پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت
پیش نظر اقوال مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہربار احادیث اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات کا وہ انتخاب ہے جو قائد انقلاب اسلامی نے احادیث کی معتبر کتب سے فقہ کے دروس میں “حسن آغاز” کے عنوان سے مختصر شرح و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔
خواہشات کے مرکب پر سوار نہ ہوں؛
من اكل ما يشتهي ولبس ما يشتهي وركب مايشتهي لم ينظر اللّه اليه حتى ينزع او يترك.
تحف العقول صحفه 38
ترجمہ :
اگر کوئي شخص جتنا دل چاہے کھاتا جو کچھ بھی دل چاہے پہنتا اور جس سواری پر دل چاہ گیا سوار ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس پر اس وقت تک نظر کرم نہیں ڈالے گا جب تک وہ ایسا کرنا ترک نہیں کر دیتا۔
شرح:
حدیث میں ” رکب ما یشتھی” سے ممکن ہے حقیقی معنی مراد ہوں، یعنی ہر وہ سواری جو ایک شخص کو پسند ہو اور جس پر سوار ہونے کے لئے اس کا دل چاہتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مراد “مرکب الامر ” ہو یعنی جس چیز کا بھی دل چاہے وہ کرنے بیٹھ جائے۔ بہرحال خدا وند عالم جو عالم وجود میں تمام انسانی کمالات، تمام خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہے، چاہتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا تابع اور دل کا اسیر نہ ہو بلکہ اپنی چاہتوں اور خواہشوں پر قابو رکھے خواہشات سے مجبور ہوکر کوئي کام انجام نہ دے۔ اس منزل میں ان افراد کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے جو اپنی ہر خواہش پوری کرنے پر قادر نہیں ہیں کیونکہ یہ ایک بڑی نعمت ہے کہ انسان کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کی راہ ہموار نہ دکھائی دے۔ جہاں تک ہو سکے انسان کو خواہشات کا مقابلہ اور زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہئے۔
توکل آنکھوں کی ٹھنڈک؛
الدنيا دُوَل، فما كان لك أتاك على ضعفك وما كان منها عليك لم تدفعه بقوّتك ومن انقطع رجاءه مما فات، استراح بدنه ومن رضي بما قَسَمه اللّه قرّت عينه.
تحف العقول صحفه 40
ترجمہ:
دنیا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چکر کاٹتی رہتی ہے پس جو کچھ تمارا حصہ ہے وہ تمہیں ضرور ملے گا خواہ تم کمزور ہی کیوں نہ ہو اور دنیا کی جو مصیبتیں اور آفتیں تمہارا مقدر ہیں انہیں تم اپنے زور بازو سے برطرف نہیں کر سکتے۔ جو شخص ہاتھ سے نکل جانے والی چیزوں کی حسرت دل سے نکال دیتا ہے اس کو جسمانی سکون مل جاتا ہے اور جو اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے اسے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل رہتی ہے۔
شرح:
حدیث میں “دول” جمع ہے “دولۃ” کی جس سے مراد وہ چیز ہے جو ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ دنیوی سرمائے کا مزاج یہ ہے کہ وہ ایک حالت پر نہیں رہتا، تغیر و تبدل اس کا خاصہ ہوتا ہے۔ کبھی یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ مال و منال، جاہ و حشم، وسائل و امکانات اور صحت و عافیت جو ہمارے پاس ہیں عمر کے آخر تک ہمارا ساتھ دیں گے۔ جی نہیں، بہت ممکن ہے کہ ہم ان سے محروم ہو جائیں۔ یہاں دنیا کی جو بات کی گئي ہے کہ جس نے بھی اپنی امیدیں اس دنیا سے قطع کر لیں اس کے ذہن کو راحت مل گئی۔ اس سے مراد برائي کی دنیا ہے یعنی وہ چیزیں جو انسان اپنی نفسانی خواہشات کےتحت حاصل کرنا چاہتا ہے اور جس کی خاطر وہ اپنے خالق اور قیامت کو بھی فراموش کر دیتا ہے۔ ورنہ وہ دنیا جو کمال و ارتقا اور ان چیزوں کے حصول کا باعث ہو جن کا حصول انسان کا فریضہ ہے، وہ یہاں پر مراد نہیں ہے۔
تین عادتیں کمال ایمان؛
ثلاثٌ من كنّ فيه استكمل خصال الإيمان:الذي إذا رضي، لم يُدْخِله رضاه في باطلٍ وإذا غَضِبَ لم يخرجه الغضب من الحقّ وإذا قدر لم يتعاط ما ليس له.
تحف العقول صفحه 43
ترجمہ:
جس شخص میں یہ تین عادتیں ہوں اس میں ایمانی صفات کامل ہو جائیں گی: جب کسی چیز سے راضی و خوشنود ہو تو یہ خوشی اور پسندیدگی اسے باطل کی حدود میں داخل نہ کر دے، جب غصہ آئے تو وہ دائرہ حق سے خارج نہ ہو جائے، جب قوت و طاقت حاصل ہو تو جو چیز اس کی نہیں ہے اس کی طرف دست درازی نہ کرے۔
شرح:
روایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایمان انہیں تین عادتوں تک محدود ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس شخص کے یہاں یہ تینوں صفتیں ہوں اس کے یہاں گویا ایمان کی سبھی صفات جمع ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک صفت، نیک صفات کا گلدستہ ہے اور ایک صفت پیدا ہونے سے صفات حسنہ کے بہت سے پھول کھل جاتے ہیں۔ کسی کی خوشنودی اور محبت اس کو باطل کی طرف نہ کھینچ لے جائے کہ وہ اس کا دفاع کرنے لگے یا اسی طرح کسی سے غصہ و ناراضگی ہے جو غلط روئے کا باعث بنتی ہے۔ جب قوت و اقتدار مل جائے تو انسان ایسا کوئي کام نہ کرے جو اس کو نہیں کرنا چاہئے۔
علم حیا ہے؛
الحياءُ حياءان، حياءُ عقلٍ وحياء حُمْقٍ، وحياء العقل العلم وحياءُ الحُمقِ الجهل. تحف العقول صفحه 45
ترجمہ:
شرم و حیا کی دو قسمیں ہیں، عاقلانہ حیا اور حماقت آمیز حیا، عاقلانہ حیا علم ہے، حماقت آمیز حیا جہالت ہے۔
شرح:
عاقلانہ حیا و شرم یہ ہے کہ انسان عقل و خرد کی بنیاد پر شرم و حیا کا احساس کرے۔ مثلا گناہ کرنے سے شرم کرے اسی طرح ایسے لوگوں کے سامنے حیا کہ جن کا احترام لازم ہے علم کی حیا ہے، یعنی ایسے مواقع پر روش اور انداز عالمانہ ہو۔ جہالت کی حیا یہ ہے کہ انسان کچھ پوچھنے سیکھنے یا عبادت وغیرہ میں شرم کرے، جیسے بعض افراد ماحول سے متاثر ہوکر احساس کمتری کے تحت نماز پڑھنے میں شرم کرتے ہیں یہ جاہلانہ حیا ہےجو صحیح نہیں ہے۔
بہترین اخلاق بہترین انسان؛
خياركم أحسنكم أخلاقاً، الذين يَألفون ويُؤلفون.
تحف العقول صفحه 45
ترجمہ:
آپ میں سب سےاچھے اور نیکوکار وہ ہیں جن کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں سے انس و محبت رکھتے ہیں اور دوسرے افراد ان سے مانوس ہو جاتے ہیں۔
شرح:
آپ کے درمیان بہترین افراد وہ ہیں جن کا عام لوگوں کے ساتھ برتاؤ سب سے اچھا ہو اور چہرا کھلا رہے تاکہ لوگ ملتفت اور ان سے مانوس ہوں۔ روایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئي شخص اپنی شرعی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کرتا اور اس کے چہرے پر بشاشت چھائي رہتی ہے، لوگوں سے ہنس کا ملتا ہے تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو اپنے شرعی فرائض پابندی سے ادا کرتا ہے لیکن چہرا مرجھایا رہتا ہےیا ملنے جلنے والوں میں خشک مزاج واقع ہوا ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مرد مومن کو اپنے شرعی فرائض پر عمل کے ساتھ اچھے اخلاق کا حامل بھی ہونا چاہئے اور ایک خوش اخلاق نیکوکار مومن کو کسی بد اخلاق مومن پر ترجیح حاصل ہے اگر چہ وہ بھی نیکوکار ہے
کفایت شعاری تواضع کے ساتھ؛
وجاءَهُ رجل بِلَبَن وعسل لِيَشربُهُ، فقال صلى الله عليه وآله وسلّم: شرابان يُكتَفى بأحدهما عن صاحبه لا أَشربُهُ ولا اُحرّمُه ولكنّي أتواضَعُ للّه، فانّه مَن تواضع للّه رفعهُ اللّه ومن تَكبّر وضعَهُ اللّه ومَنِ اقْتصد في معيشته رزقَهُ اللّه ومن بَذّر حرمهُ اللّه ومن أكثر ذِكْر اللّهِ آجرهُ اللّه.
تحف العقول صفحه 46
ترجمہ:
ایک شخص پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں دودھ اور شہد پینے کے لئے لے کر آیا، پیغمبر (صلی) نے فرمایا: یہ دو مشروب ہیں اور ایک کے استعمال سے دوسرے کی ضرورت ختم ہو سکتی ہے، میں اس مشروب کو نہیں پیوں گا اور حرام بھی قرار نہیں دوں گا کیوں کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں متواضع رہنا چاہتا ہوں اور جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو رفعت و سرفرازی عطا کرتا ہے، اور جو تکبر کرتا ہے اللہ اسے پست و حقیر کر دیتا ہے، جو شخص کفایت شعاری سے کام لیتا ہے اللہ اس کو روزی دیتاہے اور جو شخص فضول خرچی کرتا ہے اللہ تعالی اسے محروم کر دیتا ہے، جو شخص خدا کی یاد میں ڈوبا رہتا ہے اللہ تعالی اسے اجر عطا کرتا ہے۔
شرح:
چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ معصومین علیھم السلام کا بعض نعمتیں استعمال نہ کرنا اس لئے ہے کہ وہ ان کو حرام سمجھتے ہیں، لہذا مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ میں خود اگرچہ نہیں کھاتا لیکن اسے حرام قرار نہیں دے رہا ہوں۔ میں اس لئے نہیں کھاتا کہ تمام نعمتوں سے استفادہ اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ لفظ “رفعت” سے بھی مراد معنوی بلندی ہے البتہ ظاہری بلندی بھی مقصود ہو سکتی ہے مگر جو چیز مسلمہ ہے وہ معنوی بلندی ہے، یعنی اگر کوئي خدا کے لئے تواضع سے کام لے تو خدا اس کی روح اور اخلاق کو بلندی عطا کر دے گا، اس کی توفیق شامل حال ہو جائے گی۔ اسی طرح زوال و پستی کی طرف نزول سے بھی مراد معنوی تنزلی ہے۔ البتہ سماجی مقام و منزلت کا تنزل بھی مراد ہو سکتا ہے۔
غصے سے پرہیز نبی اکرم (ص) کی نصیحت؛
وقال رجلٌ اَوْصِنى، فقال صلى الله عليه وآله وسلّم: لاتَغضَب، ثم أعادَ عليه، فقال: لاتَغضَب، ثمّ قال: ليس الشّديد بِالصّرَعَةِ، انّما الشديدُ الذي يَملكُ نفسه عند الغضبِ
تحف العقول صفحه 47
ترجمہ:
ایک شخص نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں، پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا؛ غصہ نہ کرو اس نے ایک بار پھر یہی درخواست کی، پیغمبر اسلام نے دوبارہ فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو پھر آپ نے مزید فرمایا کہ طاقتور انسان وہ نہیں ہے جو دوسروں کو زمین پر پٹخ دے۔ طاقتور انسان وہ ہے جو غیظ و غضب کے وقت بے قابو نہ ہو جائے۔
شرح:
حدیث میں ” لا تغضب قھرا ” سے غیر اختیاری غیظ و غضب مراد نہیں ہے بلکہ ارادہ و اختیار کے ساتھ غصہ ہونا مقصود ہے۔ یعنی غصے کو خود پر مسلط نہ ہونے دو آپے سے باہر نہ ہو جاؤ۔ شجاع و بہادر وہ نہیں ہے جو کشتی میں کسی کو زیر کر دےبلکہ شجاع وہ ہے جو غصہ آنے پر خود کو قابو میں رکھے۔ غصے سے مراد بھی وقتی غصہ نہیں ہے بلکہ وہ نفرت ہے جس کی وجہ سے انسان کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔
بشکریہ http://www.erfan.ir/urdu/84631.html
دیدگاهتان را بنویسید