تازہ ترین

پاکستان کا ایک بریگیڈ فوج سعودی عرب بھجوانے کا فیصلہ غیر متوقع پیشرفت

حکومتِ پاکستان نے ایک بریگیڈ فوج سعودی عرب بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک بہت بڑی اور غیر متوقع پیش رفت ہے ۔ خاموشی سے ہونے والی بات چیت کے بعد اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر ایک تجویز ریاض سے موصول ہو گئی ہے ۔ وزیرِ اعظم سے تبادلہ خیال کے بعد عسکری […]

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1895

حکومتِ پاکستان نے ایک بریگیڈ فوج سعودی عرب بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک بہت بڑی اور غیر متوقع پیش رفت ہے ۔ خاموشی سے ہونے والی بات چیت کے بعد اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر ایک تجویز ریاض سے موصول ہو گئی ہے ۔ وزیرِ اعظم سے تبادلہ خیال کے بعد عسکری قیادت نے آمادگی کا اظہار کر دیا ہے ، اگرچہ ابتدا میں اس کے کچھ تحفظات تھے ۔ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ سعودی عرب میں مملکت کی ذمہ دار شخصیات نے ان سے بھی بات چیت کی تھی۔ فیصلہ یہ ہے کہ پاک فوج کسی جارحانہ عمل کا حصہ نہیں بنے گی ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ وہ سعودی عرب کی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے گی ، تاہم بہت سی تفصیلات طے ہونا ابھی باقی ہیں ۔ اہم ترین یہ ہے کہ یہ فوج کس طرح اور کس کے احکامات پر بروئے کار آئے گی ۔ اس سلسلے میں ایک متفقہ ضابطہ کار طے کرنے کے لیے غور و فکر اور مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے ۔ حکومتِ پاکستان اور عسکری قیادت کے سامنے نیٹو کا ماڈل موجود ہے جس میں فیصلے اتفاقِ رائے سے صادر ہوتے ہیں ۔ یہ بھی طے پا گیا ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سعودی عرب چلے جائیں گے جہاں وہ مشترکہ اسلامی فوج کی قیادت کریں گے ۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ اپنی ذمہ داریاں کس طرح وہ نبھائیں گے اور کس سے احکامات وصول کریں گے ۔ سعودی عرب روانہ کرنے پر پاک فوج میں بعض سطحوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور کچھ تحفظات اب بھی موجود ہیں ۔ احساس یہ ہے کہ سالِ گزشتہ اس معاملے کو ڈھنگ سے نہ نمٹایا گیا جب عرب دشمن اخبار نویسوں ، دانشوروں اور سیاستدانوں کے زیرِ اثر معاملہ پارلیمنٹ میں لے جا کر غیر جانبداری کا ڈھول بجایا گیا ۔ اب جب کہ یہ فیصلہ بظاہر تعجیل سے کیا گیا ہے ضوابطِ کار مرتب کرنا باقی ہیں ۔ مملکتِ سعودی عرب کو کئی طرح کے چیلنج درپیش ہیں ۔ دولتِ اسلامیہ کی دہشتگردی کا عفریت سامنے ہے ۔ اس کے علاوہ بحرین، کویت اور خود مملکت میں فرقہ وارانہ مسائل کے ہنگام یمن سے کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے اور ایران سے بھی ، شاہی خاندان میں اختلافات ہیں ۔ گزشتہ ایک دہائی کے اندر مصر ، لیبیا ، عراق اور یمن سمیت خطے کے اکثر ممالک میں حکومتیں گرا دی گئیں یا وہ خانہ جنگی کا شکار ہوئے ۔ یہی وجہ تھی کہ سعودیوں نے عراق اور یمن کے ساتھ منسلک علاقوں سمیت اپنی 6500 کلومیٹر طویل تمام سرحدوں پر باڑ بنانے کا ایک منصوبہ تیار کیا ۔ عراق کے ساتھ اس کی 814 کلومیٹر طویل باڑ کے لیے بعض اوقات عظیم دیوار،Great Wall of Saudi Arabia کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو خاص طور پر دولتِ اسلامیہ کو روکنے کے لیے تعمیر کی گئی ۔ شام کے ساتھ سعودی تعلقات ناخوشگوار ہیں ، جہاں روس اور ایران کی مدد سے بشار الاسد کی پوزیشن اب قدرے مضبوط ہے ۔ اگرچہ بحران کا خاتمہ نہیں ہو سکا ۔ سرما ئے کے فیاضانہ استعمال سے عشروں سعودی عرب عالمِ اسلام بالخصوص عرب ممالک میں رسوخ بڑھانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا رہا ۔ فروری 1979ء میں ایران کے اسلامی انقلاب بالخصوص ایران عراق جنگ کے بعد ایرانی حکومت بھی اپنے انقلابی رجحانات پھیلانے کی سعی میں رہی ہے ، ایک لگن کے ساتھ ۔ سعودیوں کے برعکس ایرانیوں نے مسلکی تعلق اور اسلامی انقلاب کے نعرے کو استعمال کرنے کی کوشش کی ، خاص طور پر عراق ، یمن ، بحرین اور کویت میں جہاں فرقہ وارانہ اختلافات موجود ہیں ۔ اقلیتی اثنا عشری مکتبِ فکر کو جہاں غالب اکثریت کے حکمرانوں سے شکایت رہی ہے ۔ امریکہ سے تصادم کے عشروں میں بھی عراق کی حدتک ایران اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا اور یمن میں بھی ۔ عربوں کے مقابلے میں ایرانی بہتر منصوبہ ساز ہیں ۔ بعض مبصرین اب بھی باور کرتے ہیں کہ ایرانی بالاخر امریکہ کو رام کرنے میں کامیا ب ہو جائیں گے ۔ یمن کے حوثی قبائل اگرچہ فکری طور پر مکمل طور پر تہران سے ہم آہنگ نہیں مگر وہ سعودی اثرات اور غلبے کی خواہش سے نبرد آزما رہے ہیں ۔ بتدریج عالمی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ایران کیا کرے گا ، اس کے بارے میں قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہیں ۔ پاکستان ایسے ممالک نے عرب ایران کشمکش کی قیمت ادا کی ، تاریخ میں جس کی جڑیں بہت گہری ہیں اس کا بڑا سبب اگرچہ یہ ہے کہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر نہیں اور صورتِ حال کا بروقت موزوں تجزیہ نہ کیا جا سکا ۔ عرب ممالک اگر ایک طرح کے انتہا پسندوں کی مالی مدد کرتے رہے تو ان کے حریف ردّ عمل میں بروئے کار آنے والے دوسروں کی ۔ عربوں نے سرمائے کی ریل پیل سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہا تو ان کے مخالفین نے مسلکی تعلق سے ۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ کراچی کے بعض تخریب کاروں نے سرحد پار تربیت حاصل کی ۔ فرقہ وارانہ سرشت کے یہ لوگ لسانی گروپوں میں شامل ہو گئے اور اس قتل و غارت کا حصہ بنے ۔ ایک مکمل منصوبے کے تحت پاکستان کو تخریب کاری کا میدان بنانے والی بھارتی خفیہ ایجنسی ‘‘را’’ صرف افغانستان ہی میں سرگرم نہیں تھی ، ایک اندازے کے مطابق جو افغانستان میں اس ‘‘کارِ خیر ’’کے لیے 500 ملین ڈالر سالانہ صرف کرتی ہے ۔ ایران سے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری اس کا ایک مظہر ہے ۔ افغانستان کی طرح ایران میں بھی بھارتی قونصل خانوں کا ایک جال بچھا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ فقط ویزے جاری کرنے کے لیے ہرگز نہیں ۔ بہترین وقتوں میں بھی اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان کوئی جامع منصوبہ نہ بنا سکی ۔ سول اور فوج کی باہمی کشمکش ، دہشتگردی کا طوفان اور اعلیٰ سطح پر مشاورت کا فقدان جس کے بنیادی عوامل تھے ۔ کاروباری معاملات میں حکمرانوں کی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیت بھی کہ قومی مفادات نظر انداز ہوتے رہے ۔ ایٹمی پاکستان کے لیے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ دوسرے اسلامی ممالک سے مل کر ایران عرب مصالحت کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کرتا ۔ اس لیے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک امن ہی کے خواہاں ہوتے ۔ سالہا سال کی ریاضت درکار ہوتی لیکن کبھی اس کا آغاز ہی نہ ہو سکا ۔ اس وقت جب ملک اپنے اندر دہشتگردوں سے نمٹ رہاہے اور ایک طرح سے حالتِ جنگ میں ہے ۔ اس کی ضرورت یہ ہے کہ خود اپنے پڑوسیوں سے معاملات طے کرے ، دور دراز کی سرزمینوں میں اپنے حلیفوں کی اعانت میں حد درجہ احتیاط ہی غالبا بہترین طریق ہو گا ۔ اس سلسلے میں کچھ ابتدائی کوششیں تو ہوئی ہیں ، مثلاً وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف ایران گئے ۔ اس کے بعد تنقید کا لب و لہجہ بدل گیا ہے ۔ عمومی طور پر تہران نے خاموشی اختیار کیے رکھی ، تاہم اس کے تحفظات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ۔عرب ایران کشمکش ایک مستقل حقیقت ہے ، دونوں میں قومی افتخار کا جذبہ بھی ۔ رسولِ اکرمؐ کے ارشاد کو دونوں نے بھلا رکھا ہے کہ عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ۔ سعودی عرب میں پاکستانی افواج کو بنیادی طور پر تربیت کی ذمہ داری سونپی جائے گی جو ایک عرصے سے وہ انجام دے رہی ہے ، اگرچہ اب اس میں وسعت آجائے گی ۔ مملکت کا عسکری ڈھانچہ دوسرے ملکوں سے یکسر مختلف ہے ۔ شاہی خاندان کے محافظوں کی ایک فوج ہے ، جس کے انتخاب میں قبائلی وفاداری کو ملحوظ رکھا جاتاہے ۔ باقاعدہ فوج کے علاوہ فوجی ملیشیا ہیں ، گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں جن کی حالت قدرے بہتر ہوئی ہے ۔ امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک سے خریدا جانے والا کھربوں ڈالر کا اسلحہ پڑا ہے ۔ اس کی دیکھ بھال اور اسے بہترین حالت میں رکھنے کے انتظامات ناکافی ہیں ۔ ایک ممتاز سبکدوش پاکستانی جنرل نے کہا اسلحہ اور گولہ بارود تب کارگر ہوتا ہے جب وہ آپ کی گرفت میں ہو ، وگرنہ بوجھ بن جاتا ہے ۔ 2014ء میں سعودی عرب دنیا میں اسلحہ درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا تھا۔ اس سے قبل یہ اعزاز بھارت کو حاصل تھا۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر دسواں ہے ۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے صورتِ حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ۔ قابلِ ذکر تعدا دمیں اپنے افسروں کو امریکہ ، مصر، برطانیہ اور پاکستان میں تربیت کے عمل سے گزارا ہے ۔ سب سے زیادہ پاکستان ہی انہیں سازگار ہے ، امریکہ اور برطانیہ کی طرح جو انٹیلی جنس نیٹ ورک نہیں بناتے ۔ ان کی قومی زندگی پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش نہیں کرتے ۔ معاملات کو اپنے فرائض تک محدود رکھتے ہیں اور پیچیدگیاں پیدا نہیں کرتے ۔ سعودی عرب کے حکمران مصر سے بھی کچھ ایسے خوش نہیں ۔ ‘‘وہ عرب ہیں اور بعض چیزوں میں غیر ضروری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں ’’ ایک اعلیٰ ذریعے نے کہا 1970ء کے عشرے میں جب اسرائیلی خطرہ بہت بڑھ گیا تھا ، وزیرِ اعظم بھٹو کی حکومت میں پاکستان نے شام کی مدد کی تھی ۔ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد جب صدارت کے عہدے پر فائز تھے ، بھٹو نے اپنے انتخابی حریف جنرل سرفراز کو سفیر بنا کر دمشق میں بھیجا تھا۔ مرحوم جنرل کو 1965ء کے کارنامے کی بنا پر ‘‘محافظِ لاہور’’ کہا جاتا تھا ۔ اس طرح جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں پاک فوج کے دو بریگیڈ سعودی عرب بھجوائے گئے تھے ۔ سعودی مملکت کو بھی اسرائیل ہی سے خطرہ تھا۔ ایک طویل عرصے تک سعودی شاہی خاندان کے علاوہ کئی عرب ملکوں میں پاک فوج حکمرانوں کی حفاظت اور مدد کا بوجھ اٹھائے رہی ۔ پھر ناتجربہ کار لیڈروں کے جلو میں جمہوریت کے اس عہد کا آغاز ہوا ، جب دیرپا منصوبہ بندی اور ملک کے طویل المیعاد دفاعی مفادات نظر انداز ہونے لگے ۔ لوٹ مار کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ۔ پاکستانی معیشت کمزور سے کمزور تر اور بھارتی معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو تی گئی ۔ سول فوجی کشمکش بڑھ گئی اور تمام تر توانائی باہمی تصادم پہ صرف ہونے لگی ۔ پاکستان کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں مفاہمت بڑھانے کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بروئے کار آئے ۔ اپنے اور دوست ممالک کے دیر پا مفادات کو ملحوظ رکھے ، جس میں عوامی امنگوں کا احترام لازم ہوتاہے ۔ اس مقصد کے لیے ٹھنڈے دل سے منصوبہ بندی اور قومی معیشت کا استحکام ضروری ہے ۔افراد ہوں یا اقوام، ہاتھ پھیلانے والے مجبور لوگ قائدانہ کردار ادا نہیں کیا کرتے ۔ عربوں نے ہماری مدد ضرور کی ہے مگر اس سے زیادہ مسائل کو جنم دیا ہے ۔ سلیقہ مندی سے انہیں اس کا احساس دلانا چاہئیے ۔ بروقت اٹھایا گیا ایک قدم مستقبل کی طویل مسافت سے محفوظ کر دیتاہے ۔ اس طرح کی بے بسی اور تعجیل کا مظاہرہ نہ کرنا چا ہئے ، جو جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے موقع پر کیا تھا۔ زیادہ نہ سہی ، ضرورت مند سے پورا صلہ تو ضرور طلب کرنا چا ہئے ۔ تاریخ کا سبق یہی ہے اور قانونِ فطرت بھی ۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *