گلگت بلتستان ۔۔۔ تعلیمی انقلاب اور پالیسیاں
تحریر: سید قمر عباس حسینی انسانی زندگی میں تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ علم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے، اخلاقیات کی تربیت دیتا ہے۔ علم کے بغیر انسان جانوروں جیسا ہو جاتا ہے، جیسا کہ امام غزالی فرماتے ہیں: “بے علم کو انسان اس لئے […]
تحریر: سید قمر عباس حسینی
انسانی زندگی میں تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ علم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے، اخلاقیات کی تربیت دیتا ہے۔ علم کے بغیر انسان جانوروں جیسا ہو جاتا ہے، جیسا کہ امام غزالی فرماتے ہیں: “بے علم کو انسان اس لئے قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جو صفت انسان کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ علم ہی ہے، انسان کو مرتبہ و مقام علم ہی کی وجہ سے ملا ہے۔” تعليم کي اہميت ايک عام انسان کے خیال میں یہ ہے کہ تعليم اس لئے ضروري ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے ميں مددگار ہوتی ہے۔ يہ صحيح ہے کہ تعليم آدمی کے لئے ملازمت اور معاش ميں مددگار ہوتی ہے، مگر تعليم کی اصل اہميت يہ ہے کہ تعليم آدمی کو باشعور بناتی ہے۔ تعليم آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ باتوں کو اس کي گہرائی کے ساتھ سمجھے اور زيادہ نتيجہ خيز انداز ميں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے۔
تعلیم و تربیت کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں، انسانیت کیلئے تعلیم و تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ پر اللہ کی طرف سے جس پہلی آیت کا نزول ہُوا، اسکی ابتدا بھی ’’اقرا‘‘ سے ہوئی۔ تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے، یہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان ایسا پُل ہے، جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے، جب تعلیم و تربیت کو خدا کے لئے اور معرفت حق کے لئے حاصل کریں، لیکن اگر تعلیم و تربیت کو صرف مادی ضروریات کی حصول کے لئے حاصل کریں تو معاشرے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت یافتہ افراد ہی مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں اور پھر پڑھے لکھے معاشروں کے گلستان میں بڑے بڑے علمی شخصیتوں کے پھول کھلتے ہیں۔ افراد ہی چونکہ زمانوں کے نمائندے ہوتے ہیں، اس لئے جن معاشروں میں دانشور، محقق اور مدبر ابھر کر سامنے نہیں آتے، وہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تعلیم و تربیت یافتہ معاشروں میں افراد مقصدِ حیات، آخرت کی تیاری، حقوق اللہ، حقوق العباد اور آداب اسلامی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ان چیزوں کا شعور تعلیم و تربیت سے اُجاگر ہوتا، لیکن تعلیمی اسناد کے حصول کے بعد بھی اگر کوئی انسان مقصدِ حیات کو سمجھنے سے قاصر رہے، اپنے روحانی دریچوں کے اندر جھانکنے کی اہلیت سے عاری ہو، آداب اسلامی کو اہمیت نہ دے، معاشرتی زندگی میں بڑوں کا احترام نہ کرے، چھوٹوں سے شفقت کا مادہ نہ ہو، تو سمجھ لیں کہ اس نے تعلیمی ڈگری تو حاصل کی ہے لیکن اپنی تربیت نہیں کی۔ بدقسمتی سے پچھلے 68 سالوں میں ہم نے تعلیم کے ہمراہ تربیت کو بالکل اہمیت نہیں دی، اس لئے تعلیم و تربیتی لحاظ سے گلگت بلتستان کا شمار دنیا کے دور افتادہ علاقوں میں ہوتا رہا۔ ہمارا تعلیم و تربیتی نظام سیاسی نمائندوں کے سیاست کی نذر ہوگیا ہے۔ اس وقت کرپشن کا سب سے بڑا منبع ہمارا محکمہ ایجوکیشن ہے، ہمارے نظامِ تعلیم میں استادوں کا Skill Development کی طرف کوئی دھیان نہیں۔ صرف بچوں کو سکول بھیجنا کافی سمجھ لیا گیا ہے۔
اگرچہ ہمارے بعض بزرگوں کے مطابق “گلگت بلتستان میں تعلیم و تربیتی انقلاب آگیا ہے۔” ان کی بات اس زاویے سے تو بالکل صحیح ہے کہ سکولوں میں بے حساب اضافہ ہوا ہے، ہر کوئی اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں بھیجنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا یہی تعلیم و تربیتی انقلاب ہے۔؟ کیا تعلیمی انقلاب سکولوں کے زیادہ ہونے کو کہتے ہیں۔؟ کیا انقلاب کے لئے عمارتوں کی بہتات کافی ہے یا کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہے۔؟ میرے خیال میں ہرگز ایسی بات نہیں ہے، ابھی انقلاب نہیں آیا بلکہ تعلیمی و تربیتی میدان میں انقلاب لانے کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جب تک سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں میں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور ہماری معاشرتی ضرورت کے مطابق نظام تعلیم و تربیت رائج نہیں ہوگا، جب تک تعلیم و تربیت کو عام کرکے مساویانہ انداز میں فراہم نہیں کرینگے اور جب تک تعلیم و تربیت کو ذریعہ معاش بنانے والوں سے چھین کر حقیقی اور لائق و فائق افراد کے ہاتھوں کے سپرد نہیں کرینگے، بچے میں خود اعتمادی، اپنی دلیل کیلئے الفاظ کے چناو کا ڈھنگ، دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور بزرگوں سے ملنے کے آداب اور شائستگی، جو کہ مقصد تعلیم و تربیت ہے، نہیں سیکھائینگے، انقلاب نہیں آسکتا۔
موجودہ نظام تعلیم، عدمِ تربیت کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ ایسی ایسی برائیاں جنم لے رہی ہیں کہ جن کا ماضی میں نام و نشان تک نہیں تھا۔ ہمارے بزرگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت ہماری تعلیم و تربیت Subject Based پر ہے، Concept Based نہیں، یعنی ہم بچوں کو مضمون یاد کروا دیتے ہیں، اس مضمون کے اندر پنہاں اسباق اور فلاسفی پر زور نہیں دیتے۔ پورے پاکستان خصوصاً گلگت بلتستان کے معاشرے میں نام نہاد ترقی کی طلب اور دکھاوے کی ڈگریوں نے معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف حکومتیں تعلیم و تربیتی اصلاحات کی پالیسی بناتی رہی ہیں اور پھر یہ پالیسیاں بھی حکومتی مفادات کی نظر ہوتی چلی گئی ہیں۔ اگر ان پالیسیوں کو سیاسی مفادات سے بالاتر رکھ کر اجرا کیا جائے تو امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید