کربلا اور اسلامی انسانی تربیت
کربلا اور اسلامی انسانی تربیت
مقالہ نگار: غلام رضا شاکری
تعارف
تاریخ بشریت میں تربیت، انسانوں کا سب سے اہم مسئلہ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ہمیشہ اپنے بچوں کی تربیت کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں بلکہ کمائی کا زیادہ حصہ بچوں کی تربیت پر خرچ کردیتے ہیں ۔ آسمانی مذہب میں بنیادی نقطہ خود انسان کی تربیت ہے جسے انسان سازی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ پیغمبران الہی بھی ہمیشہ اس کوشش میں رہے ہیں کہ لوگوں کومادی جہت کے ساتھ اخلاقی اور روحانی جہتوں سے تربیت کریں.
تربیت کے مشتق کے بارے میں دو نظریے ہیں یہ “ربو” سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے “زیادہ ” بڑھنا جیسا کہ رقم پر سود کو “ربا” بھی کہا جاتا ہے (راغب اصفہانی، 1412، صفحہ 340)۔
دوسرا نظریہ “ربب” سے ماخود ہوا ہے ، اس صورت میں “تربیت” کا مطلب کسی چیز کا بتدریج ارتقا حاصل کرنا ہے- (ایضا،ص 336)
قرآن مجید، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کےاہم اہداف میں سے ایک کو انسانوں کی تربیت اعلان کرتا ہے۔
خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے- (آل عمران: 164)
لہذا تربیت انسانی اور اسلامی ضروریات میں سے ہے لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ کیسے تربیت کریں ، کونسا تاریخی واقعہ ہمارے لئے رول ماڈل ہے جس میں انسان کے تمام پہلوں کو شامل ہو یقینا کربلا ایسی درسگاہ ہے جس میں تربیت کے نظری اور عملی نمونے وافر مل جاتے ہیں۔
اہم کلمات: کربلا ، انسانی ، اسلامی ، تربیت
کربلا ، اور انسانی تربیت کا خدوخال
اسلامی تعلیمات لوگوں کو سیکھنے کے نئے طریقے فراہم کرتی ہیں، جو ان کی اصلاح اور اخلاقی تعلیم اور تربیت کا ذریعہ بنتے ہیں، اور دنیا اور آخرت کی سعادت سے ہمکنار ہونے کی رہنمائی کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک – جس کا علم نفسیات میں بحث و کفتگو کی جاتی ہے اور مذہبی تعلیم و تربیت میں بھی بڑے پیمانے پر اس کا استعمال ہوتا ہے وہ نمونہ بنانے یا آئیڈیل پر عمل کرنے کا طریقہ ہے۔
ماڈلنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں سیکھنے والے، کسی دوسرے شخص (رول ماڈل) کے رویے کو دیکھنے، سننے، یا یہاں تک کہ پڑھنے کے نتیجے میں اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، جیسا کہ وہ عمل کرے گا ویسا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ (سیف، 1379، صفحہ 352)۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کیا ہے ۔ قرآن مجید نے پیغمبر اسلام کو تمام مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ کے طور پر متعارف کرایا اور ان کی پیروی کو انسانیت کا نجات دہندہ ۔ {لَقَدْ کانَ لَکُمْ فی رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کانَ یرْجُوا اللهَ وَ الْیوْمَ الْآخِرَ وَ ذَکَرَ اللهَ کَثیراً} (احزاب: 21)
تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی اُمید ہو اور وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہو-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ساتھ آپ کے اہل بیت علیم السلام کو بھی مومنین کے لیے بہترین نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے نمونے کی پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس حوالے سےحضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
اپنے نبی کے خاندان کو دیکھو اور ان کی ہدایت پر قائم رہو۔ ان کے طریقے پر چلیں، وہ آپ کو ہدایت کے راستے سے نہیں ہٹائیں گے اور آپ کو گمراہ نہیں کریں گے۔ اگر وہ کسی چیز کو روکتے ہیں تو آپ بھی رک جاتے ہیں اور اگر وہ کسی سمت بڑھتے ہیں تو آپ بھی حرکت کرتے ہیں۔ ان سے آگے بڑھو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور پیچھے نہ رہو گے ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔(شریف رضی، 1414، خطبہ97).
اہل بیت کرام علیہم السلام عقائد، عبادات اور اخلاقیات سمیت تمام معاملات میں دوسروں کے لیے بہترین نمونہ ہوتے ہیں اور جو بھی شخص فلاح اور سعادت کی راہ پر گامزن ہونے کا حقیقی فیصلہ کرتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے تمام معاملات میں ان کی پیروی کرے اور ان کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے۔
اہل بیت عصمت و طہارت بشمول امام حسین علیہ السلام، بہترین نمونہ اور بہترین انسانی اور الٰہی صفات پر عمل پیرا ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی یاد اور نام ،ان کی ولایت اور امامت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کی پیروی کے لیے نمونہ بناتا ہے۔ ایک سچا شیعہ جانتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا راستہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر ائمہ کی پیروی اور ان مقدس رہنماؤں کی پیروی کرنا ہے۔ جیسا کہ ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں۔«مَنْ أَتَاکُمْ نَجَا وَ مَنْ لَمْ یأْتِکُمْ هَلَک»؛ جو آپ کے پاس آئے گا وہ نجات پائے گا اور جو آپ کے پاس نہیں آئے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔(ہمان، ج 2، ص 613).
حضرت امام حسین علیہ السلام نے کوفہ تشریف لے جاتے ہوئے ایک خط میں اپنے آپ کو ایک رول ماڈل اور رہنما کے طور پر متعارف کرایا جس میں آپ علیہ السلام نے وہاں کے شیعہ بزرگوں کو لکھا : وَ نَفْسِی مَعَ أَنْفُسِکُمْ وَ أَهْلِی وَ وُلْدِی مَعَ أَهَالِیکُمْ وَ أَوْلَادِکُمْ فَلَکُمْ بِی أُسْوَةٌ. (مجلسی، 1403، ج 44، ص 382) میں آپ کے ساتھ ہوں، میرا خاندان اور بچے آپ کے خاندان اور بچوں کے ساتھ ہیں اور میں تمہارے لئے رول ماڈل ہوں۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو ہماری دینی کتابوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اہل بیت علیہم السلام بہت ساری مقامات پر آپ علیہ السلام کی زیارت کی سفارش کی ہے اور آپ علیہ السلام کے زائرین کے لیے بے شمار اجر و ثواب درج کیے ہیں۔ چنانکہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے۔ جو شخص پیغمبر اکرم (ص) کے جوار میں اور امام علی (ع) اور فاطمہ زہرا (س) کے پڑوس میں بھی رہنا چاہتا ہے، اسے امام حسین (ع) کی زیارت کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت لوگوں کو آپ علیہ السلام سے محبت کی وجہ سے تربیتی معاملات میں آپ کی تقلید کرنے پر مجبور کرتی ہے اور انہیں اپنا نمونہ بناتی ہے۔(ابن قولویہ، 1356ش، ص 137).
لہذا حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے آثار میں سے ایک تربیتی درس ہے جس کی طرف ہم اس مضمون میں بہت ہی اختصار کے ساتھ اشارہ کریں گے-
۱- آخرت ہی پائیدار زندگی ہے
قیامت سے پہلے ہم انسان اس دنیا میں چند لمحے گزارتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو اس دنیا میں ابدی زندگی کے لیے تیار کرسکیں۔ درحقیقت یہ دنیا آخرت کے لئے کھیتی ہے اور آخرت ہی اس دنیا میں زندگی کا نچوڑ اور مقصد ہے۔
ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں: {إِنَّما هذِهِ الْحیاةُ الدُّنْیا مَتاعٌ وَ إِنَّ الْآخِرَةَ هِی دارُ الْقَرار}؛(غافر:39)’’یہ دنیاوی زندگی تو محض لذت کا سامان ہے اور آخرت ایک ابدی گھر ہے۔‘‘
احادیث معصومین میں آخرت کی طرف توجہ کی بھی تاکید کی گئی ہے اور اس کے نتائج بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص دن رات سب سے زیادہ آخرت کی فکر میں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حاجت کی کمی کو جگہ دے گا اور اس کے کام کو منظم کر دے گا اوروہ اس دنیا سے نہیں جائے گا، سوائے اس کے کہ اس کو اپنا رزق پورا مل جائے۔ اور جس کے دن رات کی سب سے بڑی فکر دنیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے غربت ڈال دے گا (اس کی آنکھیں ہمیشہ دنیا کی بھوکی رہتی ہیں) اور اس کے کام میں خلل ڈال دے گا اور اسے دنیا سے اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا جو اس کے مقدر میں لکھا گیاہے۔(حرانی ، 1404، ص48).
امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ایک اہم درس آخرت کی طرف مائل اور آخرت کو اصل زندگی کا تصور ہے۔
(الف) ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے زائرین اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے راہ خدا میں اپنی جان قربان کیں ۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اور ان کے اہل بیت جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیں ، سب نے آخرت کی زندگی کو ترجیح دیں ۔
شب عاشورہ جب امام حسین علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے اپنے اصحاب سے بیعت لی اور ہر ایک نے نے اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور دنیا کی زندگی کو بھاری قیمت پر حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ جیسا کہ ان سے نقل کردہ الفاظ اس حقیقت کو بخوبی بیان کرتے ہیں۔ مثلاً مسلم بن عوسجہ نے امام حسین علیہ السلام کے جواب میں کہا: میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے، تاکہ خدا کو معلوم ہو کہ ہم نے آپ کے بارے میں حضرت رسول اللہ کی غیر حاضری کو محفوظ رکھا۔ خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں مارا جاؤں گا، پھر زندہ کیا جاؤں گا، پھر وہ مجھے جلا دیں گے اور میری راکھ ہوا میں بکھیر دیں گے، اور یہ عمل مجھ پر ستر مرتبہ کیا جائے گا، میں آپ سے جدا نہ ہو گا جب تک کہ آپ کے راستےمیں قتل نہ ہو جاؤں – اور میں آپ کی راہ میں کیسے قربان نہ ہو جاؤں، جبکہ میں صرف ایک بار مارا جاؤں گا اور اس کے بعد مجھے وہ عزت ملے گی جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ (مفید، 1413، ج 2، ص 92)۔
امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے اس لگن اور سختیوں کی برداشت کے ساتھ آخرت کی فکر اور آخرت کی سعادت تک پہنچنے کے لیے دنیا سے رخصت ہونے کا ہمیں درس دیا۔
ب: ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے زائرین یہ عمل خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیےانجام دیتے ہیں اور اس راہ میں تمام کوششیں اور اخراجات کوعبادت سمجھتے ہیں۔ زیارت کے دوران، وہ آخرت کے ثواب کو حاصل کرنے اور امام حسین علیہ السلام کی شفاعت سے بہرہ مند ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتےہیں: ہمارا ہر شیعہ جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو جاتا ہے اس وقت تک واپس نہیں آتا جب تک کہ اس کے تمام گناہ معاف نہ کر دیئے جائیں اور اس کے ہر قدم کے بدلے میں اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے ہزار گناہ معاف کیئے جاتے ہیں۔ اور اس کے مقام و منزلت میں ایک ہزار درجہ بڑھ جاتا ہے۔(ابن قولویہ، 1356ش، ص 134)-
اس طرح امام حسین علیہ السلام کی زیارت فطری طور پر قیامت اور حساب کی طرف لوگوں کی توجہ کو بڑھاتی ہے اور انہیں آخرت کی اہمیت اور قیامت کے دن نجات کے لیے عمل کرنے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
2- اچھے اعمال کی ترغیب اور توفیق
ہم جانتے ہیں کہ انسانی تخلیق کا مقصد روحانی پاداش سے لطف اندوز ہونا اور حقیقی کمال(خدا کا قرب) تک پہنچنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس طرح نیک اعمال کرنے کی نصیحت کرتا ہے: {مَنْ عَمِلَ صالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیینَّهُ حَیاةً طَیبَةً وَ لَنَجْزِینَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ ما کانُوا یعْمَلُونَ} (نحل: 97) جو کوئی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، حالانکہ وہ مومن ہے، ہم اسے پاکیزہ زندگی دیں گے اور ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔
ہر وہ نیک عمل جو کمال اور رضائے الٰہی کی راہ پر گامزن ہو وہ عمل صالح کا ایک مصداق ہے – قرآن کریم اور احادیث معصومین میں اس کی سفارش کی گئی ہے۔ امام علی علیہ السلام نیک اعمال کی نصیحت میں فرماتے ہیں: . . . فَلْیکُنْ أَحَبَّ الذَّخَائِرِ إِلَیکَ ذَخِیرَةُ الْعَمَلِ الصَّالِح. (شریف رضی، 1414، نامہ 53). لہذا آپ کی نظر میں سب سے پیارا خزانہ نیکیوں کا خزانہ ہونا چاہیے۔
اس وقت یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت لوگوں کو نیک اعمال کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام خدا کے قریب ہیں اور قرآن کریم نے ان سے محبت اور مودت کو تبلیغ رسالت کا صلہ قرار دیا ہے۔ احادیث میں ان کی کثرت سے زیارت کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس طرح سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت سے زائرین کے وجود کی گہرائی میں روحانیت اور نور پیدا ہوتا ہے۔ اور اپنے آپ کو خدا اور الہی سنتوں کے ساتھ قریبی تعلق میں محسوس کرتے ہیں۔ گویا وہ ان کی محضر میں ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس حالت کے بعد، وہ قدرتی طور پر خدا کی عبادت اور اچھے کام کرنے کی زیادہ خواہش رکھتے ہیں؛ اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کے دل خدا کی اطاعت اور خدائی کام کرنے کے لئے نرم ہو گئے ہیں۔ شیطان کا کنٹرول ان پر کم ہو گیا ہے اور اس کے فتنے اب موثر نہیں رہے۔ اس حالت میں وہ عبادات و ذکر، خدا کی راہ میں خرچ کرنے، دوسروں کی مدد کرنے حتیٰ کہ خدا کی راہ میں جہاد جیسے اعمال صالحہ کی تمنا محسوس کرتے ہیں اور انہیں انجام دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کا ایک اہم سبق لوگوں میں نیک اعمال کی خواہش کو بڑھانا ہے۔
۳- نیک خصلت کی طرف جھکاو
دین اسلام میں انفرادی اور معاشرتی اخلاقیات کے حوالے سے اہم تعلیمات بیان ہوئے ہیں جن کی پابندی فرد اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنتی ہے۔ دوسری طرف اخلاقیات کے بغیر معاشرہ زوال پذیر اور بوسیدہ ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے ۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: عَلَیکُمْ بِمَکَارِمِ الْأَخْلَاقِ فَإِنَّهَا رِفْعَةٌ وَ إِیّاکُمْ وَ الْأَخْلَاقَ الدَّنِیةَ فَإِنَّهَا تَضَعُ الشَّرِیفَ وَ تَهْدِمُ الْمَجْدَ (مجلسی، 1403، ج 75، ص 53).تم تعلیم یافتہ بنو اور اخلاقی خوبیوں کی پاسداری کرو جو بلندی کا باعث ہے اور ان پست رویوں سے دور رہو جو ان معزز لوگوں کو پست اور شرافت کو برباد کر دیتے ہیں۔
جرأت، شجاعت، صبر، شائستگی، عفو و درگزر، سخاوت، عفت، غیرت اور سچائی ان صفات میں سے ہیں جن کی موجودگی فرد اور معاشرے کو بلند کرتی ہے اور ان کی عدم موجودگی فرد اور معاشرے کو تنزلی کی طرف لے جاتی ہے۔
اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے نمونے ہیں جو اخلاقی معیارات کی تعلیم پر واضح اثر ڈالتے ہیں۔ واقعہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے انسانوں کو یہ اخلاقی نمونہ فراہم کیا۔ واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ناقابل تلافی کردار کے علاوہ ایسے کردار بھی ہیں جو اخلاقی کمالات کے عروج پر تھے۔ عباس بن علی، علی اکبر، حبیب بن مظاہر، حر بن یزید ریحی، قاسم بن حسن، حضرت زینب اور امام حسین علیہ السلام کے خاندان اور اصحاب میں سے بہت سے بزرگ ہستیاں – ان لوگوں میں سے ہر ایک ایسی علامت ہے جو اخلاقی صفات کے صحرا پر چمکتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام اپنی صفات کے عروج پر تھے جیسے جوش، ہمت، عفو و درگزر، صبر …حضرت ابوالفضل علیہ السلام ہر ایک کو وفاداری اور بہادری اور جرأت و شائستگی کا درس دیتے ہیں۔ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا عفت اور صبر کی عظیم علامت ہیں۔ حر بن یزید ریاحی شائستگی، توبہ اور خوشی کی علامت ہے اور یہی بات امام حسین علیہ السلام کے دوسرے اصحاب اور انصار کے لیے بھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت ان شاندار اخلاقی صفات کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے زائرین، آپ علیہ السلام اور آپ کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں اور ان کے نور سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اور آپ علیہ السلام کی زیارت کے ذریعے اپنے دلوں میں ان عظیم انسانوں کی یاد کو زندہ کرتے ہیں اور اپنے وجود میں ان کی شاندار اخلاقی صفات کو تازہ کر دیتے ہیں۔
۴- توبہ اور گناہوں سے اجتناب
انسان گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں ہے بعض اوقات غفلت ، خدا اور جہنم کو بھول جانے کی وجہ سے ٹھوکریں کھا کر گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور اس کی طرف لوٹنے کا حکم دیتا ہے۔: {یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسی رَبُّکُمْ أَنْ یکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیئاتِکُمْ وَ یدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ} (تحریم:8)
اے ایمان والو خدا سے توبہ کرو۔ خالص توبہ۔ امید ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں جنت کے باغوں میں داخل کرے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
گناہوں سے توبہ کرنا ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو بعض اوقات غفلت کی وجہ سے مرتکب گناہ ہوتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے گناہ پر اصرار کر کے اپنے دلوں کو سیاہ کر لیا ہے ان کے لئے توبہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن خداوند متعال اپنی لامحدود رحمت کے ساتھ، گناہوں اور گناہوں میں ڈوبتے ہوئے اپنے بندوں کو بھی نہیں بھولتا اور ان کے لیے نجات کا راستہ کھلا رکھتا ہے اور ان پر اپنی رحمت کو کبھی بند نہیں کرتا اور ہمیشہ ان کے لیے واپسی کے لیے دروازے چھوڑتا ہے اور انھیں امید کی کرن دیتا ہے۔
ان حالات میں سے جو لوگوں میں اخلاقی اور روحانی انقلاب کا سبب بنتا ہے وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو گناہ اور معصیت میں مبتلا تھے لیکن ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کے طفیل انہوں نے اپنی زندگی کا راستہ بدل لیا اور نیکی اور بندگی کا راستہ اختیار کیا۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت لوگوں کو مختلف طریقوں سے ذہنی اور روحانی تبدیلی اور گناہ کو ترک کرنے کی طرف لے جاتی ہے-
۵- اخلاص اور ایمانی جذبہ
نیت انسانی اعمال کو صحیح سمت کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اعمال کو اخلاص اور خدا کی خاطر انجام دینا، اعمال اور مخلص فرد کو قدر و قیمت عطا کرتا ہے-حضرت امام علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اخلاص انسان کے اعمال ، کردار اور گفتار کو بابرکت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتاہے- بابرکت ہے اس شخص کا عمل اور علم، دوستی اور دشمنی، عمل و ترک، قول و فعل اور کردار و گفتار جوصرف خدا کے لیے ہے۔(ابن شعبہ، 1404، ص91)
بعض اوقات سب سے زیادہ خدائی کام بُری نیت کی وجہ سے تباہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے نماز شب، صدقہ و خیرات یا جہاد جو ریاکاری سے انجام دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف، اسی نیت کی وجہ سے عام اور دنیاوی چیزیں مقدس اور عبادت بن جاتی ہیں اور اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
لہٰذا نیتوں اور محرکات اعمال کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے تاکہ وہ ریاکاری اور برے ارادےسے آلودہ نہ ہوں، کیونکہ ریاکاری ایسی دیمک ہے جو اچھےاعمال کو کھا جاتی ہے اور اس کی قدرو قیمت کو کم کرتی ہے۔ لہذا نیک اعمال اور عبادتوں کو ریاکاری اور برے اردے سے آلودہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔
اخلاص سیکھنے کا ایک اہم طریقہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا یہ عظیم قیام اخلاص کے اعلی مقام سے سرشار تھا ۔ جسے ہم آپ علیہ السلام کی دعاوں سے خاص کر عاشورہ کے دن قتلگاہ میں جو دعا آپ علیہ السلام نے فرمائی حس اور درک کرسکتے ہیں- جیسے آپ علیہ السلام کی شہادت کےنزدیک جو مناجات درگاہ الہی میں کی اس بات کی دلیل ہے-
اے اللہ! ! اے بلند مقام ( والی ذات)، قدرت میں عظیم، قدرت میں طاقتور، مخلوق سے بی نیاز، اے وہ ذات جسکی کبریائی پھیلی ہوئی ہے ، جو چاہے اس پر قدرت رکھتا ہے ، رحمت کے قریب، اپنے وعدے میں سچے، اور بخشنے والی ذات ، بہترین آزمائشگر ہے جو تجھ سے رجوع کرتا ہے اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ (مقرم، 1399ق، ص 282).
اخلاص کا بلندترین مقام ہمیں کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی قربانی میں نظر آتا ہے۔کربلا کے عظیم شخصیات جیسے زہیر بن قین، حبیب بن مظاہر، مسلم بن اوسجہ، جون، سعید ابن عبداللہ حنفی، ابو ثمامہ سعدی، حر بن یزید ریحی، اور ان سے پہلے خاندانِ پاک، جیسے علی اکبر، ابوالفضل العباس ، قاسم اور دیگر . . . ان میں سے ہر ایک نےکارزار کربلا میں اپنے اعلیٰ درجے کے اخلاص کا مظاہرہ کیا۔
حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے زائرین جب زیارت کرتے ہیں تو ان کے با وفا اصحاب کے اعلیٰ اخلاص کو دل سے محسوس کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے معاملات میں ان کی مثال لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اس عظیم قیام کی عظمت اور تاریخ میں ان کا عروج آپ علیہ السلام کے اخلاص کی وجہ سے ہے – اور نتیجتاً ہر نیکی کی قدر و قیمت صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ اخلاص کے ساتھ انجام پایا ہو۔
۶- جذبہ جہاد اور شہادت
جہاد ایک مقدس چیز ہے جس پر اسلام زور دیتا ہے۔ اگر جہاد اور حکم الٰہی اس کے بارے میں نہ ہوتا تو بیضہ اسلام خطرے میں پڑ جاتا۔ قرآن کریم مومنین کو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور مجاہدین کو اس راستے کی مخالفت کرنے والوں پر فضیلت دی ہے اور ان کے لیے بڑی فضیلت اور اجر تیار کر رکھا ہے۔
جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے-(نساء: 95)
راہِ خدا میں جہاد کے سائے میں مسلمانوں کے امورِ دین و دنیا، اصلاح، اور دنیا و آخرت کی سعادتیں عطا ہوں گی۔ اگر مسلمان جہاد کے لیے نہ اٹھیں تو کفر، ظلم اور فساد معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور مسلمانوں کی زندگی اور معاشرے پر ظالم و جابر غلبہ حاصل کر لیں گے اور ایسی قوم کبھی نجات نہیں پا سکے گی۔ مسلمانوں کی عظمت کی بقا کا دارومدار جہاد پر ہے اگر انہوں نے اس امر کی طرف توجہ نہ کی تو دشمنان اسلام اپنے مذموم اور ناپاک منصوبوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی سرزمین پر حملہ کر کے ان کی تمام سہولیات اور وسائل کو لوٹ لیں گے۔
اسلام میں راہ خدا میں جہاد کے نمونے کم نہیں ہیں۔ عظیم لوگ جیسےحضرت حمزہ سید الشہداء، عمار، ابو دجانہ انصاری، حنظلہ غسیل الملائکہ، مالک اشتر وغیرہ۔ . . اس گروپ سے ہیں؛ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت وہ تمام مجاہدوں کے سر پر ہیں اور تمام انسانوں کے لیے نمونہ ہیں۔ حضرت رسول خدا (ص)، امیر المومنین (ع)، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جو دشمنوں سے مسلح جدوجہد کی پوزیشن میں تھے، اس کام میں کبھی سستی نہیں برتی اور پوری تندہی سے کام کیا۔ ان میں سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام، جہاد اور شہادت کو ایک خاص اور نمایاں مقام حاصل ہے۔
یقیناً امام حسین علیہ السلام راہ خدا میں جہاد کی بہترین مثال ہیں۔ جو مصیبتیں آپ علیہ السلام نے خدا کی راہ میں جہاد کرنے میں دیکھی ہیں، وہ کسی پر نہیں آئیں۔ جیسا کہ ہم عاشورہ کی زیارت میں پڑھتے ہیں۔ اورآسمان اور تمام آسمان والوں پر تیری مصیبت بہت بڑی ہے۔(شهید اول، 1410، ص 179)
اس طرح لوگوں کے لیے خدا کی راہ میں قیام اور جہاد کے لیے تیار ہونے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔
امام حسین علیہ السلام کی زیارت اس امام کی جدوجہد، ہمت اور شہادت کی یاد دہانی ہے اور ان کے زائرین فطری طور پر یہ سیکھتے ہیں کہ راہ خدا میں جدوجہد اتنی قیمتی ہے کہ حسین بن علی جیسی عظیم شخصیت بھی اس راہ میں قدم رکھتی ہے۔ اس راستے پر موجود تمام مشکلات اور سختیوں کو رداشت کرتی ہے، وہ یہ سیکھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی جان کے خوف سے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے تو خدا کے سامنے ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہے اور ان سے حساب لیا جائے گا۔
اس طرح امام حسین علیہ السلام کی زیارت معاشرے میں راہ خدا میں جہاد کی ثقافت کو عام کرتی ہے اور لوگوں میں جدوجہد اور شہادت کے جذبے کو تقویت دیتی ہے۔
منابع و مآخذ:
1. قرآن کریم، ترجمہ مکارم شیرازی، تہران، دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی، 1380ش.
2. ابن شعبہ، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول9، قم، انتشارات جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1404ق/1363ش.
3. ابن طاووس، علی بن موسی، اللہوف علی قتلی الطفوف، تہران، انتشارات جہان، 1348 ش.
4. ابن طاووس، علی بن موسی، إقبال الأعمال، تہران، دارالکتب الاسلامیة، 1409ق.
5. ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نجف، دار المرتضویة، 1356 ش.
6. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، دمشق بیروت، دارالعلم/ الدارالشامیة، 1412ق.
7. سیف، علی اکبر، تغییر رفتار یا رفتاردرمانی: نظریہ ہا و روش ہا، ویرایش دوم، تہران، نشر دوران، 1379ش.
8. شریف رضی، محمد بن حسین (گردآورندہ)، نہج البلاغة (نسخہ صبحی صالح)، قم، انتشارات ہجرت، 1414ق.
9. شہید اول، محمد بن مکی، المزار فی کیفیة زیارات النبی و الأئمة، قم، مدرسہ امام مہدی/، 1410ق.
10. شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، انتشارات جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1413ق.
11. فتحعلی، محمود و دیگران، فلسفہ تعلیم و تربیت اسلامی، زیر نظر استاد محمدتقی مصباح یزدی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی=، 1391 ش.
12. مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ق.
13. محدثی، جواد، اخلاق اسلامی، قم، انتشارات دلیل ما، 1392 ش.
14. مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ق.
15. مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین او حدیث کربلاء، بیروت، دارالکتاب الإسلامی، 1399ق/1979م.
16. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیة، 1374 ش.
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید