تازہ ترین

ہماری آرزو، قائد اور اقبال کا پاکستان /تحریر: محمد حسن جمالی

بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کے نام سے کوئی مستقل مملکت نہیں تھی، پاکستان کو معرض وجود میں لایا گیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کے پاکیزہ روشن افکار کے اجتماع کے نتیجے میں پاکستان کو وجود ملا۔ أن دو عظیم شخصیات نے پاکستان کو وجود میں لانے کے لئے بے پناہ زحمتیں اٹھائی […]

شئیر
24 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2662

بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کے نام سے کوئی مستقل مملکت نہیں تھی، پاکستان کو معرض وجود میں لایا گیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کے پاکیزہ روشن افکار کے اجتماع کے نتیجے میں پاکستان کو وجود ملا۔ أن دو عظیم شخصیات نے پاکستان کو وجود میں لانے کے لئے بے پناہ زحمتیں اٹھائی ہیں۔ اپنی پوری توانائیاں صرف کی ہیں، دشمنوں کے طرح طرح کے طعنے برداشت کئے ہیں، نازیبا الفاظ، تحقیر آمیز باتیں، تمسخرانہ جملے سننا گوارا کئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بلند اقدام سے جناب قائد و علامہ کو منحرف کرنے کے لئے دشمنوں نے اپنی مقدور بھرکوشش کی، بینک بیلنس دکھایا، مال ودولت کی لالچ دلائی، جاہ و مقام اور اقتدار و کرسی دے کر خریدنے کی کوشش کی، مگر سلام ہو ان عظیم ہستیوں کی عظمت پر کہ وہ نہ مال وزر کی لالچ میں آگئے اور نہ ہی وہ منصب و مقام کو قبول کرکے اپنے بلند ہدف سے پیچھے ہٹے۔ بلکہ انہوں نے اپنی ذات اور ذاتیات کو نفع پہچانے والی ساری چیزوں کو خیرباد کہا۔ وہ کسی بھی قیمت پر دشمنوں کے بہکاوے میں نہیں آئے۔

اپنے نظرئے پر ثابت قدم رہے، یعنی انہوں نے بلا مبالغہ اجتماعی مفادات پر اپنی ذاتی مفادات کو قربان کیا، مسلمانوں کے لئے ہندووں سے جداگانہ مملکت کی تشکیل کے لئے شب وروز محنت کی اور بالآخر ان کی مسلسل جدوجہد نے رنگ لایا اور 14 آگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ کونسی علت تھی جس نے قائداعظم اور علامہ اقبال کو دشمنوں کے مختلف لالچوں میں آنے سے روکے رکھی؟ وہ کونسی چیز تھی جس نے ان کے لئے ذاتی مفادات پر قومی اور جملہ مسلمانوں کے مفادات کو ترجیح دینے کا سبب بنی؟ جی ہاں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عزت نفس کے مالک تھے، وہ آج کے ہمارے حکمرانوں کی طرح جاہل، فہم وشعور سے تہی اور حقائق سے بے خبر نہیں تھے، بلکہ وہ پڑھے لکھے، اہل مطالعہ، اہل تامل وتفکر تھے۔ وہ ہمارے آج کے حکمرانوں کی مانند اسلام سے بے خبر ہوکر مغرب کی اندھی تقلید پر افتخار کرنے والے نہیں تھے بلکہ انہوں نے اسلام اور تعلیمات اسلامی کا خوب مطالعہ کیا، اسلام کی حقانیت سے باخبر ہوئے، اسلام کے اعلی قوانین سے آشنا ہوگئے اور اسلام کی یہ سنہری باتیں ان کے دل ودماغ میں رچ بس گئیں کہ مسلمان صاحب عزت وشرف ہوتے ہیں، غیر مسلم کی غلامی میں زندگی بسر کرنا مسلمانوں کی شان کے خلاف ہے، ہندو حکومت کے زیر سایہ محکوم رہنا مسلمانوں کی توہین ہے، مسلمانوں کو ہندووں کے جبر، ظلم اور ستم سے نجات دلانا سعادت دارین کا سبب ہے۔ مسلمانوں کے حقوق من جملہ آذادی کے لئے جدوجہد کرنا عظیم کارنامہ ہے، مظلوم مسلمانوں کادفاع اور ظالموں سے اظہار نفرت کرنا جوہرہ انسانیت ہے، دن رات صرف اپنے شکم کی فکر کرنا حیوان کی علامت ہے۔

وہ اس حقیقت کو درک کرچکے تهے کہ ہم انسان ہیں، انسانیت کی پہچان دوسرے انسانوں کے لئے دل میں دکهہ درد رکھنا ہے۔ وہ ہمارے آج کے حکمرانوں کی طرح ہرگز یہ اعتقاد نہیں رکھتے تهے کہ ہر حال میں ہماری زندگی ہمارے خاندان اور ہمارے ہمفکروں کی زندگی خوشحالی اور عیاشی سے گزرے۔،ہماری دنیا آباد رہے، ہماری شہرت کا بول بولا رہے، ہماری جیبیں پر رہیں، دیار غیر میں ہمارے خزانے بهرے رہیں، دنیا کے امیروں کی لسٹ میں ہمارا نام رہے، بلکہ وہ اس اعتقاد سے زندگی کے لمحات گزارتے تھے کہ غریبوں کی مدد کرنا، بے سہاروں کو سہارا دینا، مظلوم مسلمانوں کا دفاع کرنا، ظالم وستمگروں کا قلع قمع کرنا، مسلمانوں کو امن وسکون، عدل و انصاف اور آغیار کی غلامی سے نجات دلا کر آذادی فراہم کرنا، ہمارے لئے بہت بڑی دولت ہے، نہ ختم ہونے والا عظیم سرمایہ ہے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کی بنیاد اسلام اور قرآن ہے۔ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء قائد اعظم نے فرمایا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں، مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا، الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔

قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں۔ 13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ 22 نومبر 1938 کو قائداعظم نے فرمایا کہ اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے۔ 22 مارچ1940 کو فرمایا کہ میرا پیغام قرآن ہے۔ طلبا اور نوجوانوں کے ساتھ ایک ملاقات میں آپ نے فرمایا کہ میں دین میں مہارت رکھنے کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے سے اپنے طورپر کوشش کی ہے، اس عظیم کتاب کی تعلیمات میں زندگی کے روحانی پہلو، معاشرت، سیاست اور معیشت سب سے متعلق رہنمائی موجود ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور سیاسی طریق کارنہ صرف مسلمانوں کے لئے بہترین ہیں، بلکہ ایک اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لئے جو آئینی حقوق موجود ہیں اس سے بہتر کا تصور ممکن نہیں۔

قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان امن سکون انصاف حقوق کی فراہمی اقلیتی گروہ پر خصوصی توجہ مظلوم کا دفاع اور ظالم سے نفرت کی خصوصیات کا حامل تھا۔ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان چاہتے ہیں۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو سمجھنے کے لئے قائداعظم کے فرمودہ چودہ نکات کو بغور پڑھنا لازم ہے۔ اہم نکات یہ ہیں-
1 ۔ تمام صوبوں کو مساوی سطح پر مساوی خود مختاری ہو گی۔
2 ۔ ملک کی تمام مجالس قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مساوی نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تسلیم نہ کیا جائے۔
3 ۔ مرکزی اسمبلی میں اسمبلی کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔
4 ۔ ہر فرقہ کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔ 
5 ۔ ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔
6 ۔ سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
7 ۔ آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

ہم ایسا پاکستان ہرگز نہیں چاہتے جس میں جنگل کا قانون ہے، جس میں جاہل ونادان افراد برسر اقتدار ہیں، جس میں اقلیتی گروہ کو انسان سمجھنے سے انکار کرتے ہیں، جس میں میرٹ اور قابلیت کے معیار کے بجائے رشوت نوکری دلوانے کا معیار ہے۔ ایسا پاکستان جہاں غریبوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا بہت بڑا کارنامہ تصور کرتے ہیں، جس میں امیروں کی جان عزیز اور غریبوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں، جس میں حکمرانوں کو قومی خزانہ لوٹ کر دوسرے ممالک میں لے جاکر اپنا ذاتی سرمایہ بنانے کی کھلی اجازت ہے، جس میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر حقوق کی تقسیم ہوتی ہے، جس میں قاتل کو دندناتے پھرنے کی کھلی چھوٹ ہے، جس میں مظلوم اور مقتول کی کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے، جس کے حکمران اقلیتی گروہ کے جائز مطالبات کو قبول کرنا آپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، جس میں حکمران اسلام اور قرآن کے اصول وقوانين کو پس پشت ڈال کر مغرب کی اندہی تقلید کرنے پر افتخار کرتے ہیں، ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے – ہم قائداعظم وعلامہ اقبال کا پاکستان چاہتے ہیں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *