کوئٹہ، خوف اور وحشت کے سائے میں
ہم سوچ رہے تھے کہ کل ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں بریلوی بھی تھے، دیوبندی بھی تھے، شیعہ بھی تھے اور اہل حدیث بھی تھے۔ اس ملک میں بسنے والے مسلمان مسالک کی نمائندہ جماعتوں کے نمائندگان ایک دوسرے سے اظہار محبت کر رہے تھے۔
وہ سب کو جینے کا حق دے رہے تھے۔ وہ اتفاق و اتحاد کو قرآن و سنت کی تعلیم اور تقاضا قرار دے رہے تھے، وہ سب کو کھلے دل اور پھیلی بانہوں کے ساتھ مسلمان کہہ کر گلے لگا رہے تھے۔ یہ کون ہیں جو کسی کو جینے کا حق نہیں دے رہے؟ جنھیں اپنے علاوہ سب کافر دکھائی دیتے ہیں۔ یااللہ وہ کل والے کون تھے اور یہ آج والے کون ہیں؟ وہ تو جانے پہچانے چہرے تھے۔ یہ دیواروں پر سیاہی ملنے والے کون ہیں۔ وہی جو دوسروں پر حملے کرتے ہیں۔ جو گھروں، بازاروں اور مسجدوں کو بے آباد کرتے ہیں اور قبرستان بساتے ہیں اور پھر قبرستان پر بھی حملے کرتے ہیں۔ قبروں اور مزاروں کو مسمار کرتے ہیں۔ یااللہ یہ کون ہیں؟ رب العالمین کے رسول رحمۃ للعالمین ؐکے ماننے والوں کو تو ساری انسانیت کے لیے رحمت کا پیامبر بننا تھا۔
12 مئی 2014ء کو ہمارا کوئٹہ جانا ہوا۔ اسلام آباد سے ہم محترم لیاقت بلوچ کے ہمراہ ایک ہی فلائٹ پر سوار ہوئے۔ کوئٹہ میں ملی یکجہتی کونسل کے صوبائی ڈھانچے کا قیام مقصود نظر تھا۔ کوئٹہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ کونسل کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر زبیر بھی کراچی سے پہنچ چکے ہیں۔ ایئر پورٹ سے امیر جماعت اسلامی بلوچستان عبدالمتین اخونزادہ ہمیں نواب ارباب عبدالظاہر کاسی کی رہائش پر لے گئے، جہاں نواب صاحب کے صاحبزادے اور کاسی قبیلے کے دیگر راہنماؤں نے ہمارا استقبال کیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر عبدالمالک کاسی بھی آگئے۔ نواب کاسی کو کچھ عرصہ پہلے اغوا کر لیا گیا تھا۔ ان کی رہائش پر جانے کا مقصد ان کے صاحبزادے اور کاسی قبیلے کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اغوا کرنے والوں نے ان کی رہائی کے عوض پہلے ایک ارب روپے تاوان مانگا تھا۔ پھر مختلف ذرائع سے رابطے کے بعد انھوں نے یہ رقم نصف کردی اور اب چالیس کروڑ روپے سے کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
نواب عبدالظاہر کاسی نہ فقط ایک قبیلے کے سردار ہیں بلکہ ان کی سماجی اور انسانی خدمات کو ایک دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ شہر میں کتنی مسجدیں انھوں نے بنوائیں۔ کئی قبرستانوں کے لیے جگہ فراہم کی۔ نواب صاحب مذہبی رواداری کی بھی اعلٰی مثال ہیں۔ سابق وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر عبدالمالک کاسی نے مختلف مساجد کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ نواب صاحب نے شیعہ سنی کی تفریق کے بغیر مساجد کے قیام میں تعاون کیا۔ جی ہاں میں کوئٹہ کے ایک اہل سنت نواب کا ذکر کر رہا ہوں۔ کوئٹہ جہاں ہزارہ قبیلے کے تیرہ سو سے زیادہ افراد شیعہ ہونے کے جرم میں مارے جا چکے ہیں۔ وہاں قوم و قبیلہ کی آبرو سمجھے جانے والے ایسے افراد ان لوگوں نے اغوا کر لیے جو اپنے آپ کو ’’طالبان‘‘ کہلاتے ہیں اور پاکستان میں’’نظام شریعت‘‘ کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ملی یکجہتی کونسل کا صوبائی اجلاس سہ پہر کے وقت ایم پی اے ہاسٹل کے ایک ہال میں منعقد ہوا۔ اس میں کونسل کی رکن جماعتوں کے نمائندگان نے بھرپور شرکت کی۔ شرکاء میں جماعت اسلامی، مجلس وحدت مسلمین، جمعیت علمائے پاکستان، جماعۃ الدعوۃ، اسلامی تحریک، وفاق المدارس شیعہ، تحریک فیضان اولیاء، وفاق العلماء شیعہ، تنظیم اسلامی، تحریک تحفظ ختم نبوت اور جمعیت اتحاد العلماء کے نمائندے بھی موجود تھے۔ سب نے امت کے اتحاد کو ایک دینی تقاضا قرار دیا۔ سب کی رائے تھی کہ عالم اسلام کی زبوں حالی کا علاج اتحاد امت میں مضمر ہے۔ سب کوئٹہ کے حالات کا نوحہ پڑھتے ہوئے ان کی اصلاح کا نسخہ اتحاد بین المسلمین کو قرار دے رہے تھے۔ مختلف جماعتوں کے نمائندگان اپنے اپنے خیالات کااظہار کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں جب بزرگ عالم محمد جمعہ اسدی کھڑے ہوئے تو مجھے یوں لگا جیسے رنج و غم اور کرب و آہ سرو قد مجسم ہو گیا ہے۔ وہ ستم رسیدہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ امت کے اتحاد کی بات پورے وقار سے کر رہے تھے۔ ہم انھیں کئی دہائیوں سے جانتے ہیں۔ جب ہزارہ قبیلہ کوئٹہ شہر میں بستا تھا۔ جب شہر کے بازاروں میں ان کے دم سے رونق تھی۔ جب تجارت کے قافلوں میں ان کا نمایاں حصہ تھا۔ علامہ محمد جمعہ اسدی اس وقت بھی اتحاد امت کے داعی تھے۔ وہ اس وقت بھی پورے قد سے کھڑے ہوتے اور بڑے وقار سے امت کے اتحاد کی دعوت دیتے تھے۔ اس دعوت کے ساتھ ساتھ انھوں نے بتایا کہ ہزارہ قبیلے کے کتنے افراد بے جرم و خطا مارے جا چکے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ستم کی یہ صرصر اب بھی چل رہی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ وہ جب داستان غم کہہ رہے تھے، ان کے درد کی ٹیسیں ہم اپنے سینے سے اٹھتی ہوئی محسوس کر رہے تھے۔
کوئٹہ میں شیعہ ہی نہیں مارے گئے اور انہی کے قتل کا سلسلہ جاری نہیں۔ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر نے بتایا کہ اہل سنت کے اٹھارہ علماء اب تک اس شہر بے رحم میں قتل ہوچکے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ مکتب دیوبند کے علماء اور طلبہ بھی اس شہر میں محفوظ نہیں۔ ان کے مدارس بھی حملوں کی زد میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر بے امان کے کئی خطیبوں نے یہ شعر پڑھا:
پنبہ کجا کجا نہم
تن ہمہ داغ داغ است
میں مرہم کا پھاہا کہاں کہاں رکھوں کہ سارا بدن ہی زخمی ہے۔ سارے بدن سے لہو رِستا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ گھروں پر حملے ہوچکے، مسجدوں میں بم پھاڑے جا چکے، بسوں سے اتار کر مسافروں کو ذبح کیا جا چکا، دینی مدارس پر دہشت گرد چڑھائی کرچکے، ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا چکا، طلبہ و طالبات پر ظلم کیا جا چکا، پولیس اور امن نافذ کرنے والے قتل کئے جا چکے، ڈاکٹر، وکیل، سیاستدان نشانہ ستم بن چکے اور اب اغوا برائے تاوان نے ایک ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ویسے تو پورے بلوچستان میں ظلم و درندگی کا کھیل جاری ہے لیکن یہ سب کچھ ایک شہر کوئٹہ میں ہوچکا ہے۔ کوئٹہ جو کبھی شہر امن تھا۔ کوئٹہ جسے شیعہ سنی ہم آہنگی کی مثال سمجھا جاتا تھا۔ کوئٹہ جو کبھی ہنستا بستا تھا۔ کراچی کے لوگ کبھی اپنے شہر کے ہنگاموں سے نکل کر دو دن سستانے کے لیے اس شہر میں آرام جاں پاتے تھے۔
ملی یکجہتی کونسل کا اجلاس تو قبل از مغرب عصرانے کے ساتھ ختم ہوگیا۔ مغرب کے بعد علامہ مقصود علی ڈومکی نے فلسطین فاؤنڈیشن بلوچستان کے تحت ’’یوم واپسئ فلسطین‘‘ کے زیر عنوان ایک سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس سیمینار میں شریک ہوتے ہوئے ہمیں نبی کریمؐ کی یہ حدیث بہت یاد آرہی تھی کہ سب مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں، جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا بدن بے آرام ہو جاتا ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ زخمی زخمی اور داغ داغ کوئٹہ کا یہ درد مند عالم کیسا ہے کہ اپنے سینے پر زخم ہونے کے باوجود سرزمین فلسطین کے رستے زخموں کو نہیں بھولا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم بھی اس کے ساتھ مل کر انبیاء کی اسیر اور داغدار سرزمین کا نوحہ پڑھیں۔
اس سیمینار میں مذہبی قائدین کے علاوہ بڑی تعداد میں سیاسی راہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ دانشوروں اور سماجی کارکنوں کی بھی قابل ذکر تعداد سیمینار میں موجود تھی۔ مقررین کی عجیب حالت تھی۔ آنکھ اٹھا کے دیکھتے تو عالم اسلام کی پہناور سرزمینوں کے غموں کی تصویر کھینچتے۔ قرب و جوار پر نظر پڑتی تو کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں کا رنج بیان کرتے۔
ہم نے رات تحریک فیضان اولیاء کے بلوچستان میں نمائندہ جناب حبیب اللہ چشتی خروٹی کے ہاں بسر کی۔ وہ اور ان کے بھائی بند کوئٹہ بائی پاس پر خروٹ آباد میں آباد ہیں۔ اگلے روز علامہ مقصود علی ڈومکی سے ایک ملاقات طے تھی۔ انھیں ملی یکجہتی کونسل صوبہ بلوچستان کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا جا چکا تھا۔ ان سے کونسل کے امور پر بات کرنا تھی۔ ان کے بھائی حاجی حبیب اللہ چشتی کے ہاں ہمیں لینے کے لیے آئے تھے۔ راستے میں وہ اس بستی سے گزرتے ہوئے اپنی کیفیت بتا رہے تھے۔ ’’ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی اور شہر سے گزر رہا ہوں‘‘۔ ’’ آتے ہوئے مجھے خوف محسوس ہو رہا تھا۔‘‘ وہ درونِ دل کی کہہ رہے تھے اور ہم شہر کے در و دیوار پر لکھی عبارتیں پڑھ رہے تھے۔ فلاں کافر ہے، فلاں کو جینے کا حق نہیں، فلاں کے خلاف ہم یہ کر دیں گے۔ فلاں مردہ باد، وغیرہ۔
ہم سوچ رہے تھے کہ کل ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں بریلوی بھی تھے، دیوبندی بھی تھے، شیعہ بھی تھے اور اہل حدیث بھی تھے۔ اس ملک میں بسنے والے مسلمان مسالک کی نمائندہ جماعتوں کے نمائندگان ایک دوسرے سے اظہار محبت کر رہے تھے۔ وہ سب کو جینے کا حق دے رہے تھے۔ وہ اتفاق و اتحاد کو قرآن و سنت کی تعلیم اور تقاضا قرار دے رہے تھے، وہ سب کو کھلے دل اور پھیلی بانہوں کے ساتھ مسلمان کہہ کر گلے لگا رہے تھے۔ یہ کون ہیں جو کسی کو جینے کا حق نہیں دے رہے؟ جنھیں اپنے علاوہ سب کافر دکھائی دیتے ہیں۔ یااللہ وہ کل والے کون تھے اور یہ آج والے کون ہیں؟ وہ تو جانے پہچانے چہرے تھے۔ یہ دیواروں پر سیاہی ملنے والے کون ہیں۔ وہی جو دوسروں پر حملے کرتے ہیں۔ جو گھروں، بازاروں اور مسجدوں کو بے آباد کرتے ہیں اور قبرستان بساتے ہیں اور پھر قبرستان پر بھی حملے کرتے ہیں۔ قبروں اور مزاروں کو مسمار کرتے ہیں۔ یااللہ یہ کون ہیں؟ رب العالمین کے رسول رحمۃ للعالمین ؐکے ماننے والوں کو تو ساری انسانیت کے لیے رحمت کا پیامبر بننا تھا۔
یہ سوچتے سوچتے ہم علامہ مقصود ڈومکی کے پاس جا پہنچے۔ ہمیں ڈیڑھ بجے دن تک ایئر پورٹ پہنچنا تھا۔ جہاں سے کراچی ہماری منزل تھی اور پھر اگلے روز کراچی میں ملی یکجہتی کونسل کا صوبائی اجلاس تھا۔ ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے برادر مقصود علی ڈومکی ہمیں علمدار روڈ کے نواح میں آباد گلزار شہداء میں لے گئے۔ دور دور تر شہیدوں کی قبریں۔ ہر طرف شہیدوں کی تصویریں۔ ننھے منے شہیدوں سے لے کر بزرگوں تک کی، ہر تصویر کے نیچے شہادت، کا مقام اور تاریخ درج تھی۔ کتنے ہی چہرے جانے پہچانے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جن کے ساتھ مل کر ہم نے دعوت دین اور امت کی سربلندی کے منصوبے بنائے تھے، کام کئے تھے اور خواب بُنے تھے۔ دل پھٹتا تھا۔ آنکھیں ابل پڑیں۔ شہیدوں کے حضور یہ چند قطرے ایک حقیر نذرانہ عقیدت تھا۔
ثاقب اکبر
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید