تازہ ترین

ہفتہ تحقیق کی مناسبت سے محققین بلتستان کے اعزاز میں کانفرنس کا انعقاد

اس کانفرنس سے تقریبا دو ہفتہ پہلے جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق نے بلتستان کے محققین کے علمی و قلمی آثار اور سوانح حیات جمع کرنے کے لئے ایک اعلامیہ شایع کیا تھا۔
شئیر
173 بازدید
مطالب کا کوڈ: 8079

ج ر ب نیوز، جمہوری اسلامی ایران کے کلینڈر کے مطابق ہفتۂ تحقیق کی مناسبت سے ۱۶ دسمبر ۲۰۲۲ کو جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق کی جانب سے حوزہ علمیہ قم میں مقیم بلتستان سے تعلق رکھنے والے محققین اور قلمکاروں کے اعزاز میں ایک عالی شان علمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

اس کانفرنس سے تقریبا دو ہفتہ پہلے جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق نے بلتستان کے محققین کے علمی و قلمی آثار اور سوانح حیات جمع کرنے کے لئے ایک اعلامیہ شایع کیا تھا۔

جن محققین نے جامعہ روحانیت بلتستان کے اس عظیم علمی پروجیکٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اپنے آثار اور زندگی نامہ اس مختصر عرصے میں جامعہ روحانیت بلتستان تک پہنچایا، جامعہ روحانیت بلتستان نے بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یہ پروگرام ترتیب دی۔

واضح رہے جامعہ روحانیت بلتستان، بلتستان سے تعلق رکھنے والے قلمکاروں اور محققین کے آثار کی جمع آوری کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور یہ پروگرام اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔

کانفرنس کا باقاعدہ آغاز جناب ذاکر حسین ثاقب صاحب نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ اور نظامت کی ذمہ دار ی جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق کے سکریٹری جناب محمد سجاد شاکری صاحب نے ادا کی۔

اس کانفرنس کے خطیب اور مہمان خصوصی نشر و احیائے آثار برصغیر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ جناب حجۃ الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان صاحب تھے۔

انہوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں تحقیق اور قلم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اور پھر بلتستانی علمائے کرام کی تحقیقی خدمات کا تاریخچہ بیان کرتے ہوئے کہا : بلتستان کے علماء کی تحقیقات اور تالیفات بین الاقوامی سطح کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا: بلتستان کے علماء نے اگرچہ لکھنو، امروہہ اور حیدر آباد دکن کے علماء کی طرح زیادہ قلم نہیں اٹھایا ہے لیکن جہاں اور جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہاں حق مطلب ادا کیا ہے اور شاہکار خلق کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قلم کی طرف کم توجہ دینے کے باوجود میری معلومات کے مطابق گذشتہ علمائے بلتستان نے ۴۰۰ سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں۔ لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اب وہ کتابیں کدھر ہیں؟ کیوں فقط ان کتابوں کا نام باقی ہیں۔ یقینا یہ بلتستانی معاشرے کا علم و تحقیق اور کتابوں کی طرف کم توجہی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ایسی صورتحال میں جامعہ روحانیت بلتستان کی طرف سے علمائے بلتستان کے علمی اور قلمی آثار کی جمع آوری کے لئے قدم اٹھانا قابل تحسین ہے۔ لیکن اس راہ کے جہاں بہت زیادہ فائدے ہیں وہاں کئی کٹھن مشکلات بھی ہیں۔

کانفرنس میں بلتستان سے تعلق رکھنے والے نامور علمی شخصیات اور طلاب نے شرکت کی۔

جامعہ روحانیت بلتستان نے اس مختصر عرصے میں اپنے علمی اورقلمی آثار ارسال کرنے والے تقریبا ۲۵ محققین اور قلمکاروں کو اعزازی اسناد سے نوازا۔

کانفرنس کے اختتام پر صدر جامعہ روحانیت بلتستان حجۃ الاسلام سید احمد رضوی اور سکریٹری تحقیق نے تمام شرکت کرنے والے محققین اور علمائے کام کا شکریہ ادا کیا۔

3 پاسخ به “ہفتہ تحقیق کی مناسبت سے محققین بلتستان کے اعزاز میں کانفرنس کا انعقاد”

  1. اچھی کوشش ہے
    علمی و تحقیقی راہ پر توجہ قابل قدر کام ہے جو بلتستان کے طلاب کے اعتبار سے قابل تحسین عمل ہے

  2. سید محمد اظہر موسوی گفت:

    قابل تحسین عمل ہے قلم و تحقیق پر کام کرنا

  3. سید محمد اظہر موسوی گفت:

    قلم تحقیق پر کام شروع کرنا قابل تحسین عمل ہے

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *