پیغمبراکرم (ص) نے،حضرت زہراء (س) کو فدک ہدیہ کرتے وقت کیوں کسی کو گواہ نہ بنایا؟ کیا امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) نے فدک کے مسئلہ میں گواہی دی ہے؟
1۔ قرآن مجید میں سفارش کی گئی ہے کہ معاملہ یا ۔ ۔ ۔ کے وقت دو یاتین افراد کو گواہ رکھنا چاہئے اور تحریر لکھنی چاہئے، پیغمبر اکرم (ص) نے فدک کو ہدیہ کرنے کے وقت کیوں گواہ نہ رکھے اور تحریر نہ لکھی تاکہ حضرت زہراء (س) حکمیت کے سلسلہ میں صرف حضرت علی (ع)کو گواہ کے عنوا ن سے پیش کرنے پر مجبور نہ ہوتیں؟ 2۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اور کئی دوسرے افراد کو بھی گواہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اولاً: کیا یہ دو بزرگوار (حسنین) کی عمر اس وقت اس حد میں تھی کہ ان کی گواہی قابل قبول ہوتی؟ ثانیاً کیا یہ پانچ افراد، حضرت زہراء(ع) کو فدک ھدیہ کرتے وقت پیغمبر کے پاس موجود تھے اور اس قضیہ کا مشاہدہ کیا ہے؟ یعنی حضرت زہراء(ع) کو فدک ھدیہ کرنے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور پیغمبر اکرم (ص) سے سنا ہے؟
ایک مختصر
1۔ حضرت زہراء (ع) نے خلیفہ اول سے جدال کے دوران پہلے ھدیہ ہونے کے طریقہ سے اپنے مطالبہ کو بیان کیا اور ان کا پہلا دعوی بھی یہی تھا اور حتی کہ امام علی (ع) اور ام ایمن کو گواہ کے عنوان سے پیش کیا، لیکن جب دیکھا کہ وہ ھدیہ ہونے کو قبول نہیں کرتے ہیں، تو اپنے مطالبہ کو وراثت کے طریقہ سے ثابت کرنے پر مجبور ہوئیں۔
فدک کے ہدیہ ہونے کی صورت میں قابل ذکر ہے کہ ھدیہ کے سلسلہ میں کوئی گواہ نہیں رکھا جاتا ہے اور ھدیہ میں گواہ رکھنے کی رسم نہیں ہے ، تاکہ پیغمبر اکرم (ص) فدک کو ھدیہ کرتے وقت یہ کام انجام دیتے۔
2۔ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی شہادت کے بارے میں قابل بیان ہے کہ فدک کا مسئلہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں پیش آیا ہے اور امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اس وقت چھوٹے بچے تھے اور عدالت میں گواہی کے عنوان سے پیش نہیں ہوسکتے تھے، لہذا حدیث کی اکثر کتا بوں میں حضرت زہراء (ع) کے گواہوں کے عنوان سے حضرت علی (ع) اور ام ایمن کا نام لیا گیا ہے ۔ اور چونکہ ان دو بزرگواروں کے ایمان و صداقت میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے اس مسئلہ کو قطعاًپیغمبر اکرم (ص) سے سنا ہے اور فدک کے ہدیہ ہونے کے گواہ تھے۔
تفصیلی جوابات
1۔ فدک: خیبر کے نزدیک کئی آباد اور زرخیز گاؤں پر مشتمل ایک علاقہ ہے اور مدینہ سے 140 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ سنہ 7 ہجری میں ، خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے فتح کئے گئے اور یہودیوں کی مرکزی طاقت تہس نہس ہوئی۔ فدک کے باشندوں نے ہتھیار ڈال دئے اور انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے وعدہ کیا کہ اپنے باغات اور زمینوں کے نصف حصہ کو آنحضرت (ص) کو بخش دیں گے اور باقی نصف اپنے لئے رکھیں گے۔ اس کے علاوہ، کاشت کاری میں آنحضرت (ص) کے حصہ کی ذمہ داری بھی لے لی تاکہ اسی کے لئے کچھ اجرت حاصل کریں۔ یہ مطلب شیعوں اور اہل سنت کے مسلمات میں سے ہے، اس طرح کہ حتی کہ خلیفہ اول نے حضرت زہراء (ع) سے فدک لینے میں یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ یہ سر زمین پیغمبر اکرم (ص)کی نہیں ہے ، بلکہ صرف حضرت زہراء (ع) کی وراثت نہ ہونے کا مسئلہ پیش کرتے تھے کہ ہم اس پر آگے بحث کریں گے۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) پر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی:” اور دیکھو! قرابتداروں کو اور مسکین کو اور مسافر غربت زدہ کو اس کا حق دیدو اور خبر دار اسراف سے کام نہ لینا۔”[1]اس آیت کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت زہراء کو فدک دیدیا۔[2] حتی کہ اس سلسلہ میں اہل سنت کی روایتیں بھی بکثرت موجود ہیں جن سے یہ بخشش ثابت ہوتی ہے۔[3]اس داستان اور آیہ شریفہ سے واضح ہوتا ہے کہ ، فدک میراث کے عنوان سے حضرت زہراء (ع )کو نہیں ملا ہے، بلکہ پیغمبر اکرم (ص) نے ہدیہ کے طور پر حضرت زہراء (ع) کو دیا ہے۔
حضرت زہراء (ع) خلیفہ اول سے فدک کے بارے میں گفتگو کے دوران اپنے مطالبہ کو ھدیہ کے طریقہ سے بیان کرتی تھیں، اور جب اسے خلیفہ اول نے مسترد کیا تو حضرت زہراء (ع) نے ان کے مقابلے میں آکر وراثت کے ذریعہ فدک کو اپنی ملکیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ کہ اگر یہ زمین ھدیہ بھی نہ کی گئی ہوتی، پھ ربھی وراثت کے طور پر حضرت زہراء(ع) کو ملتی۔ اس کی وراثت ہونے کے سلسلہ میں بھی طرفین کے درمیان ایک گفتگو انجام پائی اور مخالفین صرف اس حدیث سے استناد کرتے تھے، جس کے خود ابو بکر نقل کرنے والے ہیں ( یعنی: نحن معاشر الانبیاء لا نورث[4]) حالانکہ حضرت زہراء (ع) نے قرآن مجید کی آیت سے ثابت کیا کہ انبیاء (ع) بھی دوسرے لوگوں کے مانند وراثت چھوڑتے ہیں۔
فدک کے ھدیہ ہونے کے بارے میں قابل ذکر ہے کہ، حدیہ کرنے میں کوئی گواہ نہیں رکھا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں گواہ رکھنا مرسوم نہیں ہے، تاکہ پیغمبر اکرم (ص) فدک کو ھدیہ کے طور پر دیتے وقت کسی کو گواہ رکھتے۔ بالفرض اگر پیغمبر اکرم (ص) نے ھدیہ دینے میں کسی کو گواہ بھی رکھا ہوتا تو ان گواہوں کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ بہت سے واقعات کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) نے بہت سے لوگوں کو گواہ رکھا تھا، لیکن لوگ آپ (ص) کے بعد خواستہ یا نا خواستہ اسے فراموژ کرتے تھے۔ ان واقعات میں سے سب سے اہم واقعہ غدیر کی داستان تھی، ہزاروں لوگوں نے اسے دیکھا تھا، لیکن بہت کم ایسے افراد تھے جو اس پر پابند رہے۔
اس کے علاوہ، فدک حضرت زہراء (ع) کے ہاتھ میں تھا اور فقہی اور قانونی قاعدہ”ید” کے مطابق یہ زمین ان کی ہے، مگر یہ کہ اس کے خلاف ثابت ہوجائے اور جو اس کے بارے میں اعتراض رکھتا ہو اسے گواہ پیش کرنا چاہئے۔ [5]اس بنا پر، خلیفہ اول کی عدالت میں حضرت زہراء (ع) سے گواہ طلب نہیں کرنے چاہئے تھے، اسی وجہ سے امیرالمومنین بھی اپنی ایک گفتگو میں خلیفہ اول کو یہ بات گوش زد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کے بارے حکم خدا کے خلاف فیصلہ سنایا گیا ہے۔[6]
2۔ فدک کے قضیہ میں، حضرت زہراء (ع) کے مخالفین یہ دعوی کرتے تھے کہ مدعی کو اپنے دعوی کے بارے میں فقہی اور قانونی قواعد کے مطابق دلیل پیش کرنی چاہئے اور حضرت زہراء(ع) کے لئے صرف قسم کھانا تھا۔[7]
لیکن امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے گواہ ہونے کے بارے میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ فدک کی داستان پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں واقع ہوئی ہے اور امام حسن (ع) و امام حسین (ع) ان دنوں چھوٹے بچے تھے، اگر چہ ان دو اماموں کی شہادت بچے ہونے کے باوجود ہمارے لئے قابل قبول ہے، لیکن یہ بات فطری تھی کہ مخالفین ان کی شہادت کو قبول نہ کریں ۔ لہذا حدیث کی اکثر کتابوں میں حضرت زہراء (ع) کے گواہوں کے عنوان سے امام علی (ع) اور ام ایمن کا نام لیا گیا ہے۔[8] اور چونکہ ان دو بزرگواروں کے ایمان اور صداقت میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے[9]، پس انہوں نے اس مسئلہ کو قطعاًپیغمبر اکرم (ص) سے سنا اور حضرت زہراء (س)کو ھدیہ دینے کے گواہ تھے۔ روایتوں میں بھی آیا ہے کہ خلیفہ اول نے ام ایمن سے اس موجوع کے مشاہدہ کرنے کے بارے میں سوال کیا اور۔۔ ام ایمن نے جواب دیا کہ میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔[10]
[1]۔ وَ آتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ وَ الْمِسْكينَ وَ ابْنَ السَّبيلِ وَ لا تُبَذِّرْ تَبْذيراً»؛ اسراء، 26.
[2] ۔ قمى على بن ابراهيم، تفسير قمى، ج 2، ص 155، دار الكتاب، قم، طبع چهارم، 1367 ش.
[3]۔ ملاحظہ ھو:حسكانى، عبيد الله بن احمد، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، تحقيق: محمودی، محمد باقر، ج 1، ص 438- 445، سازمان چاپ وانتشارات وزارت ارشاد اسلامى، تهران، طبع اول، 1411 ق.
[4]۔ طبرى آملى صغير، محمد بن جرير بن رستم، دلائل الإمامة، ص 118، بعثت، قم، طبع اول، 1413ق.
[5]۔ نجفی، محمد حسن (صاحی جواهر)، مجمع الرسائل، ج 4، ص 65، موسسه صاحب الزمان، مشهد، 1415 ق.
[6]۔ شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة، ج 27، ص 293، مؤسسة آل البيت (ع)، قم، طبع اول، 1409 ق.
[7]۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے جو فقہ اور قانون میں جاری ہے۔ «البینه علی المدعی و الیمین علی المدعی علیه( المنکر)»؛ ثقة الاسلام كلينى، الكافي، ج 7، ص 361، دار الكتب الإسلامية تهران، 1365 ش؛ صدوق، علل الشرائع، ج 2، ص 541، مکتبة الداورى، قم، بی تا.
[8]۔ الکافی، ج 1، ص 543؛ مجلسى، محمد باقر، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج 6، ص 268، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع دوم، 1404 ق.
[9]۔ ا امام علی (ع) کی صداقت و عدالت بہت سی آیات اور روایات سے ثابت ہوئی ہے۔ ام ایمن بھی بقول پیغمبر اکرم (ص) اہل بہشت ہیں۔ لکافی، ج 1، ص 543؛ مجلسى، محمد باقر، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج 6، ص 268، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع دوم، 1404 ق.
[10]۔ مفيد، محمد بن محمد، الإختصاص، ص 183، الموتمر العالمى لالفية الشيخ المفيد، قم، طبع اول، 1413 ق.
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید