گلگت بلتستان کی تاریخی و آئینی حیثیت
کالم نگار | پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری
پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے پر اس تحریک کی حمایت اور مخالفت میں بیانات اور آراءکا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ 1992ءمیں بلتستان میں کواردو کے مقام پر سیلاب اور شنگوز میں زلزلہ سے مالی و جانی نقصان ہوا۔ اس وقت میں وزیراعظم آزادکشمیر سردار محمد عبدالقیوم خان کا مشیر تھا ان کی خواہش پر شمالی علاقہ جات کا دورہ کیا۔ حالیہ گورنر صوبہ خیبر پختونخواہ سردار مہتاب خان اس وقت وفاقی وزیر امور کشمیر اور شمالی علاقہ جات تھے۔ اس دورہ کو کامیاب بنانے میں انکی آشیرباد حاصل تھی۔
وہ گارڈن کالج راولپنڈی میں میرے شاگرد رہ چکے ہیں۔ محب وطن اور دیانت دار سیاست دان اور عاشق پاکستان ہیں اس دورہ کے دوران رکن اسمبلی محترمہ فوزیہ سلیم بھی میرے ساتھ تھیں جو بعد میں گلگت بلتستان میں وزیر بھی رہی ہیں۔ تعلیم یافتہ سماجی و سیاسی رہنما ہیں میرا قیام سکردو میں گورنمنٹ ریسٹ ہاوس میں رہا۔ مذہبی‘ سیاسی‘ علمی اور ادبی شخصیات سے ملاقاتیں رہیں۔ میں نے اس دورے کے دوران یہ محسوس کیا کہ وہاں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ جذباتی حد تک الحاق کی حامی ہے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حق میں ہے۔ میں نے وہاں کے نامور سیاست دانوں کو سردار محمد عبدالقیوم خان کی یہ تجویز پیش کی کہ اگر اس علاقہ کے لوگ آزادکشمیر میں شمولیت کا اعلان کریں تو اسمبلی میں انکی تعداد کیمطابق انہیں نشستیں دی جائیں گی اور اقتدار میں شمولیت کےلئے اگر صدرآزادکشمیر سے ہوگا تو وزیراعظم گلگت بلتستان سے ہوگا اور اگر وزیراعظم آزادکشمیر سے ہوگا تو صدر گلگت بلتستان سے ہو گا۔ اسی طرح سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اسمبلی بھی مقرر ہونگے لیکن اس تجویز کو پذیرائی نہ حاصل ہو سکی۔ سوائے چند احباب کے ہر شخص نے پاکستان کا صوبہ بنائے جانے پر زور دیا۔ آئیے اختصار سے گلگت بلتستان کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ کشمیرکا حصہ نہ تھا۔ شمالی علاقہ جات چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا۔ نگر‘ ہنزہ‘ کھرمنگ‘ خپلو‘ شگر‘ دیامر‘ خذر‘ سکردو‘ استوار اور گانچھے راجواڑے تھے۔ مہاراجہ کشمیر کی ایماءپر جنرل زور آور سنگھ نے یہ علاقہ فتح کر کے کشمیر میں شامل کیا۔ ہندوستان میں برطانوی دور حکومت میں روس نے سنٹرل ایشیاءکی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو 1935ءمیں مہاراجہ کشمیر نے یہ علاقہ حکومت برطانیہ کو لیز پردے دیا۔ کرنل ڈیورنڈ کو اس علاقے کا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ 1947ءمیں جب ہندوستان انگریز کی غلامی سے آزاد ہوا تو یہ علاقہ مہاراجہ کشمیر کے زیر قبضہ نہ تھا بلکہ انگریزوں کے زیر قبضہ تھا۔ 14۔ اگست 1947ءیوم آزادی تھا۔ اس دن گلگت بلتستان میں مہاراجہ کشمیر کی حکمرانی نہ تھی۔ گلگت سے 40 میل دور جنوب کی جانب بونجی کے مقام پر مہاراجہ کشمیر کی جموں اینڈ کشمیر بٹالین نمبر6 تعینات تھی مہاراجہ نے موقع اور حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے کئے گئے معاہدے کو پس پشت ڈال کر بریگیڈئر گنسارا سنگھ کو اس علاقے کا گورنر مقرر کردیا جو فوج کی مدد سے علاقہ میں داخل ہو گیا اور گلگت پر قابض ہو گیا۔ برطانوی وائسرائے کمشنڈ آفیسرز اور بونجی بٹالین کے مسلمان افسران نے گنسارا سنگھ کو شکست دی اور اسے گرفتارکر لیا۔ کرنل حسن اور علاقہ کے مسلمان مجاہدین نے 16 دن تک اس آزاد کردہ علاقہ پر حکومت کی۔ وہ کمانڈر انچیف بنے۔ یکم نومبر 1947ءکو گلگت اسکاوٹس کے کمانڈر میجر براون نے مقامی مسلم باغیوں کیساتھ مل کر ڈوگرہ فوج کو شکست دی۔ راجہ شاہ رئیس خان صدر مقرر ہوئے۔ 16 دن بطور آزاد ریاست رہنے کے بعد 16 نومبر 1947ءکو حکومت گلگت و بلتستان نے الحاق پاکستان کا اعلان کیا۔ قانونی حیثیت تو یہ ہونا چاہئے تھی کہ گلگت بلتستان آزادی کے وقت مہاراجہ کشمیر کے زیر نگین نہ تھا بلکہ اس علاقہ پر عمل داری حکومت برطانیہ کی تھی۔ مہاراجہ کشمیر نے بزور شمشیر یہ علاقے فتح کئے تھے اور مجاہدین نے بزور شمشیر مہاراجہ کشمیر کے گورنر بریگیڈئر گنسارا سنگھ کی فوج کو شکست دی۔ اسے گرفتار کرلیا اور ڈوگرہ راجہ سے اپنے مفتوحہ علاقہ آزاد کروا لیا۔ لہذا یہ کشمیر کا حصہ نہ رہے۔آزادکشمیر بھی مجاہدین نے ماراجہ کشمیر ہری سنگھ کے تسلط سے جہاد کر کے آزاد کروایا تھا۔ آزادکشمیر 1947ءمیں مہاراجہ کشمیر کے زیر نگین تھا لہذا وہ متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا لیکن گلگت بلتستان کا مسئلہ بالکل جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بوقت آزادی ہند مہاراجہ کشمیر کے زیر نگین نہیں تھا لہذا یہ متنازعہ علاقہ نہیں ہے۔ اسے بوقت الحاق پاکستان میں پانچواں صوبہ بنا دینا چاہئے تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ 1954ءتک اس علاقہ کے لوگ اپنا ڈومیسائل مظفر آباد آزادکشمیر سے حاصل کرتے تھے۔ 1937ءاور 1941ءکے ریاستی انتخابات میں گلگت بلتستان سے 5 نمائندے کشمیر اسمبلی میں منتخب ہو کر جاتے تھے اور 1947ءتک کشمیر اسمبلی میں اس علاقہ کی نمائندگی تھی لہذا تاریخی طورپر اس علاقہ کے مفتوحہ علاقہ ہونے کی بدولت یہ کشمیر کا حصہ قرار پایا لیکن حکومت برطانیہ کی عمل داری کے وقت 1947ءکو آزاد ہوا تو مہاراجہ کشمیر کے زیر تسلط نہ تھا لہذا یہ کشمیر کا حصہ نہیں بنتا۔ پاکستان نے قانونی غلطی یہ کی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھارت کے زور پراسے کشمیرکا حصہ تسلیم کیا اور اب اگر اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا گیا تو یہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی جس سے پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور جائیگا اور بھارت بھی ردعمل میں اسے جواز بنا کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لے گا۔ اس طرح ”تقسیم کشمیر“ کی راہ ہموار ہو جائیگی۔ ستمبر 2009ءمیں چین نے پنجی استور کے مقام پر ایک میگا انرجی پروجیکٹ لگایا جس پر بھارت نے واویلا مچایا۔ پاکستان نے بھارت کے احتجاج کو مسترد کر دیا۔ اب بھی پاک چین اقتصادی راہداری بھارت کو کھٹکتی ہے اور واویلا کر رہا ہے بھارتی احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے چین کی تسلی کیلئے بحیثیت مبصر پاکستانی سینٹ اور قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کیلئے چند سیٹیں مختص کرنے میں اگر کوئی قانونی و آئینی سقم نہ ہو تو یہ مسئلہ کا عارضی حل ہو سکتا ہے۔
بشکریہ :http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/30-Jan-2016/449155
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید