پیغمبراکرم(صلی الله علیه وآله وسلم)کی زندگی کے14اهم ترین راهنمااصول قرآن کی روشنی میں
معاشرے میں تبدیلی لانا هر ایک شخص کی تمنا هے لهذا یه خیال رهےکه هر تبدیلی اچھی نهیں هوتی بلکه وهی تبدیلی اچھی هے جو مثبت هو اور معاشرےکی فکری،علمی،اجتماعی،شعوری ارتقاء اورتکامل اور ترقی کا ضامن بنے.یقینا ایسی تبدیلی کےلئےکچھ اصول وضوابط هونی چاهئے.قرآن مجید ایسی تبدیلی کا منبع و مرکز هے اور قرآن اترنےکا اصلی سبب هی معاشرتی اور ثقافتی انقلاب و تبدیلی هے:« الر كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ»(ابراهیم،1). قرآن کا نزول معاشرتی تبدیلی هے یهی سبب تھا که 23سال کےمختصر مدت میں جو تبدیلی آئی اور اس کی ابتداءمکه سےهوئی اور پھر پوری دنیا کو اپنی لپیت میں لی،اس تبدیلی کااصل هدف لوگوں کو طاغوتی اور غیرالهی نظامو ں اور حاکموں سےنجات دلانا اور ایک الهی نظام اور حاکم کا تعارف تھا تاکه معاشره الهی بن جائے اور اس کا ارتقائی عمل بدستورجاری رهے. رحمه للعالمین حضرت محمد مصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم) کے توسط سے جس تبدیلی کا آغاز مکه سےشروع هوئی اس نے جهانی شکل اختیار کی اور اس تبدیلی کے نتیجےمیں ایک جاویدانه اور مضبوط نظام ،«اسلام »کی شکل میں اب موجود هےاور اب دیکھنا یه هےکه کیوں اور کیسے14سو سال سےیه نظام قائم هے؟اس کی اصلی وجه کیا هوسکتی هے؟یهاں اسی راز سےپرده اٹھایا گیا هے.
ذات گرامی پیغمبراکرم،رحمه للعالمین حضرت محمد مصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم)، جو اخلاق کا مجسمه اور خلق عظیم کا مالک اور انسانیت کا معلم اول هیں. آپ(صلی الله علیه وآله وسلم)کی شخصیت ،ذات ،نظریات اور اوصاف کو سمجھنے کے لئے سب سے زیاده معتبر منبع ،خود قرآن کریم هے.قرآن مجید میں آپ(صلی الله علیه وآله وسلم)کی بهت ساری خصوصیات کا بیان اور تذکره هے. لیکن اس مختصر تحریر میں بعض ایسی خصوصیات اور اوصاف کو بیان کرنا مقصود هے جنهیں تمام انسانوںمیں موجود هونا ضروری هے .خاص کر وه حضرات جو معاشرے میں رهبریت اور قیادت کا ادعا کرتےهیں ان اوصاف کا انهیں حامل هونا لازمی امر هوگا کیونکه پیغمبر(صلی الله علیه وآله وسلم)هی کی زندگی بهترین نمونه عمل اور طرز زندگی هے:« لَقَد كانَ لَكُم في رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ»(سوره احزاب،آیت21)؛یقینا تمهارے لئے رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم)کی زندگی میں بهترین اسوه هے.زندگی کےجس پهلو میں آپ چاهیےاس پهلو میں سیرت پیغمبر(صلی الله علیه وآله وسلم)ملےگی.
پیغمبراکرم حضرت محمد(صلی الله علیه و آله وسلم)کی بعض اجتماعی اور اخلاقی خصوصیات اور معاشرتی اهم اصول، سوره آل عمران،آیت159میں یوں بیان ہورہاہے:«فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِين»؛ بس اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا، اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر، پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
مبلغان دین کو چائیے که وه اس آیت کو سرلوحه زندگی قرار دیں اور جو اصول و اجتماعی ضوابط اس آیت میں بیان هوئے هیں ان پر عمل پیرا هوجائیں.
اس آیت میں اللہ تعالی اپنےنبی (صلی الله علیه وآله وسلم)سےخطاب کرتےہوئے ان کی بعض اهم خصوصیات اور معاشرے میں آپ (صلی الله علیه وآله وسلم)کی کامیابی کےرازوں سےپردہ اٹھایاہے اور بعض معاشرتی راهنما اصولوں کی طرف اشاره کیا هے من جمله:
پہلا اصول:مهربان هونا؛
مهربانی ایک انتهائی اهم صفت هےجو حیوان تک کو انسان کا دوست بناتی هے اور انسان کی مقبولیت اور محبوبیت میں اضافه کردےگی.رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم) کی ذاتی خصوصیت اور معاشرےمیں ان کی کامیابی کا ایک اہم ترین راز،آپ کا مهربان اور شفیق هونا ہے۔آیت کےاس حصے«فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ» سے یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کا پورا وجود سرچشمه رحمت ہیں پس جو شخص مسلمانیت کا دعوی کرتا هےاسےاس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے،جیسا که سوره مبارکه فتح کی آیت نمبر29« وَ الَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُم»،بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں.رحمت یه غضب کی ضد ہےجہاں رحمت ہوگی وہاں غضب نہیں ہوگا اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا پورا وجود هی رحمت ہے«وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعالَمِين»(انبیاء/107)۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگرصرف عالمین کے لیے رحمت بنا کر۔لہذا معاشرےمیں ہمیں رحمت کا مصداق بننا ضروری ہے۔خاص کر جو لوگ معاشرےمیں دوسروں کی قیادت کا دعوی کرتے هیں ان کے لئےدوسروں کے ساتھ مهربانی سے پیش آنا ضروری هے تاکه معاشره اس اهم صفت سے متصف هو.
اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر، حاکم اور سیاسی شخصیتوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مہربانی اور نرمی سے پیش آئیں۔ رہبروں اور لیڈروں کے لیے تندمزاجی اور خشونت سے برتاؤ مشکلات کا سبب بن جاتا ہے۔ لہذا قرآن کریم نے رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم)کو مہربانی وعطوفت کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا .
قرآن کریم کاجیسا ارشاد ہے:« لَقَدْ جَاءکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤُوفٌ رَّحِیمٌ »(توبه،128)؛بیشک تمہاری جانب، تم ہی میں سے ایک رسول آیا کہ جس پر تمہاری تکلیفیں سخت ہیں اوروہ تمہاری ہدایت کے لیے مصر وف ہے اور مؤمنین کے ساتھ بہت رؤف ومہربان ہے۔
اس آیت میں«منکم»کی جگہ پر«من انفسکم » آیاہے کہ جو اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه وآله وسلم) لوگوں کےساتھ بہت زیادہ پیار اورمحبت سے پیش آتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ سب لوگوں کی تمام تکالیف سے واقف اور ان کی مشکلات سے باخبر رہتے اور اس کے رنج و غم میں شریک رہتے تھے۔
ایک اور آیت میں رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم) کی محبت اور شفقت کی تصویر کشی کی گئی ہے : «و اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ إِنىّ ِ بَرِى ءٌ مِّمَّا تَعْمَلُون»(شعراء،215-216)؛ جو مؤمنین آپ کی پیروی کرتے ہیں ان کے لیے رحمت و رافت کے بال و پر بچھاؤ اور اگر آپ کی مخالفت کریں تو ان سے کہدو کہ میں تمہارے اعمال و کردار سے بیزار ہوں۔جس طرح پرندے اپنے بچوں کے ساتھ جب محبت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے لیے اپنے پر وبال کھول کر ان کو بال و پر کے اندر کرلیتے ہیں تاکہ وہ ہر طرح کے حوادث سے محفوظ رہیں اور بکھرنے و بچھڑنے سے بچے رہیں،دشمن کی شر سے محفوظ رہیں ، اسی طرح رسول الله( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بھی اس آیت کے پیش نظر مامور تھے کہ مؤمنین کے لیے اپنی رحمت اور شفقت کے بال و پر بچھائے اور ان کو تفرقہ میں پڑنے اور انتشارسےمحفوظ رکھیں۔
دوسرا اصول:نرم مزاج هونا؛
پیغمبر(صلی الله علیه وآله وسلم) کی ذاتی خصوصیت اور معاشرےمیں ان کی کامیابی کا دوسرا اہم راز،آپ کا نرم مزاج هونا ہے۔آیت کےاس حصے«فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ» سے یہ سمجھ آتا ہےکه نرم مزاجی کا تعلق،الله کی رحمت سےبراہ راست ہے، آپ لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور یہ اللہ کی رحمت ہی کانتیجہ ہے۔اس آیت میں خطاب مستقیم رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم)سےہےکہ آپ اے پیغمبر!نرم مزاج ہیں اور یہی آپ کی کامیابی کا سبب ہے۔نرم مزاج انسان لوگوں کے دلوں میں بسته هے. لهذا اسلامی معاشره نرم مزاجی کا عکاس هونا چاهیے.
تیسرا اصول:تند مزاج نه هونا؛
پیغمبراکرم(صلی الله علیه وآله وسلم) کی ذاتی خصوصیت اور معاشرےمیں ان کی کامیابی کا تیسرا اہم راز،آپ کا تندمزاج نه هونا ہے۔اس آیت « وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ »سے یہ سمجھ آتا ہےکه تند مزاجی ایک انتهائی بری صفت ہے جو رہبر کو لوگوں سے دور کردیتی ہے۔اگر لوگ پیغمبر(صلی الله علیه وآله وسلم)کےفرمان پر جان قربان کرتےہیں تو اس کی بنیادی وجہ ہی نبی کا تندمزاج نہ ہونا اور قوت برداشت ہے۔
چوتھا اصول:قسی القلب نه هونا؛
پیغمبر(صلی الله علیه وآله وسلم) کی ذاتی خصوصیت اور معاشرےمیں ان کی کامیابی کا چوتھا اہم راز،آپ کا قسی القلب نه هونا ہے۔آیت کےاس حصے« وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ» سے یہ سمجھ آتا ہےکه یہ صفت بھی رہبری میں نہیں ہونی چاہیے۔ قسی القلب انسان سےکچھ بھی ہوسکتاہے ہر قسم کا ظلم اس سےصادر ہوسکتاہے۔سخت مزاج انسان نه فقط معاشره میں لوگوں کی قیادت نهیں کرسکتابلکه دین گریزی کا بھی ایک اهم سبب بن جاتاهے.لوگ اسےدیکھ کر دین سےهی بھاگ جاتے هیں.
پانچواں اصول:معاف کرنا؛
روایتوں میں درگذر کی بهت فضیلت آئی هے که جو اپنے مخالف سے انتقام لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود اسے معاف کردیں. امام على (عليه السلام) فرماتےهیں:« العَفوُ مَعَ القُدرَةِ جُنَّةٌ مِن عَذابِ اللّه ِ سُبحانَهُ »(غرر الحكم : ۷۷۳)؛انتقام کی قدرت کے باوجود معاف کرنا عذاب خدا سبحان سے بچنے کےلئے ایک سپر اور ڈھال هے.
جس شخص میں یه صفت موجود هو اس کا چاهنے والوں کی بھی کثرت هوگی اور وه معاشره میں محبوب هوگا.قرآن ایسے شخص کو محسن کهکر پکارتا هے:« الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ»(آل عمران/134).جب یه صفت ایک عام انسان کےلئےزیبنده هےتو ایک رهبر اور رهنماکےلئےزیبنده ترهوگا.شاید ایک وجه یه بھی هو که پیغمبر(صلی الله علیه وآله وسلم) کی ذاتی خصوصیت اور معاشرےمیں ان کی کامیابی کا پانچواں اہم راز،یهی صفت یعنی آپ کا مخالفین کو معاف کرناہے۔آیت کےاس حصے« فَاعْفُ عَنْهُمْ » سے یہ سمجھ آتا ہےکه دشمنوں اور مخالفوں سے انتقام لینےکےبجائےان کو معاف کرنا ہی اصل بہادری ہے۔آج ہمارا معاشره عدم برداشت اور انتقام کا معاشره ہےحتی کچھ لوگ تو اس حد تک افراط اور ہر حد کراس کرجاتےہیں کہ جرم کوئی اور کرتا ہےسزا کسی اور کو دیتےہیں۔کتنے لوگ تنھامجرم سےیا جس شخص کو یه لوگ پسند نهیں کرتےرشته داری کی وجه سےانتقام کا شکار هوتےہیں۔حالنکہ قرآن کریم اس بارے میں واضح ارشاد فرماتاہے:«لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى »(انعام/165)۔کسی کےگناہ کابوجھ کسی اور کےاوپر نہیں ہے۔ہر انسان اپنےکردار کا ذمہ دار ہے۔اسلامی قیادت کا دعوی کرنےوالوں کےپاس وسعت قلبی اور ظرفیت موجود هونی چاہئےجس کےنتیجہ میں وه دوسروں کو بخش دیتےهیں اور دوسروں کی غلطی کو معاف کرد یتےهیں ۔
چھٹا اصول:طلب بخشش و استغفار؛
حضرت محمد(صلی الله علیه وآله وسلم) کی ذاتی خصوصیت اور معاشرےمیں ان کی کامیابی کا چھٹا اہم راز،آپ کا مخالفین اور خطاءکاروں کےبارےمیں خدا سےاستغفار کرناہے۔آیت کےاس حصے«وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ» سے یہ سمجھ آتا ہےکه رهبرالهی خطاءکاروں کو نہ فقط معاف کرتا هے بلکه ان کےگناہوں کی مغفرت اور بخشش کی دعا بھی کرتےہیں۔اور یہ انسان کی نہایت اعلی ظرفی کی علامت ہے۔
ساتواں اصول:مشوره اور عقل جمعی سے استفادہ؛
مشوره ایک بهترین مددگار اور ناصرهے.اسلام مشوره پر کافی زور دیتا هے.مشوره در اصل دوسروں کی عقل اور تجربه میں شامل هونا هے،حضرت علی(علیه السلام)کافرمان هے:« مَن شاوَرَ ذَوِى العُقولِ استَضاءَ بِاَنوارِ العُقولِ»(غررالحکم،ص442)؛جو بھی صاحبان عقول سے مشوره کرے گا تو عقول کے نور سے روشنی لے گا.اسی طرح نهج البلاغه کلمات قصار میں آپ فرماتے هیں:« مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِهِ هَلَكَ وَ مَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا»؛جو اپنی رای میں مستقل هوا،هلاک هوا اور جو دوسرے صاحب نظر افراد سےمشورےکرے گاتو وه ان کے عقلوں میں شریک هوجائے گا.
حضرت محمد(صلی الله علیه وآله وسلم) کی ذاتی خصوصیت اور معاشرےمیں ان کی کامیابی کا ساتواں اہم راز، عقل جمعی سے استفادہ کرنا اور دوسروں کو اہمیت دینا اور مختلف امور میں اصحاب سےمشوره لینا بھی شامل ہے۔ آپ کا مخالفین اور خطاءکاروں کےبارےمیں تین بڑےفیصلےتھے۔پہلےمرحلےپرآپ خطاکاروں اوردشمنوں کومعاف فرماتے، دوسرےمرحلےمیں،ان کی مغفرت کےلئےخدا سےاستغفار کرتےاور تیسرےمرحلےپراہم اجتماعی ، معاشرتی اور انتظامی امور میں ان سےمشوره لیتے۔آیت کےاس حصے« وَ شاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ» سے یہ سمجھ آتا ہےکه رهبرالهی کو اهم معاملات میں دوسروں سےمشوره لیناچاهئےاور عقل جمعی سےفائده اٹھاناچاهئے۔البتہ خیانت کاراور دشمن کےایجنٹ قسم کےلوگ اس سےجدا ہیں۔تجربہ کار،مخلص،دیانتدار اور دیندار لوگوں سےاستفادہ ضروری هےاسےایک توباہمی اعتمادبڑےگادوسرا جوبھی فیصلہ ہو،وہ فردواحد کافیصلہ نہیں کہلائےگا۔
آٹھواں اصول: فیصلہ قیادت کا ؛
معاشرےمیں کسی رہبر کی کامیابی کا آٹھواں اہم راز، عقل جمعی سے استفادہ کرنےکےبعد،آخری فیصلہ خود ہی کرناہوتاہے۔اسی لئےقرآن ارشاد فرمارهاهے:« فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ»یعنی جب کسی کام کافیصله کرناہو،وہ فیصلہ خود رہبر کریں گے۔ہمارےمعاشرےمیں اکثر فیصلےحاکم کےبجائےمخفی ہاتھ کرتےہیں اس لئےان کانتیجہ بھی صحیح نہیں نکلتا۔
نواں اصول: اللہ پر بھروسہ؛
معاشرےمیں کسی الهی رہبر کی کامیابی کا نواں اہم راز، مذکوره بالا تمام امور کو انجام دینےکےبعد،اللہ پر بھروسہ اور توکل کرناہوتاہے۔ اسی لئےقرآن ارشاد فرمارهاهے:« فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ»یعنی جب کسی کام کاارادہ کرلو تو اللہ پربھروسہ کرنایہی کامیابی کا راز ہے۔ہمارےمعاشرےمیں توکل کاعام طور پر غلط مفهوم لیاجاتاہےجس کی وجه سےکبھی ناقابل جبران نقصان اٹھاناپڑتاہے۔یہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح اسلامی طریقےسےمعاشرےکی تربیت کریں۔
دسواں اصول: معاشرےکی تربیت حب الہی سے؛
اگر انسان کی زندگی میں توکل آجائےاس کانتیجہ محبت الہی کاحصول ہے:«إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِين»۔خود اللہ، بھروسہ کرنےوالوں سےمحبت کرتاہے۔مومن کی زندگی میں تین بندگی کےمراحل ہیں۔پہلا مرحلہ توکل ہےجو عام انبیاءکی زندگی میں اورسچےمومنین کی زندگی میں ہمیں دکھائی دیتاہے۔بندگی کا دوسرا مرحلہ تسلیم ہے۔جس پر ابراہیم جیسےنبی نظرآتےہیں:«إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ»(بقره،آیت131)۔آگ کے شعلون کے درمیان جبرائیل مدد کی پیشکش کرتا هے جواب دیتاهے:« فتَلقّاهُ جَبرئیلُ فی الهَواءِ فقالَ: هَل لَک مِن حاجَةٍ؟ فقالَ: أمّا إلَیک فَلا! حَسبی اللّهُ و نِعمَ الوَکیلُ… فقالَ جَبرئیلُ: فاسألِ اللّهَ، فقالَ: حَسبی مِن سُؤالی عِلمُهُ بِحالِی»( بحار الأنوار، ج ۷۱، ص ۱۵۵). بندگی کا تیسرا مرحلہ تفویض ہے:« وَ أُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبادِ»(سوره غافر/44)۔اس مرحلہ پر انسان اپنےسارےکام اللہ کےسپردکرتاہے،جیسا که امام حسین(علیه السلام) نے میدان کربلامیں یہی کیا اور بارگاہ الہی میں اپنی قربانی پیش کرکرتےہوئےفرمایا: «تركت الخلق طرا في هواك و أيتمت العيال لكي أراك فلو قطّعتني بالحبّ إربا لما مال الفؤاد إلى سواك»؛اےاللہ میں(حسین ابن علی)نےساری دنیا کوتیری وجہ سےاور تیری چاہت میں چھوڑدی ہے،میں اپنےسارےاہل وعیال کو تیری خاطریتیم کرچکاہوں،اگر تیری محبت میں یہ لوگ میرےجسم کےٹکڑےٹکڑےکردیں،تب بھی میرا دل تیرےسوا کسی اور کی طرف مائل نہیں ہوگا۔لهذا معاشرےکو توکل اور حب الهی سےآشنا کرنا ضروری هے تاکه معاشرتی تکامل اور ارتقاءکا سفر جاری و ساری رهے.
گیاروں اصول: عدم خیانت؛
عدم خیانت ا ور امانت داری، اجتماعی شخصیتوں کی ضروری خصوصیات میں سے ہے۔ جناب رسول اکرم(صلی الله علیه وآله وسلم)نہ صرف اپنی رسالت کے دوران بلکہ آپ مبعوث ہونے سے پہلے ہی سے امین اور صادق کے نام سے مشہور تھے یہاں تک کہ آپ کو لوگ«محمد امین»کے نام سے جانتے تھے ۔
قرآن کریم نے ابنیاء الہی (علیهم السلام)کے صفات بیان کرتے ہوئے آپ کو ہر دھوکے اور چالبازی سے دور بتایا ہے، لہذا ارشاد ہوتا ہے :«وماکانَ لِنَبِی أَنْ یغُلَّ و مَنْ یغْلُلْ یأْتِ بِماغَلَّ یوْمَ الْقِیامَةِ »(آل عمران،161)؛ ہرگز کوئی بھی نبی خیانت کار نہیں ہوسکتا اور جو بھی خیانت کرے گا قیامت کے دن، اس کو جو بھی خیانت کی ہے اس کی سزا پائے گا۔معاشره خیانت کرنے والو ں سےایک نه ایک دن ضرور انتقام لیتاهے.الله کا انتقام تو هےهی اپنی جگه.لهذا خیانت علمی،مالی،سیاسی،اجتماعی غرضیکه هر نوع خیانت سےانسان کو بچنا ضروری هےاور یه ایک اسلامی دستور هے.
باروں اصول: صبر؛
معاشرےمیں هر قسم کےلوگ هوتےهیں اور هزار قسم کی باتیں هوتی هیں اور اجتماعی امور میں اور بھی زیاده مشکلات هیں اس لئے ایک رهبر کو صبر کا دامن تھامےر هنا ضروری هے.الله تعالی پیغمبر رحمت (صلی الله علیه وآله وسلم)کو صبر کی تلقین فرماتے هیں: «فَاصْبِر لِحُکْمِ رَبِّکَ ولاتَکُنْ کَصاحِبِ الْحُوتِ»(قلم،48)؛پس اپنے پرودگار کے حکم کے سامنے صابر رہو اور مچھلی والے(حضرت یونس) کی طرح نہ رہو۔اسی طرح ایک اور جگه ارشاد ربی هے:« فَاصْبِر کَما صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ»(احقاف،35)؛پس صبر کرو جیسے کہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے.
تیرواں اصول :عدالت؛
عدالت کی اہمیت اسلام میں اس قدر زیاده ہے کہ نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی الله تعالی همین عدل کا حکم دیتاہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :« وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى»(مائده،8)؛کسی قوم سے دشمنی تم کو بے عدالتی و ناانصافی پر آمادہ نہ کرے، عدل و انصاف سے کام لو کہ یہ تقوی سے بہت زیادہ قریب ہے ۔
تمام رهبران الهی کی بعثت کا مقصد اور هدف اجتماعی عدالت کا قیام تھااسی لئے قرآن میں الله تعالی ارشاد فرماتا هے:«لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتابَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ»(حدید،25).
نبی مکرم حضرت محمد مصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم)کی خصوصیات میں ایک اهم خصوصیت، اقامه عدل هے: «وأمِرتُ لِأعْدِلَ بَینکُم»(شوری،15)؛ اور مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف سے کام لوں۔
چودھواں اصول:اخلاص عمل؛
معاشرے میں لوگ، اپنےرهبر کی زندگی اور اس کےکردار کو هی اپنے لئے نمونه عمل قرار دیتے هیں:« قُلْ إِنَّ صَلاتي وَ نُسُکي وَ مَحْيايَ وَ مَماتي لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمينَ لا شَريکَ لَهُ وَ بِذلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمينَ»(انعام163-162)؛ کہدیجیے: میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب یقینا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
پیغمبراکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)کی زندگی میں کوئی چیز ان کی اپنی نهیں تھی وه جو کچھ کرتے وه الله کیلئےکرتے،ان کی زندگی کا هر لمحه،هرسانس الله کےلئے تھی .بندگی هو یا امور دنیوی، سب زندگی کی حرکت و سکون الله کے نام وقف هوتا.آپ کی زندگی پر صرف ایک هی رنگ تھا اور وه تھا خدائی رنگ:« صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً »(بقره،138).
یهاں سے یه اصول ملتاهے که اپ کی کامیابی کا اصل راز هی آپ کا اخلاص عمل اور اخلاص نیت تھی یه اصل آج بھی همارے لئےمشعل راه هے که نیت اور عمل کو الله کے لئےخالص کرنا هوگااگر ایسا هوا تو همیں بھی بقاءهی بقاءمل جائے گی اور اسی طرح همارا هر کام کو بھی بقاءملے گی.آخر میں دعا کرتا هوں که الله تعالی همیں اپنے پیارے نبی حضرت محمد(صلی الله علیه وآله وسلم)کی شفاعت نصیب فرما.(آمین یارب العالمین).
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی
دیدگاهتان را بنویسید