گلتری …محروموں اور مہاجروں کی بستی: نادم شگری
برزل ٹاپ سے اترتے ہی ہمارے سامنے دو طرح کی سڑکیں تھیں، میں نے داہنی سڑک پر گاڑی کو موڑنا چاہا تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے احباب نے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ یہ گلتری کا راستہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ سڑک منی مرگ، قمری اور دومیل کو جاتی ہے۔
ان علاقوں کے بارے میں ہمسفر دوستوں سے سنا کہ یہاں پاک فوج کے مسلح جوان ہمیشہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہاں کے باسیوں کو پاک فوج کی جانب سے ضرورت کی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں جن میں راشن، وردی، سردیوں کے لئے کمبل اور ایندھن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ میں نے بادل ناخواستہ بائیں جانب والی نیم پختہ سڑک پر گاڑی لگا دی جو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ اس سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے نیالی سے تسر جانے کا راستہ بار بار یاد آرہا تھا۔ خیر ! تقریبا ایک گھنٹے کی تھکا دینے والی ڈرائیونگ کے بعد ہم نےچاروں طرف سے پہاڑوں کے حصار میں ایک وسیع و عریض اور سرسبز میدان میں قدم رکھا جسے دیکھ کر سب نے بے ساختہ سبحان اللہ کہا۔ افتخار وزیری نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا : یہ میدان “دیوسائی صغیر” کہلاتا ہے۔ قدرت کی تخلیقی رعنائیوں کی ایسی تاثیر تھی کہ مسلسل چار گھنٹے سفر کرنے کے بعد بھی کسی کے چہرے پر تھکن کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔
2 جولائی 2018ء کی سردشام آرہی تھی کہ ہم پہاڑوں کے دامن میں پھیلے ہوئے میدانی راستے کو خیرباد کہتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگے ۔ ہمارے سامنے گلتری خاص کا پہلا گاؤں “تھنگ ” تھا۔ ہم نے گلتری میں چار دن گزارے؛ لیکن کوئی ایک دن ایسا نہیں تھا جس میں سورج نے گھنٹہ بھر کے لئے گھنے بادلوں سے اپنا چہرہ دکھایا ہو، ہم سطح سمندر سے 13000 فٹ اور بسا اوقات 16000 فٹ کی بلندی پر تمازت خورشید کی ہلکی سی جھلک کے لئے بیقرار رہے؛ لیکن آسماں کی مہربانی تھی کہ ہم پر مسلسل ابر کرم کئے رکھااور گاہے گاہے موسلا دھار بارشوں کے ذریعے گلتری کے نووارد مہمانوں کی خوب تواضع بھی کی۔ البتہ جس دن ہم فرنشاٹ ٹاپ کوعبور کر رہے تھے؛ بلکہ گاڑی کے ذریعے کوہ پیمائی کر رہے تھے تو موسم خاصا مہربان تھا ، اس لئے ہمیں “شنگھو شگر” جانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ بنیال سے جاتے ہوئے سید احمد رضوی، اکبر بوتراب ، قاسم رجائی اور افتخار وزیری کو فرنشاٹ کے قریب گاڑی سے اتار کر ہم “شنگھوشگر” کی جانب روانہ ہوئے۔شنگھو شگر کے نام سے ہی شگر کی وجہ سے انسیت پیدا ہوئی تھی؛ پھر جب پہاڑ کی چوٹی کے اس پارایک وسیع اور دلربا منظر دیکھا تو اس علاقے پر مزید پیار آنے لگا۔ بلتستان میں اسلامی تعلیمات کی شمع روشن کرنے والے ابتدائی مبلغین میں سے سید مہدی حسینی (رحمۃ اللہ علیہ) کی آرامگاہ شنگھو شگر کے گاؤں تھلی کے ماتھے کا جھومر بنی ہوئی ہے۔ اس گاؤں کے سارے مکین اپنے گھروں کو ویرانی میں بدل چکے ہیں؛ لیکن ایک امام زادے کی قبر نے گاؤں کو ابھی تک آباد رکھا ہے۔ آستانے کے سامنے ایک شہید کی قبر ہے جس پر لہراتا سبز ہلالی پرچم ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اپنے محب وطن سپوت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ شہید وطن اور سید زادے کی آخری آرامگاہوں پر شیخ ممتاز، اکبر مخلصی اور راقم کو حاضری کی سعادت ملی، تینوں اپنے دلوں سے اٹھنے والی ہوک کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے؛ لیکن آنکھوں سے بے ساختہ گرنے والے اشکوں نے سب کچھ عیاں کرکے رکھ دیا۔
گلتری میں اب اتنے لوگ نہیں بستے جو آج سے دو دہائیوں پہلے بستے تھے۔ یہاں ہر گاؤں میں انگشت شمار گھر رہ گئے ہیں۔ اگر چہ اس علاقے کو معقول مکانی وسعت حاصل ہے؛ لیکن مکینوں کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہجرت اور ترک وطن کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے اور رواں سال میں ہی 45 گھرانے اس علاقے سے ہجرت کرنے کے لئے رخت سفر باندھ چکے ہیں جس کی وجہ سے “فولٹکس ” نامی گاؤں مکمل طور پر خالی ہو جائے گا۔ “فولٹکس” سے قبل اس کا پڑوسی گاؤں “ببا چن”، “تھانوٹ” اور “شنگھوشگر” کا انتہائی خوبصورت گاؤں “تھلی” اپنے مکینوں سے مکمل خالی ہو گئے ہیں جہاں کی سنسان گلیوں میں یادوں اور اداسیوں کے سوا کچھ باقی نہیں ہے۔ “تھانوٹ” کو ہمسایہ ملک کی جارحانہ پالیسی اور سول آبادی پر اندھادھند عسکری فائرنگ کی وجہ سے خالی کرایا گیا ہے؛ لیکن دوسرے دیہاتوں پر اداسیوں کے بادل چھا جانے کے مختلف اسباب ہیں۔
گلتری کے لوگ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ہم نے ہرجگہ ان کی محبت ، خلوص اور ایثار و بخشش کا مشاہدہ کیا۔ یہاں ہر گھر کے ساتھ ایک مہمان خانہ اور مستراح ضرور بنایا جاتا ہے؛ وہ خود خاک و گِل کے گھروں میں رہتے ہیں؛ لیکن مہمانوں کی بیٹھک کو نرم و گرم بچھونوں سے آراستہ رکھتے ہیں۔ کچھ دیرسستانے کی غرض سے بیٹھ جانے والے مہمانوں کی ،دیسی مکھن، دہی اور مقامی چائے سے، تواضع ان کی روایت ہے اور رات ٹھہرنے والے مہمان کے لئے گوشت کا بندوبست کرنا گویا اپنے فرائض میں شمار کرتے ہیں، اس کے لئے اپنے پالتو مویشیوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ لوگ علماء اور سادات کے احترام میں سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ان کی عقیدت اور خلوص کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض اوقات حریص جعلی سید زادے اور زرپرست نقلی علماء بھی اس علاقے کا رخ کرتے ہیں اور مال امام ، مال سادات، نذر ونیاز اور خیرات کے نام پر ان سے خوب مال بٹورتے ہیں، مویشیاں، دیسی مکھن اور نقد رقوم وصول کرتے ہیں۔ کچھ لٹیرے اس حد تک شریر ہوتے ہیں کہ ان کی سادگی سے سوء استفادہ کرتے ہوئے دو تین سال کا خمس ایڈوانس لے اڑتے ہیں، عوامی نمائندوں سے مسلسل دھوکہ کھانے والے عوام نقلی اور جعلی علماء کے ہاتھوں بھی نالاں نظر آتے ہیں، جنہوں نے غریب لوگوں کی کمائی سے خمس ہڑپ کرنے اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے کا وعدہ کرکے رقم بٹورنے کے بعد اپنی اپنی جائیدادیں بنائی ہیں اور سکردو کے خوش آب وہوا مقامات پر اپنی رہائشگاہیں تعمیر کی ہیں۔ اس اندھیر نگری سے عوام کو نجات دلانے اور عوام پرفرض ہونے والی شرعی وجوہات کو عوامی مصلحتوں کے عین مطابق خرچ کرنے کےحوالے سے اسلامی تبلیغاتی مرکز گلتری کے اراکین نے عملی قدم اٹھایا ہے جسے خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ نوجوان علماء اپنی بہتر کارکردگی دکھائیں تو ان شاء اللہ مستقبل قریب میں اس محروم علاقے پر اس اقدام کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
گلتری کے باسیوں کو منی مرگ کے عوام اور خواص کی طرح حکومت پاکستان اور پاک فوج کی طرف سے نہ راشن دیا جاتا ہے اور نہ وردی، یہ لوگ گرمیوں کے چار مہینوں میں جب سکردو اور استور سے ان کا رابطہ بحال ہوجاتا ہے تو اپنی سردیوں کا بندوبست کرلیتے ہیں، ایندھن کے لئے لکڑیاں بھی ذخیرہ کر لیتے ہیں؛ پھر بھی کسی سے شکوہ کرنے کے لئے لب نہیں کھولتے۔ ان کے ہاں عوامی نمائندوں کی محبت اور محنت سے پاور ہاؤس تو بہت بنائے گئے ہیں؛ لیکن بجلی کہیں میسر نہیں؛ کیونکہ ان مشینوں کو چلانے کے لئے کوئی عملہ موجود نہیں۔ پورے گلتری کے اندر چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بنیال کی ڈسپنسری اور شخمہ کے فوجی امدادی کیمپ کے علاوہ آپ کو کوئی ہسپتال نہیں ملے گا۔ مٹیال، گینیال، نوگام اور کرابوش میں کوئی مریض ہو جائے تو اس کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں: یا تو 16000 فٹ کی بلندی سےگزرتے دشوار راستے کو طے کرکے 20 کلو میٹرپیدل چل کر بنیال جائے یا اپنے بوسیدہ گھر کے کسی کونے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان، جان آفرین کے سپرد کر دے۔ اور ہاں یہ دو راستے صرف گرمیوں کے چار مہینوں کے لئے ہیں ورنہ جب چار پانچ فٹ برف پڑتی ہے تو اس غمزدہ کے پاس صرف دوسرا راستہ ہی رہ جاتا ہے۔
ہم نے گاؤں گاؤں جا کر تمام تر مادی سہولیتوں سے محروم اس علاقے کا جائزہ لیا، گلتری خاص کے گاؤں “آخری داس” سے لے کر “فولٹوکس” تک کے اکثر وبیشتر افراد سے ملاقاتیں کیں، فرنشاٹ ٹاپ کو عبور کر کے” گینیال “اور “مٹیال” کے محروم لوگوں کی باتیں سنیں،”سمولک” کے 95 سالہ بزرگ حاجی سلمان، “یوخمہ” کے آخوند عیسیٰ، “شوارن” کے فعال استاد آخوند بشیر، “کونر” کے حوالدار غلام عباس، “بنیال” کی مرکزی شخصیات شیخ شعبان، شیخ طہٰ سمیت KTبیوری کے مصنف ناصر حسین ژالو جیسی شخصیات سے الگ الگ گفتگو کی، تو کسی نے بھی مادی سہولیات کی عدم موجودگی اور محرومی کا شکوہ نہ کیا، کیا اللہ والے لوگ تھے جنہیں مادی سہولیات سے کوئی غرض نہیں تھی۔ سب کی ایک ہی آرزو تھی اور یہی سب کے دلوں کی آواز تھی کہ گلتری کے گاؤں گاؤں کوئی نہ کوئی عالم دین موجود ہو، جو نئی نسل کو دین کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرے، مسجد وں کو آباد رکھے، باجماعت نماز پڑھائے، کسی کی شادی خانہ آبادی کا موقع آئے تو دولہا دلہن کو شرعی الفاظ کے ذریعے شادی کے بندھن میں باندھے، دارفانی سے وداع کرتے شخص کے سرہانے کچھ دیر بیٹھ کر دعائے عدیلہ اور سورہ یٰسین کی تلاوت کرے، اس کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کرے۔ سردیوں میں جب ایک آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر پائے جانے والے گاؤں سے رابطہ منقطع ہوجائے تو مرنے والے کا جنازہ دو تین دن تک نہ پڑا رہے، بروقت اس پر نماز ادا کرکے اس کی تدفین کرے۔ الغرض ہر گاؤں میں کم از کم ایک آخوند موجود ہو جو دینی اور مذہبی فرائض کو بروقت ادا کرے ۔ مادی سہولیات کے نہ ہونے کا شکوہ کوئی نہیں کرتا؛ لیکن جب مذہبی فرائض کی ادائیگی بھی مشکل ؛ بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جائے تو انسان کو حق پہنچتا ہے کہ وہ گلتری سے ہجرت کرے، کسی ایسے مقام پر جائے جہاں کم از کم اس کاجنازہ ادا ہو، اسے بروقت دفن کیا جائے،اس کے بچے شرعی آداب واطوار سیکھیں۔
سکردو شہر میں گلتری والوں کی کافی تعداد پہلے سے آباد ہو چکی ہے اور مزید افراد بھی ہجرت کے لئے پرعزم ہیں۔ ہمارے جائزے کے مطابق یہ لوگ آرام دہ زندگی بسر کرنے کے لئے سکردو نہیں آتے، اگر انہیں اپنے علاقے کے ہر گاؤں میں مذہبی تعلیمات سکھانے کے لئے ایک عالم فراہم کیا جائے جو ایک دو برس کے اندر اندر ان فرائض کی انجامدہی کے لئے مزید کچھ افراد کی تربیت کرے تو گلتری کے عوام ہر طرح کی مادی سہولیات سے بے بہرہ ہونے کے باوجود اپنے علاقے میں بسنے کو ہجرت پر ترجیح دیں گے ؛ بلکہ سکردو کے قرب وجوار میں پھیلے ہوئے گلتری کے مہاجرین بھی دوبارہ اپنے علاقوں میں واپس جانے پر آمادہ ہوں گے۔کسی شہر میں پرسکون زندگی گزارتے ہوئے ان مہاجرین کے بارے میں کسی بھی قسم کی رائے قائم کی جا سکتی ہے؛ لیکن جب عازم سفر افراد کے حلقے میں بیٹھ کر ان کے دکھ سنے جائیں اور دل پر پتھر رکھ کر اپنی زادگاہ کو چھوڑجانے والوں کی کتھا پر کان دھرے جائیں تو اس ہجرت کی بھی تفسیر بالرائے کو یقینا حرام سمجھا جائے گا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید