تازہ ترین

گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں دینی جماعتوں کا کردار کیا ہوگا؟/تحریر: لیاقت علی انجم

گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی تاریخ نزدیک آتے ہی دینی جماعتوں کے کردار اور سیاسی مستقبل پر ایک بار پھر بحث ہونے لگی ہے، عوامی، سیاسی اور سماجی سطح پر ہونے والی بحث مذہبی جماعتوں کیلئے کوئی نیک شگون کو ظاہر نہیں کرتی۔
گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی تاریخ نزدیک آتے ہی خطے کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کے واضح اشارے ملنے لگے ہیں۔ گو کہ وزیراعظم کی جانب سے دعوؤں کے برخلاف کوئی قابل ذکر اعلانات نہ ہونے نے وقتی طور پر تحریک انصاف کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، تاہم اس کے باؤجود سیاسی جوڑ توڑ اور کئی اہم ”الیکٹیبلز” کے ساتھ پی ٹی آئی کے معاملات فائنل ہونے کے قریب ہیں۔ ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان میں سردیاں ختم ہونے کے فوری بعد ہی سیاسی گرمی کا موسم شروع ہونے والا ہے، آئندہ سال مارچ کے اوائل سے ہی کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی اور آئندہ کی حکومت سازی کے حوالے سے معاملات کسی حد تک واضح ہونے لگیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت نون لیگ کے تین اہم ترین رہنما مارچ میں تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرینگے، یہ تینو ں رہنما اس وقت حکومتی بنچوں پر اہم عہدوں پر فائز ہیں، جبکہ تحریک اسلامی کے رکن اسمبلی بھی تبدیلی کے قافلے میں شامل ہونے کیلئے بے چین ہیں۔ گلگت میں پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنما نے پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے ٹکٹ کی شرط رکھی ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کیا جار ہا ہے، ایسی صورت میں خود تحریک انصاف کے اہم رہنما ٹکٹ کی دوڑ سے آؤٹ ہو جائیں گے اور انہیں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ کی پیشکش کی جائے گی۔

شئیر
21 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5156

گذشتہ عام انتخابات میں گلگت بلتستان میں دینی جماعتوں کا فیصلہ کن کردار رہا، الیکشن مہم کے دوران ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک نے سیاسی مخالفین کیخلاف بہت حد تک نفسیاتی برتری حاصل کی تھی اور انہیں بہت ٹف ٹائم دیا تھا، خصوصاً ایم ڈبلیو ایم کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ کم از کم دس سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جائے گی، جبکہ تحریک اسلامی کی مہم سلوموشن میں جاری رہی۔ بعد میں الیکشن کے نتائج نے سب کو حیران کر دیا، یہ نتائج ایم ڈبلیو ایم کیلئے کسی صدمے سے کم نہ تھے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی تحریک نے توقعات کے عین مطابق کامیابی حاصل کی۔ اب گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی تاریخ نزدیک آتے ہی دینی جماعتوں کے کردار اور سیاسی مستقبل پر ایک بار پھر بحث ہونے لگی ہے۔ عوامی، سیاسی اور سماجی سطح پر ہونے والی بحث مذہبی جماعتوں کیلئے کوئی نیک شگون کو ظاہر نہیں کرتی۔ جی بی کی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگ اس کی مختلف توجیہات اور عوامل بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جی بی میں ماضی کے مقابلے میں مذہبی جماعتوں کا کردار محدود ہوچکا ہے، اس کی اہم وجہ پالیسی میں تسلسل کا فقدان، موجودہ صورتحال اور اس کے تقاضوں سے ناآشنائی کو بیان کیا جاتا ہے۔ دوسری اہم وجہ مذہبی پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو عوامی اور سیاسی سطح پر تعصب کی عینک سے دیکھا جاتا ہے، یہ بذات خود ان منتخب اراکین اسمبلی کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے، جو وہ خود کو ایک معتدل اور وژنری ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تیسری اہم وجہ حساس مواقع پر غیر ضروری جذباتیت کا عنصر ہے، جو وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتا ہے، الیکشن سے الیکشن تک کے دورانئے میں مذہبی جماعتیں مربوط عوامی رابطہ مہم اور بھرپور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے ذریعے خود کو منوانے اور عوام میں جگہ بنانے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جی بی کے عام انتخابات جو اگلے سال جون میں ہونے جا رہے ہیں، میں مذہبی جماعتوں کا کردار کیا ہوگا؟ گذشتہ اور آئندہ کے انتخابات میں کیا فرق ہوگا؟ دینی جماعتیں کیا اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑیں گی؟ گلگت سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی کے بقول عام انتخابات میں کسی امیدوار کو ہرانے یا جتوانے میں مذہبی جماعتوں کا کردار فیصلہ کن ہوگا، لیکن یہ خود سے جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔ آغا علی رضوی کی وجہ سے ایم ڈبلیو ایم کی ساکھ کسی حد تک برقرار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سید علی رضوی اس وقت جی بی میں مشہور ترین اور عوامی و سیاسی سطح پر متحرک ترین لیڈر شمار ہوتے ہیں، وہ ہر عوامی مسئلے پر صف اول میں ہوتے ہیں، مشہور ہے کہ سید علی رضوی کا زیادہ تروقت سڑکوں پر دھرنوں اور احتجاجوں میں گزرتا ہے، وہ ہر فورم پر جی بی کے بنیادی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے بلتستان کی سیاست میں سید علی رضوی کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے فارمولا تیار کیا جا رہا ہے، اس بابت پی ٹی آئی کے صوبائی صدر سید جعفر شاہ اور ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سربراہ کے مابین دو نشستیں ہوچکی ہیں، ایک نشست گلگت اور دوسری سکردو میں ہوئی، ان نشستوں میں اس بات پر غور کیا گیا کہ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کس طرح کی راہیں نکالی جا سکتی ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سکردو کی چھ نشستوں میں سے حلقہ نمبر دو کی قربانی تحریک انصاف دے گی۔ باقی پانچ حلقوں میں ایم ڈبلیو ایم پی ٹی آئی کی حمایت کریگی۔ گانچھے میں بھی پی ٹی آئی کیلئے ایم ڈبلیو ایم حمایتی بنے گی۔ نگر کے دو حلقوں کو برابر تقسیم کیا جائے گا اور دونوں حلقوں میں مشترکہ امیدوار سامنے لائے جائیں گے، گلگت کے تینوں حلقوں میں ایم ڈبلیو ایم تحریک انصاف کو اسمبلی میں پہنچانے کیلئے سیڑھی بنے گی۔ دوسری جانب اسلامی تحریک ماضی کے انتخابات کے برعکس آنے والے الیکشن میں بلتستان سے پیپلزپارٹی کو سپورٹ نہیں کرے گی۔ پیپلزپارٹی اور آئی ٹی پی میں تنازعہ کونسل کے ممبران کے انتخاب کے دوران اس وقت پیدا ہوا تھا، جب اسلامی تحریک کی قیادت کی طرف سے پی پی کے اکلوتے رکن اسمبلی عمران ندیم سے سید عباس رضوی کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا تو ان کی طرف سے حمایت سے صاف انکار کر دیا گیا، حالانکہ عمران ندیم کی کامیابی میں اسلامی تحریک کا بنیادی کردار تھا، اس نے اپنے امیدوار فضل علی کو الیکشن سے چند ہفتہ قبل عمران ندیم کے حق میں دستبردار کرایا تھا۔
حسب سابق آئندہ الیکشن میں بھی سکردو حلقہ نمبر تین سے اسلامی تحریک کی طرف سے مسلم لیگ نون کے متوقع امیدوار حاجی فدا محمد ناشاد (موجودہ سپیکر جی بی اسمبلی) کی حمایت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سکردو حلقہ نمبر چار روندو سے اسلامی تحریک کے امیدوار کا ابھی تک نام سامنے نہیں آیا ہے، آئی ٹی پی کے موجودہ منتخب نمائندہ سکندر علی کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ بھی تبدیلی سرکار کے ہمنوا بنیں گے۔ سکردو حلقہ نمبر دو سے سید عباس رضوی کی طرف سے الیکشن لڑنے سے معذرت کرنے کی صورت میں قمراہ سے تعلق رکھنے والے شبیر حسین کو میدان میں اتارے جانے کا امکان ہے، کھرمنگ سے سید اکبر شاہ اسلامی تحریک کے متوقع امیدوار ہیں۔ اگر ہم دوسری مذہبی جماعتوں کو دیکھیں تو جماعت اسلامی استور جبکہ جے یو آئی دیامر کی حد تک محدود ہے۔ گلگت میں عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان رئیس جو جماعت اسلامی کے رکن بھی ہیں، نے الیکشن آزاد حیثیت سے لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ مولانا سلطان رئیس مخالفین کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی استور سے ایک سیٹ لے سکتی ہے، لیکن اس بات کا امکان بہت مشکل نظر آرہا ہے۔ دیامر میں جے یو آئی ایک سے دو سیٹ لے سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جی بی کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑنا پڑے گی، کیونکہ حالات بہت کچھ تبدیل ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *