی طالبؑ کو وصیت کرتی ہوں کہ آپؑ اپنے بعد اسے اپنے فرزند حسن بن علیؑ اور آپؑ اپنے بعد اپنے بھائی حسینؑ کو اور آپؑ کے بعد اپنے بیٹے زین العابدینؑ کو دیں، اسی طرح یہ سلسلہ آخر تک جاری رہے۔
2: اسی طرح حضرت زہرا ؑ نے ازواج رسول خداﷺ میں سے ہر ایک کے لئے بارہ “اوقیہ”(ہر اوقیہ کی قیمت چالیس درہم کے برابر ہے) وقف کیا اور اسی مقدار میں بنی ہاشم کی تمام خواتین کے لئے مالِ وقف دینے کی وصیت فرمائی اور حضرت علیؑ کو ان موقوفات کا سرپرست قرار دئے۔
دوسرے معصومین ؑ کی سیرت میں وقف کی اہمیت
ائمہ معصومین میں سے ہر امام اپنے اموال سے اللہ کی خوشنودی کی خاطر بے سہارا اور نیازمند لوگوں میں انفاق کرتے تھے۔
1:حضرت ؐامام حسن مجتبیٰ ؑ اور امام حسینؑ کی سیرت عملی میں وقف
تاریخی شواہد کی بنیاد پر ابھی بھی امام حسن مجتبیٰؑ کی طرف سے وقف شدہ باغ بنام “صبا” و “مرجان” مدینہ میں موجود ہیں۔(وقف در اسلام، ص5) شیخ بہائی اپنے والد بزرگوار سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسینؑ نے بھی اپنی ملکیتی زمین اور دیگر اموال سے وقف کیا یہاں تک کہ اپنی قبر مبارک کی اطراف کو بھی نینوا اورغاضریہ کے قبیلے سے ساٹھ ہزار درہم میں خرید کر اس شرط پر کہ وہ لوگ آپؑ کی قبر مطہر پر زیارت کے لئے آنے والے زائرین کی راہنمائی اور ان کی تین دن تک مہمانی کریں، ان کے لئے وقف کردیا۔
2: امام صادقؑ اور امام موسیٰ کاظم ؑ کی سیرت عملی اور وقف
امام صادق ؑ کے بھی موقوفات کا تذکرہ ملتا ہے جیسے کہ مذکورہ بالا سطور میں بیان ہوا۔
امام موسیٰ کاظمؑ کے موقوفات کا تذکرہ بھی ملتا ہے ، جیسا کہ آپؑ سے منسوب ایک وقف نامہ میں یوں تحریر ہے: یہ (اموال) موسیٰ بن جعفرکی طرف سے وقف شدہ ہے۔ اس میں آپؑ نے زمین کی چار دیوای مشخص کی۔کلی طور پر کھجور کے درخت، پانی کی نہریں، چکی، آباد و غیر آباد زمینیں امام ؑ کی طرف سے اپنی اولاد اور دوسرے ضرورتمندوں کے لئے وقف کر دئے۔
منابع و مآخذ:
:1قرآن مجید
۲:المبسوط
۳: تفسیر المیزان
۴: تفسیر نمونہ
۵:تفسیر ابن کثیر
۷:کتاب جواہر
۸:وسائل الشیعہ
۹:الکافی
۱۰:توضیح المسائل امام خمینی (رح)
۱۱: کتاب وقف در اسلام
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید